افغانستان کی خواتین صحافی: طالبان کنٹرول کے بعد درجنوں میڈیا ہاوسز بند، خواتین صحافی گھروں تک محدود


15 اگست کو کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کابل کے ایک پرائیوٹ ٹی وی چینل ’طلوع نیوز‘ کے پروگرامز معمول کے مطابق جاری تھے اور خاتون افغان صحافی بہشتے آرغند طلوع نیوز کے ساتھ میزبان کی حیثیت سے کام کر رہی تھی۔

اگلے ہی روز یعنی 16 اگست کو ایک طالبان اہلکار اُن کے آفس آئے اور بہشتے آرغند نے طلوع نیوز کے لیے اس اہلکار کا انٹریو کیا۔ چونکہ یہ انٹرویو آمنے سامنے بیٹھ کر کیا گیا تھا اسی لیے بہشتے سمیت کئی افغان خواتین صحافی پُراُمید تھیں کہ اب طالبان کے کنٹرول کے باوجود وہ بحیثیت صحافی افغانستان میں رہتے ہوئے کام کر سکیں گی۔

لیکن اس انٹرویو کے چند ہی گھنٹے بعد بہشتے کو طالبان کی جانب سے مطلع کیا گیا کہ ’آپ آئندہ حجاب میں دفتر آئیں گی، بالکل ویسا حجاب جو ایران میں خواتین صحافی پہنتی ہیں۔‘

بہشتے نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ وہ اور دیگر افغان خواتین صحافی پہلے ہی افغان ثقافت کے مطابق پردے اور حجاب میں پردہ سکرین آتی تھیں۔ طالبان کی جانب سے بہشتے کو ملنے والے اس ’حکمنامے‘ کے بعد بہشتے نے انھیں مطلع کیا کہ ’میں تو پہلے سے حجاب کرتی ہوں۔‘

لیکن آرغند کے مطابق بعد میں اُنھیں پتہ چلا کہ بات حجاب اور پردے کی نہیں بلکہ درحقیقت اب خواتین برقعوں میں بھی صحافت نہیں کر سکیں گی۔

بہشتے کے مطابق افغان خواتین صحافی جو اس وقت کابل یا افغانستان کے دیگر شہروں میں موجود ہیں وہ فی الحال اپنے گھروں تک ہی محدود ہیں اور ان میں سے اکثریت ملک سے باہر جانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔

بہشتے آرغند نے کچھ دن بعد افغانستان چھوڑ دیا اور اب وہ البانیہ میں مقیم ہیں۔


افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کو کنٹرول حاصل کیے لگ بھگ ایک ماہ ہو چکا ہے اور اس مختصر دورانیے میں یہاں کام کرنے والے سو سے زائد میڈیا ہاوسز بند ہو چکے ہیں۔

کابل میں میڈیا آرگنائزیشن کے ساتھ کام کرنے والی تنظیم کے مطابق کابل کے سقوط سے پہلے افغانستان میں سینکڑوں ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیوز فعال تھے لیکن طالبان کی آمد کے بعد سے اب تک سو سے زائد ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیوز بند ہو چکے ہیں۔

کابل میں موجود افغان صحافیوں کے مطابق یہ میڈیا ادارے طالبان کی جانب سے عائد کردہ سینسر شپ، صحافیوں کے خلاف پیش آئے مبینہ مار پیٹ کے واقعات اور مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہوئے ہیں۔

اگرچہ میڈیا اداروں کی بندش کی وجہ سے بڑی تعداد میں مرد صحافی بھی بیروزگار ہوئے ہیں لیکن خواتین صحافی کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئی ہیں اور اُن میں سے بیشتر خواتین اب صرف گھروں تک ہی محدود ہیں۔

چند افغان خواتین صحافیوں نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر وہ ملک سے باہر جانے کے مواقع کی تلاش میں ہیں۔

افغان

افغانستان میں حالیہ دنوں میں صحافیوں کے خلاف مار پیٹ کے واقعات پیش آئے ہیں جس کے بعد سو سے زائد میڈیا ہاؤسز بند ہو چکے ہیں

مریم (حفاظت کے پیش نظر نام تبدیل کیا گیا ہے) گذشتہ کئی برسوں سے کابل میں ایک ٹی وی چینل کے ساتھ کام کر رہی تھی لیکن طالبان کے آنے کے بعد اب وہ گھر پر بیٹھی ہیں اور اپنی حفاظت کے پیش نظر افغانستان سے نکلنے کے لیے راہ فرار کی تلاش میں ہیں۔

بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اب خواتین صحافی یہ تو (افغانستان سے) باہر جائیں گی یا پھر صحافتی کیریئر کو خیرآباد کہہ کر اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں گی۔‘

مریم کے مطابق کابل پر طالبان کنٹرول کو ایک مہینہ ہوا ہے لیکن تاحال کسی بھی میڈیا ادارے میں خواتین نظر نہیں آ رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’اُمید تھی طالبان خواتین کو حجاب میں گھروں سے نکلنے دیں گے لیکن یہ صرف دعویٰ تھا‘

افغانستان کوریج کے لیے گئے پاکستانی صحافی جنھیں طالبان نے جاسوس سمجھا

طالبان کا صحافیوں پر تشدد: ’کابینہ کے اعلان کے بعد اب حکومتی عہدیدار مار پیٹ کریں گے؟‘

’طالبان کے کالے اور عجیب برقعے کو جب میں نے دیکھا تو یقین کریں کہ میں نے اپنے اُن پرانے برقعوں پر شکر ادا کیا جو ہم استعمال کرتے تھے۔۔۔ کم از کم اُس برقعے میں تو یہ نظر آتا تھا کہ اس لباس کے اندر کوئی انسان ہے۔۔۔ نئے برقعے میں تو خواتین انسان ہی نہیں دیکھائی دیتی ہیں۔‘

واضح رہے کہ طالبان نے حکومت کے قیام کے اعلان کے بعد کابل میں ایک تقریب کا انعقاد کیا تھا جس میں خواتین نے شرکت کی تھی اور اس تقریب میں شرکت کرنے والی خواتین سر تا پا کالے برقعے میں ملبوس تھیں جس سے ان کی آنکھیں اور ہاتھ تک نظر نہیں آ رہے تھے۔

طالبان خواتین کی جانب سے اس تقریب اور سوشل میڈیا پر ان برقعوں کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد پوری دنیا میں افغان خواتین نے اس برقعے کے خلاف اور اپنے افغان لباس کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم شروع کی اور کئی ممالک سے افغان خواتین نے افغان ملبوسات کے ساتھ اپنی تصاویر شیئر کیں۔


حسیبہ (نام تبدیل کیا گیا ہے) ایک افغان صحافی ہیں اور وہ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان سے نکلنے میں کامیاب رہی ہیں لیکن چونکہ اُن کی فیملی اب بھی دارالحکومت کابل میں ہے اسی لیے وہ اب بھی ان کی حفاظت کو لے کر خدشات کا شکار ہیں۔

خواتین

’اگر خدانخواستہ کبھی حالات خراب ہوئے تو لوگ تمھیں تمھارے چہرے سے پہچان لیں گے‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حسیبہ نے بتایا کہ اُن کی والدہ روزِ اول سے اُن کی صحافت کی مخالفت کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ’اگر صحافت کرنی بھی ہے تو سکرین پر نہیں آنا۔‘

’میری ماں روز مجھے کہتی تھیں کہ اول تو صحافت کرو ہی نہ اور اگر کرنی بھی ہے تو سکرین پر نہیں آنا کیونکہ پشتون قبائلی معاشرے میں اب بھی یہ عام نہیں کہ کوئی لڑکی ٹی وی کی سکرین پر آئے کیونکہ لوگ پھر عجیب ناموں سے یاد کرتے ہیں۔‘

حسیبہ کے مطابق اُن کی والدہ سکرین پر نہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی بتاتی تھیں کہ ’اگر خدانخواستہ کبھی حالات خراب ہوئے تو لوگ تمھیں تمھارے چہرے سے پہچان لیں گے۔‘

اُن کے مطابق طالبان جب کابل کے قریب پہنچے تو اُن کی والدہ بار بار یہی پرانی باتیں اُن کے سامنے دہراتی رہیں کہ ’کہا تھا نہ کہ سکرین پر نہیں آنا۔۔۔ اب ہم سب تمہاری وجہ سے مارے جائیں گے۔‘

حسیبہ کابل پر طالبان کنٹرول کی پہلی رات یعنی پندرہ اگست کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اُس رات نہ صرف وہ بلکہ اُن کی پوری فیملی ڈر اور خوف کی وجہ سے نہیں سوئے۔

’ہمارا گھر ایک کثیر منزلہ عمارت میں تھا، جب شام کو ہماری عمارت کا محافظ آیا تو اس نے ہمیں کہا کہ گھر کا دروازہ بند رکھیں اور اگر رات کو کوئی دستک بھی دے تو کھولنا نہیں۔ اگر میرے ساتھ طالبان جنگجو آ جائیں اور کہیں کہ عمارت کے اندر گھر دکھائیں تو میں اگر ساتھ آ بھی جاؤں اور دستک دوں بھی تو آپ لوگ دروازہ نہ کھولیں۔ میں طالبان کو کہہ دوں گا کہ اندر کوئی نہیں اور ساری عمارت والے اپنے گھر بند کر کے چلے گئے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments