واقعہ سبت اور ہمارا معاشرہ


قرآن حکیم میں بہت سے واقعات انسانوں کی رہنمائی اور عبرت کے لیے بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ یہود قوم کا ہے جو سبت کے نام سے معروف ہے۔ سبت عربی زبان میں ہفتے کے دن کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ واقعہ جو بیان ہوا ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ قوم یہود کے لوگ جو ساحل پر آباد تھے اپنی شریعت کے مطابق ہفتے کو شکار نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی شریعت میں یہ دن عبادت کے لیے خاص تھا۔ مگر ہوتا یوں کہ مچھلیاں ہفتے کے روز ہی ساحل کے قریب آ کے پانی میں چھلانگیں لگاتی نظر آتیں اور باقی دنوں گہرے پانی میں رہتی تھیں گویا یہ ان لوگوں کی آزمائش تھی۔

اب وہاں کے کچھ لوگوں سے رہا نہیں گیا تو انہوں نے اپنے لیے راہ نکالی ایک حیلہ کیا جیسے آج کل بھی ہمارے یہاں لوگ اپنے مطابق دین میں راہیں نکالتے نظر عام آتے ہیں۔ اپنی مرضی کے مطابق حیلے کر کے فتوے لیتے دیتے ہیں۔ خیر انہوں نے ایسی چال چلی کہ جس سے ان کو ہفتے کے دن شکار تو نہیں کرنا پڑتا مگر جو مچھلیاں ہفتے کے دن ساحل کے قریب آتی تھی وہ وہیں ساحل کے قریب پھنس جاتی اور وہ لوگ اگلے دن ان کو آسانی سے حاصل کر لیتے۔

جب اپنی قوم کو ایسا کرتے دیکھا تو وہاں کے سلیم الفطرت لوگوں نے ان کو روکا اور سمجھا نے کی کوشش کی۔ مگر انسان جب خود کو اپنے نفس کے حوالے کر دے تو اللہ ہی بچا لے تو بچا لے بیشک وہی بڑا ہے ورنہ انسان تو ہلاک ہو گیا سمجھو۔ خیر وہ سلیم الفطرت لوگ ان لوگوں کو سمجھاتے ان کے غلط کاموں پر۔ ان دو گرہوں میں ایک تیسرا بھی تھا جو خود نہ لوگوں کو یہ دھوکے اور مکاری سے روکتا اور نہ ہی ان کے غلط کام میں شریک ہوتا۔ اور بجائے اپنے دھوکے باز اور کرپٹ لوگوں کو سمجھانے کے اپنے معاشرے کے ان لوگوں کو ہی سمجھاتا جو ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے اور حق بات کہتے اور ان لوگوں سے کہتے کہ یوں تم لوگ ان لوگوں کو سمجھاتے ہو ان کے لیے تو عذاب آنا ہے ہی۔

تو وہاں کے سلیم الفطرت لوگ جواب دیتے کہ وہ یہ کام رب کے لیے کرتے ہیں کہ آخرت میں بھی یہ کہہ سکیں کہ ہم نے ان کو روکا تھا سمجھایا تھا اور اس لیے بھی کہ شاید یہ سدھر جائیں۔ آخر کار وہاں کے شریر لوگ نہیں سدھرتے تو پھر ان لوگوں کو عذاب کے طور پر بندر بنا دیا گیا۔ قرآن حکیم میں آتا ہے کہ رب نے ان شریر لوگوں کو عذاب دیا اور ان سلیم الفطرت لوگوں کو بچا لیا۔ مگر جو لوگ بیچ میں تھے ان کا ذکر نہیں ملتا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔

اس پر علماء کی میں تین رائے پائی جاتی ہیں ایک کے مطابق ان کو بھی ساتھ عذاب ہوا۔ دوسری کے مطابق وہ بھی بچا لیے گئے تھے۔ اور تیسری کے مطابق ان کا معاملہ مبہم ہے۔ اور حق بات یہی ہے کہ حقیقت کا علم تو رب ہی کو ہے وہ بہتر جانتا ہے۔ مگر یہاں یہ بات سوچنے کی ضرور ہے کہ ان کا ذکر بھی نہیں کیا گیا گویا اس سے ان کا معاملہ پسندیدگی کا تو بالکل معلوم نہیں ہوتا جب کہ اس کے برعکس حق بات کہنے والوں کی نجات کا ذکر آیا ہے۔ اور اس بات میں علماء میں کوئی اختلاف میرے علم قلیل میں نہیں آ سکا کہ حق کہنے والے لوگ بیچ کے لوگوں سے بہتر تھے جب کہ بیچ کے لوگوں کے معاملے پر کوئی قطع بات نہیں ملتی۔

خیر اب بات کرتے ہیں اس واقعہ کے تناظر میں اپنے معاشرے کے حال پر کیوں کہ اس کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے کی ہی بات ہو رہی ہو۔ اگر ایک نظر عام اپنے معاشرے پر ڈالیں تو ہمارے معاشرے میں بیچ کے لوگوں کی بھرمار دکھے گی۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو کسی بڑے پیمانے پر کرپشن یا غلط نہیں کر رہے ہوں گے مگر کسی کرنے والوں کو کبھی کچھ کہتے بھی نہ ہوں گے بلکہ آگر کوئی حق بات کہہ بھی رہا ہو گا تو اس کو بھی سمجھاتے نظر آئیں گے کہ بس اپنے کام سے کام رکھو اور کسی مسئلے میں نہ پڑوں۔

تمہیں کیا پڑی ہے جو کرے گا خود بھگتے گا۔ خیر یہ واقعہ اس بات کا تو جواب دیتا ہے کہ جو لوگ عام کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ دور ہی نہیں کہ صحیح غلط میں پڑوں بس اپنے کام سے کام رکھوں۔ ابن کثیر نے اپنی معروف تفسیر میں ان لوگوں کے بارے میں گویا کچھ یوں لکھا ہے کہ یہ بیچ کے لوگ دونوں طرف اپنے تعلقات بنا کر رکھتے یعنی نہ حق پرست لوگوں سے بات بگاڑنا نہ ظالموں سے۔ نجانے کتنی صدیوں پرانا واقعہ بھی اسی بات کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے تو یہ دور کی بات نہیں بلکہ سوچ کی بات ہے۔ تب بھی حق بات کہنے والوں کا لوگ ساتھ دینے کے بجائے روکنے کا کام کرتے تھے اور آج بھی۔

اب تک ایک نظر عام کی بات تھی تو صورت حال میں مماثلت تھی مگر اگر نظر دقیق کی بات کریں تو ہمارے معاشرے کی صورت حال مختلف ساتھ اور بدتر نظر آئے گی۔ واقعہ سبت میں جو بیچ کے لوگ تھے وہ خود برائی نہیں کرتے تھے نہ ان کے برائی کی طرف عملی طور پر راغب ہونے کی بات آئی مگر ہمارے معاشرے میں معاملات مختلف ہیں۔ وہ کہتے ہیں نہ یہاں شریف وہ ہے جس کو موقع نہیں ملا۔ یہ بات پوری طرح درست نہ بھی صحیح مگر کافی حد تک ہے۔

ہمارے یہاں لوگ رشوت لینے دینے والے کو جہنمی تو کہیں گے مگر اپنا کام کرنے پر رشوت دینے میں سوچیں گے بھی نہیں۔ اگر تب کوئی سمجھائے بھی تو کہیں گے کہ بھائی یہ تو سسٹم ہے کیا کریں مجبوری ہے یا زیادہ ہو کوئی تو اس کے پاس ایک فتویٰ ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنا رشوت دینا صحیح قرار دیتا ہے کہ اگر یہ غلط بھی ہوا تو مفتی پھنسے گا۔ اور آج کل تو علماء کے بھی کیا کہنے جیسے سبت والوں نے مچھلیوں کو پھنسانے کا کوئی راستہ نکال لیا تھا ایسے ہی افسوس کہ یہاں بھی اب ایسے کافی علماء یہ کام کرتے نظر آتے ہیں۔

خیر پھر لوگ خاص کر نوکری کے لیے لوگ رشوت دے کر آتے ہیں اور بعد میں مجبوری کا رونا روتے نظر آتے ہیں جب کہ سمجھ نہیں آتا یہ کیا دنیا کی واحد نوکری تھی یا کوئی اور کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہو؟ اور پھر جب رشوت دے کر آتے ہیں تو اکثر لوگ بعد میں رشوت لینے میں بھی آڑ نہیں رکھتے۔ اور سلام ہو ہمارے معاشرے کو جہاں ایک ہوٹل پر محنت کر کے کام کرنے والا حقیر اور ایک رشوت کی لین دین کرنے والا سرکاری ملازم یا افسر اعلی ہے۔ یہ صرف ایک مثال تھی ہمارا معاشرہ تو بھرا پڑا ہے ایسی مثالوں سے۔

اگر اپنے حالات پر انصاف کے ساتھ غور کریں تو واقع سبت کے بیچ کے لوگوں کو ہمارے معاشرے کہ بیچ کے لوگوں سے بہتر پائیں گے کیوں کہ وہ برائی کو برائی تو جانتے تھے مگر ہمارے والے تو اس کو صحیح تک قرار دے دیتے ہیں۔ اور وہاں برائی سے نہ روکنے والوں کا اپنا کوئی ارادہ اس میں شامل ہونے کا اشارہ نظر نہیں آتا جب کہ ہمارے معاشرے میں شاید بیچ والے حق بات کرنے والوں کو بھی اس لیے روکتے ہوں کہ پتا نہیں کبھی ان کو موقع ملے اور وہ بھی یہی کام کرتے نہ پائے جائیں۔

اب ہم خود اندازہ لگائیں کہ ہم کس سطح پر کھڑے ہیں اور اپنے معاشرے کو کس طرح تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ آخر میں ایک بات اور کرنا چاہوں گا کہ اکثر لوگ اپنے بیچ میں ہونے یعنی نہ کرنے نہ روکنے کو بہتر بلکہ حکم الہی قرار دیتے نظر آتے ہیں اور اس پر دلیل بھی دیتے پائے جاتے ہیں کہ متوسط راہ اختیار کرنے کا حکم ہے۔ تو اس سوچ اور دلیل پر ان شاء اللہ اپنی اگلی تحریر میں بات کروں گا جب کہ حق کے متلاشی کے لیے تو یہ بات کم از کم فکر کی بیداری کے لیے کافی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments