ریاست حیدرآباد کا انضمام اور ’پولیس ایکشن‘: تشدد اور قتل عام کے وہ راز جو انڈین حکومت ’قومی مفاد‘ کے نام پر سینے سے لگائے بیٹھی ہے


یہ محض دو ہفتوں کے اندر اندر ہوا تھا۔

ریاست حیدر آباد کے ایک گاؤں میں نوجوان خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا، جن میں عثمان نامی شخص کی پانچ بیٹیاں اور قاضی نامی شخص کی چھ بیٹیاں شامل تھیں۔ ظلم صرف یہیں تک نہیں رُکا بلکہ اِن میں سے کئی لڑکیوں کے ساتھ کئی دنوں تک مسلسل ریپ ہوتا رہا۔

اسی ریاست کے ایک دوسرے گاؤں میں لاڈلے نامی شخص کے گھر پر غیر مسلموں نے غیر قانونی قبضہ کر لیا۔ ایک اور گاؤں میں مسجد کا مینار توڑ دیا گیا اور اس کے اندر بُت رکھے گئے۔ گاؤں کے دو مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایا گیا اور انھیں مسجد میں بھجن گانے پر مجبور کیا گیا۔

ایک اور گاؤں میں پیش آنے والے واقعے میں ریپ کا شکار ہونے والی درجنوں خواتین نے کنویں میں کُود کر خودکشی کر لی۔

اوپر بیان کیے گئے یہ محض چند واقعات ہیں جو نہرو حکومت کی طرف سے ’گوڈول مشن‘ پر حیدرآباد میں بھیجی گئی کمیٹی کی رپورٹ کا حصہ تھے جس کے چند اقتباسات (جو اوپر بیان کیے گئے ہیں) سنہ 1988 میں مصنف عمر خالدی نے ذرائع سے حاصل کر کے شائع کیے۔

یہ حکومتی رپورٹ ستمبر 1948 میں ریاست حیدرآباد کو انڈیا میں ضم کرنے کے بعد وہاں پیش آئے جنسی اور جسمانی تشدد کے دل دہلا دینے والے واقعات کا خلاصہ کرتی ہے۔

سنہ 1947 میں انگریز حکمرانوں کے جانے کے بعد اگرچہ انڈیا آزاد اور پاکستان معرض وجود میں آ چکا تھا لیکن خطے کی تین بڑی ریاستوں کشمیر، ریاست حیدر آباد اور ریاست جونا گڑھ کا مستقبل غیر واضح تھا۔ ان تینوں ریاستوں نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا تھا مگر انڈیا اور پاکستان ان کو اپنے ساتھ ملانے کی خواہش رکھتے تھے۔

ان ریاستوں کے حوالے سے کئی تجاویز پیش ہوئیں مگر حالات جوں کے توں رہے اور بلآخر 13 ستمبر 1948 کو انڈین افواج نے ریاست حیدرآباد پر حملہ کر دیا اور صرف پانچ دن بعد یعنی 18 ستمبر کو نظام حیدرآباد کے کمانڈر اِن چیف سید احمد العیدروس نے باضابطہ ہتھیار ڈال دیے۔

انڈین حکومت حیدر آباد کے فوجی آپریشن کو سرکاری سطح پر ’پولیس ایکشن‘ کہتی ہے جسے ’آپریشن پولو‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس آپریشن اور اس کے بعد پیش آئے واقعات کے دوران حیدرآباد میں کشت و خون کا بازار گرم ہوا جس کی مکمل تفصیلات آج بھی صیغہ راز میں ہیں۔

اس دوران پیش آئے واقعات کے شواہد ’سندر لال کمیٹی‘ کے ذریعے حکومت کو جمع کروائے گئے لیکن اس کمیٹی کے ذریعے موصول ہونے والی رپورٹ اور شواہد کو حکومت نے کبھی پبلک نہیں کیا تاہم سنہ 1988 میں مصنف عمر خالدی اس کے چند حصے منظر عام پر لے کر آئے۔

اس رپورٹ کے چیدہ چیدہ حصے دل دہلا دینے والی کہانیوں کو بیان کرتے ہیں۔

اس حکومتی کمیٹی کے سربراہ پنڈت سندر لال اور قاضی عبدالغفار تھے۔

سندر لال غدر پارٹی کے سابق رکن تھے جو کہ گاندھی کے زیر اثر کانگریس میں شامل ہوئے تھے اور ہندو مسلم تعاون کی پرزور وکالت کرتے تھے۔ قاضی عبدالغفار حیدرآباد میں قوم پرست اخبار ’پیام‘ کے سابق ایڈیٹر تھے اور رضاکاروں کے صدر قاسم رضوی کے سخت تنقید نگار تھے۔

یہ رضاکار ایک نیم تربیت یافتہ جماعت کا حصے تھے جو کہ حیدراباد کی خودمختاری کے لیے لڑ رہے تھے اور زمینداروں کے مخالف احتجاج کرنے والے کمیونسٹوں اور حیدرآباد کی آزادی کی مخالفت کرنے والوں ہندو اور مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث تھے۔

مؤرخ سجاد شاہد کا کہنا ہے کہ ’پولیس ایکشن‘ میں ہوئے تشدد کو مکمل طور پر ریکارڈ نہیں کیا گیا اور جو کچھ ریکارڈ بھی کیا گیا تھا وہ طویل عرصے تک عوام کی پہنچ سے مخفی رکھا گیا اور اس نوعیت کی دستاویزات میں سندر لال کمیٹی کی رپورٹ آج بھی سب سے اہم دستاویز ہے۔

حالانکہ حالیہ برسوں میں اسے کئی محققین نے ٹکڑوں میں شائع کیا ہے لیکن مکمل رپورٹ، جو کہ وزارت داخلہ کو پیش کی گئی تھی، ابھی ڈیکلاسیفائی نہیں ہوئی۔

اس حوالے سے حال ہی میں شائع ہونے والی دستاویزات میں سے ایک معروف آئینی ماہر اور مصنف اے جی نورانی کی ہے لیکن مؤرخ سجاد شاہد کا کہنا ہے کہ یہ بھی مکمل رپورٹ نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’رپورٹ جمع ہوتے ہی اسے مکمل طور پر دفن کر دیا گیا۔ جو حصے عام طور پر دستیاب ہیں وہ صرف رپورٹ کا ایک چھوٹا سا خلاصہ ہیں۔ ان میں کیسیز کی مکمل تفصیلات نہیں ہیں۔ نورانی سمیت مختلف لوگوں کے ذریعے شائع کردہ رپورٹس میں بھی یہ تفصیلات نہیں ہیں۔‘

تاہم عمر خالدی اور اے جی نورانی کے ذریعے شائع حصوں کو اگر ساتھ پڑھا جائے تو کافی حد تک اس وقت ہوئے مظالم کی تصویر نظر آ جاتی ہے۔

لیکن اموات کی حقیقی تعداد کے بارے میں پھر بھی کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔

عمر خالدی کا دعویٰ ہے کہ رپورٹ کے مطابق کم از کم دو لاکھ مسلمان ہلاک ہوئے لیکن اے جی نورانی نے رپورٹ کا جو حصہ شائع کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ’ایک انتہائی محتاط اندازے‘ کے مطابق پوری ریاست حیدرآباد میں کم از کم 27 ہزار سے 40 ہزار افراد ’پولیس ایکشن‘ کے دوران اور اس کے بعد ہلاک ہوئے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیٹی کے ارکان نے یہ رپورٹ مرتب کرنے کے لیے 29 نومبر 1948 سے 21 دسمبر 1948 کے درمیان حیدرآباد کے 16 میں سے نو اضلاع کا دورہ کیا اور اضافی 109 دیہاتوں میں 500 سے زائد افراد کے انٹرویو کیے۔

رپورٹ کے مطابق ’انتقامی کارروائی میں ایک مجرم کے ڈھائے گئے گناہوں کی سزا کم از کم سو افراد کو بھگتنی پڑی۔‘

تقسیم ہند کے دوران ہونے والے تشدد میں بے شمار لوگ ہلاک ہوئے لیکن شاید ہی کسی سانحے کو حیدرآباد میں سرکاری سرپرستی میں ہونے والی فوجی کارروائی کے مقابلے اتنی گمنامی کا سامنا کرنا پڑا۔

دراصل انڈین حکومت نے شروعات سے ہی اس واقعے اور رپورٹ کو چھپانے کی پوری کوشش کی۔ انڈیا کے اس وقت کے وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل نے اس رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے اس کے مصنفین کے اختیار پر سوال اٹھایا اور کہا تھا کہ ’حکومت ہند کے ذریعے حیدرآباد میں گوڈول مشن بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

تاہم نہرو نے مولانا آزاد، جنھیں پٹیل کی وزارت نے حیدرآباد میں اس وقت جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، کے اصرار پر یہ کمیٹی بھیجی تھی۔

سردار پٹیل اور مولانا آزاد

مولانا آزاد (دائیں)، سردار پٹیل (بائیں)

عمر خالدی کمیٹی کے اراکین میں سے ایک یونس سلیم کا حوالہ دیتے ہوئے ’حیدرآباد: آفٹر دی فال‘ میں لکھتے ہیں کہ ’نہرو نے بطور وزیر اعظم اپنی ذاتی صلاحیت میں ولبھ بھائی پٹیل کی بے اعتنا رضامندی کے بعد سندر لال، قاضی عبدالغفار اور یونس سلیم کو ریاست کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے لیے مقرر کیا تھا۔‘

حالانکہ جب سندر لال نے رپورٹ پیش کی تو پٹیل نے قاضی عبدالغفور کو ایک ناراضی سے بھرا خط لکھا کہ ’اس رپورٹ میں آپ نے ذکر کیا ہے کہ آپ کو حکومت ہند نے گوڈول مشن پر حیدرآباد جانے کے لیے کہا تھا۔ کم از کم میں اس طرح کے کسی بھی مشن کے بارے میں نہیں جانتا جس کی حکومت ہند نے آپ کو ذمے داری دی ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں آپ وہاں جانا چاہتے تھے اور آپ کے جانے کا انتظام سرکاری خرچ پر کیا گیا۔‘

پٹیل کے اس دعوے کے برعکس یونس سلیم اور سندر لال کے پرائیویٹ سیکریٹری مجیب رضوی نے سنہ 1988 میں خالدی کو بتایا کہ ’یہ مشن واقعی حکومت کی طرف سے بھیجا گیا تھا کیونکہ نومبر دسمبر 1948 میں کسی کو بھی فوج کی اجازت کے بغیر حیدرآباد میں داخل ہونے یا چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ ریاست کے اندر نقل و حرکت کی آزادی کو بھی کنٹرول کیا جا رہا تھا۔‘

پٹیل کے علاوہ حکومت میں اس رپورٹ کے اور بھی نقاد تھے۔

یہ بھی پڑھیے

دکن پر انڈیا کے قبضے میں کتنا خون بہا؟

‘جونا گڑھ کے پاکستان میں انضمام کا فیصلہ نواب کا نہیں بھٹو صاحب کا تھا‘

مسلمان حاکم کی خواہش کے باوجود ریاست حیدرآباد پاکستان کا حصہ کیوں نہ بن سکی

سکالر سنیل پرشوتم کے مطابق سندر لال وفد سے ملاقات کے بعد ملٹری گورنر جے این چودھری، جو کہ حیدرآباد میں انڈین افواج کی رہنمائی کر رہے تھے، نے اس رپورٹ کو ’انتہائی جھوٹ پر مبنی‘ قرار دیا اور ’اس طرح کی دستاویز کے کسی پاکستانی کے ہاتھ لگ جانے کے خطرے‘ کی تنبیہ بھی کی۔

انھوں نے پٹیل کے سیکریٹری کو یہ بھی لکھا کہ ’شاید ہی کسی خط نے مجھے اس طرح کا اطمینان بخشا ہو گا جیسا کہ سردار پٹیل کے قاضی صاحب کو لکھے خط نے بخشا ہے۔‘

حالانکہ انھوں نے ایک رپورٹ میں یہ اعتراف کیا تھا کہ فوجی کارروائی شروع ہونے کے فوراً بعد ہی حیدرآباد کے تمام اضلاع میں ہندوؤں کی ایک بڑی اکثریت نے سوچا کہ ہندو راج وجود میں آ گیا۔۔۔ جس کے وجہ سے ہندوؤں کی انتقامی کارروائی میں بعض اضلاع میں کچھ مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔‘

سندر لال رپورٹ نے حکومت کو اتنی جھنجھلاہٹ کا شکار کر دیا کہ قاضی غفار جنھیں شام یا مصر کا سفیر بنایا جانا تھا، انھیں پوسٹنگ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ خالدی کے مطابق ریاستی اٹارنی یونس سلیم کو ان کے عہدے سے غلط الزام لگا کر برطرف کر دیا گیا۔

برسوں بعد سنہ 1969 میں جب یونس نے دہلی کے ایک اردو اخبار سے اس رپورٹ کا ذکر کیا تو پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور اُن پر، جو کہ اس وقت مرکزی کابینہ میں ایک جونیئر وزیر تھے، مسلح افواج کے کردار کو داغ دار کرنے کا الزام لگایا گیا۔

اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس رپورٹ کو طلب کیا اور مطالعے کے بعد اس پر مزید بحث کرنے سے اس بنا پر انکار کر دیا کہ اس سے ’قومی مفادات‘ کو نقصان پہنچنے کے خطرات ہیں۔

مطالبوں کے باوجود حکومت نے ابھی تک اسے پارلیمان میں پیش نہیں کیا۔

میر عثمان علی خان

حیدرآباد کے ساتویں فرمانروا میر عثمان علی خان جن کے دور میں حیدرآباد کا انڈیا میں انضمام ہوا

فیرفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سنیل پرشوتم کے مطابق انھوں نے سنہ 2010 میں دہلی کے نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری میں اس تک رسائی حاصل کی تھی۔ لائبریری کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نورانی نے بھی سنہ 2010 میں اس رپورٹ تک رسائی حاصل کی جو کہ 2013 میں ان کی ’ڈسٹرکشن آف حیدرآباد‘ نامی کتاب میں شائع ہوئی۔

اگرچہ ان سکالرز نے اس لائبریری سے اس رپورٹ کو حاصل کیا تھا لیکن جب حیدرآباد میں مقیم مؤرخ کیپٹن پانڈو رنگا ریڈی نے سنہ 2013 میں آر ٹی آئی (معلومات حاصل کرنے کے حق کا قانون) کے تحت یہ رپورٹ مانگی تو لائبریری نے یہ جواب دیا کہ ان کے پاس یہ رپورٹ موجود نہیں۔

لائبریری کے ذرائع نے بتایا کہ ’یہ ممکن ہے کہ نورانی جیسے سکالرز تک رسائی شدہ کاغذات سندر لال کے ذاتی کاغذات کا ایک حصہ ہوں، نہ کہ حکومت کو پیش کی گئی مکمل سرکاری خفیہ رپورٹ۔‘

حکومت کی جانب سے رپورٹ جاری کرنے سے گریزاں ہونے کی سب سے اہم وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ رپورٹ ہر اس دعوے سے برعکس تھی جس کا حکومت نے دعویٰ کیا تھا۔

مؤرخ سجاد کہتے ہیں کہ حکومت رپورٹ کو عام کرنے سے ’خوفزدہ تھی کیونکہ حیدرآباد کے خلاف جو پراپیگنڈہ جنگ چلی تھی وہ بے نقاب ہو جاتی۔‘

اس کے علاوہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں زیر بحث تھا اور حکومت پوری کوشش کر رہی تھی کہ اس مسئلے کو مزید طول دینے سے روکا جائے۔ اسی درمیان سندرلال رپورٹ کے ایک حصے کو ریڈیو پاکستان نے کراچی سینٹر سے نشر کر دیا جو کہ انڈین حکومت کے لیے باعث شرمندگی بنا تھا۔

اگرچہ حیدرآباد کے الحاق میں فوجی دستے شامل تھے لیکن انڈین حکومت نے اسے ’پولیس ایکشن‘ قرار دیا تھا۔ نہرو نے اس وقت کہا کہ ’سب سے پہلے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہماری کارروائی ایک تکراری ریاست کے خلاف ’پولیس کارروائی‘ تھی۔ ہم نے اسے جنگ نہیں کہا اور اس لیے اب ہمیں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جو اس بات کی نشاندہی کرے کہ ہم اسے غیر ملکی ریاست کے خلاف جنگ سمجھتے ہیں۔‘

جنرل العیدروس (دائیں) جنرل چودھری کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے

جنرل العیدروس (دائیں) جنرل چودھری کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے

پٹیل کا خیال تھا کہ ’ایک بار جب ہم حیدرآباد میں داخل ہو جائیں تو پھر یہ معاملہ بین الاقوامی نہیں رہے گا۔‘

حکومت کے ذریعے اس کے علاوہ اور بھی پریشان کُن فیصلے کیے گئے تھے جو کہ حکومت کبھی بھی عام نہیں کرنا چاہتی: مثلا پٹیل کی ہدایات پر حیدرآباد حکومت نے ’پولیس ایکشن‘ کے فورا بعد ہی جوابی کارروائی میں ملوث ہندوؤں کو عام معافی دے دی اور فوجی گورنر نے حکم دیا کہ ’اس کی مزید تشہیر نہ کی جائے۔‘

ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث کئی کانگریس لیڈروں کو نئی حکومت میں وزیر مقرر کیا گیا۔

اس رپورٹ کی وجہ سے تشدد میں کانگریسی ارکان کی شمولیت کے اجاگر ہونے کا خطرہ بھی تھا۔ ’پولیس ایکشن‘ سے پہلے ہی کانگریس کے ارکان نے حیدرآباد کی سرحدوں پر کیمپ قائم کر رکھے تھے اور متعدد رپورٹس واضح کرتی ہیں کہ سرحد پر کئی پولیس چوکیاں جلا دی گئیں تھیں، ٹیلی گراف لائنیں منقطع کر دی گئیں تھیں، خوراک اور ادویات کی رسد بند کر دی گئی تھی اور عام لوگوں پر تشدد کے متعدد واقعات رونما ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ حکومت نے مسلمانوں سے اسلحہ واپس لے لیا لیکن وہیں ہندوؤں میں اسے آزادانہ طور پر تقسیم کیا گیا۔

مزید پڑھیے

مولانا ابوالکلام آزاد: جب کانگریس کے ’شو بوائے‘ نے جناح کے مزار پر حاضری دی

انڈیا کے پہلے نائب وزیراعظم سردار پٹیل کا گاندھی کے قتل سے کیا تعلق تھا؟

سیکس سکینڈل جس نے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا

’زوال حیدرآباد‘ کے مصنف مظہر الدین اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ ’اورنگ آباد میں 17 ہندوؤں کو سرحد پار سے لوگوں کے ساتھ لوٹ مار کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جو کہ رضاکار اور عرب ہونے کا ڈرامہ کر رہے تھے۔ ان سے عربوں اور رضاکاروں کے کپڑے اور ہزاروں روپے برآمد ہوئے۔ انھوں نے یہ بھی قبول کیا کہ وہ لوٹی ہوئی اشیا سرحد پار کانگریسی کارکنوں کو دیتے ہیں جس کے بدلے میں وہ انھیں اسلحہ بارود فراہم کرتے ہیں۔‘

سندر لال کمیٹی رپورٹ کے مختلف حصوں کے علاوہ حیدرآباد میں تشدد کے بہت سے مستند اکاؤنٹس نہیں ہیں اور یہ اکاؤنٹس اپنے وجود کے لحاظ سے متضاد بھی ہیں۔

اس وقت پاکستانی پریس نے مسلمانوں پر بڑے پیمانے پر تشدد کا الزام لگایا تھا۔

اس واقعے کے حوالے سے معتبر ذرائع کی کمی اس لیے بھی ہے کہ حیدرآباد میں سارے اردو اخبارات پر ’پولیس ایکشن‘ کے فوراً بعد پابندی عائد کر دی گئی تھی اور انڈیا میں قوم پرست پریس نے تشدد پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی بلکہ بعض اوقات مزاج کو بھڑکانے کا بھی کام کیا۔

انڈین ایکسپریس نے رپورٹ کیا کہ ’حیدرآباد میں بڑے پیمانے پر ہندؤوں کی قتل عام کی سکیم مکمل ہو چکی ہے۔‘

اس سے پہلے ہندوستان ٹائمز نے ایک رپورٹ شائع کی جس نے باقی انڈیا میں مسلم رہنماؤں کو عوامی طور پر اپنی حب الوطنی ثابت کرنے اور قاسم رضوی پر تنقید کرنے پر مجبور کر دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ قاسم رضوی نے ایک جلسے میں انڈین مسلمانوں سے اندرونی بغاوت اور جہاد کے لیے تیار رہنے کو کہا ہے۔ مظہر لکھتے ہیں کہ اس رپورٹ کا نتیجہ یہ ہوا کہ حیدرآباد کے وزیر اعظم میر لائق علی کو نہرو کو خط لکھنا پڑا اور یہ واضح کرنا پڑا کہ ریاست میں اس دن ایسی کوئی عوامی ریلی نہیں ہوئی۔ انھوں نے نہرو سے ایسی رپورٹوں کے خلاف کارروائی کی درخواست بھی کی۔

حالانکہ انھی دنوں میں انڈین فوج نے ایک پراپیگنڈا کتاب شائع کی جس کا نام ’حیدرآباد ری بورن: فرسٹ سکس منتھس آف فریڈم۔‘ اگرچہ اس کتاب نے مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کے چند واقعات کو قبول کیا لیکن افواج کی کارروائی کو ایک ’خون بہائے بغیر آنے والا انقلاب‘ قرار دیا۔

سجاد کہتے ہیں کہ جو بات شک و شبے میں ہے وہ ہے اموات کی صحیح تعداد۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس کی صحیح تعداد معلوم کرنا ہمیشہ مشکل ہو گا۔ اگر آپ کسی حیدرآبادی سے پوچھیں گے ہیں تو وہ کہے گا کہ لاکھوں مرے ہیں، اگر آپ حکومت کے ذرائع کی بات کریں تو وہ صرف دو، چار ہزار کی بات کرتے ہیں مگر یہ بات مستند ہے کی ایک بڑی تعداد میں اموات ہوئی تھیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’سندرلال رپورٹ میں بتائی گئی ہلاکتوں کی تعداد کافی حد تک قابل اعتماد ہے کیونکہ میں خود سینکڑوں ایسے خاندانوں کو جانتا ہوں جس میں 50 لوگ، 60 لوگ، 100 لوگ مرے ہیں۔ خود میرے خاندان میں 100 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں ’اس واقعے کو صحیح طریقے سے دستاویزی شکل نہیں دی گئی۔۔۔ کسی نے اس سانحے کی طرف غور سے دیکھا ہی نہیں۔۔۔ دونوں فریق اسے پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن افسوس کی بات ہے کہ وہ بھی نہیں ہو سکا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments