ڈاکٹر فاسٹس اور ہم


کرسٹوفر مارلوو اپنے مشہور زمانہ ڈرامہ ”ڈاکٹر فاسٹس“ میں ایک ایسے شخص کی کہانی بیان کرتا ہے جس کے پاس دنیا کے تمام بڑے علوم ہیں، لیکن اس کی مزید کی خواہش لے ڈوبتی ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کالا جادو سیکھنے کا سوچتا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے دوستوں سے کالے جادو کی ایک کتاب لے کر مطالعہ شروع کر دیتا ہے۔ اس کتاب سے کالے جادو کے کچھ منتر سیکھ کر وہ شیطان کے چیلے (میفسٹوفلس) کو حاضر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

میفسٹوفلس، فاسٹس کو بتاتا ہے کہ کالا علم اور طاقتیں حاصل کرنے کے لیے اسے شیطان لوسیفر سے 24 سالوں پر محیط ایک معاہدہ کرنا ہو گا۔ اس معاہدے کے تحت شیطان، اپنا ساتھی (میفسٹوفلس) فاسٹس کو بطور نائب دے گا اور اسے کالا جادو سکھائے گا۔ جس کی مدد سے فاسٹس تمام طاقتوں اور دولت پر اختیار حاصل کر لے گا اور جو من میں آئے کر سکے گا۔ لیکن اس کے عوض فاسٹس کی روح ہمیشہ کے لیے شیطان کی مرید بن جائے گی۔ یہ معاہدہ اسے اپنے خون سے دستخط کرنا ہوتا ہے، دستخط کرتے وقت اچھائی کے فرشتے مسلسل فاسٹس کو باور کراتے ہیں کہ وہ غلط کام کر رہا ہے، (کیونکہ اس وقت کے چرچ کے مطابق کالا علم سیکھنا بہت بڑا گناہ ہے ) اور اسے حتیٰ الامکان روکنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن فاسٹس اپنی خواہشات کے ہاتھوں مجبور، یہ معاہدہ سائن کر دیتا ہے۔

نتیجتاً، اسے کالا جادو سکھا دیا جاتا ہے اور وہ 24 سال تک اپنی تمام خواہشات پوری کرتا ہے آخر میں جب معینہ مدت مکمل ہونے میں چند گھنٹے رہ جاتے ہیں تو فاسٹس کو اپنے کیے کا پچھتاوا ہوتا ہے اور وہ اس سب کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن ”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت“ نتیجتاً ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا کی رحمت سے دور ہو کر شیطان کا چیلا بن جاتا ہے۔ یہ تو تھی فاسٹس کی کہانی۔ لیکن، اگر ہم اپنے دائیں بائیں یا اپنے آپ کو دیکھیں تو ہمیں یہ بات تو صاف پتا چل جاتی ہے کہ ہم سب کسی نہ کسی خواہش کے فاسٹس ہیں۔

ہم میں سے ہر شخص کچھ نہ کچھ مزید حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر کسی کے پاس علم و حکمت ہے تو وہ دولت چاہے گا، طاقتور مزید طاقت اور علم و حکمت چاہے گا جبکہ دولت مند، طاقت چاہے گا۔ الغرض ہر شخص کسی نہ کسی خواہش کے پیروی کر رہا ہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے اپنے نفس کی ملامت کو نظر انداز کرتے ہوئے فاسٹس کی طرح معاہدوں پر دستخط کیے جا رہا ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مذہب انسان کو قناعت سکھاتا ہے۔ فاسٹس کے معاہدے پر دستخط کرتے وقت اچھائی کے فرشتے اسے روکتے ہیں، بالکل اسی طرح ہمارا نفس ہمیں بھی روکتا ہے، لیکن، ہم کہاں رکتے ہیں۔

آج کے اس مادہ پرست دور میں مذہب کا کچھ علم اور اس پر یقین رکھنے والا بندہ تو سروایو کر لے گا کیونکہ وہ اس امر پر یقین رکھتا ہے کہ انسان کی قسمت میں جو بھی ہے اسے مل کر رہے گا۔ لیکن طاقت، علم اور وسائل کی دوڑ میں ہمارے جیسے دنیا کے بندے فاسٹس بنتے رہیں ہیں اور بنتے رہیں گے۔ ساری زندگی اپنی خواہشات کی پیروی اور ان کی تکمیل کے لیے ہر جائز و نا جائز طریقہ استعمال کرنے کے بعد جب تھک ہار کر بوڑھے ہو جاتے ہیں اور تمام قوتیں ماند پڑ جاتی ہیں تو ہوبہو فاسٹس کی طرح ایک پچھتاوا آتا اور گزشتہ عمر کی کارگزاری سامنے لا کر رکھ دیتا ہے۔

پھر ہم لوگ کبھی اپنے پیسے فلاحی اداروں کو عطیہ کرنے کی وصیت کرتے ہیں تو کبھی اپنی کتابیں کسی لائبریری کی زینت بنانے کا کہہ جاتے ہیں۔ اگر یہی سب کام، ہم لوگ اپنی جوانی میں کر لیں اور آخری وقت اطمینان والا نفس لے کر جائیں تو یہ کہیں بہتر ہے۔ شاید اسی لیے سب سے بڑے نفسیات دان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا؛ اگر میرے پاس احد پہاڑ بھی سونے کا ہو تو میں تین دن میں اسے لوگوں کے درمیان بانٹ دوں۔ اس لیے ہر خواہش کی تکمیل ضروری نہیں بلکہ خواہشات کی محدود رکھنا چاہیے تاکہ آخری وقت کے پچھتاوے کی جگہ اطمینان ہو اور زندگی بھی بہتر گزر سکے۔ زندگی میں جتنی مزید کی خواہش زیادہ ہوگی اتنی ہی پیچیدگیاں اور مسائل بڑھیں گے۔ اس لیے قناعت اور شکر میں ہی سکون ہے جبکہ لالچ اور طمع بے سکونی کا باعث ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments