میں شرمندہ ہوں اس دور کی انسان ہو کر


فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

خدائے عزوجل کی نایاب تخلیق، انسان، خلد بریں سے روئے زمیں پر اپنے ساتھ کہکشائیں لایا، جس کے وجود سے کائنات کی رعنائیوں میں قوس قزح کے رنگ سمٹے۔ قادر مطلق نے اپنی اس تخلیق کو اصل داستاں اور کائنات کو فقط زیب داستاں ٹھہرایا۔ صرف اس لئے کہ وہ یکجہتی اور یگانگت کا منہ بولتا ثبوت ہو۔ دوسرے انسان کا دکھ اس کا اپنا المیہ ہو۔ جس خلد بریں سے اس کو نکالا گیا، یہاں وہ اس سے بہتر جنت تعمیر کرے۔ گوہر عقل کو اس لئے ودیعت کیا گیا کہ کوہساروں کا جلال اسے شوق تسخیر عطا کرے اور دریاؤں کی روانی مسافت زندگی کو جرات رفتار دے۔ سمندر کی گہرائی فکر کے ادراک وا کرے۔ آسمانوں کی پنہائیاں کوئی معمہ نہ رہیں۔

؎ سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے

مگر افسوس! وہ زمیں، جس نے انسان کو خلد بریں سے نکالے جانے کے بعد پناہ دی، وہ زمیں، جس نے انسان کی عریانی کو مستور کیا، اسی زمیں پر انسان نے مسابقت و پیکار کا آغاز اپنے ہی بھائی کے خون سے کیا۔ سینۂ زمین پر جب خون کا پہلا قطرہ گرا تو روح زمین لرز اٹھی، فلک سرخی میں ڈوب گیا۔ عناصر کائنات اپنی جگہ منجمد ہو گئے حتٰی کہ فرشتے بھی اس عظیم تخلیق کے کارنامے پر ششدر رہ گئے۔ یہ انسان کی سفاکی کی ابتدا تھی لیکن عصر حاضر میں تو انسان ہر روز سفاکی کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے۔

؎ مٹی کے گھروندے ڈھا ڈھا کر ایوان بنائے جاتے ہیں
انسان کے ظالم ہاتھوں سے انسان مٹائے جاتے ہیں

موجودہ دور کو اہل نظر تہذیب و تمدن سے مزین دور گردانتے ہیں لیکن یہ ایسا ترقی یافتہ دور ہے جس میں مال و متاع کی حکمرانی ہے، جس میں اخلاقی اقدار کی پاسداری نا پید ہے۔ ایسا دور جس میں عزت و ناموس سے لے کر ذہن و ضمیر تک دولت اور طاقت کے زور سے اپنے تابع کیے جاتے ہیں۔

؎ کرتا ہے آدمی بھی باتیں درندگی کی
تہذیب کیا مظفؔر جنگل میں پل رہی ہے

نیکی اور صداقت، معصیت و پاکیزگی گزشتہ ادوار کا حصہ دکھائی دیتی ہیں۔ جبکہ دور حاضر میں صداقت کذب و بہتان کے پردے میں جا چھپی ہے۔ پاکیزگی کا دامن تار تار ہے، عصمت کے لٹیرے تو بہت ہیں، رکھوالا کوئی نہیں۔ دیانت و صداقت کردار کی خوبی نہیں، خامی بن گئی ہے۔ مشرق و مغرب، ہر جگہ اخلاق اور انسانیت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ وہ جن کے وجود سے اخلاق کے نشاں باقی سمجھے جاتے تھے، آج وہ خود بے ننگ و نام ہیں۔ معصوم انسان ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔

؎ کہاں ہے ارض و سما کا خالق کہ چاہتوں کی رگیں کریدے
ہوس کی سرخی رخ بشر کا حسین غازہ بنی ہوئی ہے

موجودہ تہذیب یافتہ دور کا انسان ایک طرف تو آسمان کی وسعتوں کو تسخیر کر رہا ہے، خلاؤں کے اسرار کی تلاش میں مصروف ہے، سمندروں کے سینے سے گوہر نایاب نکال کر انسانوں کے قدموں میں ڈھیر کر رہا ہے تو دوسری طرف ترقی کا علم بردار یہی انسان ایٹم بم سے کروڑوں انسانوں کو پل بھر میں لقمۂ اجل بنا رہا ہے۔ عراق ہو یا افغانستان، کشمیر ہو یا فلسطین، ہر طرف طاقت کے زور پر ظلم برپا ہے۔ یہ کوئی وقتی سانحہ نہیں بلکہ اس زمیں پر آج تک جنم لینے والی انسانی نسلیں، اخلاقی پستی کا منہ بولتا ثبوت نظر آتی ہیں جن کے لئے سلسلۂ جدال و قتال معمول کا فعل بن گیا ہے۔

؎ کل بھی میں جنگل میں تھا آج بھی میں جنگل میں ہوں
کل میرے ہمسائے تھے خونی درندے، بھیڑیے
آج انسانوں میں ہوں اور خون کے جل تھل میں ہوں
روح کا قاتل ہوں میں اور جسم کے مقتل میں ہوں

اللہ تعالٰی نے انسان کو اس لئے تو پیدا نہیں کیا تھا کہ وہ اس دنیا میں آ کر جدال و قتال میں مصروف ہو جائے۔ خدا نے تو اس کو درد دل کی دولت دے کر بھیجا تھا کہ وہ مخلوق خدا کے کام آئے اور سب کے ساتھ بھلائی کرے۔ لوگوں کے دکھوں کو کم کرنے کی کوشش کرے نہ کہ ان میں اضافہ کرے۔

؎ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

اس نام نہاد تہذیب یافتہ دور کی انسان ہوتے ہوئے میں شرمندہ ہوتی ہوں جب میں قبلۂ اول کی عزت و ناموس کو پامال ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں، میں شرمندہ ہوتی ہوں جب مساجد کو سجدہ ریز نمازیوں کے خون سے رنگا ہوا دیکھتی ہوں۔ میں شرمسار ہوں نسل انسانی کو روٹی کے ٹکڑوں کی خاطر تڑپتا ہوا دیکھ کر، درندگی کو انتہا پر پہنچا ہوا دیکھ کر، کشمیر اور فلسطین میں حق کی خاطر لڑنے والے مجاہدوں کے جسموں کے ٹکڑے ہوتے دیکھ کر اور معصوم ننھے بچوں کو درسگاہوں میں ذبح ہوتے دیکھ کر اور میں شرمندہ ہوں اپنے ملک کے روشنیوں اور رنگ و نور کے شہروں کو خون میں ڈوبتا دیکھ کر۔

کاش! میرے پاس الفاظ ہوتے تو میں ان شہروں کا نوحہ پڑھتی، میں چھلنی چھلنی جسموں کا مرثیہ لکھتی۔ ہم ایک قیامت کے عہد میں زندہ ہیں اور قیامتیں ہیں کہ آئے روز ہم پر ٹوٹتی رہتی ہیں۔ کبھی دہشت گرد قیامت برپا کر دیتے ہیں، کبھی تخریب کار قیامت بن کر نازل ہوتے ہیں، کبھی خود کش بمبار قیامت ڈھاتے ہیں کبھی ریاستی طاقت قیامت کا روپ دھار لیتی ہے اور کبھی سیاسی مفادات کے اسیر ہمارے لئے قیامت کا پیغام لاتے ہیں۔

؎ وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا
جو نفس تھا خار گلو بنا، جو اٹھے تو ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاط آہ سحر گئی، وہ وقار دست دعا گیا

میں آج انتہائی مایوس بھی ہوں اور کرب و اذیت کے ساتھ سوگوار بھی، ان سب کے لئے ملول بھی جو اپنی اپنی جاں سے گزر گئے۔ جن کے لواحقین اور پیارے حیرتوں کے ساتھ غم اور دکھ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ میں اس اکثریت کے ساتھ ہوں جو مجبور بھی ہے، رنجور بھی ہے، محکوم بھی ہے، دہشتوں اور وحشتوں سے خوفزدہ بھی ہے اور اس مجرمانہ خاموشی پر شرمسار بھی۔

؎ یہی زرد زرد چہرے، یہی لوگ جاں بلب سے
کبھی انتقام لیں گے تیری زر نگار شب سے

معاشرے، انسانی تمدن، اخلاقی اقدار، دکھ سکھ کی ساجھے داری اور محبتوں کے پھیلاؤ کا مرکز ہوا کرتے ہیں۔ یہاں اگر یہاں اگر درندوں کی افزائش کی جانے لگے، سگ آوارگاں دندناتے پھرنے لگیں، وحشتیں اور دہشتیں در و بام تک آن پہنچیں تو پھر آنکھوں کا پتھرا جانا بھی غیر معمولی بات نہیں۔ اپنی اپنی کمین گاہوں میں خواب بنتے رہئے، ممکن ہے کل موسم بدل جائے، جس کی شب گزیدہ دوپہر میں کبھی کسی روشن شام کا ظہور ہو اور کسی پل ہوا سرسرانے لگے۔

یہ میرا بھی خواب ہے اور آپ کا بھی، جو ہم سب تسلسل کے ساتھ دیکھتے رہے ہیں۔ آج زندگی کا ہر شعبہ دھڑے بندی کا شکار ہے۔ ہم نے آزادی جیسی نعمت کی کوئی قدر نہیں کیا اور مٹنے والی قوموں کی تمام خرابیوں کو خوبیاں سمجھ کر اپنا لیا ہے۔ شیطان برائیوں کو خوشنما بنا کر ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے اور ہم شیطانی حربوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم دینی طور پر بے یقینی اور سیاسی طور پر بے چارگی کا شکار ہیں۔ ہمارا قومی تشخص دھندلا گیا ہے۔ نظریاتی فکر، مادیت کی شکار ہے۔ ہمارا ملی وجود ڈگمگا رہا ہے، ہماری صفیں کج، دل پریشان اور سجدے بے ذوق ہیں۔ عصر حاضر کے یہ تحفے ہیں۔

؎ عصر حاضر نے دیے انسان کو پتھر کے دل
کیا قیامت ہے، دل، درد آشنا کوئی نہیں

ہے۔ چاروں طرف خنجر تنے ہوئے ہیں، انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ ہم نسلی، لسانی، علاقائی، صوبائی اور قومی سطح پر شدید آویزش کا شکار ہیں۔ اتفاق، اتحاد اور محبت کی جنس کا ہمارے موجودہ معاشرے میں قحط پڑ گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بہاریں ہمارے اس چمن سے روٹھ گئی ہیں۔ ہمارے گھر، ہماری مسجدیں اور ہمارے ادارے اسلحے کے ڈپو بن گئے ہیں۔ اپنوں کی حماقتوں اور غیروں کی سازشوں نے ہمارے پر امن معاشرے کی بقائے باہمی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہم دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان کے عزائم کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بارود کی بارش ہو رہی ہے اور ہم شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں۔

؎ اہل ہوس میں گرم ہے پھر جنگ اقتدار
شعلوں کی زد میں سارا گلستاں ہے دوستو

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی رسی کر مضبوطی سے پکڑ لیا جائے۔ اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے۔ اللہ نے کورونا جیسی آفریت کو ہم پر ایک عرصے سے مسلط کر رکھا ہے، ہمیں اس سے نجات مل جائے، گڑگڑا کر اللہ کی رحمت کو طلب کیا جائے۔ مذہبی، سیاسی، لسانی اور علاقائی فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ بہت ضروری ہے کہ آج کا انسان اپنے مقصد تخلیق کو پہچانے اور سمجھے، اخوت اور بھائی چارے کو اپنا شعار بنائے۔

اپنے فرائض کو پہچانے اور دوسروں کے حقوق کو تسلیم کرے۔ یہ بھی لازم ہے کہ انسان ہر حال میں خود کو اخلاق اور قانون کی حد میں رکھے۔ جب محبت زندہ اور انسانیت بیدار ہو جائے گی تب دہشت گردی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ اسلحہ سسکتی اور دم توڑتی انسانیت کی حفاظت کے لئے استعمال ہونا چاہیے نہ کہ ہنستی مسکراتی زندگیوں کو تڑپانے اور خون میں نہلانے کے لئے۔ لازم ہے کہ انسان اس ضابطۂ حیات کو مکمل طور پر اپنائے جو خالق حقیقی نے اس کے لئے اپنے پیارے رسولﷺ کے ذریعے بھیجا ہے اور خدا کی زمین پر خدا کا بندہ ہی بن کر رہنا چاہیے۔ ”فرعون بے ساماں“ بننا عبدیت اور عبودیت دونوں کی توہین ہے۔

؎ فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجود ملائک ہوں، مجھے انساں ہی رہنے دو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments