پی ایم ڈی اے ایک نوجوان صحافی کی نظر سے


میرے صحافتی کرئیر کا با قاعدہ آغاز تقریباً پی ٹی آئی کے حکومت کے آنے سے چند ماہ قبل ہی ہوا تھا۔ اس تین میں سے دو سال تو صحافت کو سمجھنے اور یونیورسٹی میں جو ہمیں صحافت پڑھائی جاتی ہے اس صحافت کو بھولنے میں لگے، کیونکہ جو پڑھائی گئی وہ صحافت نہ تھی۔

خیر میں نے صحافتی دنیا میں قدم رکھنے کا ابھی آغاز ہی کیا تھا کہ چند ذاتی وجوہات کی بنا پر پہلی نوکری کو خیر باد کہنا پڑا اس کے بعد ایک نجی نیوز چینل میں بطور پروڈیوسر صحافت کا باقاعدہ آغاز کیا۔

اس نوکری کے اگلے ماہ ہی 2018 کے الیکشن تھے، میں نے زندگی میں پہلی بار ووٹ دینا تھا، لیکن الیکشن کے دن تک میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھی کو ووٹ کس کو دیا جائے خیر اسی کشمکش میں الیکشن کا دن آیا اور صبح آٹھ بجے میں ووٹ دینے پہنچی تو لمبی قطار کے باعث دوپہر کے بارہ بج گئے، آفس سے بار بار کالز موصول ہونا شروع ہو گئیں لیکن میں بے بھی ووٹ دیے بغیر نہیں جانا تھا، مجھے اپنے پیشے سے بہت پیار ہے پر اتنا نہیں کے اس کے لیے اپنے مستقبل کے فیصلے کے لیے ریاست کی جانب سے دیا جانا والا حق ضائع کر دو۔ تب تو مجھے یہی لگتا تھا کے میرا ووٹ میرے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔

ووٹ کس کو دینا ہے یہ مجھے ابھی تک نہیں پتہ تھا لیکن ووٹ دینا ضرور ہے یہ شعور ضرور تھا۔

بالآخر جب ووٹ دینے کی باری آئی تو بلے اور تیر میں سے کس پر ٹھپا لگانا ہے؟ عجیب کشمکش تھی؟ تیر پر مہر لگانے میں کچھ جھجھک سی تھی اور بلے پر لگانے پر ٖڈر بھی، کہتے ہیں کہ جب آپ کو جھجک اور ڈر میں سے کسی ایک چیز کو چننا ہو تو ہمیشہ ڈر کو چننا چاہیے کیونکہ ڈر آپ کو اسی چیز سے لگتا ہے جس میں زیادہ پانے اور کھونے کی امید ہو۔

وقت زیادہ نا تھا تو بلے پر مہر لگادی، مہر لگاتے وقت اپنی اماں کا خیال آیا وہ تحریک انصاف کی بہت پڑی فین ہیں اور اب حکومت کے تین سال گزرنے تک بھی ان کی سپورٹ میں کمی نہیں آئی، تو آپ خود اندازہ لگا لیجیے کے کتنی بڑی فین ہیں۔ میں نے ووٹ یہ سوچ کر دیا تھا تھے اگر حکومت کچھ کرے یا نا کرے مگری میں اماں تو خوش ہوجائیں گئیں اور مجھ پر سے نافرمان اولاد ہونے کا داغ دھل جائے گا۔ ووٹ دے کر باہر آئی اور اماں کو بتایا کے بلے کو ووٹ دیا ہے تو انہوں نے یقین کرنے سے انکار کر دیا اور اور وہ آج تک اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہیں کے میں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ اب ووٹ دے کر جو اماں کو خوش کرنے پلان تھا وہ تو نکام ہوا، اپنے فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے ساری نظریں حکومت کارگردگی پر تھیں۔

حکومت کے آنے کے پانچ ماہ بعد مجھے اس نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا جس کا آغاز تحریک انصاف کی حکومت کی بننے کے قریب قریب ہی ہوا تھا۔ نوکری چینل کے بند ہونے کے باعث گئی مالکان کا کہنا تھا کے چینل خسارے میں جا رہا ہے، اور صحافتی حلقوں میں یہ آواز گرم تھی کے عمران خان کی حکومت نے نیوز چینلز کو اشتہار دینا بند کر دیے ہیں جس کے باعث میڈیا بدحالی کا شکار ہو گیا ہے۔ نوکری تو چلی گئی لیکن میں ابھی بھی وہ حکومت جس کو اتنی لمبی قطار میں نیند خراب کر کو ووٹ دیا تھا، الزام ٹھہرانے کو دل مان نہیں رہا تھا۔

اگر میڈیا اتنے سال میں ایک اچھا بزنس ماڈل نہیں بنا سکا تو میں بچاری حکومت کی کیا غلطی؟

چند ماہ گزرنے کی دیر تھی نہ حکومت اپنی کارگردگی دکھا پا رہی تھی نہ میں، نوکری کی تلاش کافی مہینے جاری رہی جس کے بعد ایک نئے لانچ ہوئے ہوئے نجی چینل میں نوکری ملی۔ تنخواہوں کا سلسلہ کچھ ماہ تو ٹھیک رہا مگر پھر سلسلہ امید اور آسروں پر چل نکلا۔ تاریخ، ماہ یا دن کب ملے گی یہ تنخواہ؟ صرف اللہ جانتا تھا۔ تنخواہوں کے نہ ملنے پر ساتھی ورکرز کی جانب سے لعن طعن حکومت کے حصے میں آتی تھی لیکن میں اب بھی اپنے ووٹ کے فیصلے کو غلط ماننے کو تیار نہ تھی، ۔ شاید اب مجھے اپنی امید ٹوٹتی محسوس ہو رہی تھی مگر ہائے یہ ظالم انا! اس کو کو کون سمجھائے، اسے تو اپنا ہر کیا گیا فیصلہ درست ہی لگتا ہے۔

ایک سال بعد یہ چینل بھی بند ہو گیا، چینل بند ہوتے ساتھ ہی پھر سے سیٹھ کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا، لیکن یہ 2020 کی بات ہے کرونا کی لہر پاکستان پہنچ چکی تھی۔ اس مرض نے اگر دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا تو پاکستان کیا چیز ہے؟ اس دفعہ چینل بند ہونے کا قصور وار میرے ذہن نے کورونا کی ٹھہرایا اور حکومت سے جڑی اپنی امید اب بھی نہ ٹوٹنے دی۔

اس دفعہ نوکری ملنے میں تقریباً آٹھ ماہ لگ گئے، ٹی وی سے ڈیجیٹل پر شفٹ کر لیا تاکہ تنخواہوں اور چینلز بند کرنے کا سلسلہ تو ختم ہو۔ نوکری کرتے ہوئے سات ماہ گزر گئے، سیلری بھی ٹائم پر آ رہی ہے، دور دور تک ادارے کے بند ہونے کے بھی کوئی اثار نہیں ہیں۔

اپنے دیے گئے ووٹ پر اعتماد جیسے ہی واپس آنے لگا تو حکومت کی جانب سے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بل کی بازگشت سنائی دی گئی۔ ابھی بل کا ڈرافٹ سامنے نہیں آیا مگر اس خوف کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس مجوزہ قانون کے تحت حکومت کی جانب سے صحافی اور صحافتی اداروں پر سخت جرمانے عائد کیے جاسکیں گے، اور کیا پتہ اگر حکومت کی جانب سے قوانین زیادہ سخت کیے گئے تو بطور صحافی مجھے جیل بھی جانا پڑا؟ جب صحافت میں آئی تھی یہ تو پتہ تھا کہ سچ لکھنے کی قیمت کبھی مہنگی بھی پڑ سکتی ہے (کبھی کبھار غدار، ایجنٹ جیسے لیبل بھی لگ سکتے ہیں ) مگر بھاری جرمانے اور صحافیوں پر بڑھتی ہوئی پابندی کا اندازہ نہ تھا۔ یہ حکومت پتا نہیں پانچ سال پورے کرتی ہے یا نہیں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی ان پالیسیوں کی وجہ سے شاید میں اپنے کرئیر کے پانچ سال پورے نہ کر سکوں۔

اب سوچتی ہوں کہ کاش اس دن میں اتنی لمبی قطار نہ کھڑی ہوئی ہوتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments