جب ریڈیو اہم ہوا کرتا تھا



بچپن کی حسین یادوں میں ایک ریڈیو بھی ہے۔ صبح جب آنکھ کھلتی تو ریڈیو پر حی علی الفلاح کی آواز گونج رہی ہوتی تھی۔ اس کے اختتام پر پڑھا جانے والے درود شریف آج بھی کانوں میں گونجتا ہے۔ اس درود کی آواز میں ابا جی دفتر کے لیے نکتے تھے۔ پھر جو پروگرام لگتا اس میں خبروں پر تبصرے ہوا کرتے تھے جس سے ظاہر ہے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا اور اماں جی کو بھی کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن اس پروگرام کے مختلف ٹکڑوں سے وقت کا اندازہ ہوتا تھا۔ پھر اس کے بعد راولپنڈی میں راول رنگ لگتا لاہور میں راوی رنگ یہ سب میری پرائمری سکول کی عمر کی یادداشتوں میں نقش ہے۔

ریڈیو محض ایک ابلاغی آلہ ہی نہیں پوری ایک تہذیب تھا۔ میرے والدین دیہاتی پس منظر سے تھے سو اگر کوئی لفظ لگتا کہ ہم غلط بولتے ہیں تو ریڈیو سے تصحیح کر لی جاتی۔ ظاہر ہے میرے عہد میں بیشمار بچوں کا بھی ریڈیو سے یہ تعلق تھا لیکن میرے ساتھ معاملہ کچھ الگ ہوا۔ ریڈیو میرے دل سے چپک سا گیا اور ایک رومانس سا بن گیا۔ گھر میں ٹی وی بہت بعد میں آیا اس لیے آواز سے چہرے تراشنے کا ہنر بخوبی سیکھ لیا۔

رات آٹھ بجے کا خبرنامہ سننے کے بعد ایک اور اور ہماری دلچسپی ہوا کرتی تھی عالمی اسپورٹس راؤنڈ اپ جس میں کھیلوں کی خبروں پر تبصرہ اور تجزیہ ہوتا تھا۔ اور ایک ہی فرد تھا جسے کھیلوں کا ریڈیو پر تبصرہ کرنا آتا تھا اس کا نام تھا عظیم سرور۔ جس دن عظیم سرور کھیلوں کی خبروں پر تبصرہ نہ کرتے یوں لگتا تھا آج بس مجبوری ہی ادا ہوئی ہے۔

ریڈیو کا یہ نقش بہت گہرا تھا۔ بہت عرصہ ریڈیو سننے سے بھی محروم رہا لیکن خال خال جب بھی موقع ملتا لازم سنا جاتا۔ یونیورسٹی کے دنوں میں ایک ایف ایم ریڈیو پر براڈکاسٹنگ کا موقع مل گیا۔ اپنی مرضی سے پروگرام کی ڈیزائننگ اور پروڈکشن کی آزادی ملی غزل نائٹ بہت مقبول ہوا سننے والوں نے بہت محبتوں سے نوازا لیکن پھر بھی ریڈیو پاکستان کا ٹھہرا ہوا مستند اور باوقار لہجہ جب بھی سننے کو ملتا تو ایک تشنگی کا احساس رہتا۔ کہ کبھی ریڈیو پاکستان کے میڈیم ویووز پر بھی بولنے کا موقع ملے۔

چند سال پہلے یہ بھی خواہش پوری ہوئی بہت عرصہ تاریخی پروگرام انتخاب کی میزبانی کہ اور پھر رنگ معرفت مل گیا۔ رنگ معرفت میں کئی سلاسل ہوا کرتے ہیں اس میں ایک سلسلہ روشنی بھی ہے جس میں سماجی موضوعات پر مقررین اظہار خیال کیا کرتے ہیں۔ ایک روز اس دن کے روشنی سلسلے کا اعلان کرتے مقرر کا نام پڑھا تو رک سا گیا عظیم سرور اور جب سنا تو معلوم ہوا ارے یہ تو وہی عالمی اسپورٹس راؤنڈ اپ والے عظیم سرور ہیں۔ انہوں نے مدینہ منورہ اور مسجد نبوی حاضری کی داستان سنائی تو دل کیا روح تک سرشار ہو گئی۔ کیسے مسجد نبوی کی سنہری جالیوں پر انہیں خوشبو پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ عظیم سرور ایک بہترین براڈکاسٹر ہی نہیں ایک بہت بڑے انسان بھی تھی۔ مجھے دو بار میرے پروگرام کے بعد فون کیا یعنی وہ مجھ جیسے نوآموز کو بھی سنتے تھے اور اس کی تصحیح بھی کرتے۔

گزشتہ دنوں یہ عظیم براڈکاسٹر اور پاکستان میں اسپورٹس کی تجزیہ کاری کا بانی بھی چل بسا اللہ غریق رحمت کرے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments