کمشنر کا کتا اور میرا گمشدہ بھائی


کمشنر صاحب کے قیمتی کتے کی گمشدگی پر شہر بھر میں ہائی الرٹ تھا۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے رکشوں پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر کتے کی تلاش کے لئے دھمکی آمیز اعلانات کروانے شروع کر دیے تھے۔

”کمشنر صاحب کا کتا قیمتی ہے۔ جس کو بھی ملے وہ پولیس کے حوالے کردے۔ کتے پر ٹریکر لگا ہوا ہے اگر کسے سے کتا برآمد ہوا تو اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔“

اعلانات کے ساتھ پولیس شہر بھر میں کتے کی تلاش میں سرگرم تھی۔ گاڑیوں، گھروں، سوسائٹیوں اور بازاروں کی تلاشی لی جا رہی تھی۔ کئی مشکوک افراد کو قانون نے اپنی گرفت میں بھی لے لیا تھا۔ مگر کتا نہیں مل سکا۔

وہاں کمشنر صاحب کا پارا چڑھا ہوا تھا جس کی تپش پولیس عوام کو بھی محسوس کروا رہی تھی۔ مگر ان سب کوششوں کے باوجود کتے کا سراغ تک نہیں مل رہا تھا۔

ایسے دن اور رات میں جب پولیس اور انتظامیہ کتے کی تلاش میں تھے۔ نامعلوم مسلح نقاب پوش رات کے پچھلے پہر ہمارے گھر میں داخل ہو کر میرے بھائی کو ساتھ لے گئے۔ گھر پر مسلح افراد کے دھاوے سے بچے اور خواتین سب خوفزدہ ہو گئے۔ جیسے تیسے رات کاٹی اور صبح ہوتے ہی فون پر اطلاعات دینے اور ہاتھ پاؤں مارنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

پہلی فرصت میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور وکلا سے رابطہ کیا، اور ان کی ہدایت پر ایف آئی آر درج کروانے کے لئے متعلقہ تھانے پہنچا۔ تھانے میں فقط ایک سنتری موجود تھا۔ جس نے مجھ سے آنے کا سبب پوچھا

” مقدمہ درج کروانے آیا ہوں۔ ایس ایچ او صاحب کہاں ہیں۔“ میں نے پوچھا۔
” وہ نہیں ہیں۔“ سنتری نے کہا۔
” محرر یا کوئی اور افسر ہے۔ جو میری ایف آئی آر درج کرے“ میں نے کہا۔
” کیسی ایف آئی آر درج کروانی ہے۔“ سنتری نے پوچھا۔
” میرے بھائی کو رات گئے نامعلوم افراد نے گھر سے اٹھایا ہے، اس کی ایف آئی آر لکھوانی ہے“ میں کہا۔
”ابھی تھانے میں کوئی نہیں ہے۔ سب باہر گئے ہیں۔ آپ شام کو آئیں!“ سنتری نے مشورہ دیا۔
” میں یہاں بیٹھ کر انتظار کرتا ہوں۔ ؟“ میں نے سنتری سے کہا۔
” ابھی کوئی نہیں آئے گا۔ سب ضروری کام سے باہر گئے ہیں۔ آپ شام کو آئیں“ سنتری نے اپنی بات دہرائی۔
” نہیں میں انتظار کرتا ہوں۔ کوئی تو آ جائے گا۔“ میں نے جانے سے انکار کر دیا۔
” کمشنر صاحب کا کتا کھو گیا ہے۔ سب اس کی تلاش میں گئے ہیں۔“ سنتری نے کہا۔
سنتری کی باتیں سن کر میں مایوس گھر لوٹ آیا۔

شام ہوتے ہی میں دوبارہ تھانے جا پہنچا۔ تھانہ خالی تھا۔ درخت کے نیچے سنتری اسی جگہ بیٹھا تھا جہاں صبح کو بیٹھے تھا۔ مجھے آتے دیکھ کر اس نے کہا

” جلدی کمرے میں جائیں ہیڈ محرر صاحب موجود ہیں۔ جلدی جائیں۔ کہیں وہ چلے نا جائیں۔“ سنتری نے سرگوشی کی۔

میں اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کمرے میں چلا گیا۔
” ہیڈ محرر افراتفری میں دکھائی دیے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے۔
” کون ہیں۔ کیا کام ہے۔ ؟“
” بھائی کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوانی ہے۔“

اس نے فائل اور کاغذ ٹٹولتے ہوئے میری بات سنی۔ اور میری طرف دیکھے بغیر کہنے لگے ”ابھی میں مصروف ہوں۔ تم ابھی جاؤ۔ کل آنا۔“

” میرے بھائی کو رات کو نامعلوم افراد نے گھر سے اٹھایا ہے۔ اور آپ میری رپورٹ درج کرنے کے بجائے مجھے کل آنے کا کہہ رہے ہیں۔“ میں نے احتجاج کیا۔

”ابھی ایس ایچ او صاحب نہیں ہیں۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ ہم خود بہت پریشان ہیں۔“
ہیڈ محرر اپنی بات کہہ کر کمرے سے اور پھر تھانے سے باہر نکل گیا۔
میں اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہ گیا۔ اور پھر خاموشی سے تھانے سے باہر نکل آیا۔

گھر کی طرف آتے ہوئے راستے میں پولیس کی گاڑیوں کے بجتے ہوٹر اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے لاؤڈ اسپیکر پر ہوتے کتے کی گمشدگی کے اعلانات میرا پیچھا کرتے رہے۔

گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ افسردگی، پریشانی اور بے یقینی کے عالم میں کسی کو کچھ بھی سوجھ نہیں رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ مگر باہر ہوٹروں کی آواز اور اعلانات جاری تھے۔

اگلی صبح پھر میں تھانے جا پہنچا۔ جہاں ایس ایچ او صاحب اور پولیس پارٹی کہیں کارروائی پر جانے کے لئے تیار کھڑی تھی۔ میں نے جلدی جلدی ایس ایچ او صاحب سے ملاقات کر کے اپنی روداد سنائی۔ انہوں نے میری بات سن کے پہلے مجھے سر سے پیر تک مشکوک نظروں سے دیکھا۔ اور پھر سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

” آپ کے بھائی کا کس جماعت سے تعلق تھا؟ کوئی غیر قانونی کام تو نہیں کرتے تھے۔ ؟ غلط سرگرمیوں کا حصہ تو نہیں ہیں۔ ؟ کیا جرم کیا تھا۔ ؟ میرے انکار کے مختصر جوابات کے دوران۔ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا ابھی تو ہم بہت مصروف ہیں۔ بس کمشنر صاحب کا کتا مل جائے۔ ہماری ٹینشن ختم ہو پھر ہم کچھ کرتے ہیں۔

”سر میرا بھائی غائب ہوا ہے۔ مہربانی کریں۔“

میرا جملہ پورا ہوئے بغیر ایس ایچ او نے کہا ”یہاں روزانہ کسی نا کسی کا بھائی، بیٹا، باپ اور شوہر اٹھایا جاتا ہے۔ کوئی جرم کیا ہو گا تبھی اٹھایا گیا ہے نا۔ ویسے ہم کیا یہاں فارغ بیٹھے ہیں۔ ایک تو ہم کمشنر صاحب کے کتے کے لئے پریشان ہیں۔ اوپر سے تم ہمارا دماغ خراب کرنے آ گئے ہو۔“ وہ مجھ خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے چلا گیا۔

میں ایک بار پھر تھانے سے مایوس نکلا۔ اور ایک وکیل دوست سے ملنے چلا گیا۔ وہاں سے ہم انسانی حقوق کی تنظیم کے دفتر پہنچے جہاں سے ہم نے صدر، وزیراعظم، گورنر، آرمی چیف، ڈی جی رینجرز سمیت دیگر اداروں کے سربراہان کو لیٹر لکھے اور پھر انہیں کوریئر کر دیا۔

شام کو پھر میں تھانے جا پہنچا۔ جہاں ایس ایچ او سمیت پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد چائے کی چسکیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی۔ میرے قریب پہچنے پر سنتری نے سرگوشی کی

” کمشنر صاحب کا کتا مل گیا ہے۔“
سنتری کی بات سن کر مجھے کچھ سکون ملا اور میں نے ایس ایچ او کے پاس پہنچا اور سلام کیا۔
اس نے میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا اور وہ کتے کی تلاش کے کارنامے سننے اور سنانے میں مصروف رہے۔
میں نے ایس ایچ او سے کہا ”سر بھائی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانی ہے۔“

ایس ایچ او نے مجھ گھور کر دیکھا اور خفگی کے عالم میں ہیڈ محرر کو آواز دی اور کہا ”یار اس کی این سی کاٹ دو۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments