میانی کی جنگ: وہ میدان جہاں چالرز نیپیئر نے تالپور سلطنت کو شکست دے کر سندھ فتح کیا

شبینہ فراز - صحافی


میانی کی جنگ
میانی کی جنگ
’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں!‘

تالپور فوج کے سپہ سالار ہوشو شیدی کا یہ نعرہ آج بھی سندھ کی دھرتی کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔

لیکن جس دن انھوں نے یہ نعرہ بلند کیا، اُس روز سندھ کے جنگجوؤں کے جوش و جذبے کے باوجود فتح بارودی ہتھیاروں سے لیس برطانوی فوج کی ہی ہوئی تھی۔

تقریباً 178 برس قبل میانی اور دوآبہ کے میدان پر لڑی جانے والی یہ جنگ تالپور سلطنت کی آخری جنگ تصور کی جاتی ہے۔ لیکن آج اسی میدانِ جنگ کو پھر سے ایک سرسبز و شاداب جنگل کی شکل دینے کے لیے کوششیں جاری ہیں جو اس کے ماضی کے شایانِ شان ہو گا۔

حیدرآباد سے صرف 15 کلومیٹر کے فاصلے پر، دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر میانی کے میدان میں حد نگاہ کِھلے پھولوں کی خوشبو، رنگ بکھیرتی تتلیاں، پرندوں کی چہچہاہٹ سنائی دیتی ہے۔

آج میانی کا یہ میدان جو بظاہر کسی جنت ارضی سے کم نظر نہیں آتا، ماضی میں ایک گھنا جنگل تھا جسے دریائے سندھ کے زرخیز پانی نے صدیوں سے سینچا۔

تاریخ کے صفحات پلٹ کر دیکھیں تو یہ 17 فروری 1843 کا دن تھا جب میانی کے میدان میں ایک خونریز تاریخ رقم ہوئی۔

انگریزوں کے لیے سندھ کا زرخیز علاقہ اور اس کے وسائل سونے کا انڈا دینے والی مرغی سے کم نہ تھے جسے وہ ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ سندھ کا جغرافیہ انھیں قندھار کا زمینی راستہ بھی فراہم کر سکتا تھا اور وہ دریائے سندھ کے ذریعے بھاری ساز و سامان اور اسلحے کی ترسیل کا کام انتہائی آسانی سے کر سکتے تھے۔ یہی وجوہات تھیں کہ سندھ پر قبضہ ان کی مجبوری اور ضرورت تھا۔

انگریز فوج اور تالپوروں کی اس جنگ میں مارے جانے والے برطانوی سپاہیوں کی یادگار تو اب بھی اسی جنگل میں ایک مینار کی صورت موجود ہے جس میں یہاں ہلاک ہونے والوں کے نام کندہ ہیں مگر سندھ کے جن ہزاروں سپوتوں نے اس میدان میں اپنی جانیں دیں ان کے لیے کسی مٹی یا اینٹ سے بنی یادگار کی ضرورت نہیں۔

تاریخی حوالوں کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ صبح ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا جب میانی کے میدان میں انگریز اور حیدرآباد کے حکمراں تالپوروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی تھیں۔ تالپوروں کی فوج 10 ہزارافراد پر مشتمل تھی جبکہ دوسری جانب انگریز فوجی چند ہزار سے زیادہ نہیں تھے۔

عددی لحاظ سے کوئی مقابلہ نہیں تھا اور تالپوروں کی فوج اپنی دھرتی کی حفاظت کے لیے سربکف تھی۔ تاہم یہ کوئی تربیت یافتہ فوج نہیں تھی بلکہ اس میں عام لوگ شامل تھے۔ دوسری جانب انگریز فوجی تعداد میں کم مگر وہ تربیت یافتہ اور پیشہ ور فوجی تھے۔

اس روز میانی کا یہ میدان گھنٹوں تک 20 ہزار سواروں کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور تلواروں کی گھن گرج سے گونجتا رہا۔ تالپوروں کی فوج نے اپنی دھرتی کی خاطر جان کی بازی لگا ڈالی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اور دوسری جانب سے چلنے والے آتشیں اسلحے اور گولہ بارود نے فیصلہ کر دیا۔

صبح شروع ہونے والی اس لڑائی کا فیصلہ صرف چند گھنٹے بعد ہو گیا تھا۔

تالپوروں کو شکست دینے والے مشہور برطانوی جنرل چالرز نیپیئر نے اپنے ایک خط میں اپنے فتح کو کچھ یوں بیان کیا: ’وہ 20 ہزار تھے، ہم سے سات گنا زیادہ مگر اس لیے ہار گئے کہ ان کے پاس تلواریں اور ہمارے پاس بارود تھا اور اسی بارود نے ہمارے حق میں فتح لکھ دی تھی۔‘

چارلز نیپیئر

چارلز نیپیئر

جنگ کی وجوہات

پروفیسراور معروف محقق نور احمد جھنجی بتاتے ہیں کہ ’اس جنگ کا طبل تو اسی روز بج گیا تھا جب میروں کے دربار میں انگریزوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے معاہدے کے کاغذات پھاڑ دیے گئے تھے اور پھر انگریزوں کی ریزیڈینسی پر حملہ گویا تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔‘

اس جنگ کی شروعات دراصل ایک مہینہ پہلے ہو چکی تھی جب میجر جیمس آﺅٹ رام کو تبدیل کر کے چارلس نیپئر کو پونہ سے حیدرآباد بلایا گیا تھا۔ میجر آﺅٹ رام تاج برطانیہ کا سندھ میں پولیٹیکل آفیسر بھی تھا اور طاقت سے زیادہ سیاسی مذاکرات پر یقین رکھتا تھا۔

جبکہ چارلس نیپئر ایک طاقتور اور سخت گیر جنگ جُو تھے، اگرچہ ہائی کمان کی جانب سے انھیں عسکری اور سیاسی دونوں طرح کے اختیارات دیے گئے تھے مگر وہ سر تا پا ایک فوجی ہی تھے، مار دھاڑ جن کی سرشت میں تھی۔ وہ سیاسی انداز میں مذاکرات سے زیادہ جنگ و جدل پر یقین رکھتا تھا۔

چارلس نیپئر اپنے عہدے کا چارج لینے بمبئی سے سٹیمر میں سندھ کی جانب آ رہے تھے۔ یہاں اس متنازع معاہدے کا ڈرافٹ تیار تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ سندھ کے تمام بڑے شہر کراچی، حیدرآباد، سکھر، روہڑی اورشکارپور وغیرہ انگریزوں کی عملداری میں دے دیے جائیں۔ اس کے علاوہ بلا روک ٹوک دریائے سندھ کے دونوں جانب کی 200 میٹر کی پٹی بھی حوالے کر دی جائے۔

چارلس نیپئر چاہتے تھے کہ اُن کے حیدرآباد پہنچنے سے پہلے ہی اس معاہدے پر دستخط کر دیے جائیں۔

اگرچہ اس سے پہلے بھی سندھ کے حکمرانوں اور انگریزوں کے درمیان دو، ایک معاہدے ہوئے تھے مثلا اگست 1809 میں لارڈ نٹو نے تالپوروں سے پہلا معاہدہ کیا تھا اور اس کے بعد دو اور معاہدے بھی ہوئے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ہر معاہدے میں اگرچہ تالپوروں سے دوستانہ تعلقات پر زور دیا گیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کبھی نہیں ہوا۔ اس لیے سندھ کے لوگ خوش نہیں تھے۔ خصوصاً بلوچ قبائل میں انگریزوں کے خلاف غم و غصہ بڑھ رہا تھا۔

لہذا حالیہ معاہدہ جو چارلس نیپئر کی جانب سے پیش کیا گیا اس پر بھی مقامی افراد کو شدید تحفظات لاحق تھے۔ اس معاہدے میں تالپور امیروں سے کہا گیا تھا کہ انگریزوں کے تجارتی جہاز دریائے سندھ میں بنا کسی روک ٹوک کے گزریں گے۔ تالپوروں کو بھی اختیار نہیں ہو گا کہ اُن کو روک سکیں۔

اگرچہ پچھلے معاہدوں میں بھی اسلحہ یا فوج لانے کا کوئی ذکر نہیں تھا مگر انگریز کسی عہد کی پاسداری کیے بغیر سب کچھ کر گزرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس حالیہ معاہدے پر تالپوروں نے تو اپنا اقتدار بچانے کی کوشش کرتے ہوئے آمنا صدقنا کہا مگر یہاں کے بلوچ قبائل میروں کے اس کمزور انداز پر برہم تھے ۔ہر جانب ایک غصہ اور تناﺅ کی کیفیت تھی۔

پروفیسر نور احمد جھنجی کے مطابق انگریزوں کے خلاف عرصے سے لاوہ پک رہا تھا اور اس حالیہ معاہدے کی متنازع شقوں نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ بلوچوں نے اپنا غصہ اس طرح نکالا کہ بھرے دربار میں تالپوروں کے ایک معتمد خاص بلوچ نے تمام ناراض بلوچوں کی نمائندگی کرتے ہوئے معاہدے کے کاغذات پھاڑ دیے۔

یہ غصہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ دوسرے دن انگریزوں کی ریزیڈینسی لطیف آباد پر بھی حملہ کیا کر دیا گیا۔ جہاں میجر آﺅٹ ٹرام اور ملٹری عملہ موجود تھا۔ حملہ آور خاصی بڑی تعداد میں تھے۔ آﺅٹ ٹرام نے اپنی اور ساتھیوں کی جان بچانے اور حملہ آوروں کو منتشر کرنے کی غرض سے گولہ داغنے کا حکم دیا تاکہ انھیں فرار ہونے کا موقع مل سکے۔

آﺅٹ رام اور ساتھی سٹیمر میں فرار ہو گئے۔ اس اثنا میں چارلس نیپئر ہالا تک پہنچ چکے تھے۔ اگرچہ اس حملے میں تالپوروں کی رضامندی شامل نہیں تھی مگر وہ جانتے تھے کہ اب ان کی بات پر انگریز ہرگز یقین نہیں کریں گے اور وہ ہر صورت جوابی کارروائی کریں گے۔ اس لیے وہ شہر کے بجائے انھیں شہر سے باہر میانی فاریسٹ میں روکنا چاہتے تھے۔

شاید یہ خیال بھی ذہن میں ہو گا کہ یہ گھنا جنگل دشمن کے لیے مشکل اور مقامی افراد کے لیے آسان مقام ثابت ہو گا کیونکہ وہ اس کے چپے چپے سے واقف تھے۔ چارلس کو بھی جب خبر ملی کہ ریذیڈینسی پر حملہ ہو گیا ہے تو اس نے فوج کو تیار کر دیا۔

17 فروری صبح ساڑھے آٹھ بجے میانی کے میدان میں جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ جنگ چار، پانچ گھنٹے چلی اور نماز جمعہ تک تالپوروں نے اپنی شکست تسلیم کر لی اور واپس پلٹ گئے۔

مشہور مصنف ایڈورڈ رائس کی تحریر ’چارلس نیپئر اور سندھ کی فتح‘ کے مطابق جنرل نیپئر کے 20 آفیسر اور 250 سپاہی مارے گئے تھے جبکہ 6,000 سندھی ( کسی کتاب میں پانچ ہزار بھی ہے) اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔ انگریزوں کی جانب سے مرنے والوں کے نام ایک مینار پر یادگار کی صورت کندہ ہیں۔

میانی کی جنگ کے اختتام پر تالپور سردار میر نصیر محمد خان واپس پکا قلعہ حیدرآباد پہنچ گئے۔ لیکن انھیں اب یقین ہو چلا تھا کہ اب انگریزوں کو قلعے تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا لہذا انھوں نے آخری کوشش کے طور پر اپنے منشی کو مٹھائی اور صلح کا پیغام دے کر بھیجا اور ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کی۔

چارلس نیپئر نے رضامندی کا اظہار کیا تو میر نصیر اور ان کے بھتیجے وہاں پہنچ گئے۔ خیر سگالی اور صلح کے لیے انھوں نے اپنی تلواریں نکال کر چارلس نیپئر کے آگے رکھ دیں۔

پروفیسر نور احمد جھنجی کہتے ہیں کہ ’چارلس نیپئر ان سے بہت عزت سے ملا۔ تلواریں اٹھا کر دوبارہ بندھوائیں اور کہا کہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں مگر آپ کے حوالے سے جو بھی فیصلہ ہو گا وہ گورنر بمبئی کریں گے میں ان کو ماجرا لکھ دیتا ہوں۔‘

انگریزوں نے تالپوروں کو قید کر لیا۔ اب ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ لہذا انگریزوں نے اسی دن قلعے پر حملہ کر دیا، بدترین لوٹ مار کی اور ہر قیمتی شے پر قبضہ کر لیا۔ سترہ فروری کا یہ دن سندھ کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ دن ٹھہرا جس کا آغاز جنگ اور اختتام قید و بند کی صعوبت پر ہوا اور ہزاروں بے گناہوں کے خون سے میانی کی مٹی لہو رنگ ہو گئی۔

دوسرے دن اسیروں کو گورنر کے حکم پر بمبئی روانہ کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

حیدرآباد کا پکا قلعہ: صدیوں پرانی اس نشانی کا دروازہ مرمت کے دوران منہدم

عمرکوٹ: جہاں بہادری اور رومانوی داستان بستی ہے

’سندھ کا بھگت سنگھ‘ جسے اپنی ہی دھرتی نے بھلا دیا

بنبھور: قدیم شہر ’دیبل‘ اور سرزمین پاکستان کی پہلی مسجد کے آثار

ہوش محمد شیدی اور ان کا نعرہ

چوبیس مارچ کو ایک اور مختصر معرکہ میرپور خاص کے سردارمیر شیر محمد اور انگریزوں کے مابین ہوا جسے دو آبے یا دبی کی جنگ کہا جاتا ہے۔ اسی جنگ میں ہوش محمد شیدی نے اپنا مشہور نعرہ لگایا تھا۔ ہوش محمد جنھیں ’ہوشو‘ کہا جاتا تھا ان کا تعلق شیدی قوم سے تھا۔

یہ قوم کئی صدیوں سے سندھ میں آباد ہے۔ اس وقت بھی حیدرآباد کے قریب ایک شیدی گاؤں ہے جہاں پر ہوشو کے خاندان کے لوگ بستے ہیں جو سندھ کے لیے جان دینے پر ہروقت تیار رہتے ہیں۔

تاریخ میں ہوشو کے بارے میں متضاد باتیں سامنے آتی ہیں مگر زیادہ تر کا اتفاق اسی پر ہے کہ ہوشو میر فتح علی تالپور کے گھر میں ہی پیدا ہوئے تھے کیوںکہ ان کی والدہ میر کے گھر کی کرتا دھرتا تھیں۔

ہوش محمد کی پرورش بھی تالپوروں کے گھر میں ہوئی۔ بڑے ہونے پر انھیں فوج میں بھرتی کیا گیا، ان کی کارکردگی اتنی اچھی تھی کہ جلد ہی ایک پلاٹون کے انچارج بنا دیے گئے بعدازاں اپنی بہادری کے باعث جنرل کے عہدے تک پہنچ گئے۔

دوآبہ کی جنگ میں ہوشو بہت بہادر اور بے خوفی سے لڑتے رہے اور کئی انگریز فوجی ڈھیرکر دیے۔ کم تعداد ہونے کے باوجود ہوش محمد اور ان کے ساتھیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور لڑتے لڑتے ہلاک ہو گئے۔

اسی جنگ کے دوران میروں کے بارود خانے کو بھی آگ لگا دی گئی تھی۔ میروں کی سادہ لوحی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بارود خانے کے نگرانوں میں ایک انگریز بھی تھا۔

اس جنگ میں بھی میر شیر محمد کو شکست ہوئی اور وہ پنجاب کی جانب چلے گئے۔ لیکن Conquest of Sindh کے مصنف ولیم نیپئر لکھتے ہیں کہ ہوش محمد شیدی جس بہادری سے لڑ رہے تھے وہ قابل تعریف تھا، وہ نہ صرف نعرہ لگا کر لڑنے والوں کو جوش دلارہے تھے بلکہ وہ لوگوں کو اکٹھا کر کے بھی لا رہے تھے۔

ہوش محمد اور ان کے ساتھیوں کی بہادری کو دیکھتے ہوئے مؤرخین کا خیال ہے کہ اگر انگریز سازش سے بارود خانے کو آگ نہ لگاتے تو شاید تاریخ مختلف ہوتی۔

حیدرآباد کے تالپور دس برس انڈیا میں قید رہے۔ انھیں بمبئی، کلکتہ مرشد آباد اور ہزاری باغ میں رکھا گیا تھا۔

آج کا میانی

آج کا میانی تصویر کا دوسرا اور ایک رنگین رُخ پیش کر رہا ہے۔

سرسبز اور رنگ برنگے پھولوں اور پھلوں سے آراستہ ایک شان دار باغ۔ دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر سندھ کے دوسرے بڑے گنجان آباد شہر حیدرآباد کے قریب 1700 ایکڑ پر مشتمل ’میانی میدان‘ ایک گھنے جنگل اور باغ کی صورت نمایاں ہو رہا ہے۔

یہاں آپ فطرت کے تمام معجزے قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ شہر کے آلودہ مناظر سے اکتائی نظروں اور سماعت کے لیے لاکھوں درختوں پر جھومتے پھول، پھل ان پر منڈلاتی تتلیاں جگنو، بھنورے اور ڈال ڈال پھدکتے پرندوں کی رسیلی چہچہاہٹ جنت کے کسی باغ سے کم نہیں نظر آتی۔

سلوی کلچر ریسرچ ڈویژن میانی حیدرآباد کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر زبیر احمد چنر کے مطابق یہ جنگل 1700 ایکڑ کے وسیع رقبے پرمشتمل ہے۔ یہاں 35 ایکڑ کے رقبے پر ایک جھیل بھی بنائی گئی ہے جہاں موسم سرما میں ہزاروں نقل مکانی کرنے والے پرندے دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ 25 ایکڑ کے وسیع رقبے پر سندھ کے علاوہ پاکستان بھر کے پھلوں کی کاشت کے کامیاب تجربات کے گئے ہیں۔ یہیں پر جنگلات کے حوالے سے تربیت کے لیے فارسٹ سکول بھی بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات سندھ اس سال یعنی 2021 کو جنگلات کے سال کے طور پر بھی منا رہا ہے اور اس حوالے سے شجرکاری کا کام زورو شور سے جاری ہے۔ اب تک 800 ایکڑ پر کامیابی سے شجر کاری کی جا چکی ہے۔

میانی کا یہ جنگل تاریخ کا ایک مضبوط حوالہ ہے۔ یہیں پر میانی کی جنگ کی یادگار بھی موجود ہے۔ زبیر احمد چنر کا کہنا ہے کہ ہوش محمد شیدی کے دور میں یہ ایک گھنا جنگل تھا جو وقت کے ہاتھوں تباہ ہو گیا تھا۔ ہم اسے پھر سے جنگل کی شکل میں بحال کر رہے ہیں اور یہی ہوش محمد اور ان کے ساتھیوں کو ہمارا خراج تحسین ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp