فواد چوہدری: وفاقی وزیر کا الیکشن کمیشن پر نہیں شخصیات پر تنقید کا دعویٰ، سوشل میڈیا پر ’دہرے معیار‘ کا شور


فواد چوہدری
حکومتی وزرا اور الیکشن کمیشن کے درمیان محاذ آرائی کا سلسلہ کئی دنوں سے جاری ہے اور گذشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز نے بظاہر جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے وزیر ریلوے اعظم سواتی اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اِن دونوں وزرا سے الزامات کے ثبوت مانگنے کا فیصلہ کیا ہے۔

گذشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے پس منظر میں ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کا احترام اپنی جگہ لیکن اگر شخصیات کے سیاسی کردار پر بات کرنا پسند نہیں تو اپنا طرز عمل غیر سیاسی رکھیں، نوٹس آیا تو تفصیلی جواب دیں گے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’بحیثیت ادارہ الیکشن کمیشن کی حیثیت مسلمہ ہے لیکن شخصیات غلطیوں سے مبرا نہیں اور تنقید شخصیات کے طرز عمل پر ہوتی ہے ادارے پر نہیں۔‘

اس حوالے سے فواد چوہدری کے بیان کا دوسرا حصہ خاص طور پر سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں تحریک انصاف کے وزرا کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں، خاص کر ن لیگ کی جانب سے مخصوص فوجی عہدیداروں، نیب کے چیئرمین اور عدلیہ کے ججوں پر تنقید کو ’اداروں پر تنقید‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

اس حوالے سے اکثر سوشل میڈیا صارفین اس رویے کو حکومتی وزرا کے دہرے معیار سے تشبیہ دے رہے ہیں جبکہ چند صارفین کا یہ بھی خیال ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے۔

الیکشن

اس حوالے سے یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ آخر حکومتی وزرا کی الیکشن کمیشن کے خلاف اتنے جارحانہ رویے کی وجہ کیا ہے؟

فواد چوہدری سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے سوال سُننے کے بعد فون بند کر دیا۔

الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان تنازع ہے کیا؟

الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کے درمیان اختلاف کی سب سے بڑی وجہ آئندہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے استعمال کا معاملہ ہے۔

وفاقی حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے حق میں ہے اور اس کے لیے حکومت نے بجٹ میں رقم بھی مختص کر رکھی ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں اس ووٹنگ مشین کے استعمال پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ای وی ایم کے استعمال سے بھی الیکشن شفاف ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس مشین کے سافٹ ویئر میں کسی بھی وقت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان: ’الیکشن کمیشن ملک کی ایجنسیوں سے خفیہ بریفنگ لے‘

الیکشن کمیشن کا فواد چوہدری، اعظم سواتی سے ثبوت مانگنے کا فیصلہ

مریم نواز: ’پتلی گلی سے نہیں نکلنے دوں گی، اب یہ میرا دوسرا روپ دیکھیں گے‘

الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں 37 اعتراضات پر مبنی نوٹ سینیٹ میں پارلیمانی امور کی قائمہ کمیٹی کو بھجوایا تھا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے ریلوے اعظم سواتی نے الیکشن کمیشن پر پیسے لینے اور غیر شفاف انتخابات کروانے کے الزامات بھی لگائے تھے۔ وفاقی وزیر نے یہاں تک کہا تھا کہ ایسے ادارے کو آگ لگا دینی چاہیے۔

’پی ٹی آئی جھنجھلاہٹ کا شکار دکھائی دے رہی ہے‘

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی ’جھنجھلاہٹ‘ میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’انھیں لگتا ہے کہ اگر الیکشن سے پہلے الیکٹرانک ووٹر مشین کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، تو جس طرح کی صورتحال بن گئی ہے موجودہ الیکشن کمیشن اُن کے ساتھ اگلے الیکشن تک چل نہ پائے۔‘

’دوسری وجہ یہ ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو اگر اگلے الیکشن سے قبل ووٹ ڈالنے یا بطور امیدوار الیکشن میں حصہ لینے کا حق نہیں ملتا، تو اس سے ان کا نقصان ہو سکتا ہے۔‘

’لیکن جس انداز میں وہ بات کر رہے ہیں اس سے وہ ایک ایسا ماحول بنا رہے ہیں کہ اگر انھیں کامیابی نہ ہو تو الیکشن غیر یقینی ہو جائے۔‘

فواد چوہدری کے بیان سے متعلق انھوں نے کہا کہ اس بیان میں ’واضح تضاد‘ ہے۔

مظہر عباس نے کہا کہ ’اگر آپ کے ایک وزیر (اعظم سواتی) یہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو آگ لگا دیں گے تو اس کا کیا مطلب ہے، ظاہر ہے وہ پورے ادارے کو آگ لگانے کی بات کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا ’یا تو کسی شخص پر خصوصی طور پر تنقید کریں۔ میرے خیال میں بہت زیادہ آگے چلے گئے ہیں پی ٹی آئی کے وزیر۔۔۔ اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘

مظہر عباس کے مطابق ’فرض کریں اگر مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں یہ بل پاس کروا لیا جاتا ہے تو حزبِ اختلاف بھی اس کا بائیکاٹ کرے گی اور عین ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن مستعفی ہو جائے۔ ایسی صورتحال میں بلدیاتی انتخابات بھی ابھی ہونے ہیں اس لیے خاصی غیریقینی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب لڑائی تو بڑی ہو گئی ہے، جو اتنی آسانی سے ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ ایک طرف پی ٹی آئی الیکشن کمیشن سے لڑ رہی ہے، ایک طرف میڈیا سے لڑ رہی ہے اور ایک طرف اپوزیشن سے لڑ رہی ہے۔‘

’مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پی ٹی آئی بہت زیادہ جھنجھلاہٹ کا شکار دکھائی دے رہی ہے، حالانکہ ان کی کارکردگی اتنی بری بھی نہیں ہے لیکن انھیں نتائج نہیں مل رہے۔‘

کیا یہ اصول ہر آئینی اور غیر سیاسی ادارے پر لاگو ہوتا ہے‘

اکثر سوشل میڈیا صارفین فواد چوہدری کو یاد کروا رہے ہیں کہ جب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی جانب سے چند فوجی جرنیلوں پر تنقید کی گئی تھی تو اس وقت تحریک انصاف کی جانب سے اسے اداروں پر تنقید ہی قرار دیا گیا تھا۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے عدنان رشید نے لکھا کہ ’انہی فواد چوہدری صاحب کا یہی اصول اس وقت بدل جاتا ہے جب اپوزیشن عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کی کسی شخصیت پر جانبداری کا الزام لگاتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

الیکشن کمیشن کا فواد چوہدری، اعظم سواتی سے ثبوت مانگنے کا فیصلہ

الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کو اظہار وجوہ کا نوٹس

عمران خان: ’الیکشن کمیشن ملک کی ایجنسیوں سے خفیہ بریفنگ لے‘

مریم نواز: ’پتلی گلی سے نہیں نکلنے دوں گی، اب یہ میرا دوسرا روپ دیکھیں گے‘

’تب یہی فواد چوہدری ایسی تنقید کو اداروں پر حملہ کہتے ہیں، ملک دشمنی سے تشبیہ دیتے ہیں، غداری کے سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں۔‘

تاہم ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ ’الیکشن کمیشن پارلیمان یا کمیٹیوں کے سامنے کارروائی پر کوئی ایکشن نہیں لے سکتا۔ اختیارات کا تجاوز اور کس کو کہتے ہیں۔‘

صارف محمد ظہور نے لکھا کہ ’جب کسی ملک کا ادارہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کر دے تو سمجھ جائیں کہ وہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے سب کچھ عیاں ہو گیا ہے۔‘

اس حوالے سے صحافیوں کی جانب سے بھی ایسی ٹویٹس سامنے آ رہی ہیں کہ ’جب ہماری جانب سے کسی فرد پر تنقید کی جاتی ہے تو ایسا کیوں ہے کہ ہمیں غدار قرار دیا جاتا ہے۔‘

جیو نیوز سے منسلک صحافی عبداللہ سلطان کا کہنا تھا کہ ’شخصیات غلطیوں سے مبرا نہیں اور تنقید شخصیات کے طرزِ عمل پر ہوتی ہے ادارے پر نہیں۔‘

’یہی تو بات ہے، لیکن جب کوئی اور شخصیات کے سیاسی کردار کو ہدفِ تنقید بنائے تو اُسے اداروں پر تنقید جان کر غدار اور اداروں کو بدنام کرنے کی سازش قرار دے دیا جاتا ہے۔‘

اسی طرح صحافی حامد میر نے لکھا کہ ‘جب کوئی دوسرا کسی شخصیت کے سیاسی کردار پر تنقید کرتا ہے تو اس کی تنقید کو بھی اداروں پر تنقید قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔’

علی ملک نے لکھا کہ ’جب کسی ایک جرنیل کا نام لے کر اسے نشانہ بنایا جاتا ہے تو بیان کیوں آتا ہے پورے ادارے میں غم وغصہ پایا جاتا ہے۔‘

صارف عتیق الرحمان نے سوال کیا کہ کیا یہ اصول ہر آئینی غیر سیاسی ادارے، اس کے سربراہ، ادارے کے دیگر جملہ اراکین اور ادارے کی اہم شخصیات پر لاگو ہو سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp