امریکہ کا کابل ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکت کا اعتراف: سوشل میڈیا پر شدید ردعمل


امریکی ڈرون حملہ، کابل
امریکہ نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے افغانستان میں اپنے مکمل فوجی انخلا سے قبل 10 معصوم شہریوں کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کابل میں 29 اگست کو امریکی ڈرون حملے میں ایک امدادی تنظیم کا کارکن اور اس کے خاندان کے نو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں سات بچے شامل تھے اور سب سے کم عمر بچی سمیہ محض دو سال کی تھیں۔

سوشل میڈیا پر امریکہ کی جانب سے اس غلطی کو تسلیم کرنے کا بیان زیر بحث ہے۔ اس ڈرون حملے میں معصوم شہریوں کی ہلاکت پر بائیڈن انتظامیہ کو شدید تنقید کا بھی سامنا ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے بہت دیر بعد کسی ڈرون حملے میں غلطی کو تسلیم کیا ہے جبکہ کچھ کے مطابق محض اس غلطی کو تسلیم کر کے معافی مانگنا ’ناکافی ہے۔‘

یاد رہے کہ امریکہ نے یہ ڈرون حملہ کابل ایئرپورٹ پر خوفناک دہشتگرد حملے کے بعد کیا تھا۔ 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ پر دولت اسلامیہ خراساں کے ایک دہشتگرد حملے میں 170 افغان شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

’یہ امریکی انٹیلیجنس کی ناکامی ہے‘

بی بی سی کی نامہ نگار برائے امریکی دفتر خارجہ باربرا پلیٹ اشر کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب امریکہ افغانستان میں موجود نہیں، امریکی فوج کی یہ غلطی ’افغانستان میں مستقبل کے انسداد دہشتگردی کے آپریشنز کی درستگی پر سوالات اٹھاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا ہے کہ خطے میں کچھ لوگوں کے لیے یہ ایک مثال بنی ہے کہ ڈرون کے ذریعے فوجی کارروائیوں سے خطرات لاحق ہیں۔

امریکہ اور اسلامی تعلقات کی کونسل (سی اے آئی آر) کے نیشنل ڈائریکٹر ایگزیکٹو نہاد عوض نے کہا ہے کہ اس معاملے پر میڈیا نے اگر تحقیقاتی رپورٹس نہ کی ہوتیں تو ’امریکی فوج اسے جائز قرار دیتی، ان کئی ڈرون حملوں کی طرح جن میں افغانستان، پاکستان، یمن اور عراق میں ہزاروں ہلاک ہوئے۔‘

سی این این کے پروڈیوسر کرٹ ڈیون نے نیو امریکہ نامی ادارے کی رپورٹ کا حوالہ دیا جس کے مطابق امریکی ڈرون حملوں میں پاکستان میں 245 سے 303، یمن میں 124 سے 150، صومالیہ میں 34 سے 121 اور لیبیا میں 637 سے 930 معصوم شہری ہلاک ہوئے۔

تاہم امریکہ کے خارجی امور کے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ’امریکی فوج نے بہت عرصے بعد کسی ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکت کی غلطی کو تسلیم کیا ہے اور معافی مانگی ہے مگر اس سے کابل کے اُس خاندان یا گذشتہ حملوں کے خاندانوں کو تسلی نہیں ملے گی۔‘

کانگریس کی رکن الہان عمر نے واضح کیا کہ کابل میں ڈرون حملے کی وجہ سے معصوم شہریوں کی ہلاکت پر ’معافی کافی نہیں۔۔۔ ہمیں اس میں ملوث ہر شخص کے احتساب کا مطالبہ کرنا چاہیے۔‘

انھوں نے امریکی ڈرون پروگرام پر مکمل انکوائری کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

صحافی سودابہ نے لکھا کہ ’مخلصانہ معذرت اور تعزیت ان 10 معصوم شہریوں کی زندگیوں کو نہیں لوٹا سکے گی، یہ انٹیلیجنس کی ناکامی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کابل ڈائری: ’اگر دھماکہ خیز مواد گاڑی میں تھا، تو پھر وہ پھٹا کیوں نہیں‘

جب نیک محمد نے ساتھی سے پوچھا ’سروں پر اُڑتا یہ عجیب دھاتی پرندہ کیا ہے؟‘

کیا امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بننے والی کار میں بم تھا؟

طالبان کے ہاتھ جنگی طیارے، گاڑیاں تو لگ گئیں مگر کیا وہ انھیں استعمال کر سکتے ہیں؟

صارف حلیمہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’امریکہ نے کھلے عام جنگی جرائم کا اعتراف کر لیا ہے۔‘

پاکستان میں بھی صارفین نے اس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

صحافی مہرین زہرہ ملک کہتی ہیں کہ متاثرہ خاندان نے کہا تھا وہ اس پر امریکہ کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے اور معاوضے کا مطالبہ کریں گے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے نامہ نگار عمر فاروق نے کہا ہے کہ پینٹاگون نے کئی ہفتوں بعد یہ مان لیا جو کئی ادارے رپورٹ کر چکے ہیں۔

انھوں نے مزید لکھا کہ ’اگر دنیا کی نظریں اس روز کابل پر نہ ہوتیں تو اسے بھی بھلا دیا جاتا جیسے ماضی میں سینکڑوں ڈرون حملوں کے ساتھ ہوا ہے۔‘

جبکہ ماورا زہرہ کے مطابق امریکہ نے کابل ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکت کو تسلیم کر لیا ہے۔ انھوں نے امریکی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا خون آپ کے ہاتھوں پر ہے۔‘

امریکی ڈرون حملہ، کابل

امریکہ نے کابل میں ڈرون حملے کو افسوس ناک غلطی تسلیم کیا

امریکی ڈرون حملہ اس وقت ہوا جب امدادی کارکن زمیری احمدی اپنے گھر کے گیراج میں آئے جو ایئرپورٹ سے قریب تین کلومیٹر دور تھا۔

امریکی ڈرون حملے کے فوراً بعد ایک دوسرے دھماکے کی بھی آواز سنی گئی تھی۔ امریکی فوج کو لگا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کار میں دھماکہ خیز مواد تھا مگر حالیہ تحقیق میں پتا چلا ہے کہ اس دوسرے دھماکے کی ممکنہ وجہ گیراج میں پڑا گیس سلنڈر تھی۔

ہلاک ہونے والوں میں احمد ناصر شامل ہیں جو امریکی فوج کے لیے مترجم تھے۔ دیگر متاثرین عالمی تنظیموں کے ساتھ ماضی میں ملازمت کر چکے تھے اور کچھ کے پاس امریکہ داخلے کے ویزے بھی تھے۔

ایک بیان میں امریکی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن نے کہا کہ ’ہمیں اب معلوم ہے کہ زمیری احمدی اور دولت اسلامیہ خراساں میں کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس دن ان کی سرگرمیاں کسی خطرے کا باعث نہیں تھیں۔‘

’ہم معذرت خواں ہیں اور ہم ایسی خوفناک غلطی سے سیکھنے کی کوشش کریں گے۔‘

سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینیتھ مکینزی کے مطابق امریکی انٹیلیجنس نے امدادی تنظیم کے کارکن کی گاڑی کو آٹھ گھنٹے تک ٹریک کیا۔ انھیں لگا کہ اس کا تعلق نام نہاد دولت اسلامیہ خراساں گروپ سے ہے۔

تحقیق سے پتا چلا کہ موصول ہونے والی انٹیلیجنس کا دعویٰ تھا کہ یہ کار دولت اسلامیہ خراساں سے منسلک ہے اور کابل ایئرپورٹ پر ایک مزید حملے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

انٹیلیجنس کا دعویٰ تھا کہ ڈرون کیمرے میں ایک شخص کو اس کار میں دھماکہ خیز مواد رکھتے دیکھا جاسکتا ہے مگر درحقیقت یہ پانی کے کنٹینر تھے۔

جنرل میکنزی نے اس ڈرون حملے کو ’افسوس ناک غلطی‘ قرار دیا اور کہا کہ طالبان اس انٹیلیجنس معلومات میں شامل نہیں تھے جس کی بنیاد پر حملہ کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments