پشتو فکشن کی خاتون اول بھی چل بسی!


2016 میں، پائیدار ترقیاتی اہداف کے ایک پینل نے خیبر میں خواتین کے حقوق کے لئے ان کی خدمات کے اعتراف میں خواتین کے عالمی دن کے جشن کے موقع پر انہیں اعزازی خطاب ”پشتو فکشن کی خاتون اول“ سے نوازا تھا۔

زیتون بانو اٹھارہ جون 1938 کو پیر سید سلطان محمود شاہ کے گھر پشاور کے ایک گاؤں سپینہ وڑئی میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے تاج سعید سے شادی کی اور وہ پشتو شاعر پیر سید عبدالقدوس کی پوتی تھیں وہ ایک ماہر نسواں مصنف، شاعرہ، اور سابق براڈکاسٹر تھیں۔ وہ بنیادی طور پر پشتو اور اردو زبانوں میں لکھتی رہیں۔ انہوں نے چوبیس سے زیادہ کتابیں لکھیں جن میں ہندارا (آئینہ) کے عنوان سے اپنی پہلی مختصر کہانی شامل ہے جو پشتو زبان کی نمایاں تحریروں میں سے ایک ہے۔

مرحومہ زیتون بانو نے پرائمری اور میٹرک کی تعلیم شہر ہی کے ایک اسکول سے حاصل کی، اور اس کے بعد پرائیویٹ تعلیم حاصل کرتے ہوئے اسلامیہ کالج یونیورسٹی سے پشتو اور اردو میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ، وہ مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھاتی رہیں، اور بعد میں ریڈیو پاکستان میں شامل ہو گئیں جہاں انہوں نے بطور پروڈیوسر خدمات انجام دیں۔ تصنیف نگاری شروع کرنے سے پہلے وہ ریڈیو پاکستان اور سرکاری ٹیلی ویژن چینل پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن سے وابستہ رہیں۔

محترمہ زیتون بانو نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز 1958 میں اس وقت کیا جب انھوں نے ہندارا (آئینہ) کے عنوان سے پہلی مختصر کہانی لکھی۔ اس وقت وہ نویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ 1958 سے 2008 کے درمیان، اس نے اردو اور پشتو زبانوں میں افسانوں کی کتابیں اور مختصر کہانیاں لکھیں۔ جس میں مات بنگری، خوبونا ( 1958 ) ، جوندی غمونا ( 1958 ) ، برگ آرزو ( 1980 ) اور وقت کی دہلیز پر ( 1980 ) زما ڈائری اور خوبونو سلے شامل ہیں۔

دیگر اشاعتوں میں، دشگو مزل کے عنوان سے ایک مختصر کہانیاں 1958 اور 2017 کے درمیان لکھی گئی کہانیوں کے گرد گھوم رہی ہیں۔ اس نے پشتو میں منجیلا کے عنوان سے صرف ایک شعری مجموعہ 2006 میں شائع کیا تھا۔ لکھنے لکھانے کے ساتھ ساتھ ان کو بے شمار ریڈیو اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں حصہ لینے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

زیتون بانو کو کم و بیش پندرہ قومی ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا جس میں پرائیڈ آف پرفارمنس اور فخر پشاور ایوارڈ پشتو اور اردو افسانوں میں ان کی شراکت اور اسلام آباد پشتو ادبی سوسائٹی کے زیر اہتمام ان کے اعزاز میں اعتراف بھی شامل ہیں۔

زیتون بانو پہلی خاتون لکھاری ہیں جنھوں نے پشتونوں کے جیسے سخت گیر معاشرے میں خواتین کی معاشرتی اور گھریلو مسائل کو بڑی جرات اور بہادری کے ساتھ پیش کیا۔ خصوصاً جس زمانے میں ایسے اظہارات پر سخت پابندیاں ہوا کرتی تھیں۔ جن موضوعات کا 1958 ء میں زیتون بانو کا پہلا افسانوی مجموعہ جوندی غمونہ ”اندوہ حیات“ سامنے آیا اور اس وقت سے لے کر آج تک زیتون بانو کا ادبی سفر تسلسل سے جاری و ساری رہا۔ انھوں نے خواتین مسائل کے ساتھ ساتھ پشتون معاشرے کے مردانہ حالت زار پر بھی بے باکانہ قلم اٹھایا۔

زیتون بانو اردو پشتو کے معروف لکھاری۔ زیتون بانو نے پشتو ادب کی نئی نسل کی خواتین لکھاریوں کو متاثر کیا اور ان کو ایک منٹور کی حیثیت سے مانتی تھی۔ انھوں نے وہ مسائل اپنے افسانوں میں زیر بحث لائے جو اس سے پہلے کوئی نہ لا سکے اس لحاظ سے پشتو افسانہ میں اس نئی ٹرینڈ کی وجہ سے ان کو رجحان ساز اور انقلابی بھی گردانا جاتا تھا۔ زیتون بانو کے افسانے کسی بھی عالمی سطح پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں نسائیت اور مزاحمت کی بھر پور عکاسی کی ہے۔

زیتون بانو کے ناول ”برگ آرزو“ کا تنقیدی جائزہ کے مقالے میں شاہین بیگم پرنسپل باچا خان گرلز ڈگری کالج پشاور رقم طراز ہے کہ اردو ناول نگاری میں خواتین کے نام ایک اہم ادبی روایت کا درجہ رکھتے ہیں۔ خاص طور پر وہ خواتین ناول نگار جنہوں نے عورت کے مسائل کو بنیادی اہمیت دی، جن میں خدیجہ مستور، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، رضیہ فصیح احمد، سیدہ زاہدہ حنا اور زیتون بانو شامل ہیں۔ ان میں سے چند نام ایسے بھی ہیں جن کا تعلق صوبہ ٔ خیبر پختونخوا سے ہے۔

زیتون بانو کا نام اگر چہ پشتو ادب کی دنیا میں شہرت رکھتا ہے لیکن انھوں نے اردو زبان میں بھی ایک ناول لکھا ہے۔ جو ”برگ آرزو“ کے نام سے ہفت روزہ تقاضے لاہور میں چھپ چکا ہے

برگ آرزو 1986 ؁ ء میں اردو میں شائع ہوا یہ پشاور ٹیلی وژن پر ”دھول“ کے نام سے ڈرامے کی صورت میں قسط وار پیش ہو چکا ہے۔ زیتون بانو کے بقول زندگی خواہش کی نا تمامی اور تمنا کے مٹ جانے پہ قربان ہونے کا نام ہے اسی وجہ سے یہ کہانی رسومات کے نام پر مجبور اور بے بس لوگوں کے ہاں خودکشی کے احساس کو ابھارتی ہے اس کے اندر ایک طرف انسانی قدروں کی سسکیاں موجود ہیں تو دوسری طرف نام نہاد ثقافت اور منفی انا کی تسکین کی خاطر زندگی لٹانے کے حوالے بھی پائے جاتے ہیں۔

برگ آرزو ایک ایسے معاشرے کی کہانی ہے۔ جہاں لڑکیوں کی شادی کے معاملے میں ان سے پوچھ گچھ کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی بلکہ ایک لڑکی منگنی کے بندھن میں اس وقت بندھ جاتی ہے جب اسے اس رشتے کے تقدس کا شعور حاصل نہیں ہوتا۔ اور پھر آہستہ آہستہ جوان ہوتے ہوتے اسے پتہ چل جا تا ہے کہ اسے کس کے ساتھ باندھا گیا ہے ۔ ایسی صورت میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک معیار پر پورا نہیں اترتا اور یوں جوان ہوتے ہی انہیں ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اردو میں افسانہ اور ناول لکھنے والی خواتین میں ایک چیز قدر مشترک کے طور پر ابھرتی ہے اور وہ ہے ایک خاص ذہنی سطح کے ساتھ عورت کی مظلومیت کا نوحہ لکھنا۔ عورت کی مظلومیت کے نوحے لکھنے میں یقیناً خواتین ادیب حق بجانب بھی ہیں۔ کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ باوجود روشن خیالی کے ہمارا معاشرہ تا حال ایک خاص قسم کے جمود کا شکار ہے۔ جس کی شاید ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ معاشرہ مکمل طور پر مرد کے حصار میں جکڑا ہوا ہے یہی بات بانو مختلف زاویوں سے دیکھتی اور سمجھاتی نظر آتی ہے۔ دوسرے پدرشاہی معاشروں کی طرح پشتون معاشرہ بھی سخت پدرانہ اقدار میں جکڑا ہوا ہے۔ اور یہاں بھی زندگی کی دوڑ میں عورت مرد سے کہیں زیادہ فاصلے پر پیچھے پیچھے چلی آ رہی ہے

فکری حوالوں کے ساتھ ساتھ فنی اعتبار سے بھی ناول میں کئی ایک خوبیاں موجود ہیں مثلاً اس کا پلاٹ منظم اور گتھا ہوا ہے۔ تجسس کی فضا شروع سے لے کر اخیر تک قائم ہے واقعات کا اتار چڑھاؤ کہانی میں دلچسپی کا عنصر پیدا کرتا ہے عروج پر پہنچتے پہنچتے حالات و واقعات پہلو بدل کر ناول کی کہانی کو نیا رخ دے دیتے ہیں واقعات بالکل فطری انداز میں پیچیدگی اختیار کرتے ہیں۔ تاثر پیدا کرنے کے لئے واقعات کو زبردستی الجھایا نہیں گیا آخر میں ناول کا المیہ انجام ناول کے تاثر کو بڑھاوا دیتا ہے۔

دراصل برگ آرزو واقعات کا نہیں واردات کا ناول ہے اس میں کہانی تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کی تصویریں بھی ہیں ان تصویروں میں فوٹو جیسی نقالی نہیں ہے بلکہ ایسا ہے کہ اس پہ حقیقت کا گمان ہوتا ہے اور یہ واقعی پختونخوا کی حقیقی کہانیوں میں ایک کہانی ہے

” برگ آرزو“ پر علامتی رنگ بھی غالب ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا ہر کردار ایک بھر پور علامت بن کر سامنے آتا ہے جیسے زیبو اور جاوید خیر کی علامت ہے اور شفیق زیبو کا منگیتر شر کی علامت۔

” زیتون بانو کے فن کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسے جہاں بات کہنے کا سلیقہ آتا ہے وہاں وہ بات چھپانے کا گر بھی جانتی ہے“

”برگ آرزو“ میں منظر نگاری کے بعض ایسے دلکش نمونے ملتے ہیں۔ ناول ”برگ آرزو“ میں اس حسین خطہ کی پھولوں کی خوشبو بھی ہے اور مضبوط ہاتھوں میں تھامے ہوئے تلوار بھی۔ فطری مناظر کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ ناول میں انسانی جذبات کی محاکات نگاری بھی کمال کی ہوئی ہے۔ قربانی اور ایثار کا جذبہ، غصہ، نفرت، عداوت اور محبت جیسے جذبات بڑی کامیابی کے ساتھ مختلف کرداروں کے روپ میں مجسم ہو کر سامنے آئے ہیں اور انہیں الفاظ کا خوبصورت پیکر ملا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہات کے لوگوں کے ہاں مذہبی جذبات اور رسومات اور عبادات اور دوسرے مذہبی مشاغل او ر جذبات کا اظہار ناول میں کامیابی کے ساتھ ہوا ہے۔ بعض مقامات پر دیہاتی زندگی کے حقیقت پسندانہ رنگ بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیے گئے ہیں۔

برگ آرزو میں موقع کی مناسبت سے ایسی منظر کشی کی گئی ہے۔ کہ کرداروں اور ناول کی مجموعی صورت حال سے اس کا ربط بالکل قدرتی اور نہایت فطری و داخلی معلوم ہوتا ہے۔ منظر نگاری میں بانو کو کمال حاصل ہے۔ وہ الفاظ کا بے پناہ ذخیرہ منظر نگاری پر صرف کرتی ہے۔ کبھی کبھی یہ مناظر اتنے طویل ہو جاتے ہیں۔ کہ اکتا ہٹ سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے ناول کی فضا ٹھہر گئی ہو۔ لیکن طویل منظر نگاری کے مرحلے سے جب ناول حقائق زندگی سے پردہ اٹھاتا ہے۔ تو قاری کی اکتاہٹ دلچسپی میں بدل جاتی ہے۔

بانو نے اس ناول میں علاقائی ثقافت اور روایات پیش کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ پختون کیا سوچتے ہیں کیا محسوس کرتے ہیں؟ ان کی دوستی کیا ہے اور دشمنی کس نوعیت کیا ہے؟ وعدے کا مقام ان کے لئے ایمان کی طرح کیوں ہے۔ ؟ غیرت کا تصور ان کے ہاں کیا ہے؟ محبت اور نفرت میں کس حد تک جاتے ہیں۔ مہمان نواز ہیں مگر اپنی ضد کے پکے ہیں جان دیتے ہیں مگر اپنی بات سے ہٹنا ان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ بانو نے ان حقائق پر لکھا اور خوب لکھا۔

برگ آرزو اپنی معنویت کے اعتبار سے معاشرے کی گردوغبار سے جنم لینے والی حقیقت ہے جو گرد و پیش میں زندگی کے خد و خال کو لپیٹ کر زندگی کے آلام و مصائب کو نمایاں کرتی ہے اس میں محض زندگی کی بے یقینوں کی داستانیں رقم نہیں ہیں بلکہ وہ پہلو بھی ہیں جو زندگی کو نہ صرف ناقابل برداشت بناتے ہیں بلکہ بعض مثالی پہلوؤں کو بھی اس طرح ابھارتے ہیں کہ زندگی گزارنے کا حوصلہ بیدار ہوتا ہے اور عزائم کی دنیا پر نئی بہار آتی ہے۔

تمناؤں کی شاخوں پر نشاط و مسرت کے پھول کھلنے لگتے ہیں اور حیات کے ملال دبے دبے سے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ ناول اپنی ساخت اور ہئیت کے حوالے سے جدت کا کوئی دریچہ وا کرتے نہیں دکھائی دیتا لیکن اس کی داخلی فضا اس قدر مربوط مناسب اور پشتون ثقافت میں رچی بسی ہوئی ہے کہ پڑھتے ہوئے ایک تازگی اور تازہ کاری کا احساس ہوتا ہے۔ قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی فضا میں آ گیا ہے جہاں عدم تحفظ کی آندھیاں چلتی رہتی ہیں۔

لیکن رشتوں کا اعتبار کسی نہ کسی صدا پر بے یقینی کی اس کیفیت کو کم سطح پر لے جاتا رہتا ہے اس ناول کا پلاٹ تناسب سے عبارت ہے اس کے کردار اپنی سچائی کے مابین کسی تصنع اور معنویت کو آنے نہیں دیتے اس کی زبان محبت کی زبان ہے اور اس کا مقصد حیات بڑا واضح اور غیر مہم ہے۔ یہ ناول پوری ہنرمندی کے ساتھ اپنے موضوع کو اول تا آخر نبھاتا ہے جو ایک قابل ستائش حوالہ ہے۔ لیکن زندگی ایک نہ ایک دن ختم ہونے والی ہے لیکن ایک لکھاری اپنی تحریروں میں زندہ رہتا ہے گو کہ بظاہر زیتون بانو آج تریاسی سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئی پر وہ اپنی تخلیق کی وجہ سے اپنے قارئین کے دلوں میں رہتی دنیا تک زندہ رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments