نائن الیون یا مسلم دنیا کی تباہی کا بہانہ


گئے وقتوں کی بات ہے کہ ایک بزغالہ کسی ندی سے پانی پی رہا تھا۔ اتنے میں ایک بھیڑیا وارد ہوا اور گرج دار لہجے میں بزغالے پر الزام دھرا کہ میں پانی پی رہا ہوں اور تم پانی کو مسلسل گدلا کیے جا رہے ہو۔ بزغالہ سہم کر بولا۔ حضور والا پانی تو آپ کی جانب سے میری جانب آ رہا ہے۔ بھلا میں پانی کو کیسے گدلا کر سکتا ہوں؟ بھیڑیا لاجواب ہوا اور پینترا بدل کر بولا کہ گزشتہ برس تم نے مجھے گالی دی تھی۔ جناب والا! گزشتہ برس تو میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ چونکہ بھیڑیا دہشت پھیلا کر بزغالہ کو شکار کرنے کا جواز ڈھونڈ رہا تھا۔ بھیڑیا کہنا لگا کہ تم نے نہ صحیح تمہارے باپ نے گالی دی ہو گی۔ اسی طرح ایک غیر منطقی جواز کے ذریعے بزغالہ کو اپنا شکار بنانے میں کامیاب ہو گیا۔

یہ ایک اسٹریٹجی ہے ’جسے خودزنی کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کا حریف آپ کو کسی شرارت کا موقع نہیں دیتا ہے تو آپ نے خود اپنا نقصان کرنا ہوتا ہے۔ جس کا براہ راست ذمے دار اپنے حریف کو قرار دے کر بغیر کسی ثبوت کے اس پر چڑھائی کا جواز نکالنا پڑتا ہے۔ یہی اسٹریٹجی اکثر عالمی سپر پاور ممالک بھی اپناتے ہیں جو کمزور ممالک کے وسائل کو ہڑپنے یا اپنے نظریات منوانے کے لیے مختلف حربے استعمال میں لا کر ان پر جنگیں مسلط کرتے ہیں۔

آپ کو نائن الیون کا واقعہ یاد ہو گا۔ 11 ستمبر 2001 ء کے روز ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت امریکہ سے چار سواری طیارے اغوا کیے گئے۔ ان میں سے دو طیارے نیویارک میں موجود ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ایک کے بعد ایک ٹکرا دیے اور دنیا کی بلند ترین عمارت منٹوں میں ملبے کی ڈھیر میں تبدیل ہو گئی اور متعدد افراد لقمہ اجل بن گئے۔

امریکہ کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا گیا تھا جو افغانستان میں پناہ گزین تھا۔ ان دنوں افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور اسامہ بن لادن کے طالبان سے گہرے مراسم تھے۔ امریکہ نے کہا کہ اسامہ کو ہمارے حوالے کر دیا جائے جس پر طالبان نے صاف انکار کر دیا کہ کسی بھی صورت اسامہ کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اسامہ کو حاصل کرنے کے لیے افغانستان پر جنگ مسلط کر دی تھی۔ حالانکہ اس حملے میں اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

ان دنوں پاکستان میں ایک ڈکٹیٹر کی حکومت تھی۔ ادھر سے امریکی وزیر خارجہ (جو خود بھی ریٹائرڈ جرنیل تھا) نے کال کر دی کہ ہم نے افغانستان پر حملہ کر دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں پاکستانی سر زمین کو ہر طرح کی محاذ آرائی کے لیے آزاد کر دیا جائے۔ ڈکٹیٹر نے بنا سوچے سمجھے پاکستان کے تمام بری، بحری، فضائی یعنی ہر طرح کے ذرائع کو امریکہ کے حوالے کر دیا اور یوں حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان میں بے شمار کارروائیاں کیں اور بالآخر مئی 2011 ء میں امریکہ نے اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک آپریشن کے دوران ہلاک کر دینے کا ڈھونگ رچایا۔ اس جنگ میں پاکستان نے فرنٹ امریکی اتحادی کا کردار ادا کیا۔ روز ڈرون اٹیکس ہوتے تھے۔ جس وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوئے۔ قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ نتیجے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانیوں کو جھوٹے اور دھوکے باز قرار دیا۔

نائن الیون کے اس خود ساختہ ڈرامے کے بعد دنیا کے حالات یکسر بدل گئے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو دہشت گردوں کے روپ میں پیش کیا گیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔ نائن الیون کے آڑ میں امریکہ نے نہ صرف افغانستان بلکہ ایران، عراق، کوریا اور متعدد مسلم ممالک میں کارروائیوں کے جال کو وسیع کر دیا۔ اس واقعے کو آج بیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے ’مگر دہشت گردی کی آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی بلکہ اس میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دہشت گردی کے جن نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

امریکہ کی نقالی پلوامہ حملے میں بھارت بھی اتار چکا ہے۔ الغرض 11 ستمبر 2001 ء کو نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا۔ 2011 ء کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو مارا گیا۔ بیس سال بعد افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہوا اور ساتھ ہی اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے۔ ٹھیک 11 ستمبر 2021 ء کو طالبان افغانستان میں بغیر کسی مزاحمت اور بغیر کوئی گولی چلائے حکومت پر قابض ہوئے۔ یہ بھیڑیے اور بزغالے کا کھیل تھا جس کا سینیریو امریکہ میں تیار ہوا۔ اس میں امریکہ نے بھیڑیے اور مسلم دنیا نے بزغالے کا کردار ادا کیا اور فلم پوری دنیا نے دیکھی۔ اب آگے کیا ہو گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments