خون سے خون کو صاف نہیں کیا جا سکتا


خون سے خون کو صاف نہیں کیا جاسکتا ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ خون پر مزید خون بہایا جائے تو خون کے دھبے اتنی مضبوطی سے جم جائے کہ ان کو حرف غلط کی مانند مٹانے کے لیے کئی برساتوں کی نہیں بلکہ عشروں، صدیوں کی برساتوں کی ضرورت درکار ہو۔ یہ ہی المیہ افغانستان میں دوہرائے جانے کا امکان بتدریج پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ افغان طالبان کی افغانستان میں کامیابی کے بعد انہوں نے ایسے اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا کہ جس سے اس تصور کی تصویر میں رنگ بھرے جانے کی امید قائم ہونے لگیں کہ کسی نوعیت کا انتقام یا ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ فلم کی ریل کی مانند چلانے سے اجتناب برتا جائے گا۔

مگر حال ہی میں ایک واقعہ نے اس تصور کو کاری ضرب لگائی ہے کہ فتح کی خوشی میں ایسے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں کہ جو مستقل بدامنی کو دعوت دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے ۔ سابق افغان نائب صدر امراللہ صالح کے بھائی روح اللہ کا قتل ایک اسی نوعیت کا واقعہ ہے۔ امراللہ صالح کا نام آتے ہیں بلاشبہ ان کے پاکستان کے حوالے سے مخالفانہ بیانات اور معاندانہ اقدامات ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں لیکن خیال کیجیے کہ اس وقت ہمارا موضوع بحث پاک افغان تعلقات نہیں ہے بلکہ افغانستان کے حالات پر تجزیہ ہے اس لئے ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں پر کسی بھی نوعیت کی بدامنی سے وطن عزیز براہ راست متاثر ہوتا ہے۔

نا صرف کہ براہ راست متاثر ہوتا ہے بلکہ ہمارے دیگر پڑوسی ممالک میں بھی پاکستان کے حوالے سے مختلف نوعیت کے خیالات جنم لینے لگتے ہیں یہاں تک کہ ہمارے خلاف مظاہرے تک ہونے لگتے ہیں اور بد قسمتی سے پاکستان کا دفتر خارجہ ویسے ہی اس سارے معاملے میں ایک مذاق بن چکا ہے۔ وطن عزیز کے لئے ضروری ہے کہ افغانستان میں امکانی حد تک امن قائم ہو۔ امراللہ صالح کے بھائی کا قتل کا واقعہ وادی پنجشیر میں جاری لڑائی کے وقت سامنے نہیں آیا بلکہ افغان طالبان کے پنجشیر کا کنٹرول حاصل کر لینے کے بعد یہ معاملہ سامنے آیا کہ ان کو قتل کر دیا گیا۔

افغان طالبان نے دعوی کیا کہ وہ لڑائی میں مارے گئے جبکہ ان کے بھتیجے نے کہا ہے کہ ان کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش بھی ہم کو دفنانے کے لیے نہیں دی گئی بلکہ کہا گیا کہ اس کی لاش کو سڑنا چاہیے۔ اس بات سے قطع نظر کے واقعات کی جزئیات میں کس کا موقف درست ہے لیکن اس قتل کے اثرات وہاں کے مقامی باشندوں پر بھی ہوں گے اور بہت گہرے ہوں گے بلکہ ممکن ہے کہ کسی مزاحمت کے لئے ایک استعارے کے طور پر بھی اس واقعے کا ذکر کیا جائے کہ لاش تک دفنانے نہیں دی گئی۔

اقتدار چاہے جتنا بھی مستحکم ہو اگر دل تسخیر نہ ہو تو صرف تلوار کی چمک اقتدار کی چمک کو ماند پڑنے سے نہیں روک سکتی ہے۔ جب اموی سلطنت کی چولیں ہلنے لگی تو آخری اموی خلیفہ مروان بن محمد بن مروان کے زمانے میں ضحاک نے کوفہ پر حکومت کر لیں۔ کوفہ پر قابض ہوتے ہی ضحاک نے اپنے سے اختلاف رکھنے والے تمام اہل کوفہ کو کافر قرار دے دیا وہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ ضحاک کوفہ کی جامع مسجد میں تلوار نکال کر بیٹھ گیا اور اعلان کر دیا کہ ”کوفہ والوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں بال بچوں کو لونڈیاں غلام بنایا جائے۔

اس موقع پر امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے ضحاک سے پوچھا کہ ان سے یہ سلوک کیسے حلال ہو گیا؟ ضحاک نے کہا کہ یہ سب مرتد ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے ضحاک سے پوچھا کہ مرتد ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا ان لوگوں کا پہلے کچھ اور دین تھا اس دین کو ترک کر کے مرتد ہونے کے بعد اب کوئی نیا دین انہوں نے قبول کیا ہے؟ یا جس دین پر پہلے سے چلے آرہے ہیں وہی دین اس وقت بھی ان کا ہے؟ ضحاک چونک گیا اور بولا جو بات تم نے کی ہے ذرا دوہراؤ۔

امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے دوہرا دی۔ ضحاک سمجھ گیا اور بولا ہم نے غلطی کی اور اپنی تلوار میان میں رکھ لی لیکن جو خون وہ بہا چکا تھا اس کے اثرات زائل نہ ہو سکے۔ بات یہ ہے کہ جب کبھی بھی کہیں بھی خون بہایا جاتا ہے جس سے اجتناب ممکن ہو تو ایسی صورت میں اس خون کے قصاص کے دعویدار بہت ہوتے ہیں خاص طور پر اگر وہ خون ان کے سیاسی عزائم کو پورا کرنے کا بھی باعث بن سکتا ہو۔ اگر افغان طالبان سے مزید اسی نوعیت کی غلطیاں سرزد ہوئی تو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔

افغان طالبان کو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ تمام افغانیوں کے خیر خواہ ہے بہت احتیاط کی پالیسی کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر کوئی دشمن لڑتے ہوئے بھی قبضے میں آ جائے تو اگر معاف نہیں کیا جاسکتا تو زیادہ سے زیادہ اس سے ایک جنگی قیدی کے علاوہ اور کوئی دوسرا رویہ روا نہ رکھا جائے۔ گوانتانا موبے والا رویہ رکھنا بھی افغان طالبان کے شایان شان نہیں ہو گا۔ مجھے علم ہے کہ جنگی قیدی دو ممالک کے مابین ہوتے ہیں لیکن یہاں پر یہی رویہ افغان طالبان کے اپنے حق میں مفید ہے۔

اور اگر ایسا نہ ہوا تو افغانستان کی تاریخ کے صفحات پلٹتے جائیں بظاہر بہت مضبوط حکومتیں مختلف وجوہات کی بنا پر ریت کا گھروندا ثابت ہوتی چلی گئی کیوں کہ افغانستان میں حکومت اور شخصیات کی تبدیلی کا کوئی پرامن طریقہ کار نا ماضی میں موجود تھا اور نہ اب ہے۔ مشورہ ہے کہ اپنے خلاف جذبات پھیلنے دینے کی بجائے محبت سے اب اپنے مخالفین کو جیت لیں۔ سب نہ بھی جیتے جا سکے مگر دشمن کم ضرور ہو جائے گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments