ملائیشیا کے لوگ اور طرز حکمرانی


ملائیشیا اور پاکستان کا آبادی و رقبے کے لحاظ سے کوئی موازنہ نہیں۔ ملائیشیا پاکستان کے مقابلے میں بہت چھوٹا ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ 329847 مربع کلومیٹر ہے۔ اور اس کی آبادی پونے چار کروڑ پر مشتمل ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کا رقبہ 881913 مربع کلومیٹر ہے جبکہ پاکستان کی آبادی تقریباً 22 کروڑ ہے۔ ملائیشیا پاکستان سے دس سال بعد آزاد ہوا۔ اور ٹوٹل بیس سالوں میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کی قیادت میں ترقی کی اعلیٰ منازل تک رسائی حاصل کی۔

اتنے چھوٹے سے ملک کی فی کس شرح آمدنی 10270 امریکی ڈالر ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان بہت بڑا ملک ہے۔ لیکن اس کی صرف 1260 امریکی ڈالر ہے۔ میں نے ایک ملائیشین دوست سے پوچھا اس شہر میں کوئی بھی وی آئی پی یا وزیر مشیر نہیں رہتا۔ اس کا جواب تھا سب رہتے ہیں۔ میں نے کہا آج تک کبھی کوئی پروٹوکول نہیں دیکھا اور نہ ہی عوامی ٹریفک میں کوئی خلل دیکھا اس نے بڑے معصومانہ انداز میں جواب دیا وہ عوام کے خادم ہوتے ہیں۔

عوام کو تکلیف کیسے دے سکتے ہیں۔ اگر عوام کو تکلیف دیں گے تو پھر ان کو ووٹ کون دے گا۔ میں اس کا جواب سن کر حیران رہ گیا۔ یہاں پر کئی کمپنیوں کے مالک خود گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں۔ اپنے کاروبار کی جگہ خود صاف کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی ایسی گاڑی سے اترتے ہیں جو پاکستان میں دیکھنے کو نہیں ملتی لیکن ان کے اندر عاجزی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یہاں پر آپ کو کوئی مذہبی یا سیاسی اجتماع دیکھنے کو نہیں ملے گا۔

مسلمان یہاں اکثریت میں ہیں۔ جگہ جگہ مساجد بنی ہوئی ہیں لیکن یہاں کی مساجد نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔ بڑی مساجد ہوتی ہیں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہیں۔ جیسے چائنیز بہت ہیں۔ اسی طرح انڈین بھی ہیں۔ سب لوگ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرتے ہیں۔ عوام کو تکلیف نہیں دیتے کیونکہ سرکاری سطح پر اس کی اجازت نہیں ہے۔ تمام مساجد میں خطبہ جمعہ حکومت کی طرف سے لکھا ہوا ملتا ہے۔ مساجد میں مسلک اور سیاست کی بات کرنا سخت ممنوع ہے۔

علمائے کرام لوگوں کو قرآن اور حدیث کا علم دیتے ہیں اور وہی بات بتاتے ہیں جو قرآن اور حدیث میں موجود ہے۔ مساجد میں وسیع پارکنگ کی جگہ ہوتی ہے اور سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ مقامی لوگ مختلف قسم کے پھل مشروبات اور کھانے ایک طرف رکھتے ہیں۔ جمعہ کی نماز کے بعد اس سروس کو زیادہ تر غیرملکی استعمال کرتے ہیں اور شاید ملائشین لوگ غیرملکیوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ مساجد میں اکثر عطر بھی موجود ہوتا ہے۔

جو لگانا چاہیے لگا سکتا ہے یہاں پر کسی کی جرات نہیں کوئی کسی کے مذہب کی توہین کرے۔ بڑی سخت سزا ہے یہاں پر پارلیمانی طریقہ رائج ہے پاکستان کی طرح یہاں بھی وزیراعظم کے پاس سارے اختیارات ہوتے ہیں۔ یہاں پر انتخابات پاکستان کی طرح نہیں ہوتے بڑے بڑے جلسے اور تشہیری مہم نہیں کی جاتی۔ زیادہ تر امیدوار ڈور ٹو ڈور جا کر اپنا انتخابی منشور بتاتے ہیں۔ ٹی وی پر مذاکرے چلتے ہیں اخبارات کے ذریعے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

جس کا جس کو دل کرتا ہے ووٹ ڈال دیتا ہے۔ کوئی بریانی کا نظام نہیں اور نہ ہی کسی قسم کی رشوت کی بات ہوتی ہے۔ ووٹ کو قومی فریضہ سمجھ کر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں یہاں کے وزیراعظم جناب محی الدین یاسین نے استعفیٰ دیا۔ کیونکہ ان سے کورونا کی صورتحال صحیح انداز میں کنٹرول نہیں ہو سکی۔ یہاں پر کسی بھی سکینڈل کی وجہ سے متعلقہ وزیر اپنا استعفیٰ دے دیتا ہے یہاں پر کسی سے استعفیٰ مانگنے کی ضرورت کم پیش آتی ہے۔

یہاں پر حکومت کو درخت لگانے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ یہاں کی حکومت نے بہت اچھا نظام بنا دیا ہے۔ سب جانتے ہیں ملائیشیا ایک جنگل ہے ہر طرف آپ کو درخت ہی نظر آئیں گے لیکن اس کے باوجود کسی شہری کو ایک چھوٹا سا پودا بھی کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ کوئی بھی نئی عمارت بنے گی تو اس کے اندر اس کی پیمائش کے لحاظ سے لازمی درخت ہونے چاہیے۔ تب جا کر وہ عمارت فعال ہو سکے گی۔ آپ کو ملائیشیا میں کوئی ایسا گھر سکول یونیورسٹی اسپتال غرض کسی بھی عمارت میں چلے جائیں درختوں اور پودوں کے بغیر آپ کو کوئی عمارت نظر نہیں آئے گی۔

اسی طرح ہر عمارت میں آگ بجھانے کا نظام موجود ہو گا۔ یہاں پر آج تک کوئی احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا ہر علاقے کا سیاسی نمائندہ ہر وقت عوام کے کی خدمت کے لیے موجود ہوتا ہے۔ یہاں کی سیاسی جماعتیں مالی طور پر بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ وہ فنڈ ریزنگ کرتی ہیں۔ اور جو بھی عوامی خدمت اور سیاست کا شوق رکھتا ہے۔ اس کو پارٹی کا ٹکٹ مل جاتا ہے یعنی یہاں پر پاکستان کی طرح سیاسی خاندان سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی امیر ہونا ضروری ہے۔

یہاں پر پارلیمنٹرین کا کام قانون سازی کرنا ہوتا ہے۔ باقی تمام عوامی کام متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ ادارے اپنا کام احسن انداز میں سر انجام دیتے ہیں۔ یہاں پر کسی وزیر کو کسی منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ یہاں پر تختیاں لگانے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ باشعور ہیں اور ان کو اپنے حقوق کا بخوبی علم ہے۔ یہاں پر کسی گلی محلے کی سڑک اس طرح بنی ہوتی ہے جیسے پاکستان میں ایکسپریس ہائی وے ہو۔

یہاں کے پارلیمنٹرین اسمبلی میں اپنے منصوبے نہیں گنواتے وہ صرف قانون سازی پر کام کرتے ہیں۔ عوامی کام صرف متعلقہ محکموں کا کام ہوتا ہے اور وہ کام عوام کا بنیادی حق ہوتا ہے۔ یہاں کے سرکاری سکول کالج اور یونیورسٹیاں اعلی معیار کی ہوتی ہیں۔ یہاں کے سرکاری ہسپتال تمام سہولیات سے لیس ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگ سرکاری اداروں کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہاں پر کسی بھی مضر صحت چیز کو بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں کے ادارے بہت فعال ہیں۔

مسلمانوں کے لئے کوئی حرام چیز بیچنا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہر چیز پر حلال سرٹیفیکیشن موجود ہوتی ہے۔ یہاں کی حکومت اپنے شہریوں کے لیے ہر ممکن سہولیات دینے کی کوشش کرتی ہے۔ یہاں کے ایک سابق وزیراعظم نجیب زیر حراست ہیں ان پر بدعنوانی کے الزامات ہیں۔ یہاں پر قانون سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے۔ یہاں کی آرمی برائے نام ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں یہ لوگ لڑائی جھگڑا پسند نہیں کرتے تعمیر ترقی کو اہمیت دیتے ہیں پاکستان کا طرز حکمرانی اگلی قسط میں انشاءاللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments