پیرس میں تین یادگار دن (3)


پیرس فرانس کا دارالحکومت، یورپ کا ایک بہت بڑا شہر، عالمی فنون لطیفہ کا بہت بڑا مرکز، روایتی کھانوں اور ثقافت کا ایک بہترین مقام ہے۔ بیسویں صدی کا پیرس سڑکوں کے جال، مین بلیوارڈز اور شہر کے درمیان میں خوبصورت دریاء سین کی وجہ سے لوگوں کی سوچوں سے بھی حسین شہر ہے۔ ہم بچپن میں سنتے تھے کہ پیرس میں شیشے کی سڑکیں ہیں۔ جب جا کر دیکھیں تو شیشے کی تو نہیں لیکن شیشے جیسی صاف اور چمکتی ضرور نظر آئیں۔

اس شہر میں بہت سی تاریخی عمارتیں ہیں۔ آئفل ٹاور۔ بارہویں صدی کا گھوتھک نوٹرے ڈیم چرچ۔ بارہویں صدی کاہی تعمیر کردہ لوور محل جس میں دنیا کا دوسرا بڑا لور میوزیم بھی اسی شہر میں ہے۔ اس کے علاوہ نپولین بونا پارٹ کا محل اور اس کا مقبرہ، بڑے بڑے باغات اور صدیوں پرانے چرچ دیکھنے کے لائق ہیں۔ پیرس اپنے کیفے، چائے خانوں، شراب خانوں کی ثقافت، رنگین راتوں اور ڈیزائنر ملبوسات کی دکانوں کے لئے مشہور ہے۔ یہ شہر ایک سو پانچ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی اکیس لاکھ پچاس ہزار کے قریب ہے۔

سترویں صدی سے ہی فرانس کا شہر پیرس یورپ کا ایک بڑا تجارتی مرکز، ثقافتی، فیشن، سائنس، کامرس اور سفارت کاری کا بہت بڑا حب مانا جاتا ہے۔ شہر میں ریل کا خودکار نظام، پبلک ٹرانسپورٹ اور دو بہت بڑے اور مصروف ترین ہوائی اڈوں سب وے اور میٹرو ریل پر مشتمل ہے۔ اس شہر میں واقع تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لئے پوری دنیا کے سیاح پیرس کا رخ کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2018 میں ایک کروڑ پچھتر لاکھ سیاحوں نے اس شہر کی سیر کی۔ 10 جون 1940 ء کو دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی نے فرانس حملہ کر کے پیرس پر قبضہ کر لیا تھا۔ قبضہ کے دوران جرمنوں نے شہر میں کافی لوٹ مار کی اور شہر سے بہت سے نوادرات ٹرین کے ذریعے جرمنی منتقل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ 25 اگست 1944 کو دوبارہ شہر کو آزاد کرا لیا گیا۔

اگلے دن صبح حسب معمول میں پانچ بجے اٹھ گیا۔ باتھ روم سے فارغ ہو کر کچن میں گیا تو وہاں گجرات والے صاحب اپنے لئے ناشتہ بنا رہے تھے۔ ان سے بات چیت ہوئی۔ باتوں کے دوران اس نے بتایا کہ وہ عمارتوں میں رنگ کرنا اور ٹائلیں لگانا جانتا ہے۔ وہ اور اس کا ایک دوست ساتھ مل کریہ کام کرتے ہیں۔ دس سال پہلے ایک ایجنٹ کو دس لاکھ دے کر ترکی کے راستے یونان اور پھر وہاں سے چھپتے چھپاتے پیرس پہنچا تھا۔ چھ سال لگ گئے لیگل ہونے میں۔

ساتھ لائی ہوئی رقم ختم ہو گئی۔ تین تین دن فاقے میں گزرے۔ بڑا مشکل وقت گزارہ۔ پیرس کی سردیاں برداشت سے باہر تھیں۔ ایسے میں اپنے شہر گجرات کے کچھ لوگوں نے اپنے پاس رکھا۔ چوری چھپے کام اتنا ملتا جس سے کچھ دن گزارہ ہو جاتا تھا۔ انہی میں ایک مہربان نے اپنی دکان پر کانٹریکٹ دے کر کاغذات جمع کروائے اور تین سال بعد ایک سال کا ریذیڈنٹ کارڈ ملا تھا۔ اب پھر تین سال کا ملے گا، جس کے لئے کاغذات جمع کروائے ہوئے ہیں۔

ایک سال ہوا ہے گھر پیسے بھیجتے ہوئے۔ دو ماہ پہلے بہن کی شادی تھی۔ بہت دل چاہتا تھا، ماں باپ سے ملنے اور بہن کی شادی میں جانے کا۔ لیکن ریذیڈنٹ کارڈ کی تجدید نہ ہو نے کی وجہ سے چاہتے ہوئے بھی نہیں جا سکا۔ باتیں کرتے ہوئے والدین کا ذکر کرتے ہوئے اچانک وہ رو پڑا۔ میں نے اسے گلے لگایا اور تسلی دی۔ اس نے کام پر جانے کے لئے کام والی ڈھانگری پہنی ہوئی تھی جس پر جگہ جگہ مختلف رنگ لگے ہوئے تھے۔ کہنے لگا میرے گاؤں کے بہت سے لڑکے مجھے فون کرتے ہیں۔ یہاں آنا

چاہتے ہیں لیکن شاہ جی دور کے ڈھول بڑے سہانے ہوتے ہیں۔ یہاں آپ نے ہماری حالت دیکھ لی ہے۔

مجھ سے پوچھا کہ آپ کتنے پیسے دے کر آئے ہیں۔ میرے وزٹ ویزہ پر آنے کا سن کر وہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ کیسے آپ کو ویزہ مل گیا۔ میری جاب کے بارے میں جان کر کہا کہ آپ وہاں اچھے ہیں۔ لیکن اگر آپ یہاں رہ جائیں توہم آپ کے لئے کوئی کام ڈھونڈ لیں گے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں تو دو دن کے لئے یہاں ہوں پھر میں سپین چلا جاؤں گا۔ اس کا اور باتیں کرنے کو دل کر رہا تھا لیکن اس کے جانے کا وقت ہو رہا تھا اس لئے وہ شام کو ملنے کا کہہ کر چلا گیا۔ میں یہ سوچ کر رنجیدہ ہو گیا کہ اگر پاکستان میں ان جیسے جوانوں کو مناسب نوکریاں مل جائیں تو یہ اس طرح یورپ میں سمگل ہو کر کبھی نہ آئیں۔ پتہ نہیں یورپ میں اچھی زندگی گزارنے کے خواب لے کر گھر سے نکلنے والے کتنے جوان ان تاریک راہوں میں گم ہو گئے لیکن اب بھی ان کی مائیں ان کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔

میں کمرے میں واپس آیا تو بھائی بھی اٹھ گیا تھا۔ میں نے آج کا پروگرام پوچھا تو اس نے کہا کہ آپ بتائیں۔ میں نے اسے کہا کہ آج لوور میوزیم اور آئفل ٹاور کی سیر کرتے ہیں اور اگر وقت ملا تو پھر دریاء سین میں کروز کی سیر کریں گے۔ اتنے میں کامران بھی اٹھ کر آ گیا اور ہم سے دن کا پروگرام پوچھا۔ میں نے اسے اپنا پروگرام بتایا تو وہ کہنے لگا میرا آج بہت ضروری کام ہے، میں تو آپ کے ساتھ نہ جا سکوں گا لیکن کل میں آپ کے ساتھ ہوں گا، فکر نہ کریں، ویسے بھی یہاں ان جگہوں پر جانا بڑا آسان ہے۔

میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں، آپ کو کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ آٹھ بجے ڈبل روٹی۔ آملیٹ اور چائے کا بہت اچھا ناشتہ کامران نے بنایا جو سب نے ڈٹ کر کیا۔ اب ہم جانے کے لئے تیار تھے۔ فلیٹ سے لفٹ کے ذریعے نیچے اترے تو اس سے چند قدم دور ہی میٹرو سٹیشن تھا۔ انڈر گراؤنڈ ریلوے کے نظام کا میں لندن میں مشاہدہ کر چکا تھا۔ پیرس میں بھی اتنا ہی اچھا میٹرو ریل کا انڈر گراؤنڈ نظام موجود ہے۔ کامران نے ہمیں پورے دن کے لئے میٹرو کے ٹکٹ لے کر دیے اور ایک نقشہ بھی دیا اور اس پر نشانات لگا کر اچھی طرح سمجھا دیا کہ کیسے کہاں جانا ہے۔

ایک بات اور کامران نے بتائی کہ یہاں انگریزی نہ بولنا کیونکہ یہ لوگ انگریزی سمجھتے ہوئے بھی آپ کو جواب نہیں دیں گے۔ اس لئے کوشش کریں اپنی زبان بولیں پھر یہ کسی نہ کسی طرح آپ کی بات سمجھ لیں گے۔ ہم نے فرنچ کے دو تین لفظ یاد کر لئے جو ہمارے بہت کام آئے۔ کامران ہمارے ساتھ ہی ٹرین پر سوار ہوا اور اگلے دو سٹیشن کے بعد اتر کر اپنے کام پر چلا گیا۔ تین چار سٹاپ کے بعد ہم ٹرین سے اترے اور باہر نکلے تو ہم لوور میوزیم کے بہت نزدیک کھڑے تھے۔

اس وقت صبح کے ساڑھے نو بجے تھے پھر بھی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد باہر موجود تھی۔ لوور میوزیم کے بارے میں میں نے انٹرنیٹ پر کافی پڑھ رکھا تھا۔ اس کے وزٹ کی سب سے بڑی وجہ یہاں موجو د ً لینارڈو دا ونسی ً کی شہرہ آفاق پینٹنگ ً مونا لیزا ً کو دیکھنا تھا۔ لوور کی عمارت کے باہر کافی کھلی جگہ ہے۔ صحن کے درمیان میں شیشے کا بنا ہو ایک پیرامڈ ہے۔ جس میں میوزیم کا مرکزی دروازہ ہے۔ ہم سیڑھیاں اتر کر نیچے مین ہال میں پہنچے تو ایک طرف ٹکٹ کے لئے بوتھ بنے ہوئے تھے۔

ہال میں دوسری طرف بے شمار چھوٹے چھوٹے سٹال تھے جہاں لوور میوزیم کے بارے میں مختلف سونیئر رکھے تھے۔ عمران ٹکٹ لینے کے لئے بوتھ میں گیا تو میں اپنی عادت کے مطابق ایک بک سٹال پر گیا اور لوور میوزیم کے بارے میں ایک کتاب ڈھونڈ نکالی۔ بارہ یورو اس کی قیمت تھی۔ اتفاق سے میرے پاس کرنسی برطانوی پاؤنڈ ہی تھے جو بک سٹور والی خاتون نے لینے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ وہ صرف فرانک یا یورو ہی لیتے ہیں۔ میرے پاس کریڈٹ کارڈ تھا۔

وہ انہوں نے فوراً چارج کر کے مجھے کتاب دے دی۔ اتنی دیر میں عمران ٹکٹ لے کر آ گیا۔ اس وقت میوزیم کی سیر کے لئے ایک فرد کے لئے بارہ یورو کا ایک ٹکٹ تھا اور یہ صبح نو بجے سے شام کے سات بجے تک کھلا رہتا تھا۔ ہم میوزیم کے اندر جانے والی قطار میں کھڑے ہو گئے۔ میوزیم کی سیر سے قبل میں آپ کو میوزیم کے بارے میں تھوڑی سی تفصیل دے دوں۔

لوور میوزیم۔

لوور میوزیم دنیا کا دوسرا بڑا آرٹ میوزیم ہے جو فرانس کے شہر پیرس کی ایک تاریخی یادگار اور مونا لیزا کا گھر ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ پیرس کی

ایک مرکزی پہچان ہے جو دریاء سین کے دائیں کنارے پر واقع ہے۔ اس میوزیم میں 38000 سے زیادہ نوادرات اور فن پاروں کی نمائش کے

لئے تقریباً 72735 مربع فٹ رقبہ مختص کیا گیا ہے۔ 2020 ء میں کرونا کے باوجود لوور دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آرٹ میوزیم میں سرفہرست رہا ہے۔ یہ میوزیم ایک قدیم شاہی محل لوور پیلس میں بنایا گیا ہے۔ یہ شاہی محل اصل میں فرانسیسی بادشاہ فلپ دوم نے بارہویں اور تیرھویں صدی کے درمیان اپنی رہائش کے لئے بنایا تھا۔ اس جگہ پہلے ایک قدیم قلعہ تھا۔ میوزیم کے تہہ خانے میں قرون وسطی کے لوور قلعے کی باقیات اب بھی نظر آتی ہیں۔

شہرکی توسیع کے ساتھ ساتھ بالآخر یہ قلعہ اپنا دفاعی مقام کھو بیٹھا تو 1546 میں بادشاہ فرانسس اول نے اسے فرانسیسی بادشاہوں کی رہائش کے لئے محل میں تبدیل کر دیا۔ موجودہ لوور محل میں کئی دفعہ تعمیراتی اضافہ کیا گیا۔ 1682 ء میں بادشاہ لوئیس XIV نے جب اپنے خاندان کی رہائش کے لئے ورسائلس محل کا انتخاب کیا تو لوور کو بنیادی طور پر شاہی نوادرات بشمول قدیم یونانی اور رومن مجسمے رکھنے کے لئے شاہی میوزیم میں تبدیل کر دیا۔

1692 میں اس عمارت پر اکیڈمی ڈیس انکرپشنز اور اکیڈمی رائل ڈی پینچر نے قبضہ کر لیا اور اس میں مختلف تقریبات منعقد کیں۔ سو سال تک یہ اکیڈمی لوور میں رہی۔ انقلاب فرانس میں قومی اسمبلی نے پھر لوور کو ایک میوزیم بنانے کا حکم دیا اور تمام قومی نوادرات کو اس جگہ اکٹھا کرنے کا کا فیصلہ کیا۔ میوزیم کا باقاعدہ افتتاح 10 اگست 1793 ء میں 537 پینٹنگز کی نمائش کے ساتھ ہوا۔ زیادہ تر نوادرات شاہی خاندان اور مختلف چرچوں سے ضبط کر کے یہاں رکھے گئے تھے۔

عمارت میں توسیع کے مسائل کو لے کر یہ میوزیم 1796 سے لے کر 1801 تک بند رکھا گیا۔ نپولین نے اس میوزیم میں بہت سے نوادرات کا اضافہ کیا اور اس کا نام نپولین میوزیم رکھا۔ لیکن نپولین کے جانے کے بعد لوگوں سے زبردستی چھینے گئے نوادرات ان کو واپس کر دیے گئے۔ بادشاہ لوئیسXVIII اور چارلس پنجم کے عہد میں نوادرات میں اضافہ کیا گیا۔ دوسری فرانسیسی سلطنت میں اس میں بیس ہزار نوادرات کا اضافہ کیا گیا۔ تیسری جمہوریہ کے بعد بھی لوگوں سے نوادرات عطیہ کے طور پر اور خرید کر اس میوزیم میں رکھے گئے۔

لوور میوزیم کے نوادرات کو آٹھ انتظامی شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں مصری نوادرات، مشرقی نوادرات، یونانی، قدیم اٹلی، رومن نوادرات، اسلامی۔ فن مجسمہ سازی، آرائشی آرٹ، پینٹنگز اور ڈرائینگ شامل ہیں۔ اس وقت میوزیم میں 38000 سے زیادہ نوادرات آٹھ انتظامی شعبوں میں پینتیس ہزار سے زیادہ آرٹ کے نمونے ساٹھ ہزار چھ سو مربع میٹر رقبے میں سجائے گئے ہیں۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا میوزیم ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق پندرہ ہزار سے زیادہ سیاح ایک دن میں آتے ہیں۔

قطار میں ہم سے آگے پندرہ بیس سیاحوں پر مشتمل دو گروپ تھے۔ جنہوں نے باقاعدہ گائیڈ کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔ ہم جیسے دو دو تین تین کی ٹولیوں میں بھی کافی سیاح تھے۔ یہ میوزیم اتنا بڑا ہے کہ اس میں رکھے ہوئے سارے نوادرات دیکھنے کے لئے ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ میں نے وقت کی قلت کے پیش نظر تین چیزوں کا انتخاب کیا تھا۔ ان میں مونا لیزا، مائیکل اینجلو کا بنایا ہوا مجسمہ اور اسلامی آرٹ تھا۔ ہم سب کے ساتھ میوزیم میں داخل ہوئے راہداریوں میں ہر جگہ نوادرات سجے ہوئے تھے۔

محل کی دیواریں مختلف شہکار پینٹنگز سے سجی ہوئی تھیں۔ چھت پر بھی بہت سی پینٹنگز بنی ہوئی تھیں۔ ہم نے دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ سیاح اپنے کیمروں سے تصویریں بنانے میں مگن تھے لیکن کچھ جگہوں پر کیمرے کے فلیش پر پابندی تھی۔ ہم ایک ایک چیز کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے۔ ہم سب سے پہلے مونا لیزا کو دیکھنے اس کے چیمبر میں گئے۔

یہ دنیا کا سب سے مشہور پورٹریٹ ہے۔ اس میں فلورنٹائن ریشم کے تاجر فرانسسکوڈیل جیوکونڈو کی بیوی لیزاگیراردنی کو دکھایا گیا ہے۔ اس کا اطالوی نام لاجیوکانڈو اور فرانسیسی نام لاجوکونڈے ہے۔ ایک دور دراز منظر میں اس تصویر کو پینٹ کیا گیا ہے۔ جس میں وہ اپنی مشہور مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں گھورتی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیونارڈو نے ایک فطری انداز میں دیکھنے والی خوبصورت شکل کو دھواں دار اثر پیدا کرنے کے لئے گلیز کا استعمال کیا ہے جس نے پینٹنگ کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ لیونارڈو کا بنایا ہوا یہ پورٹریٹ ایک بہترین شاہکار ہونے کی وجہ سے بہت خاص

اہمیت کا حامل تھا یہی وجہ ہے کہ 1966 میں لوور محل کا سب سے بڑا کمرہ سالے دیسات اس شاہکار کی نمائش کے لئے منتخب کیا گیا، جہاں یہ پینٹنگ آویزاں ہے۔ مونا لیزا کی مشہور لیکن پراسرار مسکراہٹ صدیوں سے دیکھنے والوں کو مسحور کر رہی ہے۔ اس کے پہلے مداحوں میں بادشاہ فرانسس اول تھا جس نے مصور لیونارڈو دا ونجی کو فرانس مدعو کیا اور اس سے 1518 میں یہ پینٹنگ خریدی اور اپنے شاہی نوادرات کے مجموعہ میں داخل کیا جسے انقلاب فرانس کے بعد عام نمائش کے لئے لوور میوزیم میں رکھا گیا۔

2005 کے بعد اسے شیشے کے حفاظتی کیس میں رکھا گیا ہے۔ جب ہم اس کمرے میں پہنچے تو ابھی اتنا رش نہیں تھا اس لئے پینٹنگ کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے تخیل کے برعکس یہ کافی چھوٹے سائز میں کینوس کی بجائے چنار کی لکڑی کے پینل پر بنی ہوئی پینٹنگ تھی۔ مختلف زاویوں سے اسے دیکھا پھر اس کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔ آدھا گھنٹہ ہم نے یہاں گزارہ۔ اس کے بعد دو تین گروپ آ گئے تو ہم کمرے سے باہر آ گئے۔ اس کے بعد ہم نے مجسموں کے شعبہ کا رخ کیا۔

یونانی، رومن اور قبل مسیح کے بنے ہوئے مجسمے دیکھ کر مجسمہ ساز کی مہارت اور ہاتھ کی صفائی اور ان کی خوبصورتی دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک گھنٹہ ہم نے یہاں گزارہ۔ اس کے بعد ہم اسلامی تاریخ کے شعبہ میں گئے تو وہ کچھ انتظامی توسیع کی وجہ سے بند تھا۔ میوزیم میں نوادرات کی دیکھ بھال اور ان کی حفاظت کا طریقہ کار دیکھ کر میوزیم کے منتظمین کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ اس میوزیم میں صدیوں کی تاریخی نایاب ترین اشیا اور فن پارے ایک جگہ اکٹھی کی گئی ہیں۔ ہم نے تقریباً تین گھنٹے یہاں گزارے اور مختلف شعبوں میں رکھے نوادرات کو صدیوں بعد بھی ان کی اصلی حالت میں دیکھ کر دنگ ہوتے رہے۔ ایک بجے سے پہلے ہم میوزیم کی عمارت سے باہر آئے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments