ادبی تنقید اور فلسفیانہ اصطلاحات کی تاریخ۔ قسط نمبر 2


کتاب : Poetics

شاعری کے متعلق الہامی نظریات اور شاعر کو متدارک اور متفکر ماننے کے باوجود یونانی فلسفی افلاطون کو فن اور فنکار کی حیثیت سمجھنے میں مغالطہ ہوا۔ افلاطون شاعر کو اپنی مثالی ”ریاست“ میں بیکار اکائی شمار کرتا ہے، شاعر چونکہ طبیعتاً باغی ہوتا ہے اس لئے افلاطون سماج اور شاعر کو متخالف دکھاتا ہے، لیکن فن (شاعری یا مصوری) میں ”نقل“ کا مسئلہ، شاعری کی ”ماہیت“ ، اور شاعری کی ”آفاقیت و مقصدیت“ جیسی بڑی بحثیں چھوڑ جاتا ہے جو ہزار ہا برس کے بعد بھی ہر خطے کی ادبی تنقید کا اہم جزو ہیں۔

ارسطو اپنے استاذ سے قطع نظر مادیت پرست یا اصلیت پسند تھا اس لئے دیوی دیوتاؤں کے مقدس سائے سے منحرف ہو گیا اور شاعر یا شاعری کی حیثیت نہ صرف زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا ہے بلکہ ادبی اصناف کو کھول کھول کے اس طرح بیان کر دیا کہ اس صنف کی ضروری اور غیر ضروری اجزا کی نشان دہی ہو گئی۔ ارسطو دریائے ادب کا ایسا غوطہ زن ثابت ہوا جس کی ژرف نگاہی نے ایسے موضوعات دیکھ لئے جنھیں مستقل ادب کا حصہ بنے رہنا تھا۔ لہٰذا یہ کہنا ہرگز مبالغہ پسندی نہ ہو گا کہ اسی علمی تبحر کی وجہ سے مغرب اور مشرق دونوں نے شاعری، ادب اور فلسفے بالخصوص الحاد میں ارسطو کی انگلی تھام کے چلنا سیکھا؛ اگر Poetics نے مغرب متاثر کیا تو Rhetorics نے مشرق۔

(1)

پہلے اور مختصر باب میں بنیادی بحث ”Imitation یعنی نقل“ کی ہے۔ جسے سب سے افلاطون نے اٹھایا تھا۔ ارسطو بھی یہی کہتا ہے ایپک شاعری، ٹریجڈی (المیہ) ، کامیڈی (مزاح) ، Dythirambic Poetry (یہ ایسا مذہبی کام ہے جس میں یونانی خدا Dionysus کی حمد لکھی گئی ہے ) ، اور بانسری ان سب میں قدر مشترک شے ”Imitation“ ہے۔ البتہ ان کے تخلیق کے محرکات مختلف ہیں۔

(2)

دوسرا باب پہلے باب کی تشریح و توضیح ہے۔ ادب Imitation ہی کا دوسرا نام ہے جس میں حقیقی انسانی کے اعمال/حرکات کی نقل دکھائی جاتی ہے۔ یہ اعمال ”بد“ ہوتے ہیں یا ”نیک۔“ نیک کی نقل ٹریجڈی میں دکھائی جائے گی اور ”بد“ کی کامیڈی میں، ارسطو ٹریجڈی اور کامیڈی میں فرق اس طرح کرتا ہے کہ

”This difference is that which distinguishes Tragedy and Comedy also; the one would make its personages worse, and the other better than the men of the present day.“

(3)

اس باب میں نقل کے محرکات بیان کیے گئے ہیں، اس باب کو آپ Etymology of Drama کا نام دے سکتے ہیں۔ ارسطو کہتا ہے 1۔ نقل کا عمل ایک ہی Medium کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سے مختلف کردار فرض کر کے پیش کی جا سکتی ہے (ہومر نے یہی طریقہ برتا) ۔ 2۔ کسی بھی تبدیلی کے بغیر اپنا موقف یا اپنی ہی بات کو پیش کر کے بھی نقل کا عمل ممکن ہے۔ اور یہ نقل 3۔ ڈرامائی طریقے پر عمل کرتے ہوئے بھی پیش کی جا سکتی ہے۔

‏Sophocles اور Homer نقل میں نیک خیالی کردار متعارف کرواتے ہیں، Aristophanes انسانوں کو کام/عمل کرنے والی حالت میں پیش کرتا ہے اسی وجہ سے اس کی تصانیف ڈرامہ کہا جاتا ہے۔

(4)

چوتھے باب کا آغاز شاعری کے لئے تمہیدی زمین بنانے ہوئے ہوتا ہے اور انسان اور حیوان میں بنیادی فرق کو پیش کرتے ہیں یعنی

”Imitation is natural to man from childhood, one of his advantages over the lower animal being this, that he is most imitative creature of the world and learns his earliest lesson by imitations.

دوسرا یہ انسان اس ”نقل“ سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے کیونکہ نقل علم اور فہم معاملات دونوں عطا کرتی ہے۔ ارسطو نفسیاتی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے گزر جاتا ہے کہ جب کوئی ”نقل“ انسان دیکھتا ہے یا پڑھتا ہے تو وہ اس میں استعمال ہونے والے کردار اور میڈیم کو اپنی عقل سے پہچاننے کی کوشش کرتا ہے اگر شناساں ہو تو انسانی جبلت مسرت محسوس کرتی ہے جبکہ دوسری صورت میں یعنی اگر ”نقل“ کی گئی چیز سے واقف نہ ہو تو لطف کی وجوہات عمل، رنگ اور دوسرے اسباب بن جاتے ہیں۔

کامیڈی اور ٹریجڈی میں فرق پیش کیا جیسا کہ پچھلے باب میں تھا، ٹریجڈی میں سنجیدہ، شائستہ اعمال اور اعلیٰ اقدار والے لوگوں کی نقل پیش کی جاتی ہے دوسرا اس کے متضاد افراد کی نقل ہوتی ہے۔ یہ دونوں اصناف شاعری میں ہی ظہور پذیر ہوئیں یعنی ٹریجڈی کی ابتدا Dithyrambic حمدیہ گیتوں سے ہوئی اور دوسری کا آغاز ”فیلک“ سے ہوا لیکن بعد میں Iambic بحر میں دونوں کو برتا گیا کیونکہ یہ بحر مکالمے کے لئے زیادہ موزوں ہے۔

(5)

اس باب میں ٹریجڈی اور کامیڈی کا موازنہ کیا گیا ہے، ادنیٰ اور اعلیٰ کردار کی Imitation ایک خصوصیت ہے تو ارسطو کامیڈی سے بیزاری کی دوسری وجہ اس صنف میں موجود sense of ridiculous کو قرار دیتا ہے۔ یہ مضحک احساسات سے مراد یہ نہیں کہ کردار بدی کے مرتکب ہوتے ہیں یا بدصورت ہیں بلکہ یہاں مترجم کی رائے قابل غور ہے :

”Aristotle considers this a defect or shortcoming which produce laughter.“

اس کے بر عکس ارسطو ٹریجڈی کے لئے راہیں سبط کرتے دکھائی دیتے ہیں، یہاں Epic اور ٹریجڈی کی مماثلت اور فرق بتاتے ہیں کہ دونوں میں ایک ہی بحر استعمال ہوتی ہے۔ طوالت ایک فرق ہے لیکن چونکہ ادب مابعد جدیدیت کے کینوس پہ چیزیں پرکھا جا رہا ہے تو اس شے کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔

(6)

اس باب میں بتائی گئی ٹریجڈی کی تعریف ہر دور میں ادب کے مخلص طالب علموں کو ازبر ہوتی ہے، ارسطو تدوین کرتا ہے کہ ٹریجڈی ایسے عمل کی imitation ہے جو سنجیدہ اور گمبھیر ہو۔ مکمل اور بامعنی ہو۔ اسے فنی اصطلاحات سے مزین کیا گیا ہو، افسانے سے بہتر یہ ہے کہ اسے عمل کی شکل میں پیش کیا جائے اور یہ حالات و واقعات ہر انسان کے اندر ترس اور خوف کے جذبات پیدا کریں۔ ٹر یخیڈی کو فنی اصطلاحات سے مزین کرنے سے مراد یہ ہے کہ باوزن شاعری ہو اور اس میں موسیقی یا گیت ہوں یعنی ڈرامے کا کچھ حصہ منظم مصرعوں میں لکھے گئے باقی گیت یا کورس میں۔

ارسطو نقل کو تماشے کی جان قرار دیتے ہیں، گیت یا کورس کو طرز ادا سے مزین ہونا ضروری سمجھتا ہے۔ یہی دو عناصر ٹریجڈی کا پلاٹ ترتیب دیتے ہیں۔

ارسطو اس کے بعد ٹریجڈی کے اہم عناصر اور ان کی تشریحات ترجیحی بنیادوں پہ رقم کرتے ہیں مثلاً (1) پلاٹ کو ٹریجڈی کی رگوں میں گردش کرنے والا خون کہتا ہے کیونکہ عمل کی نقل اور ٹریجڈی کے مقصد کو اسی چیز میں پوشیدہ رکھا گیا ہوتا ہے۔ اسی طرح (2) کردار کے بغیر پلاٹ بے جان ہے۔ اسے ارسطو نے ایک پینٹنگ سے سمجھایا ہے یعنی کتنے ہی دلکش رنگ کینوس پہ کیوں ناں پھینک دیں جب تک ان کا استعمال درست نہیں ہو گا وہ بدصورت دکھائی دیں گے۔

The first essential, the life and soul, so to speak, of Tragedy is the plot; and the characters comes second. compare the parallel in painting, where the most beautiful colours laid on without order will not give one the same pleasure as a simple black and white sketch of a portrait.

اس کے بعد (3) ”خیال“ کو تیسرے نمبر پر ترجیح دی گئی ہے، ہر scene کو برمحل برتا گیا ہو۔ اس کے بعد طرز تحریر یا (4) diction کو لے لیجئیے زبان و بیان کو درست استعمال کرتے ہوئے بامعنی اور گہرے الفاظ کی مالا پرونی چاہیے۔ یہ شے نظم اور نثر دونوں میں یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ (5) موسیقی یا گیت تفریح بخش ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرامہ کو توجہ طلب کر دیتا ہے۔ (6) آخر میں اسٹیج یا سیٹ بنانے والے ہیں۔ ڈرامہ نگار سے زیادہ کٹھن کام ڈرامہ پیش کرنے والے کرتے ہیں جو ایک کہانی کو اگر اسی طرح پیش نہ کر پائے جس طرح مصنف نے تحریر کی ہے تو سب کچھ رائیگاں جائے گا۔

(7)

یہ باب پلاٹ کو تبسط بخشتا ہے، ارسطو کہتے ہیں پلاٹ کے تین اہم جزو ہیں، آغاز، وسط climax اور خاتمہ۔ (یوں تو ارسطو کا ہر نظریہ آج تک کسی نہ کسی طرح قائم دائم ہے مگر یہ بطور خاص جوں کا توں ہی ہے ) پلاٹ کی طوالت کے بارے میں ان کا قول انتہائی غیر معمولی ہے ہر خوبصورت اور دلچسپ چیز اپنے magnitude کی وجہ سے دلچسپ یا خوبصورت ہوتی ہے۔ یعنی ایسی چیز کیسے خوبصورت ہو سکتی ہے جو اتنی دقیق ہو کہ اسے عام آنکھ دیکھ ہی نہ سکے، اب گویا اس پر کتنا ہی باریک اور عمدہ کام ہوا ہو بیکار ہو گا۔ اسی طرح اگر ایک چیز بہت لمبی اور بڑی ہو جو ایک بار بینائی کے کینوس پہ نہ آئے وہ بھی اپنی جاذبیت کھو دیتی ہے پس حسن کے لئے توازن ضروری ہے۔ پلاٹ بھی مناسب وسعت اور پھیلاؤ پہ مشتمل ہونا چاہیے تاکہ حافظے میں رہ جائے۔

(دلچسپ نقطہ دیکھیں جو آج کل کے طویل season کا اہم حصہ ہیں ) ارسطو کہتا ہے اگر قصہ طویل کرنا مقصود ہو تو اسے غیر واضح، مبہم اور تجسس کے ساتھ پیش کیا جائے اور scenes کو اتنا طول دیا جائے کہ ضرورت کے مطابق اس میں تبدیلی کی جا سکے یوں نہ تو تماشائی دلچسپی کھوئیں گے نہ کہانی بھلائی جا سکے گی۔

(8)

ایک متحد پلاٹ کیسا ہوتا ہے اس میں مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ ایک شخص کی زندگی مختلف واقعات اور حالتوں میں گزرتی ہے لہٰذا ٹریجڈی کا پلاٹ تقاضا کرتا ہے کہ ان واقعات میں ربط ہو جو ایک مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں۔ اس کی ترتیب ایسی ہونی چاہیے کہ ان میں سے ایک واقعہ یا منظر بھی ہٹایا جائے تو پورے پلاٹ (کہانی) کی وحدت یا اتحاد کو ٹھیس پہنچے کیونکہ اگر کسی چیز کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تو یہ چیز اس پلاٹ کا غیر ضروری حصہ ہے۔

”Transposal or withdrawal of any of them will disjoin and dislocate the whole. For that which makes no perceptible change by its presence or absence is no real part of the whole.“

(9)

یہ باب شاعری اور تاریخ کے موازنے سے آغاز ہوتا ہے، ارسطو کہتا ہے شاعر حقیقت کو من و عن بیان نہیں کرتا بلکہ وہ ایسی حقیقتوں کا انکشاف کرتا ہے جو کہ ممکنہ طور پہ ہو سکتی ہیں۔ تاریخ کا تعلق گزرے ہوئے مخصوص واقعات و سانحات سے ہے جو گزر چکے ہیں جبکہ شاعری وہ چیزیں بیان کرتی ہے جو سکتی ہیں۔ شاعر اور مورخ میں معمولی فرق نظم اور نثر کا بھی ہے لیکن شاعری آفاقی صداقتوں کی امین ہوتی ہے جبکہ تاریخ مخصوص واقعات کی روداد یا تفصیل جس میں تعصب ضرور ہوتا ہے۔ بہ ہر حال اس چیز سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شاعری، تاریخ کی نسبت زیادہ اہم اور فلسفیانہ ہے۔

”Hence poetry is something more philosophical and of higher significance than history“

شاعری میں یہ بتایا جاتا ہے کہ خاص اشخاص خاص حالات میں کیا عمل کریں گے، یہی آفاقی صداقت کہلائے گی۔ ایک شاعر نقال ہوتا ہے اس لئے اسے شعر سے زیادہ پلاٹ کی تدوین و ترتیب کو مدنظر رکھنا چاہیے، اور اگر وہ گزرے ہوئے واقعات کے بارے میں لکھتا ہے تو اس سے وہ کم درجے کا شاعر نہیں ہو جاتا کیونکہ ان واقعات کو ازسر نو امکان اور قیاس کے ساتھ دوبارہ ترتیب دینا کوئی معیوب بات نہیں، شاعر ایسا کرنے کے بعد بھی شاعر ہی ہوتا ہے۔ ارسطو یہاں سب ٹریجڈیوں کے مشترکہ اثر کی طرف اشارہ کرتے گزر جاتا ہے، ترس اور خوف۔ کیونکہ جو چیز عمل کی نقل ہے وہ ایسے اثرات ضرور پیدا کرتی ہے۔ اس اثر کو واقعات کا منطقی تسلسل اور بامعنی زبان مزید بڑھا دے گی۔

(10)

پلاٹ سادہ اور پیچیدہ دو اقسام پہ مشتمل ہوتا ہے، سادہ سے مراد ایسا قصہ جس میں fate کسی سانحے یا انکشاف کے بغیر تبدیل ہو جائے جبکہ پیچیدہ پلاٹ دو چیزوں کی وجہ سے اپنے آپ کو جاوداں کر لیتا ہے۔

1۔ peripety
2۔ انکشاف discovery

یہی دو چیزوں کی وجہ سے ایک مثالی انسان مصیبت کے جال میں جکڑا جاتا ہے جو کہ کسی بھی ٹریجڈی کا اہم ترین حصہ ہے جس نے انسانی احساس کو ابھارنا ہے اور اس حد پر لے آنا ہے کہ اس کی ذات کا مثبت تبدیلی ہو جائے۔

جاری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments