انگریزی زبان چترال میں کیسے پہنچی؟


چترال اپنی تنوع کی وجہ سے نمایاں رہی ہے۔ اس میں موجود تمدن، زبانیں، مسلکی اور مذہبی گونا گونی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ چترال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ ایک پر امن علاقہ ہونے سے مشہور ہے۔ اگرچہ ریاستی دور میں ایک ’لہر‘ آئی تھی اس کی نوعیت مسلکی تفرقہ کے حوالے سے اختلافات اور نقصانات جو سن 80 کی دہائی میں رونما ہوئے ان سے مختلف تھیں لیکن عمومی طور پر چترال کی تاریخ میں منافرت کی لہر، اختلافات اور شدت پسندی نہایت محدود رہ چکی ہے۔

یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکار جب ہندوستان ( 1611۔ 15 ) پہنچے تو ان کے ساتھ انگریزی زبان ہندوستان پہنچی۔ کمپنی کے اہلکار تو انگریزی بولتے تھے لیکن جب ہندوستان میں 1858 کے بعد ہندوستان کی بھاگ دوڑ براہ راست برطانوی حکومت نے لے لی تو انگریزی زبان بھی سکہ رائج الوقت ہو گئی۔ جیسے ہی سلطنت برطانیہ کی بساط ہندوستان کے شہر در شہر سے ہو کر باہر سرحدات یا سرحدی علاقوں میں برسر پیکار رہی تو ان کے ساتھ انگریزی زبان بھی وہاں سرایت کر گئی۔

بین الاقوامی جریدے کے ایک آرٹیکل میں ڈاکٹر طارق رحمان لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کا آغاز اور جدیدیت نے زبان کو شناخت کی ایک اہم علامت بنا دی۔ جو کہ ) انڈیا میں (مذہب کے بعد تشخص متعین کی۔ نوآبادیاتی نظام میں انگریزی زبان تشخص کے علاوہ سرکاری زبان اور طاقت کی علامت بھی رہی۔

19 ون صدی کے آخری عشرے میں گریٹ گیم کے پیش نظر جب برطانوی حکومت کے لئے ریاست چترال نے اہمیت لے لی تو ویلیم لوکھرٹ مشن سن 1877 ء کو اس وقت کے ریاستی حکمران کے ساتھ معاہدہ کر لی تو اس کے بعد برطانوی اہلکار چترال آئے اور قیام کرتے رہے۔ اور یہ وہ دور تھی جب رسمی طور پر انگریزی زبان انگریز کے ساتھ چترال آئی۔ فرنگی اہلکار اپنے روداد سفر جس میں چترال آنے، وہاں قیام کرنے، اور چترال سے واپس جانے کے حوالے سے اپنے کتابوں میں لکھے ہیں۔

فرنسس ایڈورڈ ینگھسبنڈ اپنے کتاب ( 1884۔ 94 ) میں کئی ایک موضوعات پر لکھنے کے علاوہ چترال آنے اور وہاں تعلیم کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ اس پورے [ملک] میں یقیناً ایک درجن سے زیادہ لوگ لکھ اور پڑھ نہیں سکتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ مستوج کے گورنر کے پاس اس وقت کوئی نہیں تھا کہ وہ لکھ سکے اور چند مواقع پر انہیں خط ملے تو وہ انہیں میرے کلرک کے پاس پڑھنے کے لئے لے آئے۔

اس وقت کے تناظر میں چترال میں تعلیم کی شرح کے حوالے سے شاید کوئی دوسری رائے ہو سکتی ہے کیونکہ چترال میں پہلے سکول کی بنیاد 1920 میں رکھی گئی۔ غیر رسمی تعلیم کے علاوہ، گو کہ وہ بھی نہایت محدود تھی، اس سکول سے چترال میں رسمی تعلیم کا آغاز ہوا تھا۔ ینگھسبنڈ کے کتاب کے اس اقتباس سے یہ بات واضح نہیں کہ وہ کس زبان میں لکھنے اور پڑھنے کی بات کرتا ہے۔ اس وقت فارسی یا اردو زبان میں کچھ لکھنا اور پڑھنا خواندگی کے زمرے میں آتا تھا یا نہیں یہ معلوم نہیں؟ ہاں یہ معلوم ہے کہ اس سے پہلے ہندوستان میں لارڈ میکالے کا وہ قول تو سب کو یاد ہوگا جس میں اس نے یورپ کے ایک اچھے لائبریری کا ایک شلف ہندوستان اور عرب کی مقامی ادب سے قدرے بہتر ہونے کی بات اپنے ”منٹ“ میں درج کی تھی۔

ہندوستان سے باہر پہاڑی سرحدات یعنی پامیر سے ہوتے ہوئے جب انگریز چترال پہنچا تو ان کی زبان، چال ڈھال، طور طریقے، کلچر، رہن سہن اور لباس توجہ کا مرکز بنے۔ مقامی لوگوں کے لئے یہ وہ زبان تھی جسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ اور جو کوئی غیر مقامی ہندوستانی انگریزی جانتا تھا دربار میں اس کی بھی بہت قدرو منزلت تھی۔

پہاڑی لوگوں میں اس وقت انگریزی بولنے اور سمجھنے کا شوق پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ انگریزی زبان اور کلچر سے منسلک امتیاز، طاقت اور مراعات تھیں۔ چترال میں اس وقت انگریزی زبان میں لکھی کتابوں میں موجود علم توجہ کا مرکز بننے کی گنجائش کم تھی۔ اس وقت جو انگریزی بول اور لکھ سکتا تھا وہ تعلیم یافتہ، اور وہ ایک اچھے عہدے پر فائز ہو سکتا تھا۔ اور ساتھ وہ انگریز کے قریب اور رابطے کا ایک ذریعہ بن سکتا تھا۔

برنرڈ کہن کے مطابق 17 ون صدی عیسوی میں برطانیہ کو ہندوستان میں یہ محسوس ہو گیا کہ فارسی نہایت اہم زبان ہے جسے سیکھنا چاہیے۔ آٹھارویں صدی میں پھر برطانوی افسران فارسی سیکھے، اس میں دستاویزات تیار کیے ، اور یہ بھی انہیں محسوس ہوا کہ اسے انڈیا میں جو اشرافیہ ہے اسے بھی سکھایا جائے۔ ایک دوسرے جریدے کے آرٹیکل میں ڈاکٹر طارق رحمان لکھتے ہیں کہ فارسی زبان سیکھنے کا اصل مقصد اس سے پہلے نظام حکومت کو سمجھنا اور اس مربوط نظام کے مطابق حکومت چلانا تھا تاکہ ہندوستان کے لوگوں کے پاس کم سے کم حکومت کے خلاف ہونے یا بغاوت کرنے کی گنجائش باقی رہے۔

اس زمانے میں انگلینڈ میں بھی فارسی سیکھنے کا ڈیمانڈ بڑھ گیا، اور بنگال کی فتح کے بعد یہ مزید زیادہ ہو گئی تھی۔ اور تو اور، فورٹ ویلیم کالج ( 1800 ) میں برطانوی افسران کو فارسی کی تعلیم دی جانے لگی۔

جو انگریز اہلکار اس وقت چترال آیا اس کی تعلیم، سمجھ اور دنیا بینی مقامی لوگوں کے لئے فکر انگیز تھی۔ گو کہ مقامی لوگ سودیشی علم و سمجھ کے مالک تھے لیکن ہم عصری، بین الاقوامی، نظریاتی اور دوسرے دقیق موضوعات سے اگر عاری نہیں تو ان پر دسترس بھی نہیں رکھتے تھے۔ اور جو علم اس وقت لوگوں تک پہنچتی تھی جو کہ ملک میں رائج اور ریاست چترال میں فارسی زبان سے مل رہی تھی۔

انگریز کی آمد کے بعد فارسی زبان، ادب اور علم پر توجہ جس مقصد کے لئے شروع ہوا اس مقصد کے حصول کے بعد اس پر توجہ کم ہوئی۔ اب فارسی سے انگریزی میں موجود علم کو ’خالص‘ قرار دینے پر کام شروع ہوا تاکہ فارسی کی جگہ انگریزی زبان لے سکے۔ یہ صورت حال تقسیم سے پہلے ہندوستان میں رہی، اور پاکستان بننے کے بعد جب اردو قومی زبان قرار دی گئی اور سرکاری یا دفتری زبان انگریزی جاری رہی تو فارسی کی حالت ہوئی۔

چترال میں فارسی زبان کا استعمال پاکستان بننے کے بعد بھی ہوتا رہا اور اس کی اہمیت طویل وقت تک رہی جس کی ایک وجہ اس وقت کے تعلیم یافتہ لوگ فارسی داں تھے، اور دوسرے زبان اور مضامین میں تعلیم اسے ریپلیس نہ کر چکے تھے۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے مطابق ’چترال میں 1030 ء سے فارسی کی آمد آمد تھی‘ اور یہ ایک وقت تک جاری رہی۔ چترال ریاست میں ) چترال کے زبانوں کے حوالے سے 1992 کے ایک سروے کے مطابق ( فارسی زبان 1952 ء تک سرکاری زبان رہی۔

انگریزی کی افادیت، ضرورت اور طاقت پہلے سے محسوس کی جا رہی تھی اور جب فارسی ریاستی زبان سے بھی نکل گئی تو چترال میں بھی فارسی زبان کی جگہ اردو اور انگریزی نے لے لی، اور پاکستان کے ساتھ باقاعدہ ضم ہونے کے بعد سکول و کالج میں جو بھی سلیبس تیار ہوئی وہی پڑھایا گیا۔ تقسیم سے پہلے کی طرح پاکستان اور چترال میں بھی انگریزی، اردو اور مقامی زبانیں سماجی اور معاشی تقسیم کی پیمائش کے طور پر بھی لئے جانے لگے۔

چترال میں انگریزی تعلیم سے متاثر ہوئے، اور فائدہ سب سے پہلے وہ لوگ لئے جو انگریز کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہے اور تھے۔ انگریزوں کے ساتھ کام کرنے والے لوگ اور ان کے رشتہ دار انگریزی زبان اور اس سے متعلق چیزیں اسی طرح اختیار کیں۔ مقامی لوگ بعد میں ان غیر مقامی لوگوں کے ساتھ رشتہ ازواج میں بھی منسلک ہوئے جو اس وقت انگریز کے ساتھ چترال آئے تھے۔ اس طرح چترال کے لوگوں کا چترال سے باہر رشتہ داری بھی ہو گئے۔ جس کا ایک اثر یہ ہوا کہ عام لوگ اس وقت تعلیم اور انگریزی تعلیم کی ضرورت، افادیت اور اہمیت کا ادراک رکھتے تھے وہ اپنے بچوں کے تعلیم اور خصوصاً انگریزی تعلیم و تمدن کو ہر چیز پر فوقیت دی۔ اور انگریز اب بھی نسل اور زبان سے فائدہ بٹور رہی ہے۔

1980 ء کے بعد چترال میں انگریزی تعلیم پر کام مزید شدت سے شروع اس وقت ہوئی جب چترال میں بھی پرائیویٹ سکول بنے۔ اس وقت ) اور اب ( ہر پرائیویٹ سکول کا مطلب انگلش میڈیم سکول ہے۔ سرکاری سکولوں میں چند سال پہلے تک وہی نظام تھا جو چلی آ رہی تھی، اور چند سال پہلے سے سرکاری سکول بھی انگریزی تعلیم شروع کیے ۔ ) اب سنگل نیشنل کریکلم کے بعد کیا منظرنامہ ہوگا وہ دیکھنے کی بات ہے (

برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارندے آئے تو ساتھ انگریزی زبان کی بھی یہاں پہنچی۔ ہندوستان میں نظام حکومت اور قواعد و ضوابط کو سمجھنے کے لئے انگریز نے وقت کی مناسبت سے فارسی زبان پر توجہ دی، اور مقصد کے حصول کے بعد اپنی زبان پر کام شروع کی۔ نو آبادیاتی نظام کے دوران انگریزی ایک علامتی زبان رہی، اور سولائزنگ مشن میں انگریزی زبان اور کلچر کا کردار اہم رہا۔ گریٹ گیم کے دوران جب انگریز چترال آئی تو انگریز کے ساتھ اس کی زبان بھی چترال پہنچی۔

الحاج محمد خان
Latest posts by الحاج محمد خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments