پاکستان اور امریکہ کے درمیان سرد مہری کا نیا دور


گزشتہ کچھ عرصہ سے سامنے آنے والے اشاریوں سے جو تصویر بن رہی ہے اس میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان فاصلے نمایاں ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت امریکہ کے ساتھ ’معمول‘ کے تعلقات چاہتی ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان نے سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں واضح کیا کہ ہم امریکہ کے ’کرائے کے فوجی بننا نہیں چاہتے بلکہ اس کے ساتھ ایسے ہی تعلقات چاہتے ہیں جیسے امریکہ اور بھارت کے درمیان ہیں‘ ۔

پاکستانی خواہش کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ بدگمانی کے سایے گہرے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے ترجمان یکساں طور سے یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہمارے درمیان مکالمہ جاری ہے اور متعدد امور پر باہمی رابطے میں ہیں۔ اس کا ایک حوالہ اعلیٰ امریکی عہدیداروں کا پاکستانی حکام سے مسلسل رابطہ بھی ہے۔ حال ہی میں سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا جس کے دوران انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے ملاقات بھی تھی۔ خبروں کے مطابق برنس کا یہ پاکستان کا دوسرا دورہ تھا۔ بظاہر اس قسم کے ہائی پروفائل دوروں سے یہی اندازہ کیا جاتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان حساس معاملات پر قریبی تعاون موجود ہے۔ لیکن اس دوران سامنے آنے والے اشاروں سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوتی۔

اس تناظر میں امریکہ اور پاکستان باہمی تعاون اور قریبی تعلق کا دعویٰ کرتے ہوئے درحقیقت دو مختلف باتیں کر رہے ہیں۔ پاکستان ماضی قریب میں اپنی خدمات یاد کروا کے امریکہ کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو براہ راست تسلیم نہ بھی کیا جائے تو بھی اس کی مالی امداد بحال کی جائے تاکہ وہاں معاشی بدحالی اور بحران کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ اس حوالے سے پاکستانی حکام نے تواتر سے دلائل کا انبار جمع کیا ہے۔ پاکستان کے اس سرکاری موقف کو اگر طالبان کی کامیابی کے بعد پاکستانی میڈیا، سرکاری بیانات اور عوامی سطح پر پائے جانے والے جوش و خروش کے حوالے سے دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی طرح پاکستان بھی افغانستان میں امریکی ’ناکامی‘ پر خوش ہے اور اسے پر امن افغانستان کے لئے اہم سمجھتا ہے۔ امریکہ میں سرکاری اور نیم سرکاری ادارے پاکستان کے جوش و خروش اور تعاون کے دعوؤں کے درمیان توازن تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس غیر واضح صورت حال میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن اپنی اپنی ڈفلی ضرور بجا رہے ہیں، تعاون و مواصلت کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں لیکن دونوں دارالحکومتوں میں مل کر چلنے کے کسی ٹھوس منصوبے پر کام نہیں ہو رہا۔

فی الوقت پاکستان کے ساتھ تعاون کے حوالے سے امریکہ کے اہداف محدود اور افغانستان کے تناظر میں ہی ہیں۔ امریکہ پاکستان سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ مسلسل افغانستان میں پھنسے ہوئے غیر ملکیوں کے علاوہ ایسے تمام افغان باشندوں کے انخلا میں مدد فراہم کرتا رہے گا جو وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ پاکستان کے ذریعے طالبان کو ایسی حکومت کی تشکیل پر آمادہ کرنا چاہتا ہے جس میں تمام افغان طبقات کی نمائندگی ہو تاکہ ملک میں یک جہتی اور ہم آہنگی کا ایسا ماحول پیدا ہو سکے جس میں شدت پسند گروہوں کو مضبوط ہونے کا موقع نہ ملے۔ پاکستان اس حوالے سے ابھی تک طالبان سے کوئی خاص رعایت نہیں دلوا سکا۔ طالبان پر اثر و رسوخ کے بارے میں پاکستان اپنی مجبوریوں کا ذکر بھی کرتا رہا ہے اور اس کا موقف ہے کہ طالبان خود مختاری سے فیصلے کرتے ہیں اور وہ پاکستان کا مشورہ ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ یہ بات حقیقت حال کے نزدیک ہونے کے باوجود واشنگٹن میں پوری طرح قبول نہیں کی جاتی۔ اس کا اندازہ اس ہفتے کے شروع میں واشنگٹن میں ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی میں کی گئی تند و تیز تقریروں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا اس اجلاس میں جواب بھی اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ امریکہ کے خیال میں پاکستان طالبان کے حوالے سے امریکی اہداف حاصل کرنے کے لئے سو فیصد کوشش نہیں کر رہا۔

انٹونی بلنکن نے کانگرس کمیٹی کو بتایا تھا کہ امریکہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسر نو جائزہ لے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے افغانستان سے بعض ایسے مفادات وابستہ ہیں جو امریکی مفادات سے براہ راست متصادم ہیں۔ انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ’پاکستان نے گزشتہ بیس سال کے دوران کیا کردار ادا کیا ہے اور ہمارے خیال میں مستقبل میں اسے کیا کردار ادا کرنا چاہیے‘ ۔ پاکستان نے کانگرس کمیٹی میں ہونے والی اس تند و تیز بحث اور امریکی وزیر خارجہ کے بیان پر براہ راست رد عمل نہیں دیا۔ جمعرات کو دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے ایک سوال کے جواب میں انٹونی بلنکن کے موقف پر تبصرہ کیا اور کہا کہ ’یہ بیان حیران کن اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے موجودہ ماحول میں ناقابل فہم ہے‘ ۔ اس کے بعد ترجمان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی خدمات، جانی و مالی نقصان اور امریکی انخلا کے سلسلہ میں فراہم کیے گئے تعاون کی تفصیلات بیان کیں جن کا دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی سرد مہری سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی، طالبان کے ساتھ تعلقات اور تعاون کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ نے شبہات کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے تعلقات پر نظر ثانی کا اشارہ دیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان کے وزیر خارجہ یا وزارت خارجہ نے اس پر براہ راست کوئی جواب دینے اور اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ البتہ اس دوران وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے غیرملکی صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ایک بار پھر مغربی ممالک کو ہوش کے ناخن لینے اور افغانستان اور طالبان کے بارے میں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کے بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر دنیا نے فوری طور سے افغانستان کی مالی امداد بحال نہ کی اور وہاں انسانی بحران کو قابو پانے میں تعاون نہ کیا تو یہ ملک ایک بار پھر دہشت گردوں کا ٹھکانہ بن سکتا ہے۔ یہ طرز بیان تعاون کی اپیل سے زیادہ ’دھمکی‘ کا تاثر راسخ کرتا ہے۔ اس میڈیا ٹاک میں معید یوسف کے بیان سے یہ لگتا تھا کہ وہ امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کو دھمکانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ حیرت انگیز طور پر طالبان کے ترجمانوں نے بھی مغربی ممالک کے بارے میں ایسا رویہ اختیار نہیں کیا۔

امریکہ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کے اشارے اور اس کی نیت کے بارے میں شبہات کے اظہار کے باوجود پاکستان کی طرف سے خاموشی کے بعد وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں وضاحت کی ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول کے مطابق ہیں۔ حیرت ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو میڈیا سے طویل اور پرجوش باتیں کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں، اس معاملہ میں کیوں منہ میں گھنگھنیاں ڈالے ہوئے ہیں۔ اس کی صرف ایک ہی وضاحت کی جا سکتی ہے کہ پاکستانی حکومت یا طاقت کے مراکز میں افغانستان کی سرپرستی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے درمیان توازن قائم کرنے کے سوال پر بے یقینی کی کیفیت موجود ہے۔ اسلام آباد جب طالبان کو کچھ گنجائش فراہم کرنے کا پیغام پہنچاتا ہے تو وہ اپنے خالی خزانے اور مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے پہلے اقتصادی تعاون بحال کروانے کی بات کرتے ہیں۔ اور جب امریکہ سے اس بارے میں استفسار کیا جاتا ہے تو وہ ’مطالبات‘ کی ایک طویل فہرست سامنے لاتا ہے۔ لگتا ہے کہ امریکہ جو مقاصد افغانستان میں دو دہائی تک فوجی کارروائی کے بعد حاصل نہیں کر سکا، وہ اسے اپنی مالی و سفارتی صلاحیت کے ذریعے حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اسی مقصد سے پاکستان پر دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے۔ اسی لئے بعض تجزیہ نگار اب اس نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں کہ صدر جو بائیڈن کی حکومت کو افغانستان سے انخلا کی صورت میں جس خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور اس پر امریکہ میں جو شدید تنقید ہوئی ہے، اب اس کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر داخلی طور سے سیاسی سہولت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ جائزہ اگر درست بھی ہو تب بھی پاکستان کو اس کے منفی اثرات سے باہر نکلنے کے لئے واضح اور ٹھوس حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملکی خارجہ پالیسی کی ترجیحات غیر واضح ہیں۔ اس پر مستزاد حکومتی ترجمانوں کے تند و تیز بیانات اور امریکی غلطیوں کی نشاندہی کے لئے میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی حکمت عملی سے تعلقات میں تناؤ پید ا ہوا ہے۔ پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نہ تو وہ امریکی پالیسیاں درست کر سکتا ہے اور نہ ہی ان مطالبات کے بارے میں کوئی خاص کردار ادا کر سکتا ہے جو امریکہ طالبان سے منوانا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان افغانستان کا فریق بننے کا تاثر قوی کر کے اپنے قومی مفادات کا تحفظ نہیں کرسکے گا۔ اس حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

سی این این سے انٹرویو میں وزیر اعظم نے دفاعی پوزیشن اختیار کی ہے اور ایک بار پھر پاکستان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ بھارت جیسے تعلقات کی خواہش ظاہر کیا ہے۔ پاکستان کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت چین کے خلاف امریکہ کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے جبکہ پاکستان سی پیک منصوبے کے ذریعے چین کا قریب ترین حلیف ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات نہ تو افغانستان کے بارے میں پاکستان کی مجبوریوں کی بنیاد پر استوار ہوسکتے ہیں اور نہ ہی بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات اس کی مثال بن سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو باہمی مفادات اور ضرورتوں کی بنیاد پر ہی ان تعلقات کو نئی شکل دینی ہوگی۔ ماضی کے حوالوں سے سبق تو سیکھا جاسکتا ہے لیکن یہ حوالہ اب امریکہ کو پاکستان پر مہربان کرنے کی بنیاد نہیں بنے گا۔

امریکہ کے ساتھ سرد مہری کی موجودہ صورت حال سے نکلنا پاکستان کے کثیر الجہت عالمی سفارتی و معاشی مقاصد کے لئے بھی اہم ہے۔ تاہم اس مقصد کے لئے اپنا احتساب کرنے، غلطیوں و کوتاہیوں کا جائزہ لینے اور خارجہ پالیسی کی ترجیحات کو حقیقت پسندانہ بنیادوں پر استوار کرنا اہم ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments