وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد: چیئرمین سینٹ بلوچستان اسمبلی کے ناراض اراکین کو منانے کے لیے کوئٹہ میں


بلوچستان
جب چیئرمین سینٹ میر محمد صادق سنجرانی، وزیر اعلیٰ جام کمال سے ناراض سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو سے بات چیت کے لیے ان کی رہائش گاہ گئے تو وہاں سپیکر سمیت بلوچستان اسمبلی کے ساتھ 17 اراکین موجود تھے۔

ان میں سے دو کے سوا باقی تمام اراکین کا تعلق وزیر اعلیٰ کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے تھا۔ دو کا تعلق اتحادی جماعتوں تحریک انصاف اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) سے تھا۔

یہ بات ابھی تک واضح نہیں کہ قدوس بزنجو کے گھر پر موجود تمام لوگ وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ناراض ہیں لیکن بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر سرفراز بگٹی کا ماننا ہے کہ پارٹی میں بعض لوگوں کو وزیر اعلیٰ سے شکایات ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف حزب اختلاف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد وزیرِ اعلیٰ اور بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت میں حکومت جس مشکل سے دوچار ہوئی ہے اس کے خاتمے کے لیے چیئرمین سینٹ میر محمد صادق سنجرانی کی قیادت میں بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچے ہیں اور پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے ناراض اراکین کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حزب اختلاف کے اراکین کا کہنا ہے کہ گراﺅنڈ ورک مکمل کرنے کے بعد انھوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کی ہے جس کی کامیابی یقینی ہے بلکہ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے حکومتی صفوں میں ناراضی زیادہ ہونے کی وجہ سے شاید تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے پہلے ہی وزیر اعلیٰ کو مستعفی ہونا پڑے۔

سیاسی مبصرین کی یہ رائے ہے کہ اگر تمام ناراض اراکین یا ان کی اکثریت کو دوبارہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی حمایت پر قائل نہیں کیا جاسکا تو وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات قوی ہیں۔

حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے پر امید

بلوچستان

بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد 23 ہے لیکن وزیر اعلیٰ کے خلاف جو تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اس پر16اراکین کے دستخط ہیں ۔

بلوچستان اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 65 ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے اراکین کی تعداد 42 ہے۔

65 کے ایوان میں وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کے لیے سادہ اکثریت یعنی 33 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے۔

حزب اختلاف کے رکن اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما نصراللہ زیرے نے بتایا کہ حکومتی اتحاد میں بہت سارے لوگ ناراض ہیں اس لیے وہ بھی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں اراکین کی ناراضی کے باعث ہوسکتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے پہلے ہی وزیر اعلیٰ خود مستعفی ہو جائیں۔

ایم پی ایز ہاسٹل میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی رہنما ملک نصیر شاہوانی کا کہنا تھاکہ انھوں نے ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے۔

انھوں نے کہا کہ حزب اختلاف کے لوگ ویسے ہی وزیر اعلیٰ سے ناراض تھے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ان کے خلاف تین سال کے دوران بہت جدوجہد کی۔

ان کا کہنا تھا کہ جام کمال بلوچستان کو نہ صحیح گورننس دے سکے اور نہ ہی ترقیاتی بجٹ کو منصفانہ تقسیم کیا۔ ’ترقیاتی بجٹ کے 13 ارب روپے وزیر اعلیٰ اپنے ضلع میں اپنے ہی حلقے میں لے گئے ہیں اور حزب اختلاف کے حلقوں کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔‘

حکومتی اتحاد میں شامل ناراض اراکین کی بڑی تعداد منظر عام پر

بلوچستان

تحریک عدم اعتماد کے بعد جب صورتحال گھمبیر ہوئی تو چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے دیگر رہنما کوئٹہ پہنچ گئے۔

انھوں نے پہلے وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملاقات کی جہاں بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین اسمبلی کی بہت بڑی تعداد موجود نہیں تھی۔

بلوچستان عوامی پارٹی میں وزیر اعلیٰ کے خلاف ناراض اراکین کے گروپ میں جو اراکین فرنٹ پر ہیں ان میں سپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبد القدوس بزنجو اور سردار محمد صالح بھوتانی شامل ہیں۔

قدوس بزنجو وزیر اعلیٰ جام کمال کو اعلانیہ شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ ان کا یہ موقف ہے کہ وزیر اعلیٰ جام کمال حکومت کو چلا سکے اور نہ ہی بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ حیثیت سے پارٹی کو۔

سردار محمد صالح بھوتانی سے اختلاف اس قدر شدید ہوگئے تھے کہ وزیر اعلیٰ نے ان سے بلدیات کا محکمہ واپس لے لیا تھا جس پر انھوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

وزیر اعلیٰ سے ملاقات کے بعد چیئرمین سینٹ کی قیادت میں پارٹی کے رہنما جب قدوس بزنجو کے گھر گئے توبلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کی اکثریت موجود تھی۔

سینئر صحافی اور کوئٹہ میں دنیا ٹی وی کے بیورو چیف عرفان سعید نے بتایا کہ قدوس بزنجو کے گھر پر مجموعی طور پر 17 اراکین تھے جن میں سے 15کا تعلق وزیر اعلیٰ کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے تھا۔

ان کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے پارلیمانی رہنما اسد بلوچ اور کابینہ سے برطرف کیے جانے والے تحریک انصاف کے رکن میر نصیب اللہ مری بھی وہاں موجود تھے۔

وزیر اعلیٰ سے حکومتی اتحاد میں شامل لوگ ناراض کیوں ہیں؟

جام کمال

وزیر اعلیٰ سے ناراض ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ اتحادی جماعتوں کے اراکین کو تو کیا خود اپنے کابینہ کے اراکین کو عزت اور اہمیت نہیں دیتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تاثر عام ہے کہ اگر کسی نے وزیر اعلیٰ ہاﺅس جانا ہے تو ان کو اپنی عزت وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے باہر رکھ کر جانا ہوگا کیونکہ وزیر اعلیٰ ہاﺅس میں ان کی عزت نہیں ہو گی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اراکین تو کیا بعض وزرا کو یہ شکایت ہے کہ وزیر اعلیٰ نے ان کے محکموں کے سیکریٹریز کو کہا ہے کہ اگر وزرا کسی کام کا کہیں تو پہلے اس کو واٹس ایپ پر انھیں بھیجا جائے اور اگر وہ منظوری دیں تو وہ کام کیا جائے۔‘

بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماﺅں کا کیا کہنا ہے؟

بلوچستان

بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر سرفراز بگٹی نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنا حزب اختلاف کا حق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری پارٹی کے لیے ایک چیلنج تھا اور اس چیلنج سے ہمیں بطور پارٹی نمٹنا چاہیئے تھا لیکن ہماری پارٹی کے بعض دوستوں کے وزیر اعلیٰ کے متعلق تحفظات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ہماری پارٹی کے لوگوں کے تحفظات ذاتی نوعیت کے نہیں بلکہ سیاسی اور انتظامی نوعیت کے ہیں، اس لیے ہماری کوشش ہے کہ ان کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے، جس کے لیے چیئرمین سینٹ اور دوسرے دوست اسلام آباد سے کوئٹہ آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے

اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی پرواہ نہیں ہے: جام کمال

قاسم سوری ’اپنے پرانے دوست کو گورنر بنانے میں کامیاب ہو گئے‘

پارٹی کے ایک اور رہنما سینیٹر دنیش کمار کا بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پارٹی کے ان لوگوں کی ناراضی اتنی زیادہ نہیں کہ ’ان کو منایا نہ جا سکے‘ جن کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ناراض ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خود وزیر اعلیٰ جام کمال اور پارٹی کے دیگر اراکین ناراض اراکین کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

پہلی نشست میں ناراض اراکین کو نہیں منایا جا سکا

وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ملاقات کے بعد جب چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی قیادت میں وفد ناراض اراکین کے ساتھ بات چیت کے لیے گیا تو بات چیت کا سلسلہ دیر تک جاری رہا۔

عرفان سعید نے کہا کہ ناراض اراکین کو منانے کے لیے چار گھنٹے تک مذاکراتی ٹیم نے ان سے بات کی لیکن انھیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلی نشست میں اگرچہ انھیں کامیابی نہیں ملی لیکن مذاکرات ٹیم نے کوششوں کو ترک نہیں کیا اور ٹیم کو یہ امید ہے کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گی۔

سینیٹر سرفراز بگٹی کا بھی یہ کہنا تھا کہ قدوس بزنجو کے گھر پر دوستوں سے جو بات چیت ہوئی وہ زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ’دوستوں کو منانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔‘

کیا اندورنی مسائل کے باعث تحریک عدم اعتماد کا معاملہ سنگین ہے؟

سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ اگر قدوس بزنجو کے گھر پر موجود تمام لوگ وزیر اعلیٰ سے ناراض ہیں تو پھر معاملہ سنگین ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت وزیر اعلیٰ اور ان کے مخالفین کے درمیان اعصاب کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں یہ پہلا موقع نہیں ہے، بلکہ ماضی میں بھی مخلوط حکومتوں کے باعث وزرا اعلیٰ دباﺅ میں رہے ہیں۔ تاہم جہموری انداز سے بات چیت کے ذریعے معاملے کو نمٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ’اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کوششیں کس حد کامیاب ہوسکیں گی۔‘

تجزیہ کار اور سینیئر صحافی سید علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس وقت وزیر اعلیٰ بلوچستان کو جو مسئلہ درپیش ہے وہ حزب اختلاف سے زیادہ ان کی اپنی جماعت کے ناراض لوگوں سے ہے۔

عرفان سعید کا بھی یہ کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے لیے اصل مسئلہ ان کی پارٹی اور اتحادیوں کی جانب سے ہے۔ ’اگر پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے ناراض اراکین کی جانب سے پیدا کیے جانے والے مسئلے کو حل نہیں کیا گیا تو یہ وزیر اعلیٰ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔‘

تاہم بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر دنیش کما ر کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ حل ہوگا اور حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد شکست فاش سے دو چار ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments