فلمی الف لیٰلی


کچھ دن پہلے ایک بڑی دلچسپ خبر آئی کہ بالی ووڈ کے شہنشاہ کہلانے والے امیتابھ بچن کو کوئی ساٹھ فلمیں ضائع ہونے سے بچانے پر ایک اعزاز دیا گیا ہے یہ فلمیں ان کے ممبئی میں ایک فلیٹ میں محفوظ کر کے رکھی گئی تھیں اور امیتابھ نے یہ کام اس لیے کیا کہ کہ وہ یہ جان کراس وقت غصے میں آ گئے تھے کہ جب انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنے پسندیدہ اداکار دلیپ کمار کے ابتدائی دور کی فلمیں اس لیے نہیں دیکھ سکتے کہ اب ان فلموں کا کوئی پرنٹ یا نیگیٹیو باقی نہیں رہا ہے۔

دراصل فلم اور فلموں کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں اتنی آگاہی نہیں ہے۔ اس لیے کئی فلمیں ایسی ہیں جو اب ناپید ہو چکی ہیں۔ اگر ہم آپ کو یہ بتائیں کہ سنء انیس سو اکتیس میں بننے والی ہندوستان کی پہلی بولتی فلم عالم آرا اس وقت ناپید ہو چکی ہے اور اس کا کوئی پرنٹ، ساؤنڈ ٹریک نہیں بچا ہے تو آپ یقین کر لیں گے کہ بھئی اس زمانے میں فلم کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے اتنی سہولیات اور آگاہی کا فقدان تھا لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ سن ء دو ہزار نو میں بننے والی فلم ”ماگا دھیرا“ کا بھی صرف چھ سالوں بعد کوئی پرنٹ یا اصلی نیگیٹو باقی نہیں بچا ہے تو آپ کو یہ سن کر یقیناً یقین نہیں آ رہا ہو گا کہ اس جدید دور میں بھی بھلا ایسا ہو سکتا ہے لیکن ایسا ہی ہوا ہے۔

جب کہ دوسری طرف اگر آپ سن اسی کی دہائی میں بننے والی امریکی ڈرامہ سیریز ”چئیرز“ یا سنء نوے کی دہائی میں بننے والے ڈرامہ سیریز ”فرینڈرز“ دیکھیں تو یہ دونوں ڈرامے اور ان کے علاوہ کئی دیگر ڈرامے آج انتہائی زیادہ تفصیلی ویڈیو ( ایچ ڈی) میں بڑی تصویر (وائیڈ سکرین یعنی 16 : 9 ) کی شرح کی تصویر کے ساتھ ملیں گے۔ یا دوسرے الفاظ میں آپ کو اب ان ڈراموں کا کوئی بھی منظر زیادہ بڑی تصویر اور اداکاروں کے ادر گرد کے منظرکی زیادہ تفصیلات کے ساتھ نظر آئے گا تو یہ جان کر آپ کے ذہن میں یہ سوال لازمی ابھرے گا کہ یہ ڈرامے تو جس وقت نشر اور تیار ہوئے تھے تو اس وقت تو ایچ ڈی جیسی کسی چیز کا وجود بھی نہیں تھا اور یہ ڈرامے اس وقت عام ٹیوب والی ٹی وی پر وی سی آر کے جیسے معیار والی ”ایس ڈی ویڈیو“ میں نشر ہوا کرتے تھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جس قسم کی ویڈیو (ایچ ڈی) اس زمانے میں موجود ہی نہیں تھی، تو ایچ ڈی سے تیس چالیس سال پہلے بننے والی فلموں اور ڈراموں کی ویڈیو ایچ ڈی میں کیسے بن گئیں۔

اور کیسے ان کے رنگ اور تصویر کا معیار دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ڈرامے اور فلمیں ابھی ایک آدھ سال پہلے ہی بنے ہوں۔ اب یہ پڑھ کر آپ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ بھلا پچاس ساٹھ سال پہلے جس ٹیکنالوجی کے ساتھ یہ فلمیں اور ڈرامے تیار کیے گئے تھے، وہ ایچ ڈی جیسی ویڈیو دینے کے قابل کیسے ہو گئی تھی اور اگر ایسا ہی تھا تو پھر ایچ ڈی پچاس ساٹھ سال پہلے کیوں نہ متعارف کرائی گئی تھی۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ امریکا میں ڈرامے آج بھی سیلولائیڈ فلم پر ہی ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور بعد میں وی سی آر کے معیار والی ایس ڈی یا آج کل ایچ ڈی ویڈیو پر منتقل کر کے نشر کر دیے جاتے ہیں۔ یہ پروگرام عوام کے لیے پہلے ویڈیو کیسٹ میں اور اب ڈی وی ڈی اور بلورے ڈسک پر جاری کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن اصل سیلولائیڈ فلم مستقبل کے لیے محفوظ رکھ لے جاتی ہے۔ آپ یقیناً حیران ہو رہے ہوں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے اور کیوں یہ دوہرا انتظام کیا جاتا ہے جبکہ پروگرام نشر تو ٹی وی پر ہوتے ہیں، تو فلم پر انہیں کیوں ریکارڈ کیا جاتا ہے تو اس کا جواب دینے کے لیے آپ کو تاریخ کے جھروکے میں جھانکنا ہو گا کہ اسی سے اس پراسرار معمے کا جواب مل پائے گا اور وہ جواب یہ ہے کہ اگر آپ نے ٹیلی ویژن کی تاریخ پڑھی ہو تو آپ کو یاد ہو گا کہ اس میں یہ بھی بیان کیا گیا ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں ٹی وی کے لیے پروگرام سینیماء کی سیلولائیڈ فلم پر تیار کیے جاتے تھے اور پھر جس وقت ان ڈراموں وغیرہ کو نشر کرنا ہوتا تھا تو اس وقت یہ فلم ایک ایسے پروجیکٹر پر چلائی جاتی تھی جو ان ڈراموں کو پردہ سکرین کی بجائے ٹی وی کے سگنلوں کی صورت میں نشر کر دیتا تھا۔

بعد میں جب سن ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ابتدائی وی سی آر آئے تو پاکستان اور دیگر ممالک میں تو ٹی وی کے پروگرام مقناطیسی فیتے پر ریکارڈ کرنے کا چلن شروع ہو گیا لیکن امریکہ میں یہ رواج قائم رہا کہ ٹی وی ڈرامے اور اہم واقعات کی فلمیں پہلے سلیولائیڈ فلم پر ریکارڈ کر کے وہاں سے مقناطیسی فیتے پر منتقل کر کے نشر کیے جاتے لیکن اصلی سیلولائیڈ فلم کو محفوظ رکھ لیا جاتا۔ اور اگر آپ یہ پڑھ کر حیران ہو رہے ہوں تو اس پر اگر ہم یہ بتائیں کہ امریکی لائبریری آف کانگریس جوہر سال امریکی ثقافت اور روایت وغیرہ کے حوالے سے اہم قرار دی جانے والی فلموں کو اپنی لائبریری میں محفوظ کرتی ہے اور اس کام کے لیے لائبریری تجویز اور فوقیت اسی بات کو دیتی ہے کہ اس کے پاس فلم کے اصل نیگیٹیو اور پرنٹ جمع کرائے جائیں، تو آپ یقیناً مزید حیران و پریشان رہ جائیں گے کہ چلو ویڈیو کیسٹ کی مقناطیسی پٹی پر تو سیلو لائیڈ فلم کو ترجیح دینے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے لیکن موجودہ جدید دور میں ڈیجیٹل ایچ ڈی کے مقابلے میں سیلولائیڈ فلم کا بھلا کیا مقابلہ۔ یہ تو راجہ بھوج کے مقابلے میں گنگو تیلی کو اہمیت دینے والی بات ہوئی۔ بھلا سن ء اٹھارہ سو چھپن میں ایجاد اور سن انیس سو دس کی دہائی میں بڑے پیمانے پر مستعمل ہونے والی سیلولائیڈ فلم کو آج کل کے جدید ڈیجیٹل میموری کارڈ وغیرہ پر کیوں ترجیح دی جا رہی ہے۔ تو اس کی وجوہات کچھ یہ ہیں۔

• ویڈیو کیسٹ کا مقناطیسی فیتہ یا بلو رے ڈسک لمبے عرصے کے لیے ویڈیو محفوظ کرنے کا قابل بھروسا ذریعہ نہیں سمجھے جاتے ہیں۔

• سیلولائیڈ فلم پر آج کے انتہائی جدید ڈیجیٹل ذرائع سے بھی کہیں زیادہ تفصیلی اور واضح تصاویر آتی ہیں۔ چاہے اس مقصد کے لیے ڈیجیٹل کیمرا استعمال کیا جائے یا نہ کیا جائے۔

• یہ تو ٹھیک ہے کہ اگر سیلولائیڈ فلم کو عام کمرے کے درجۂ حرارت پر رکھا جائے تو وہ چند دہائیوں بعد خراب ہو جاتی ہے لیکن اگر سیلولائیڈ فلم یا نیگیٹیو کو منفی ایک درجۂ حرارت پر رکھیں تو وہ دو ہزار سال تک محفوظ رہ سکتی ہے۔ اور عمارتوں میں مخصوص درجۂ حرارت برقرار رکھنے والے نظاموں کا انتظام قائم رکھنا اتنا مشکل کام نہیں ہے۔

اب کون سی ہارڈ ڈسک یا میموری کارڈ اتنے لمبے عرصے تک کسی معلومات کو محفوظ رکھ سکتی ہے؟ اس کے علاوہ اگر فلم خراب ہونے لگے تو ضروری نہیں کہ ساری کی ساری فلم ہی خراب ہو جائے۔ بروقت علم ہو جانے پراس کا صحیح حصہ محفوظ کیا جا سکتا ہے اور چونکہ عموماً ایک فلم کے کئی پرنٹ اور نیگیٹیو مختلف جگہوں پر محفوظ کیے جاتے ہیں تو خراب ہونے والا حصہ دوسرے پرنٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور کئی فلموں کے معاملے میں ایسا ہوا بھی ہے لیکن ہارڈ ڈیسک یا میموری کارڈ جب خراب ہوتے ہیں تو ان میں محفوظ کی گئی ساری کی ساری معلومات ہی اڑ جاتی ہیں۔

ہارڈ ڈسک پر رکھی گئی معلومات کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ کئی ہارڈ ڈسکوں پر ایک ہی معلومات لکھنے کی تکرار کی جائے یعنی ریڈ ڈرائیو (raid drive) بنایا جائے تاکہ اگر ایک ہارڈ ڈسک خراب بھی ہو جائے تو دوسری ڈرائیو سے وہی معلومات نکالی جا سکیں۔ صرف یہی نہیں، ان ہارڈ ڈسکوں کی تصدیق شدہ محفوظ مدت استعمال جو کہ تین یا پانچ سال ہوتی ہے، کے بعد ہارڈ ڈسک تبدیل بھی کر دی جائے۔ اب ہزاروں لاکھوں ڈراموں، فلموں کی کروڑوں ہارڈ ڈسکوں کو کون اتنے تھوڑے عرصے بعد تبدیل کرنے کا خرچہ اٹھاتا پھرے جبکہ اس کے مقابلے میں سیلولائیڈ فلم کو اگر منفی ایک کے مخصوص ماحول میں محفوظ کر کے رکھا جائے تو وہ کوئی دو ہزار سال تک ٹھیک رہے گی۔

لائبریری آف کانگریس کے لیے کسی فلم کا انتخاب کر لیا جانا بہت اعزاز کی بات سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ دوہرا فائدہ ہے کہ فلم سٹوڈیو اس خاص فلم کو محفوظ رکھنے کے بارے میں بے فکر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بخوشی لائبریری کو انتہائی بہترین حالت کے پرنٹ یا نیگیٹو فراہم کرتے ہیں کیونکہ انہیں اطمینان ہوتا ہے کہ اب اس خاص فلم کو ایک لمبے عرصے تک محفوظ کیے جانے کا اہتمام ہو گیا ہے۔ اور وہ جب ضرورت پڑے اس پرنٹ یا نیگیٹو کو وقتی طور پر دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔

جیسے کہ سنء 1940 ء میں بننے والی الفریڈ ہچکاک کی فلم ”فارن کوریسپونڈنٹ“ کو جب ایچ ڈی پر منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کا اصل نیگیٹو لائبریری آف کانگریس کے پاس ہے۔ باقی پرنٹ یا نیگیٹو اچھی حالت میں دستیاب نہیں تھے۔ چنانچہ لائبریری سے اسے حاصل کر کے اس فلم کو 2 k کے معیار پر سکین کیا گیا اور نیگیٹو شکریہ کے ساتھ لائبریری کو واپس کر دیے گئے۔ بعد میں کمپیوٹر کی مدد سے ایک ایک تصویر کو منتخب کر کے اس سے داغ دھبے اور خراشیں دور کیے گئے۔ اور آواز کو شور وغیرہ سے پاک کیا گیا۔ اب اگر آپ اس کلاسک فلم کو دیکھیں تو آپ اس کے معیار پر حیران رہ جائیں گے۔

سیلولائیڈ فلم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ انتہائی ”اعلٰی معیار“ کی تصویر لیتی ہے۔ ہم نے اعلٰی معیار پر واوین اس لیے لگائے ہیں کیونکہ بظاہر تیکنیکی طور پر تو فلم ہائی ڈیفینیشن کیمرے کی طرح کی تصویر نہیں لیتی ہے۔ نہ ہی اس میں لی گئی تصاویر کو پکسل میں بیان کیا جاتا ہے۔ اور نہ ہی ڈیجیٹل تصویر کی طرح سرخ، نیلے اور سبز رنگ کے پکسل ایک خاص ترتیب میں منسلک ہوتے ہیں۔ اس کی بجائے فلم پر دانے ہوتے ہیں۔ فلم کی خاصیت یہ ہے کہ جب اسے خاص طرح کے ماحول اور حالات میں کیمرے کے لینس کے ذریعے روشنی کے سامنے ظاہر کیا جاتا ہے تو یہ اپنے سامنے موجود منظر کو انتہائی تفصیلات کے ساتھ اپنے ذرات کے اندر جذب کر لیتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی وی کی سکرین چھوٹی ہوتی ہے جبکہ سینما کی سکرین بہت بڑی ہوتی ہے تو بڑی سکرین پر ہر منظر بھی بڑا ہی دکھتا ہے جس کی ہر چیز بھی واضح ہوتی ہے، چنانچہ ہر چیز کو واضح طور پر دکھانے کے لیے فلم پر منظر کی ہر شے کو واضح طور پر محفوظ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس بات کی بحث کہ ایک ڈیجیٹل کیمرہ کتنے لاکھ یا کروڑ پکسل کی تصویر بنا سکتا ہے، بلکہ ”پکسل“ کی اصطلاح استعمال ہونے سے بھی کئی دہائیوں پہلے عام سے فلمی کیمرے بھی اپنی فلم کے دانوں میں لاکھوں کروڑوں ”پکسل“ کی حامل تصویریں بنا رہے تھے۔

اب یہ تصویریں ڈیجیٹل ہائی ڈیفینیشن کیمرے کے مقابلے میں کتنی زیادہ یا کم معیار کی تفصیلات کی حامل ہوتی ہیں، اس حوالے سے ماہرین میں اختلاف ہے کیونکہ ”پکسل“ اور ”دانے“ کے درمیان تقابلے کو تفصیلات کے ساتھ بیان کرنا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ ہر ماہر اس حوالے سے اپنی رائے رکھتا ہے لیکن اس ”ڈیجیٹل بمقابلہ اینالوگ“ کی بحث میں الجھے بغیر کچھ حقائق بیان کیے دیتے ہیں جو اس حوالے سے معاملے کو واضح کر دیتے ہیں اور خاص طور پر یہ جواب کہ فلم کتنی زیادہ تفصیلات کے ساتھ کسی منظر کو اپنے ذرات کے اندر مقید کر لیتی ہے۔

پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ ڈیجیٹل پیمانے پر یہ بیان نہیں کیا جا سکتا کہ ایک فلم پر لیا گیا منظر کتنی زیادہ تفصیلات رکھتا ہے جب تک کہ اس فلم کو کسی سکینر میں رکھ کر ڈیجیٹل پیمانے پر محفوظ نہ کر لیا جائے۔ لیکن پھر ہم اس فلم کی جو ریزولوشن بیان کر رہے ہوں گے، وہ فلم کی سکینگ کرنے والے آلے کی ہو گی، نہ کہ فلم کی۔ مثال کے طور پر نوے کی دہائی میں ایسا سکینر ویڈیو سی ڈی یا ڈی وی ڈی پیمانے کی ویڈیو محفوظ کر سکتا تھا جبکہ موجودہ سکینر اسی فلم کو ایچ ڈی پیمانے پر محفوظ کر لیتا ہے۔

یعنی جس طرح سے کہا جاتا ہے کہ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے، اسی طرح سیلولائیڈ فلم سے لی گئی تصویر کی ڈیجیٹل پیمانے کی تفصیلات اسے سیکن کرنے والے آلے کی حساسیت اور اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ کمپیوٹر کو کس معیار کی تصویر محفوظ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ امید ہے کہ ہم نے ایک پیچیدہ معاملے کو اس آسان سی مثال کے ذریعے واضح طور پر سمجھا دیا ہے۔ امریکہ میں زیادہ تر ڈرامے اور فلمیں 35 ایم ایم پر جبکہ بعض فلمیں جن کے لیے شروع سے زیادہ رقم مختص کی جاتی ہے، وہ 65 یا 70 ایم ایم کی فلم پر عکس بند کیے گئے ہیں جیسے کہ فلم ”بین ہر“ ۔

جبکہ ٹی وی پروگرام عام طور پر 16 ایم ایم جبکہ کچھ پروگرام جیسے کہ ”فرینڈز“ 35 ایم ایم پر عکس بند کیے گئے ہیں۔ جبکہ وہ ڈرامے یا فلمیں جن کے لیے بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے وہ آٹھ ( 8 ) ایم ایم پر عکس بند کیے جاتے ہیں۔ بہرحال عام طور پر پرانی فلموں میں 35 ایم ایم کے کیمرے استعمال ہوتے ہیں جن کی لی گئی ہر تصویر کو بیس ( 20 ) میگا پکسل یا اس سے کچھ زیادہ کی حامل تصویر سمجھا جا سکتا ہے جبکہ کم استعمال ہونے والی 65 اور 70 ایم ایم جو کہ 35 ایم ایم سے تقریباً دگنی بڑی ہوتی ہے پر لی گئی ہر تصویر کا معیار تیس ( 30 ) سے چالیس ( 40 ) میگا پکسل کی حامل تصویر جتنا ہو سکتا ہے۔

جبکہ سولہ ( 16 ) ایم ایم جو کہ 35 ایم ایم سے آدھی چوڑی فلم ہوتی ہے، سے لی گئی تصویر دس ( 10 ) میگا پکسل یا اس سے کچھ زیادہ معیار کی حامل ہوتی ہے جبکہ آٹھ ( 8 ) ایم ایم جس پر کچھ بہت ہی پرانی فلمیں عکس بند کی گئیں اور بعد میں سنء پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بڑے پیمانے پر گھریلو ذاتی فلمیں (مثلاً سالگرہ یا شادی) بنانے پر استعمال کی گئی، سے لی گئی تصویر کا معیار، استعمال ہونے والے کیمرے کے معیار کی بنیاد پرایک سے پانچ میگا پکسل کی حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آٹھ ایم ایم کی فلم پر بہت ہی بری اور بھدی فلم بنتی ہے لیکن اس میں فلم سے زیادہ کیمرے اور اس سے منسلک آلات کے معیار کا مسئلہ ہوتا ہے۔

اب اس کے مقابلے میں ذرا ڈیجیٹل ایچ ڈی فلم کے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں۔ جب ہم 1080 pکی حامل ویڈیو فلم کو پکسل میں ناپیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ہر فلم میں ایک تصویر بیس لاکھ پکسل کی حامل ہوتی ہے جو محض دو میگا پکسل بنتے ہیں۔ جبکہ 4 kکی حامل ویڈیو جس کی تفصیلی ویڈیو دیکھ کر ہر کوئی دنگ رہ جاتا ہے، میں ہر ایک تصویر محض نو میگا پکسل سے کچھ کم ہوتی ہے۔ جبکہ 8 kجس میں اس وقت بہت کم فلمیں جاری ہو رہی ہیں، میں ہر تصویر پندرہ میگا پکسل سے کچھ زیادہ کی حامل ہوتی ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ کزشتہ پچاس ساٹھ سال سے بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی 35 ایم ایم کی فلم کوئی بیس میگا پکسل سے زیادہ کی حامل تصویر رکھتی ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ڈیجیٹل ذرائع اب بھی پچاس ساٹھ سال پہلے ایجاد ہونے والی فلم کے مدمقابل کیوں نہیں پہنچ پائے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی مدد سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ موجودہ دور کی ڈیجیٹل ایچ ڈی فلم محض آٹھ اور سولہ ایم ایم فلم کے معیار تک ہی پہنچ پائی ہیں اور یہ کہ فلم بنانے والے اداروں کے لیے یہ کتنا آسان ہے کہ اگر وہ اصلی فلم نیگیٹو کو محفوظ رکھیں تو بہتر معیار کے ڈیجیٹل ذرائع کے سامنے آنے کے بعد انہیں کرنا یہ ہو گا کہ محض نئے سرے سے انہیں سکین کر کے اعلٰی پیمانے کی ویڈیو فراہم کر کے لوگوں کو ویڈیو کیسٹ اور ڈی وی ڈی کے مقابلے میں زیادہ بہتر فلم مہیا کر سکیں۔

بس کسی بھی پروگرام کے نیگیٹو دوبارہ لے کر سکین کرنے اور دوبارہ سے ترتیب و تدوین کا خرچہ اٹھانے کے لیے ایسے پروگرام منتخب کیے جاتے ہیں کہ جن کے بارے میں اس بات کا یقین ہو کہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد دلچسپی لے گی اور لاگت وصول ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ”چیئرز“ اور ”فرینڈز“ ، ”سٹار ٹریک“ ”دی ایکس فائلز“ ، ”ای آر“ سمیت دیگر مقبول ہونے رہنے والے ڈرامے 4 kمیں انتہائی اعلٰی معیار کی ویڈیو میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ فرینڈز کو ایچ ڈی میں دوبارہ تیار کرنے کے لیے تو وارنر برادرز کو اپنے پلے سے کوئی خرچہ نہیں کرنا پڑا کیونکہ نیٹ فلکس نے اسے سڑیم کرنے کے حقوق حاصل کرنے کے ساتھ اسے ایچ ڈی میں دوبارہ تیار کرنے کے اخراجات بھی ادا کر دیے۔

جبکہ پاکستان میں عکس بند کیے گئے ڈرامے زیادہ سے زیادہ وی سی آر کے معیار کی حامل ویڈیو کی بجائے ”بیٹامیکس“ کی قدرے بہتر ریزولوشن میں ہی ریکارڈ کیے جاتے تھے اور وی سی آر کے معیار میں ویڈیو کیسٹ پر منتقل کیے جاتے تھے۔ لیکن ان کی اصل ماسٹر ٹیپس کو محفوظ کر کے رکھنے اور موجودہ دور میں جدید ڈیجیٹل سکینر سے سکین کر کے دوبارہ سے جاری کرنے کے حوالے سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لی جاتی ہے۔ اس لیے پاکستانی ڈرامے اب بھی اصل میں وی سی آر کے معیار کی ویڈیو میں، اینلاگ طریقے سے چلنے والے وی سی آر سے کمپیوٹر میں منتقل کی جانے والی ڈی وی ڈی معیار کی ویڈیو میں ملتے ہیں۔

جن میں سے بعض کو شوق رکھنے والے زیادہ سے زیادہ کمپیوٹر کے ذریعے داغ دھبے دور کر کے اور کمپیوٹر ہی کی مدد سے زیادہ پکسل بنا کر بہتر کرتے ہیں لیکن وہ اس طرح کے نتائج دینے میں ناکام ہوتے ہیں جیسے کہ اصلی ماسٹر ٹیپ کو ڈیجیٹل ٹیپ سکینر کی مدد سے دوبارہ سکین کر کے اعلٰی معیار کی حامل ویڈیو حاصل کی جاتی ہے۔ کیونکہ اینالوگ ٹیپ ہیڈ مقناطیسی پٹی پر موجود ہر فریم کی پوری معلومات کو مسلسل پڑھنے سے قاصر رہتا ہے، کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی وقت تیزی سے آگے بڑھنے والی ٹیپ ہیڈ کے سامنے تھوڑی سی ہل کر رہ جاتی ہے، جس سے پوری معلومات ہیڈ پڑھ نہیں پاتا جس سے کسی فریم کی پوری تو کسی فریم کی کم معلومات آتی ہیں جس سے تصویر کا معیار ایک جیسا نہیں رہتا۔

اس کے علاوہ جس فریم کی جگہ پر ٹیپ یا ہیڈ پر میل آ جائے، وہ یا تو پورا ہی نظر نہیں آتا یا آدھا آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈیجیٹل ٹیپ سکینر آہستہ رفتار سے ٹیپ کے فیتے کو پڑھتا ہے جس میں ٹیپ ہلنے سے کوئی معلومات ضیاع نہیں جاتیں، جبکہ سکین کرنے کے دوران کوئی فریم خراب ہونے کی صورت میں کمپیوٹر کا غلطیاں ٹھیک کرنے والا سافٹ وئیر نظام اردگرد کے فریموں سے آدھے فریم میں ایک جیسی معلومات لے کر اسے پورا کر لیتا ہے۔

مثلاً اگر اداکار کا چہرہ ملا ہے تو وہ اس کے اردگرد کا منظر پچھلے اور اگلے چند فریموں سے لے کر اس فریم کو مکمل کر لیتا ہے۔ اداکار کا چہرہ آدھا ہو تو وہ بھی پچھلے فریم سے پورا کر لیا جاتا ہے۔ یوں فلم کا تسلسل قائم رہتا ہے اور کوئی فریم غائب نہیں ہو پاتا جبکہ وی سی آر میں غلطیاں ٹھیک کرنے کا ایسا کوئی نظام نہیں ہوتا، چنانچہ وہ ایک فریم کیا اگلے کئی فریموں ہی چھوڑ دیتا ہے جس سے فلم کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔

ویسے یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایک فریم سے معلومات لے کر دوسرے فریم کی معلومات پوری کرنا ایم پی فور ویڈیو معیار میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ دراصل اسی وجہ سے اس میں محفوظ کی گئی ویڈیو کا حجم چھوٹا ہو جاتا ہے جبکہ معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوتا۔ کیونکہ تکرار والی معلومات کو بار بار دوہرانے کی بجائے ایک دفعہ لکھ کر باقی جگہوں پر اس کا محض حوالہ دے دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں ٹی وی کے لیے کوئی پروگرام فلم پر ریکارڈ کر کے ویڈیو کیسٹ پر منتقل کرنے کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے لیکن شہزاد رائے کا گانا ”تیری صورت“ کی ویڈیو 35 ایم ایم میں سیلولائیڈ فلم پر بنائی گئی تھی۔ اب اگر ان کے پاس اصل فلم محفوظ پڑی ہے تو اسے ایچ ڈی پر سکین کر کے اس گانے کی نہایت اعلٰی معیار کی ویڈیو حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہارون کا گانا ”محبوبہ“ بھی مصر میں فلم پر ہی ریکارڈ کیا گیا تھا، کچھ عرصہ پہلے ہارون نے اپنے یوٹیوب چینل پر اس گانے کی ماسٹر ڈی وی ڈی سے حاصل شدہ ویڈیو جاری کی تو لوگ اس کے معیار کی بہت تعریف کرتے نظر آئے لیکن اصل سیلولائیڈ فلم پر یہ اس سے بھی کہیں اچھے معیار کی ہوگی۔ ابرار الحق کا گانا ”سانوں تیرے نال“ اور ”جٹ چڑھیا کچہری“ ویڈیو سے تو یوں لگتا ہے کہ فلم پر ہی ریکارڈ کیا گیا ہو لیکن ہم اس کی تصدیق نہیں کر سکتے۔

لیکن پرانی ویڈیوز کو اچھے طریقے سے محفوظ نہ رکھنا صرف یہاں کا مسئلہ نہیں ہے۔ سنء انیس سو اڑسٹھ سے اٹھتر تک بی بی سی کے ذخیرے (آرکائیوز) میں پڑی ٹیپس پر بڑے پیمانے پر دوبارہ ریکارڈنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں کئی یادگار اور مشہور پروگرام ضائع ہو گئے۔ صرف ایک ڈرامہ ”سٹیپ ٹو اینڈ سن“ ایسا ڈرامہ ہے کہ جس کی تمام اقساط بچ پائیں مگر سوائے ایک قسط کے، باقی تمام ڈرامہ اس وقت صرف سیاہ و سفید چارسو ایک لکیروں والی ویڈیو میں ہی دستیاب ہے کیونکہ اصل سیلولائیڈ فلم تو محفوظ ہی نہیں کی گئی تھی۔

جو ٹیپ محفوظ کی گئی، وہ ستر کی دہائی میں بڑے پیمانے پر ٹیپوں کے دوبارہ استعمال کی وجہ سے ضائع ہو گئی۔ اب صرف وہی بلیک اینڈ وائٹ ویڈیوز بچی ہیں جو کہ لوگوں کے ذاتی گھریلو چھوٹے پیمانے کے سینما پر دیکھنے کے لیے بی بی سی کی ویڈیو ٹیپس سے سولہ ایم ایم کی فلم پر تجارتی پیمانے پر فروخت کے لیے منتقل کی گئی تھیں۔ بی بی سی کے ایک انجنئیر نے ڈرامے کے لکھاریوں کی فرمائش پر ماسٹر ٹیپس سے ایک آدھے انچ کے ”ریل ٹو ریل ریکارڈر“ پر قسطیں ریکارڈ کر کے انہیں دی تھیں۔

ان میں سے ایک قسط سنء 2008 ء میں بی بی سی کو واپس کر دی گئی جسے بعد میں خصوصی اہتمام سے نشر کیا گیا۔ بی بی سی نے فلم سے اور اس ویڈیو حاصل ہونے والی ویڈیوز کو سنہ 2016 ء میں ڈیجیٹل اور ویڈیو کو شور شرابے سے صاف ستھرا کرنے کا کام کرایا۔ لیکن اس ڈرامے کے پرستاروں کے لیے حیرت انگیز اور انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام قسطیں اس طرح سے سیاہ و سفید تصویر میں ہی سہی باقی بچ تو گئی ہیں۔ لیکن 18 تاء 22 ستمبر سنہ انیس سو چھیاسی میں چنائے میں ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والا دنیا کا دوسرا ٹائی ٹیسٹ مقابلہ اس لحاظ سے بھی بدقسمت رہا کہ اب اس کی کوئی ویڈیو باقی نہیں بچی ہے۔

ہوا یوں کہ اس کو ہندوستان سے نشر کرنے والے ادارے دور درشن نے اس کی ویڈیو ٹیپس پر دوسرا پروگرام ریکارڈ کر لیا۔ حیرت کی بات ہے کہ دور درشن کے ریکارڈنگ سٹوڈیو میں بیٹھے جینئس لوگوں کو اس مقابلے کے برابر ہو جانے کے بعد بھی اس انتہائی انوکھے واقعے کی اہمیت کا احساس نہ ہوا اور پہلے سے طے شدہ حکم کے مطابق ویڈیو ٹیپس دوسرے پروگرام کے لیے استعمال کر لی گئیں لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ آسڑیلیا میں بھی اس مقابلے کے نشریات کار ادارے نے اسے ریکارڈ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہندوستان اور آسٹریلیا دونوں میں سنء 1986 ءتک وی سی آر کے بڑے پیمانے پر استعمال عام ہونے کے باوجود کسی عام ناظر نے بھی اسے ریکارڈ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم اس تاریخ ساز مقابلے کے بارے میں کتابوں اور رسالوں میں تو پڑھ سکتے ہیں اور اس مقابلے کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں مگر اس دوران جب یہ مقابلہ ہو رہا تھا تو میدان میں تماشائیوں اور کھلاڑیوں کا کیا انداز تھا، نتیجے پرکیا ردعمل آیا تھا یہ سارا ماجرا اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اس یادگار مقابلے کی کوئی ویڈیو باقی جو نہیں بچی ہے۔

ڈین جونز نے اس مقابلے میں ڈبل سینچری بنائی تھی اور چنائے کی سخت گرمی اور حبس سے اس کا بیس کلو وزن کم ہو گیا تھا، اور ایک موقع پر وہ بے ہوش بھی ہو گیا تھا۔ آج ہم چنائے میں سعید انور کے ایک سو چورانوے رنز کی یادگار اننگز کے دوران اس کا پسینے سے برا حال دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ڈین جونز پر کیا بیتی ہو گی۔ اور صرف یہی نہیں، دور درشن کے پاس 1987 ء میں احمد آباد میں چار تاء نو مارچ پاکستان کے خلاف کھیلے جانے والے مقابلے میں جب سنیل گواسکر نے ٹیسٹ کرکٹ میں دس ہزار سے زائد رن بنانے کا نیا عالمی ریکارڈ بنایا تو اس کی بھی ویڈیو نہیں ہے۔

صرف یہی نہیں، کپل دیو کی چنائے میں سنء 1983 ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف تراسی ( 83 ) رنز کے عوض نو وکٹوں کی تباہ کن باؤلنگ اور یہیں پر سنیل گواسکر کا ڈان بریڈ مین کا 29 سینچریوں کا ریکارڈ توڑنے کا لمحہ ہو یا سنء 1988 ء میں لیگ اسپنر نریندرا ہریوانی نے ڈیبیو پر ریکارڈ 136 رنز کے عوض سولہ وکٹیں لینے کا لمحہ ہو، اب ان کی چند مدہم سی جھلکیاں تو دستیاب ہیں لیکن پورے مقابلے کی ویڈیوز نہیں ہیں۔ دور درشن کے عملے کا کوئی فرد اس کی وجہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہوا کہ دور درشن جو سنء 1991 ء تک ملک کا اکلوتا سرکاری چینل تھا اور ہر طرح کے پروگرام تیار اور نشر کرنے پر مکمل اجارہ داری رکھتا تھا، میں مختلف اہم مقابلوں کی ویڈیوز کیوں دستیاب نہیں ہیں۔

دور درشن یہ بھی بتانے سے قاصر رہا کہ اس کے پاس کھیلوں کے کس مقابلے کی سب سے پرانی ویڈیو موجود ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کے ذخیرے میں مختلف اقسام کی پچاس ہزار سے ٹیپس موجود ہیں مگر کھیلوں کے مقابلوں کی چند درجن ویڈیوز ہی دستیاب ہیں۔ دوردرشن کے ارباب اختیار یہ بتانے سے قاسر ہیں کہ ان تاریخ ساز مقابلوں کی ماسٹر ٹیپس کہاں گئیں۔ ایک اعلی افسر نے دی سنڈے ایکسپریس کے صحافی کی جانب سے وجہ دریافت کرنے پر برصغیر کے مشہور افسرانہ ٹھاٹھ سے جواب دیا ”وجہ پوچھنا تمھارا کام نہیں ہے“ ۔

ویڈیو ذخیرے کے نائب سربراہ نے صحافی کو دوردرشن سپورٹس سے رابطہ کرنے کو کہا جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھیلوں کے مقابلوں کی ویڈیوز محفوظ رکھیں لیکن پوچھنے پر دوردرشن سپوڑٹس کا موقف تھا کہ وہ ویڈیوز محفوظ رکھنے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اسی کی دہائی میں کھیلنے والے کئی کھلاڑی اس حوالے سے اپنے یادگار مقابلوں کی ویڈیوز کی تلاش میں ہیں۔ آسڑیلیا کے گریگ میتھیوز جنھوں نے آسٹریلیا اور انڈیا کے ٹائی ٹیسٹ مقابلے کی آخری گیند پھینکی تھی، نے جب دوردرشن سے پوچھا کہ اس مقابلے کی ویڈیو ٹیپس کہاں گئیں تو انہیں بتایا گیا کہ ان ٹیپوں پر پنگ پونگ کے ایک مقابلے کی ویڈیو ریکارڈ کر لی گئی تھی۔

سنیل گواسکر نے اسے اپنی بدقسمتی قرار دیا کہ ان کی پاکستان کے خلاف اس یادگار لمحے کی ویڈیو نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ اس دور میں ٹیپ محفوظ نہ رکھنے پر کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت جدید سہولیات نہیں تھیں لیکن اس سے سبق سیکھ کر اب اس حوالے سے مقابلوں کو محفوظ رکھا جائے۔ جبکہ کپل دیو نے بتایا کہ انہوں نے ہریانہ بمقابلہ ممبئی سنء 1991 کے فائنل کی ویڈیو کے حصول کے لیے دور درشن سے رابطہ کیا تھا لیکن انہیں بتایا گیا کہ اب دور درشن کے پاس یہ ویڈیو نہیں ہے۔

اس سنسنی خیز مقابلے میں کپل دیو نے ممبئی کے وانکھڈے میدان میں آخری گیند پر اپنی ٹیم ہر یانہ کو ممبئی کی طاقتور ٹیم کے خلاف جتوا دیا تھا۔ دوردرشن کے ایک اعلی افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پراس بات سے انکار نہیں کیا کہ ہو سکتا ہے کہ ان تاریخی مقابلوں کی پرانی ٹیپوں پر کوئی دوسرا پروگرام ریکارڈ کر لیا گیا ہو۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آج کل وہ ویڈیوز کو کمپیوٹر پر بھی محفوظ کرتے ہیں تاکہ اگر ویڈیو ٹیپ دوبارہ استعمال کرنی پڑ جائے تو ویڈیو کی ایک دوسری نقل دستیاب ہو۔

لیکن پہلے اس طرح کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا تھا۔ اور چونکہ ویڈیو ٹیپس محفوظ رکھنے کے حوالے سے کوئی براہ راست ہدایات نہیں دی گئی تھیں لہٰذا بہت ممکن تھا کہ ویڈیو ٹیپس کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کر لی جائیں۔ اس سوال پر کہ گواسکر کے دس ہزار ٹیسٹ رنز یا دنیا کے دوسرے ٹائی ٹیسٹ مقابلے جیسے اہم مواقع کی اہمیت تو اس دور کے ایک بچے پر بھی واضح تھی، ایسے اہم مقابلوں کی ویڈیوز کیوں نہ محفوظ رکھی گئیں، پر اس افسر نے کہا کہ دراصل ایسے تاریخی لمحات کی اہمیت اس وقت محسوس نہ کی گئی تھی۔

صرف یہی نہیں بلکہ سن 1987 ء کے عالمی کپ کی افتتاحی تقریب اور مقابلوں کی بھی دور درشن کے پاس ویڈیوز نہیں ہیں حالانکہ یہ انگلستان سے باہر اور برصغیر میں پہلا ورلڈ کپ تھا۔ دور درشن کی یہ بے حسی صرف کرکٹ مقابلوں یا کرکٹ کے کھیل تک محدود نہیں رہی ہے۔ سنء 2016 ء میں ہندوستان کے لیے سنہ 1980 ء کے ہاکی اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتنے والے مشہور کھلاڑی محمد شاہد کا انتقال ہوا تو ان کے کھیل میں کارناموں کی ویڈیو جھلکیاں تیار کرنے کے لیے جب دور درشن کی ویڈیو لائبریری سے ویڈیوز مانگی گئی تو جواب ملا کہ ہمارے پاس اب کوئی ویڈیوز نہیں ہیں۔ البتہ دور درشن کا کہنا ہے کہ اس کے پاس سن 1982 کے ایشیائی کھیلوں، سنء 1985 کے گیت سیٹھی کے عالمی سنوکر چیمپئین شپ فائنل مقابلے کی ویڈیو اور سنء 1987 ء کے ڈیوس کپ ٹائی مقابلے میں ہندوستان بمقابلہ سویڈن کی ویڈیوز موجود ہیں۔

ویسے پاکستانی ہونے کی بنیاد پر ایسے معاملات پر صرف دور درشن کو کوسنے کی ضرورت نہیں، ماجد خان نے سنہ 1976 کے کراچی ٹیسٹ کے پہلے دن میں کھانے کے وقفے سے پہلے سینچری بنائی تھی، اس مقابلے کی اب کوئی ویڈیو دستیاب نہیں حالانکہ اس کی یہ بھی خاصیت تھی کہ یہ کھیل کے پہلے دن کھانے کے وقفے سے پہلے بنائی گئی تھی۔

پاکستان میں شوکت صدیقی کا مشہور ناول ”خدا کی بستی“ پہلی دفعہ 13 اقساط پر مشتمل یہ ڈراما جولائی 1969 ء کو پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے پیش کیا گیا۔ سیریل کے دوران میں توقیر فاطمہ کا انتقال ہو گیا تو ان کا باقی ماندہ کردار مسرت نے ادا کیا۔ یہ ڈرامہ عوام میں بہت مقبول ہوا، جب یہ نشر ہوتا تو سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔ عوام کی طرح خواص میں بھی یہ ڈرامہ بہت مقبول ہوا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے تو انہوں نے پی ٹی وی سے اسے دوبارہ نشر کرنے کو کہا تو انہیں بتایا گیا کہ ڈرامے کی ویڈیو کیسٹوں پر تو کوئی اور پروگرام ریکارڈ کر لیا گیا ہے۔

اس پر انہوں نے اسے پھر سے تیار کرنے کا حکم دیا اور یوں یہ سیریل 1974 ء میں دوسری دفعہ تیار کیا گیا۔ اس مرتبہ نوشہ کا کردار ظفر مسعود کی بجائے بہروز سبزواری اور سلطانہ کا کردار توقیر فاطمہ اور مسرت صحافی کی جگہ منور سلطانہ نے ادا کیا۔ اس دفعہ پی ٹی وی نے اپنی غلطی سے سبق سیکھتے ہوئے اس ڈرامے کی ویڈیو کیسٹوں کو محفوظ رکھا اور یہ اب تک پی ٹی وی سے کئی دفعہ نشر ہو چکا ہے۔ اس لیے ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ پی ٹی وی کے عملے نے کھیلوں کے مقابلوں کی ویڈیوز کو محفوظ کرنے کے حوالے سے ایسی بیوقوفی نہیں کی ہوگی۔

جس طرح پی ٹی وی پر جاوید میاں داد کے سنء 1986 ء میں شارجہ کے چھکے کی ویڈیو بار بار نشر کی جاتی ہے، اسی طرح ہم امید رکھ سکتے ہیں ءکہ پی ٹی وی کے پاس گواسکر کی سنء 1987 ءمیں پاکستان کے خلاف ریکارڈ بنانے کی ویڈیو ضرور ہو گی۔ اس ٹیسٹ کے آخری دن جب ساری ہندوستانی ٹیم 221 رنز کے ہدف کے تعاقب میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی تھی تو گواسکر نے تنہا 96 ء رنز بنا کر تقریباً ہندوستان کو جتوا ہی دیا تھا۔ یہ ہندوستان کی سرزمین پر پاکستان کی پہلی سیریز کی فتح تھی۔

سنء اسی کی دہائی کرکٹ کے کھیل کو دنیا بھر میں مقبول اور پھیلانے والی دہائی تھی جہاں کرکٹ کھیلنے والے ہر اہم ملک کے پاس کوئی ایک یا چند کھلاڑی ایسے ضرور تھے کہ جو اس کھیل کے بڑے نام تھے، جن کے کارناموں سے کرکٹ کے کھیل نے بین الاقوامی سطح پر ساکھ اور شہرت پائی۔ مثلاً ہندوستان کے پاس کپل دیو اور سنیل گواسکر تھے تو پاکستان کے پاس جاوید میاں دار اور عمران خان۔

یادش بخیر! ہمیں یاد ہے کہ سنء 1999 ء کے ایشئن ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں کولکتہ ٹیسٹ کے چوتھے دن جب سچن ٹنڈولکر کے شعیب اختر سے ٹکرانے کے باعث تماشائیوں نے ہنگامہ آرائی کی تو مقابلہ کافی دیر تک رکا رہا۔ اس دوران سٹار سپورٹس نے اسی مقابلے کی جھلکیاں دکھانا شروع کر دیں۔ اب سٹار اسپورٹس پراس مقابلے کی براہ راست نشریات کے دوران سکرین پر مختلف تعاون کرنے والے اشتہارات دینے والے اداروں جیسے کہ ہرری پلے پر ہندوستان میں ہمارے ایلفی کی طرح مشہور ”فے وی کول“ کا نام لکھا آتا تھا، جس پر پی ٹی وی اپنا ایک اشتہار چساں کر دیتا تھا لیکن جب سٹار سپورٹس نے اسی مقابلے کی جھلکیاں دکھانا شروع کیں تو وہاں ری پلے میں فے وی کول یا دیگر اشتہارات کا نام نہیں لکھا ہوتا تھا، کیونکہ ایسے اشتہارات صرف براہ راست نشریات کے دوران دکھانے کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں، جبکہ وہ ماسٹر ٹیپس سے تیار کی گئی جھلکیاں تھیں جن میں یہ اشتہار موجود نہیں تھے۔

یہ جھلکیاں پی ٹی وی نے بھی اس دوران نشر کیں۔ اب بعد میں جب بھی پی ٹی وی سے اس مقابلے کی جھلکیاں نشر ہوتی ہیں تو جہاں تک ٹنڈولکر اور شعیب کے ٹکرانے کی وجہ سے مقابلہ رکا ہوا تھا، وہاں تک ری پلے پر فے وی کول یا دیگر ہندوستانی اشتہارات نظر نہیں آتے جبکہ اس کے بعد یہ اشتہار نظر آتے ہیں، جنھیں چھپانے کے لیے پی ٹی وی اشتہار کی جگہ پر دوبارہ بڑا سا ”ری پلے“ لکھ دیتا ہے۔ اب چاہے پی ٹی وی کے ریکارڈنگ انجینئروں نے خود سے دوبارہ اس مقابلے کی جھلکیاں تیار کرنے کی کوفت سے بچنے کے لیے ہی یہ کام کیا ہو لیکن اس سے پی ٹی وی کے عملے کی چالاکی اور ہوشیاری کا پتا چلتا ہے کہ وہ تو یہ مقابلہ شروع سے براہ راست بھی ریکارڈ کر رہے تھے، لہٰذا تیکنیکی طور پر تو انہیں اسی مقابلے کی جھلکیاں دوبارہ ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن انہوں نے اس موقع کو غنیمت جان کر کیا۔

اسی طرح اسی سیریز کے دوران جب لاہور میں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان بارش کی وجہ سے مقابلہ روکنا پڑا تو اس دوران بھی سٹار سپورٹس نے مقابلے کی جھلکیاں نشر کیں اور پی ٹی وی نے بھی دکھائیں۔ اس مقابلے کو بھی اب جب بھی پی ٹی وی پر دیکھا تو یہی نظر آیا کہ بارش ہونے تک کے کھیل کی جھلکیوں میں کوئی ہندوستانی اشتہار ویڈیو پر نظر نہیں آتا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کے برعکس امریکہ میں سنء 1950 اور ساٹھ کی دہائی کے پروگرام جیسے کہ اسٹار ٹریک ٹی وی سیریز اور دیگر پروگرام اس وقت نہایت اعلیٰ معیار کی ایچ ڈی ویڈیو میں دستیاب ہیں کیونکہ ان کو ریکارڈ کرنے والی اصلی سیلو لائیڈ فلم محفوظ کر لی گئی تھی۔ لیکن امریکہ بھی اس قسم کے اکاء دکاء واقعات سے خالی نہیں ہے جن میں سب سے مشہور چاند پر اترنے کی ویڈیو ہے جو کہ اصل ویڈیو پر غلطی سے کوئی اور ویڈیو ریکارڈ ہو گئی اور صرف براہ راست نشر ہونے والی بلیک اینڈ وائیٹ ریکارڈنگ ہی دستیاب ہے جس کی وجہ سے سازشی نظریات پھیلانے والے کچھ افواہ سازوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ اصل میں کوئی خلا باز چاند پر گیا ہی نہیں تھا اور چاند پر جانے کا ناٹک رچایا گیا تاکہ اس حوالے سے ہونے والے بڑے پیمانے پر قوم کی دولت خرچ کرنے کا حساب کتاب نہ دینا پڑے۔

اسی طرح سنء انیس سو تراسی 1983 میں بننے والی کارٹون سیریز ”ہی مین“ مقناطیسی پٹی پر ہی تیار اور محفوظ کی گئی تھی، جب اسے ایچ ڈی پر منتقل کیا جانے لگا تو پہلی قسط (پائیلٹ ایپی سوڈ) کے آخر میں ایک منٹ کی ویڈیو ماسٹر ٹیپ کے خراب ہو جانے کی وجہ سے کاٹنا پڑی۔ لیکن یہ حصہ مکمل طور پر گم نہیں ہوا ہے کیونکہ اس سے پہلے جاری کیے جانے والی ڈی وی ڈیز میں یہ حصہ موجود ہے۔ اس حوالے سے خاص طور پر سنء 2005 ء میں جاری کی جانے والی ایک ڈی وی ڈی اہم ہے کیونکہ اگر چہ اسے جاری کرنے والے ادارے کے کاروبار ختم کر لینے سے یہ ڈی وی ڈیز بازار میں آنا بند ہو گئیں لیکن ان پر اس کارٹون سیریز کو ماسٹر ٹیپس سے پوری طرح بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے، آڈیو اور ویڈیو کو کمپیوٹر کے ذریعے ہر طرح کے شور شرابے سے پاک کر کے، ٹھیک کر کے، بالکل ایسے ہی بنا کے پیش کی گئی تھیں جیسے اصل میں تھیں۔ سنء 2009 ء میں محض قانونی حقوق رکھنے کے جھگڑے کی وجہ سے یہ ویڈیو اس میں شامل نہ کی جا سکی لیکن اب ایسا کیا تو جا سکتا ہے۔

اور اب آخر میں بی بی سی کی امیتابھ بچن کو اعزاز ملنے کی اس خبر کا پورا متن بی بی سی اردو کے شکریے کے ساتھ جس نے ہمارے خیال کو مہمیز دی اور ہم نے یہ داستان بیان کرنی شروع کر دی۔

امیتابھ بچن: ہزاروں فلموں کو ہمیشہ کے لیے ضائع ہونے سے بچانے پر بولی وڈ سٹار کے لیے بین الاقوامی ایوارڈ

سوتک بسواس۔ بی بی سی نامہ نگار، انڈیا
20 مارچ 2021

کئی دہائیوں تک امیتابھ بچن نے اپنی 60 فلمیں ممبئی میں اپنے فلیٹ کے ایک ائر کنڈیشن کمرے میں سنبھال کر رکھی تھیں۔ پانچ سال قبل انھوں نے ان فلموں کے پرنٹ شہر کی ایک فلاحی تنظیم کے حوالے کیے جس کے پاس درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے والی سہولیات موجود تھیں اور جو انڈین فلموں کو محفوظ کرنے کے لیے آرکائیو بنا رہی تھی۔

سوندرا سنگھ دنگارپور نامی ایوارڈ یافتہ فلمساز کی سربراہی میں فلم ہیریٹیج فاؤنڈیشن نامی اس تنظیم کی کوشش ہے کہ انڈین فلموں کے اصل پرنٹس کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ معروف ہدایتکار کرسٹوفر نولن کے مطابق تنظیم بین الاقوامی سطح بہترین معیار کے لیے جانی جاتی ہے۔ امیتابھ بچن اس کے برانڈ امبیسڈر ہیں۔

کئی سالوں سے امیتابھ اس کوشش میں ہیں کہ انڈیا کے تیزی سے تباہ ہو رہے فلمی ورثے کو محفوظ کیا جا سکے۔ اور جمعے کے روز امیتابھ بچن کو ان کی ان قدرے غیر معروف کاوشوں کے لیے ایوارڈ دیا گیا ہے۔ اٹھتر سالہ اداکار کو یہ ایوارڈ انٹرنیشنل فیڈریشن آف فلم آرکائیوز (ایف آئی اے ایف) کی جانب سے دیا گیا۔ ماضی میں یہ ایوارڈ کئی نامور ہدایتکاروں کو دیا جا چکا ہے۔

سوندرا سنگھ دنگارپور کا کہنا ہے کہ امیتابھ فلموں اور سینما کو محفوظ کرنے کے لیے بہت لگن سے کام کرتے رہے ہیں۔ ایک بار امیتابھ کو اس بات پر غصہ اور غم تھا کہ وہ دلیپ کمار کی ابتدائی فلمیں اس لیے نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ وہ بس ضائع ہو گئی ہیں۔

انڈیا میں 10 بڑی فلمی صنعتیں ہیں جن میں سے ایک بالی وڈ ہے۔ ملک میں ہر سال 36 زبانوں 2000 کے قریب فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ مگر ملک میں صرف دو فلمی آرکائیو ہیں۔ ایک پونے شہر میں سرکاری آرکائیو ہے اور دوسرا سوندرا سنگھ دنگارپور کا بنایا ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہماری شاندار فلمی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔‘ یہی وجہ ہے کہ انڈیا کی فلمی تاریخ کا ایک بڑا حصہ غیر معیاری انداز میں رکھے جانے کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے۔

مثلاً انڈیا میں آواز کے ساتھ پہلی فلم عالم آرا ( 1931 ) اور مقامی طور پر بنائی گئی پہلی فلم کسان کنیا ( 1937 ) دونوں کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ مگر نئی فلموں کا حال بھی کچھ بہتر نہیں۔ جنگ آزادی کی ہیروئن لکشمی ساگل پر 1977 میں بنی دستاویزی فلم اور شام بینیگل کی ’ایک بھارت کی کھوج‘ ( 1988 ) اب موجود نہیں۔ یہاں تک کہ 2009 کی فلم ماگادھیرا کے نیگیٹیو چھ سال میں ہی ضائع ہو گئے۔

سوندرا کے مطابق انڈیا میں بننے والی 1138 خاموش فلموں میں سے صرف 29 ہی آج موجود ہیں۔ سنہ 1931 سے 1950 کے درمیان ممبئی (بمبئی) میں بننے والی تقریباً 2000 فلموں میں سے 80 فیصد آج دیکھی نہیں جا سکتیں۔ گزشتہ سال سوندرا اور ان کی ٹیم کو ایک ممبئی میں ایک کباڑ خانے میں بوریوں میں پڑی تقریباً 200 فلمیں اتفاقاً مل گئی تھیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ان میں نیگیٹیو اور پرنٹ موجود تھے اور کسی نے بس انھیں پھینک دیا تھا۔‘

اور کہانی یہی نہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ریاستی آرکائیو کے پاس موجود 31 ہزار فلموں کی ریلیں تباہ یا گم ہو گئی ہیں۔ سنہ 2003 میں اس ریاستی آرکائیو میں آگ لگنے سے تقریباً 600 فلموں کو نقصان پہنچا تھا۔ ان میں ملک کی پہلی خاموش فلم 1913 کی کلاسک راجہ ہریش چندر کے آخری اصل پرنٹ تھے۔ ہدایتکار گوتم گھوش کہتے ہیں کہ آپ کو اپنے ماضی کی عزت کرنی ہوگی۔ اپنے ماضی کی عزت کرنے میں آپ کو اپنی ماضی کی فلموں کو محفوظ کرنا ہو گا۔

’ڈیجیٹل فلموں کی امد سے پہلے فلموں کو عموماً اصل نیگیٹیوز کی مدد سے محفوظ کیا جاتا تھا اور اس کے ڈوپلیکیٹ پرنٹ نمائش کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ سوندرا کہتے ہیں کہ 2014 میں جب زیادہ تر فلمسازوں نے فلم پر شوٹنگ کرنا چھوڑ دی تو فلم لیبز نے پرانے پرنٹس کو ڈیجیٹل کر کے اصلی نیگیٹیو پھینک دیے۔ انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اصلی پرنٹ کی ڈیجیٹل فلم کے مقابلے میں ریزولوشن بہت زیادہ تھی۔

مگر اب محفوظ کرنے والے زیادہ اصلی پرنٹس پر کام کرتے ہیں۔ سوندرا کہتے ہیں کہ وہ بالکل تباہی تھی اور انھیں فلم پرنٹس کے بارے میں آگاہی کے لیے پوری مہم چلانی پڑی تھی۔ گزشتہ چھ سالوں میں سوندرا اور دنیا بھر کے بہترین فلم آرکائیو ماہرین نے انڈیا بھر میں اس حوالے سے ورک شاپس اور تربیتی کیمپ منعقد کیے ہیں اور 300 سے زیادہ افراد کو یہ ہنر سکھایا ہے۔ تنظیم اب تک 500 کے قریب فلمیں محفوظ کر چکی ہے، آزادی کے دنوں کے کچھ عکس بچا چکی ہے۔ ان کی نایاب کلیکشن دو 16 ایم ایم کی ایسی ریلیز بھی ہیں جن میں آسکر انعام یافتہ ہدایتکار ستیاجیت رائے معروف اطالوی امریکی ہدایتکار فرینک کپرا سے بات چیت کر رہے ہیں۔ ان کے پاس ہزاروں پرانی تصاویر اور فلمی پوسٹر بھی موجود ہیں۔

امیتابھ بچن ہمیشہ سے انڈیا کی فلمی صنعت کی اس کمزوری پر بات کرتے رہے ہیں۔ کلکتہ میں دو سال قبل انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری نسل کو انڈین سینما کے لیجنڈز کی کوششوں کا احساس ہے مگر بدقسمتی سے ان کی فلمیں یا تو جل گئی ہیں، گم ہو گئی ہیں یا خراب ہو گئی ہیں۔‘

’ہمارے فلمی ورثے کا بہت تھوڑا یا حصہ بچا ہے اور اگر ہم نے اس کو بچانے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو ہم سے پہلے جو آئے تھے 100 سال بعد ان کا کوئی نام و نشان نہیں بچے گا۔‘

مصنف: دانش علی انجم ماخذ: بی بی سی اردو، سنڈے ایکسپریس (انڈیا) اور وکی پیڈیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments