کیا پھٹی جینز ہی روشن خیال ہے


سکول کالجز میں اساتذہ کے ڈریس کوڈ کو لے کر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہی کہ اس کے لئے اتنی لے دے کرنی پڑے۔ ایک عام فہم نوٹیفکیشن ہے کہ اساتذہ کو ایسا کوئی لباس نہی پہننا جسے مہذب دنیا میں انفارمل سمجھا جاتا ہے۔ یہ کوئی معیوب بات نہی کی گئی۔ سکول کالجز ایسی جگہیں ہیں جہاں مختلف المزاج طلباء و طالبات حصول تعلیم و تربیت کے لئے آتے ہیں۔ ہر کسی کا الگ بیک گراؤنڈ اور کلچرل ٹریڈیشنز ہوتی ہیں۔ اگر سمجھا جائے تو یہ ادارے کسی ملک کا منی ماڈل ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر ریاست نے ایک ایسی پالیسی بنا دی ہے جو بقائے باہمی کے اصولوں کے عین مطابق تمام لوگوں کے لئے قابل قبول ہے تو کیا برا ہے۔

تھوڑی دیر کے لئے اسلامی جمہوریہ سے ہٹ کر سوچتے ہیں۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں واقع ایک ملک ہے جس کی اکثریتی آبادی دیہات میں رہتی ہے۔ یہاں لوگوں کا رہن سہن سادہ اور اس خطے کے مزاج کے مطابق ہے۔ ہر صوبے اور ثقافتی مرکز کا باقی سماجی رسومات کے ساتھ ساتھ لباس بھی منفرد ہے۔ بر صغیر میں بلا تفریق دین و مذہب، رنگ و نسل، دوپٹہ یا سکارف ایک تہذیبی علامت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آدھے گز کا یہ کپڑا آج کل طبع نازک پہ گراں گزرتا ہے لیکن پھر بھی جہاں ثقافتی ورثے کی بات کی جائے تو یہ اس تہذیب کا جزو لاینفک ہے۔

گھونگھٹ کی تو تاریخ ہی بر صغیر کی ثقافت میں ملتی ہے کہ یہ بس یہیں سے منسوب ہے۔ یہ بات میں نہی کہ رہا بلکہ یہاں کے قوم پرست لبرل یہ بات اس وقت کرتے ہیں جب بطور مذہب اسلام اور پردے پر تنقید کرنی ہو۔ ایسے میں ایک ایسی تہذیب جو ابھی لنگی، دھوتی یا تہبند سے شلوار قمیص تک کا سفر کر رہی ہو، وہاں پھٹی جینز نئی نسلوں پہ تھوپنے کی کوشش کی جائے تو شور تو اٹھے گا۔ اور یہ شور کوئی ایسا نہی کہ گاؤں دیہات کے لوگ موم بتیاں لے کر سڑکوں پہ نکل آئیں گے بلکہ انہوں نے اپنے بچوں پر ایسے تعلیمی اداروں کے دروازے بند کردینے ہیں۔

یہ محض ایک مفروضہ نہی ہے، بلکہ ایسا ہوتا ہے۔ ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ کتنی ہی ذہین ترین بچیوں کو کالج یونیورسٹی کی اجازت صرف اس لئے نہی ملتی کہ یہاں کا ماحول ہمارے سماج کے اجتماعی شعور اور مزاج کے خلاف ہے۔ ستر سال بعد بھی گاؤں دیہات میں ڈریس پینٹ شرٹ کو ہماری دادی نانیاں غیر مناسب لباس سمجھتی ہیں۔ ایسے میں پھٹی جینز ٹائٹ پاجامے کہاں قابل قبول ہوں گے ۔

اس لئے اگر ایک جمہوری سماج میں اکثریت کی منشا کے مطابق ایک فیصلہ کیا گیا ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔

جس نے جینز، پھٹی جینز، لانگ شارٹس، سلیو لیس یا جو کچھ پہننا ہے وہ اپنے ماحول میں اور اس ماحول کے مطابق برپا کی گئیں نجی محفلوں میں پہنیں، کسی کو کیا اعتراض ہونا۔ ہاں البتہ نیشنل میڈیا، پبلک پلیس اور سرکاری اداروں میں فارمل ڈریس کی پابندی اس قوم کے اجتماعی شعور کی جائز خواہش ہے جس کا احترام ہر کسی کو کرنا چاہیے۔

میرا یہ مضمون لکھنے کا محرک یہ نئی بحث نہی بلکہ چھ ماہ پرانی ایک یاد ہے۔ اس موضوع پر میں اسی وقت لکھنا چاہتا تھا لیکن پیشہ وارانہ مصروفیات میں ایسا الجھا کہ بات آئی گئی ہوئی۔ CSS 2021 کے امتحان ہو رہے تھے۔ یہاں گجرانوالہ کے ایک امتحانی مرکز میں نگران عملے کا ایک معزز رکن سلیپنگ ٹراؤزر پہن کے آیا ہوا تھا۔ ٹراؤزر کی قسم بھی کوئی بہت اعلی نہی تھی جس سے لگتا تھا کہ وہ صاحب کسی فیشن ایبل یا ہپ ہاپ کلاس سے تعلق نہیں رکھتے ہوں گے۔

خیر، مجھے ان کو اس بیہودہ ڈریسنگ میں دیکھ عجیب سی الجھن ہوئی کہ یہ کوئی فارمل طریقہ تو نہی ہے۔ آپ ممتحن ہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہی کہ آپ کچھ بھی پہنیں اور منہ اٹھا کے چلے آئیں۔ شائستگی بھی کسی چیز کا نام ہے بھئی۔ میں ایک لمحے کے لئے سوچ میں پڑ گیا کہ اگر ان صاحب کو کنٹرولر ایگزامز کے ساتھ یا کسی اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ کہیں میٹنگ میں بلا لیا جائے تو کیا یہ پھر بھی اسی قسم کے ڈریس میں چلے جائیں گے؟ ہر گز نہی، چاہے کسی سے مانگ کے پہننا پڑے پینٹ پہ کوٹ لازمی پہنا ہوگا کہ ڈیسنٹ لگ سکیں اور صاحب بہادر ڈانٹ نہ پلا دیں۔

اور ایسا ہوتا بھی ہے۔ ہمارے پاس ہیں ایسی مثالیں کہ میٹنگز میں انفارمل ڈرئسنگ پہ ڈانٹ پلا دی جاتی ہے کہ بھائی صاحب آپ کسی سادی کے فنگشن میں نہی آئے۔ آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ جہاں آپ جا رہے ہیں وہاں کا ماحول کیا ہوگا۔ پرائیویٹ سیکٹر میں تو کوئی امپلائی سوچ بھی نہی سکتا کہ باس کے سامنے آرگنائزیشن کے سٹینڈرڈ ڈریس کوڈ سے ہٹ کر چلا جائے۔ پھر بھی سوال میرا وہیں پہ کھڑا کہ کیا اپنے سے اوپر والوں کو ڈیسنٹ لگنا ہی تہذیب ہے؟

اپنے ماتحتوں کو اگر آپ ڈیسنٹ بن کے دکھائیں گے تو شان گھٹ جائے گی۔ اور یہ کوئی عام بات نہی ہے بلکہ بقائے باہمی کا بنیادی اصول ہی یہ ہے۔ اگر کوئی شخص یا خاتون استاد بننا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس سماج کی اقدار کو فالوو کرے۔ اس کے ذاتی خیالات جو بھی ہوں، جب وہ پبلک پلیس پہ جائے تو پبلک کا احساسات کا احترام کرے۔ اب اگر ایک ادارے میں ایک بچہ بھی ایسے نظریات کا ہو جو پھٹی جینز کو پسند نہی کرتا تو اس کے لئے کم از کم اس کے استاد کو چاہیے کہ وہ پھٹی جینز نہ پہنے۔ کیوں کہ جو پھٹی جینز پہنتے ہیں ان کو اس بات سے کوئی فرق نہی پڑتا کہ ان کے استاد کی ڈریسنگ کیا ہے، لیکن جو پھٹی جینز کو ناپسند کرتا ہے اس کو اور اس کے والدین کو اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments