طالبان کا افغانستان: ’شاید میں اپنے والد کی طرح اپنے بچوں کو یہ نہ کہہ سکوں کہ ہم پھر افغانستان جائیں گے‘


طالبان، افغانستان
15 اگست 2021 کو طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا اور ملک کے صدر اشرف غنی افغانستان چھوڑ کر چلے گئے۔ طالبان اس سے قبل نوے کی دہائی میں بھی افغانستان میں برسراقتدار رہ چکے ہیں۔

موجودہ حالات کے پیش نظر بی بی سی نے طالبان کے گذشتہ دور کا افغانستان اور اُس وقت کے حالات کا احاطہ کرنے کے لیے قسط وار مضامین کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کی چھٹی قسط آج قارئین کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔

بی بی سی کی نامہ نگار حمیرا کنول نے ایک ایسے افغان شخص سے بات کی ہے جنھوں نے طالبان کے دونوں دور دیکھے اور دو بار اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے ملک میں پناہ لی۔

ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے ان کا نام مخفی رکھا گیا ہے۔ ان کی کہانی انھی کی زبانی۔۔۔


ہم افغانستان سے پاکستان جانے کے لیے اس بڑی گاڑی پر سوار ہوئے جس پر پھل لے جایا جاتا ہے۔ کابل سے قندھار اور پھر چمن تک سارا راستہ میں بار بار روتا تھا اور والدہ سے پوچھ رہا تھا کہ میرے سکول کا کیا ہوگا میری پڑھائی کا ہو گا؟

تب میری عمر تقریباً 10 برس تھی آج میں 45 سال کا ہوں لیکن میں اب بھی رو رہا ہوں لیکن سکول کے لیے نہیں بلکہ ان سب لوگوں اور رشتوں کے لیے جنھیں مجھے چھوڑ کر آنا پڑا۔ آج میری ماں میرے ساتھ نہیں۔ وہ کہتیں ہیں کہ اب گھر نہیں چھوڑنا بس جیسا بھی ہے یہیں رہنا ہے۔

جب ہم نے افغانستان کو چھوڑا تو وہ نجیب اللہ کا دور تھا۔ میرے والد ایک سرکاری ملازم تھے اور امن پسند انسان تھے۔ بظاہر نجیب اللہ کا دور اچھا تھا لیکن پلِ چرخی (جیل) میں لوگوں کو جو سزائیں دی جاتی تھیں، اس سے وہ جیل انسانوں سے بھر گیا تھا۔

میرے والد نے ہم بچوں اور ہماری والدہ کو لیا اور ملک چھوڑ کر سرحد پر چلے آئے۔ گو اس زمانے میں پاسپورٹ نہیں ہوتا تھا لیکن سرحد پار کرنا ایک افغان کے لیے اتنا آسان نہ تھا۔ مجاہدین جگہ جگہ موجود تھے اور وہ آج کے طالبان کی مانند یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ملک چھوڑ کر کوئی بھی شہری دوسرے ملک جائے، چاہے وہ پاکستان ہی کیوں نہ ہو اور سرکاری ملازم ہونا اس دور میں بھی ایک جرم کی مانند ہی تھا۔ اگر پکڑے جاتے تو مار دیے جاتے۔

مجھے یاد ہے اس روز میری والدہ نے ہمیں وہ لباس پہنایا جیسے سرحد کے قریب رہنے والے آفریدی قبیلے کے لوگ پہنتے تھے۔ ہمارا حلیہ مختلف تھا یعنی ہم اب بظاہر افغان شہری نظر نہیں آ رہے تھے۔

ہمیں طورخم بارڈر تک پہنچنے میں دو دن لگے وہ دو دن ہم نے بغیر کھانا کھائے گزارے۔ وہ ایک مشکل اور تکلیف دہ سفر تھا۔ میں تیسری جماعت میں تھا اور اس برس میری اول پوزیشن آئی تھی۔ جب مجھے یہ بتایا گیا کہ سکول چھوڑنا ہو گا اور دادی بھی ساتھ نہیں جا سکتیں تو میں بہت اداس ہوا۔ میرے لیے یہ قبول کرنا مشکل تھا۔ سارا راستہ میرا اپنی والدہ سے یہی سوال تھا کہ میرے سکول کا کیا ہو گا؟ دادی کو یاد کر کے بھی میں رو رہا تھا کہ وہ کیوں ساتھ نہیں۔

سرحد پر پہنچ کر میرے والد نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ افغان ہیں اور ہمارے حلیے سے بھی کسی کو شک نہیں ہوا۔ ہم وہاں سے والد کے ایک دوست کے گھر پشاور چلے آئے۔

طالبان، افغانستان

مجھے آج بھی ان چاولوں کا ذائقہ یاد ہے جو ہمارے عزیز کے پڑوسی نے بطور خاص ہمارے لیے بھجوائے تھے۔ تب پشاور بھی پسماندہ شہر تھا لیکن یہاں کے لوگوں نے ہم سے بہت اچھا سلوک کیا۔ میرے والد کے پاس اب اچھی نوکری تھی نہ کاروبار کے لیے بڑا سرمایہ۔ یوں سمجھیے کہ بمشکل گزر بسر ہوئی لیکن ایک چیز جس نے ہمیں آنے والے برسوں میں مدد کی وہ تعلیم تھی۔

ہم پاکستان کے مختلف شہروں میں نو سال رہے اور افغان بچوں کے لیے موجود سکولوں میں پڑھائی کی لیکن جب ہم نے سنا کہ طالبان نے قندھار پر قبضہ کر لیا ہے تو میں نے اپنے ملک اس امید کے ساتھ واپس جانے کی ٹھانی کہ اب حالات بدلیں گے۔

میں افغانستان پہنچ گیا۔ ابھی مجھے چند ہفتے ہی ہوئے تھے کہ ایک دن میں کابل کے نزدیک پروان سے جا رہا تھا کہ راستے میں گاڑی آ گئی اور میں نے لوگوں کو بھاگتے دیکھا۔ میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو، انھوں نے کہا طالبان آ گئے ہیں۔

ابھی جو کابل میں حالات ہیں اس وقت اس سے بہت برا حال تھا۔ مجاہدین کے مختلف دھڑوں کے درمیان ہونے والی جنگ نے شہر کو ایسا کر دیا تھا جیسے کھنڈر۔ آج کے شام اور یمن میں جو صورتحال ہے وہی منظر وہاں بھی تھا۔ میں اپنے سکول کی جانب گیا جسے میں نے بہت یاد کرتا تھا۔ سکول کی ایک دیوار بھی سلامت نہیں بچی تھی۔

میں گھر پہنچا تو کابل طالبان کے ہاتھ میں تھا اور یہاں کے واحد ریڈیو کابل میں ملا عمر کا بیان آ گیا، کابل ٹی وی بھی بند ہو چکا تھا۔

میں نے بھی ایک رومال لے لیا اور شہر میں چلا گیا۔ میرے پاس ایک کیمرہ تھا میں اس سے تصویریں لیتا تھا ویڈیو بناتا تھا۔

مجھے یاد ہے جب آریانہ سکوائر میں نجیب اللہ کو پھانسی دی گئی میں اس وقت سٹوڈنٹ تھا۔

میں نے طالبان کے پانچ سال کے دور میں افغانستان میں ہی وقت گزار۔ وہ میری جوانی کا دور تھا۔ میرا لڑکپن پاکستان میں گزارا جہاں آزادی تھی لیکن یہاں منظر مختلف تھا ایسے جیسے قید ہے۔ داڑھی، زبردستی کی شریعت اور سزائیں۔

پارک نہیں تھا سب ختم ہو گیا۔ یہاں کا چمن حضوری پارک جہاں میلے لگتے تھے اب وہ سزاؤں کا مرکز بن چکا تھا۔ غازی سٹیڈیم میں فٹبال کھیلتے بچوں کو کہا جاتا تھا جگہ خالی کرو قصاص کرنا ہے۔

یہاں لوگوں کے سر قلم کیے جاتے تھے، کوڑے مارے جاتے تھے، لوگوں کا چہرہ سیاہ کیا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان کے تابع افغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز کیسا ہے

داڑھی، برقعہ، موسیقی۔۔۔ کیا طالبان دوبارہ نوے کی دہائی کے سخت گیر قوانین کا نفاذ کریں گے؟

طالبان کی عبوری حکومت کی تقریب حلف برداری کیوں نہ ہو سکی؟

افغانستان

مجاہدین پیسے کے پیچھے گئے لیکن طالبان پیسوں کے پیچھے نہیں جاتے تھے کیونکہ یہ مدرسے والے تھے ان کا خیال تھا کہ اللہ کو حساب دینا ہے لیکن رویوں میں یہ ایک جیسے ہی تھے۔

بیس سال پہلے میڈیا نہیں تھا۔ طالبان جب سزا دیتے تھے تو چمن حضوری اور غازی سٹیڈیم میں سینکڑوں، ہزاروں لوگوں کا مجمع ہوتا تھا۔

ان کا طریقہ یہ تھا کہ ان کے وائس شریعت ریڈیو (جو پہلے سرکاری ریڈیو تھا) پر اعلان ہوتا تھا کہ کل اس وقت فلاں فلاں افراد (عورت یا مرد یا دونوں ) کو سزا دی جائے گی۔ آدھے گھنٹے کی خبروں کے بعد سزاؤں کے حوالے سے اعلان پانچ منٹ کا ہوتا تھا اور بتایا جاتا تھا کہ آج کس کو سزا ہوئی اور کل کس کو ہونی ہے۔

ایسا ہی ایک دن تھا کہ میں نے سوچا آج تو میں سزا دینے کے واقعے کی تصویر ضرور بناؤں گا۔ طالبان کا ایک ملا وہاں سٹیڈیم میں آیا اور لوگوں کو بتایا کہ اس مرد اور عورت نے ایک مرد کو مارا ہے۔ ان دونوں کو وہاں موت کی سزا دی گئی۔ میں نے چپکے سے تصویر لی اور چل دیا۔

ان سزاؤں کے بعد سٹیڈیم خالی ہوتا تھا اور بچے پھر کھیلنا شروع کر دیتے تھے۔ یہاں تفریخ کے لیے اب بچا ہی کیا تھا نہ سینما نہ میلے۔ خواتین کے لیے تو باہر نکلنا ممنوع ہو چکا تھا۔ بازار خالی ہو چکے تھے۔

پتھر مارنے یعنی رجم کرنے کی جگہ مزار شریف کا سٹیڈیم ہوتا تھا اور اسی طرح ہرات میں بھی ایک سٹیڈیم مختص کیا گیا تھا۔

آپ جن طالبان کو ابھی دیکھ رہے ہیں بظاہر انھوں نے بڑی تعداد میں سزاؤں کا سلسلہ شروع نہیں کیا لیکن ان کی جانب سے گھروں میں کیا جانے والا سرچ آپریشن اس کی ابتدا ہے۔ کچھ علاقوں سے لوگوں کو مارے جانے کی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ ایک موسیقار کو بھی مارا گیا۔

میں سابقہ دور میں ایک بار فوٹو کھینچ رہا تھا کہ ایک طالب نے مجھے پکڑ لیا اور کیمرہ لے لیا۔ میں اصل میں سینما کی تصویر بنا رہا تھا۔ اس نے کہا ’کیوں بنا رہے ہو تصویر‘ تو میں نے کہا ’اپنے ایک رشتہ دار کے لیے۔‘

طالبان، افغانستان

اس نے کہا ’نہیں تم تو مجھے جاسوس لگتے ہو‘۔ وہ مجھے اپنے امر بلمعروف کے سنیٹر لے گیا۔ میری جان بخشی تو اس لیے ہو گئی کہ وہاں ان کے سینئیر رہنما نے مجھے سے پوچھا کہاں کے رہنے والے ہو۔ میں نے جب اپنے آبائی علاقے کا بتایا تو اس نے خوش ہو کر کہا میں بھی تو وہیں کا ہوں۔ اس روز میری جان اس طالب نے بخشوائی ورنہ رات کو شریعت ریڈیو پر میری سزا کا اعلان بھی ہو سکتا تھا۔

آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس نظام میں کوئی ایسی شفافیت نہیں تھی۔ کبھی کبھی بات ہائی کورٹ پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی تھی۔ چاہے وہ سنگسار کرنے کا معاملہ ہو یا قتل و قصاص کا۔ سزاؤں کی تیزی سے بہت سے معصوم لوگوں کو شریعت کے نام پر موت کے منہ میں پہنچایا گیا تھا۔

اب طالبان کے پاس زیادہ طاقت ہے۔ ابھی تو یہ اپنا ووٹ بینک بڑھا رہے ہیں، عالمی برادری سے تصدیق حاصل کر رہے ہیں لیکن آنے والے دنوں میں یہ شریعت کے نام پر پھر کیا نافذ کریں گے اس بارے میں، مجھے کوئی مثبت امید نہیں۔

آپ کہتے ہوں گے کہ طالبان ایک دم آئے اور عالمی قوتیں چلتی بنیں۔ نہیں ہم یہاں پچھلے تین برسوں سے انھیں اپنے شہروں میں دیکھ رہے ہیں۔ ہوٹلوں میں، صدر اشرف غنی کے محل کے آس پاس ریسٹ ہاؤسز میں، قندھار میں جو ان کا مرکز تھا، یہ ہر جگہ آتے جاتے تھے اور ہم لوگ آپس میں بات چیت کرتے تھے کہ اب ان کا دور پھر آنے والا ہے۔ جب آپ کا صدر ان کے لیے بھائی کا لفظ استعمال کرتا ہے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔

مجھے یاد ہے سنہ 2010 تک بگرام اڈے سے ایک گھنٹے میں بیس بیس جہاز پرواز بھرتے تھے لیکن تین سال پہلے ہی یہ عالم ہو چکا تھا کہ کئی گھنٹوں تک وہاں سے ایک بھی جہاز ٹیک آف یا لینڈ نہیں کرتا تھا۔ یہ ابتدائی علامات تھیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے دو سال پہلے میں قندھار گیا تو وہاں طالبان شہر میں بہت زیادہ تھے۔ حکومت کے لوگوں نے بتایا کہ شہر میں طالبان ہیں، پارلیمنٹ کے اطراف میں، طالبان کے ریسٹ ہاوسز میں۔

یہ تبدیلیاں ہمیں بتانے کے لیے کافی تھیں کہ طالبان کے لیے آمادگی ہو رہی ہے۔ سب کہتے تھے کہ اشرف غنی جانتے تھے کہ طالبان آ رہے ہیں۔ ان کو معافیاں دلوانا ان کو جیلوں سے نکالنا یہ سب یہی تو تھا کہ اب انھوں نے آنا ہی ہے۔

یہ درست ہے کہ اس عرصے میں یعنی گزرے دو تین سال میں طالبان بندوق ہاتھ میں لے کر نہیں چلتے تھے، عام لوگوں کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ہاتھ میں بندوق آ جائے گی لیکن جو لوگ صورتحال کو قریبی طور پر جانتے تھے انھیں اداراک تھا کہ وہی ہو گا جو 20 برس پہلے ہم نے دیکھا تھا۔

قندھار اور ہلمند میں کچھ علاقوں پر قابض طالبان آج ماسوائے وادی پنجشیر کے میرے پورے ملک پر قابض ہیں۔

میرا تعلق لکھنے لکھانے سے ہے اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ سرکاری اہلکاروں، لکھنے والوں، صحافیوں اور تفریحی سرگرمیوں سے منسلک افراد کا اس ملک میں کیا مستقبل ہو سکتا ہے۔

میں بندوق اٹھا نہیں سکتا اور قلم رکھ نہیں سکتا مگر مجھے طالبان کی جانب سے دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔ میری جان کو خطرہ تھا اور میرے پاس اپنا گھر اپنا ملک اپنے لوگ چھوڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

میں نے اس بار اپنے والد کی طرح اپنے بچوں کو لے کر اس ملک کی سرحدوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے زیب تن کپڑوں کے علاوہ گھر سے کچھ نہیں لیا۔

میرے گیارہ سال کے بیٹے کو میں اپنی کہانی سناتا ہوں کہ میں بالکل اس جتنا تھا تو میں نے ملک چھوڑا۔

میں آج 45 برس کا ہوں۔ میں نے گزرے کئی برسوں میں کبھی سکون نہیں دیکھا۔ یہاں میرے پاس سب کچھ ہے لیکن میرا ملک نہیں۔ یہاں کی زبان الگ ہے اور میں اپنوں سے دور ہوں۔ لگتا ہے تاریخ پھر خود کو دوہرا رہی ہے اور اب میرے سامنے امید کی کوئی کرن نہیں۔

شاید میں اپنے والد کی طرح اب اپنے بچوں کو یہ نہ کہہ سکوں کہ ہم پھر لوٹ کر افغانستان جا پائیں گے اور تم اپنے سکول اور دوستوں سے مل پاؤ گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp