محبت کرنا منع ہے


\"mujahid منصف نے حکم دیا ہے کہ محبت کا اظہار منع ہے۔ ایسا کرنے والا قابل تعزیر ہے اور اس کا اہتمام کرنے والا بھی برابر کا گناہ گار ہے۔ ایک اور منصف نے حکم دیا کہ 8 سال کی معصوم بچی کی شادی کرنا منع ہے اس لئے اس کا اہتمام نہ کیا جائے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے وہ شادی نہ روک سکے اور سندھ کی آٹھ سالہ بیٹی کو دلہن بنا دیا گیا۔ ایک ایسی گڑیا کو جس کے ابھی کھیلنے کے دن ہیں اور جسے شادی بیاہ کی اس سے زیادہ خبر نہیں ہے کہ اس دن ڈھول بجتا ہے اور لوگ خوش ہوتے ہیں۔ اب اعلان ہوا ہے کہ خوش ہونے کے لئے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ ان پر عملدرآمد کے بغیر خوش ہونے، جشن منانے اور نعرہ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ نفرت کا اظہار کرنے، پرچار کرنے، اس کی بنیاد پر خون بہانے، پھر اسے اسلام کا مقدس لباس پہنا کر جنت کا لائسنس لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ ایسی صورت میں نہ کوئی منصف کی سنتا ہے اور نہ اس کے لئے کسی اجازت کی ضرورت ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، سلمان تاثیر کا خونِ ناحق اور ممتاز قادری کی عزت افزائی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے والوں کے نعرے ہی یہ سب ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔

ہمارے وزیراعظم اور آرمی چیف روزانہ کی بنیاد پر ملتے ہیں اور اس ملاقات میں جن معاملات پر گفتگو ہوتی ہے اس کے ایجنڈے پر سرفہرست یہی نکتہ ہے کہ نفرت پھیلانا اور انسانوں کے طور طریقے، رہن سہن، عقیدے یا رائے سے اختلاف کی بنیاد پر انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا اور اس مقصد سے لوگوں کو مارنا یا مارنے کی ترغیب دینا غلط ہے اور بہرصورت اس چلن کو ختم کرنا ضروری ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کا اعلان ہے کہ جو بھی کرنا پڑا کریں گے لیکن عقیدہ اور رائے سے اختلاف پر مار دھاڑاور اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنے کی کوشش میں دہشت گردی کرنے والوں کو معااف نہیں کریں گے۔ اس ملک سے منافرت اور عدم برداشت کا خاتمہ کیا جائے گا۔ کچھ ایسا ہی ارادہ وزیراعظم کا بھی ہے۔ تب ہی تو پی آئی اے کے ہزاروں کارکنوں نے جب ایمرجنسی ایکٹ کے نفاذ کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش کی تو وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں بتایا دیا تھا کہ اگر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احتجاج کیا گیا تو نوکری سے بھی نکالے جائیں گے اور قانون شکنی پر قید کی سزا الگ بھگتنا پڑے گی۔ یہ ایک ایسے سربراہ حکومت کی للکار تھی جو ملک میں قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ لیکن چند ہی روز میں کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کی ایکشن کمیٹی بڑے بھائی کی بجائے چھوٹے میاں سے معاملات طے کرنے پر راضی ہو جاتی ہے۔ احتجاج بھی ختم، لشتم پشتم پی آئی اے کے طیارے بھی رن وے سے ہوا میں معلق اور ہڑتالیوں کے منہ بھی کھلے کے کھلے رہ گئے کہ اس سارے تماشے کا کیا مقصد تھا۔ یہ کیسی ہڑتال تھی اور یہ کیسی دھمکیاں تھیں۔ مگر یہ قانون کی عملداری کا معاملہ تھا۔ اس کے لئے نواز شریف اور ان کے ہمنوا کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

یہی معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے بھی درپیش ہے جس کے ایک جج کو درآمد شدہ ثقافت پر سخت اعتراض ہے۔ اس لئے 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانے کی ممانعت ہے۔ حکومت عدالتوں کا احترام کرتی ہے، اس لئے اسے مجبوراً یہ حکم ماننا پڑے گا۔ بس اپیل کا آپشن صرف اس وقت یاد آتا ہے جب کسی حلقے میں بے قاعدگیوں پر کوئی جج انتخابات کالعدم قرار دینے، ووٹ دوبارہ گننے یا ان کی ازسر نو تصدیق کروانے اور نئے انتخاب منعقد کروانے کا حکم جاری کرے۔ پھر اقتدار کی ہر منزل پر ایستادہ پیادہ اور داروغہ کو بیک وقت یہ خیال آتا ہے کہ عدالتی نظام کے کئی درجے ہیں۔ عدالتیں غلط فیصلے بھی دیتی ہیں اور ان فیصلوں کو تبدیل کروانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر تبدیل کروانا مقصود نہ ہو تو سٹے آرڈر سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس قسم کے نازک عدالتی حکم پر یاوش بخیر شہباز شریف چار برس تک ملک کے سب سے بڑے صوبے پر حکومت کر چکے ہیں۔ اور اصول اور سیاسی جدوجہد کا علم تھامے ایک وفاقی وزیر گزشتہ دو برس سے ایسے ہی ایک حکم نامہ پر مسلسل ان لوگوں کی نمائندگی کرنے پر مصر ہیں جس کے بارے میں ٹربیونل کا اصرار ہے کہ وہ تائید دھاندلی کا نتیجہ ہے۔ یہی نظام ہے۔ یہاں ہر وہ معاملہ اصول اور ضابطے کے مطابق طے پاتا ہے جس سے صاحبان اقتدار کی ضرورت پوری ہوتی ہو۔ جو بات ان کے طریق سیاست سے میل نہ کھاتی ہو، اسے نظر انداز کرنا ہی بھلا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ سے جاری ہونے والا حکم ایسے ہی معاملات میں سے ایک ہے۔ اس کے خلاف اپیل کرنے سے وہ سارے زعما ناراض ہو سکتے ہیں جن کی تائید سے موجودہ نظام کو کامیابی سے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ حکم صرف ایک روز کی تقریبات، خیر سگالی، محبت اور نیک خواہشات کے اظہار پر پابندی ہی تو عائد کرتا ہے۔ اسے تبدیل کروانے سے آخر کس کا بھلا ہو سکتا ہے۔ کم از کم حکومت کو تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ البتہ اگر یہ ثابت کیا جا سکے کہ عدالت کا یہ حکم حکمرانوں کے لئے سیاسی نقصان کا سبب بن سکتا ہے تو پرویز رشید اور رانا ثنا اللہ لمحہ بھر میں ہر ٹاک شو میں اس کے پرخچے اڑانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور حکومت، سندھ کے ان بے بس والدین کی طرح عدالتی حکم کی ’خلاف ورزی‘ پر آمادہ ہو سکتی ہے جنہوں نے نہ جانے کس مجبوری میں عدالتی حکم کے باوجود اپنی 8 سالہ بیٹی کو ایک چالیس سالہ شخص سے بیاہ دیا۔ جس طرح اس شادی کو روکنے سے اسلام خطرے میں پڑ سکتا تھا، اسی طرح ویلنٹائن ڈے پر عائد کی گئی پابندی کو چیلنج کرنے سے بھی اسلام کی حقانیت کو خطرات لاحق ہیں۔ اسلامی معاشرت و اخلاقیات کے سپاہی ننگی تلواریں بن کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑنے کے لئے آمادہ و تیار ہیں۔

پر صاحب یہ تو بتا دیجئے کہ پھر اس ملک میں جنگ کس بات کی ہے۔ مان لیا کہ نفرت کرنا اور اس کی بنیاد پر دوسروں کو روند دینا جائز اور محبت کرنا اور اس کا اظہار کرنا غلط اور گناہ تو پھر یہ ضرب عضب کیا ہے۔ یہ نیشنل ایکشن پلان کیا ہے۔ یہ مولویوں کی اشتعال انگیزی پر قانون کا حرکت میں آنا کیا ہے۔ یہ مرنے مارنے پر اکسانے والوں کی پکڑ دھکڑ کیا ہے۔ اگر یہاں رواداری اور اظہار محبت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر نوجوان ہوں یا بڑی عمر کے لوگ، ایک دوسرے سے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے ایک پھول پیش نہیں کر سکتے۔ اگر ہر ایسی روایت سے جو نرم خوئی عام کرتی ہو، اس ملک کی اسلامی شناخت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے تو فوج کا آپریشن ضرب عضب اور حکومت کا قومی ایکشن پلان کون سا اسلامی تشخص عام کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔ اگر واقعی خون بہانا، نفرت کرنا اور اس کی ترغیب دینا، عقیدے کے نام پر بم پھوڑنا اور معصوموں کو مارنا غلط ہے۔ اسلام کے خلاف ہے۔ تو ہر دوسری گلی کا ملا کیوں کر اس کے خلاف پیغام دینے میں مصروف ہے اور کیسے ہمارا نظام ان لوگوں کی گرفت کرنے کی بجائے ان بے ضرر نوجوانوں کی خوشیوں کا خون کرنے کے درپے ہے جو نفرت اور انتقام کے گھپ اندھیرے میں زندگی کی رمق برقرار رکھنے، امید کا دیا جلائے رکھنے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر مصیبتوں، نفرتوں اور جان لیوا نعروں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔

ایسے میں جب نفرتوں کی ایسی فصل کاشت کی گئی ہو کہ زمین سے شعلے نکلیں اور آسمان سے قہر برسے تو یہ نرم خو نوجوان، محبت کا نام لینے والا ہر شخص، کسی دوسرے کے لئے بے ریا خلوص کی بنیاد پر ایک پھول پیش کرنے والا ہر فرد اور مارنے اور مرنے کی بجائے ساتھ جینے کی بات کرنے والا ہر انسان اس قوم کا محسن ہے۔ آپ ہیں کہ ان محسنوں کے راستے میں کانٹے بچھانے چلے ہیں۔ آپ مسکراہٹوں کو چھین لینا چاہتے ہیں۔ تو بتائیے آپ نفرتوں کے خلاف جنگ کیوں کر جیتیں گے۔

یہ معاملہ نہ عدالت کا ہے اور نہ حکومت کا۔ یہ نہ ان لوگوں سے متعلق ہے جو ویلنٹائن ڈے منانا چاہتے ہیں اور نہ ان کے بارے میں جو اس دن کو اپنے عقیدے یا ہر عقیدے کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ معاملہ اس ایک سادہ اصول کے بارے میں ہے کہ مسلمہ اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر شخص کو اپنے طور سے اپنی زندگی جینے کا حق حاصل ہے۔ جو شخص بھی یہ اصول نہیں مانتا، وہ اس ملک میں امن اور خوشحالی کا دشمن ہے۔ خواہ وہ طالب علموں پر بندوق اٹھانے والا دہشت گرد ہو، نوجوانوں کو خوش ہونے سے منع کرنے والا جج ہو یا ان دونوں کو اپنا اپنا جبر نافذ کرنے کی اجازت دینے والا حکمران اور نظام ہو…. دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہے تو ان سب کے خلاف آپریشن ضرب عضب ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments