پاکستان میں انتخابی اصلاحات کی راہ میں حائل رکاوٹیں


پاکستان میں جمہوریت کا استحکام کافی حد تک انتخابات پر منحصر ہوتا ہے۔ پاکستان میں، ہر انتخاب کے بعد وسیع پیمانے پر دھاندلی، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انتخابی عمل کو مسخ کرنے وغیرہ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ عام طور پر، انتخابی اصلاحات کا مقصد ہمیشہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ادارہ جاتی بہتری اور اس کی فعال خود مختاری ہے۔ انتخابی اصلاحات کا عمل صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ انتخابات میں دھاندلی تین مختلف سطحوں پر ہوتی ہے۔

انتخابات سے پہلے، انتخابات کے دن اور انتخابات کے بعد ۔ عام طور پر انتخاب سے پہلے پسندیدہ شخصیات اور پارٹیوں کے لیے میدان ہموار کیا جاتا ہے۔ افسران شاہی کے تبادلے اور پسندیدہ افسران کی تعیناتی شامل ہیں۔ حلقہ بندیوں میں تبدیلی، ووٹرز کی تبدیلی شامل ہیں۔ بعض پارٹیاں خصوصی طور پر سروے کروا کر معلومات حاصل کرتی ہے تاکہ پسند کے مطابق نتائج کو حاصل کرسکے۔ حکومتی اداروں کے ذریعے سے پروپیگنڈا کروایا جاتا ہے۔

اور یوں اپنی پسندیدہ پارٹی اور امیدواروں کے لیے راہ ہموار کی جاتی ہے۔ بیوروکریسی خصوصاً پولیس افسران اور محکمہ تعلیم کا اس عمل میں خاصا کردار ہوتا ہے۔ دوسرا انتخابات کے دن پسندیدہ شخصیات کے لیے نرم گوشہ، دوسروں کے ووٹوں کو ضائع کر کے پسندیدہ چہرے کو جتوانا شامل ہیں۔ بعض اوقات جن پولنگ اسٹیشنز پر مخالف امیدوار کی ووٹ بنک زیادہ ہو وہاں وقت سے پہلے پولنگ کے عمل کو روکنا، عملے کو یرغمال بنانا، ووٹروں سے زبردستی ووٹ ڈلوانا شامل ہیں۔ جن کو پولیس، تعلیم اور بیوروکریسی کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے۔

تیسری اہم چیز الیکشن کے بعد خفیہ اداروں کے ذریعے پسندیدہ پارٹی کی حکومت قائم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا، امیدواروں کی اغواء ماضی میں چھانگا مانگا اور دیگر ریسٹ ہاؤسز میں زبردستی ”اغواء“ شامل ہیں۔ انتخابات میں شفافیت لانے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں انتخابی اصلاحات کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ جن میں انتخابات میں شفافیت کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے نوازنا شامل ہیں۔

یہ دونوں وہ عوامل ہیں۔ جو بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ اس وقت دنیا کے 19 ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ کیوں کہ جب ہر جگہ اور ہر چیز الیکٹرانک آلات کے ذریعے ممکن ہو سکتی ہے۔ تو ووٹ کیوں نہیں؟ کیوں کہ ووٹ امانت ہے۔ ووٹ ایک گواہی ہے۔ گواہی چھپانا جرم ہے۔ لہذا ووٹ کو چرانا گواہی کو چھپانے کی مانند ہے جو حرام ہے۔ جو معاشرتی زندگی اور معاشرتی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بیورو آف امیگریشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سمندر پار پاکستانیوں کی تعداد 1 کروڑ 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت تجربہ کار ہنرمندوں پر مشتمل ہیں۔ جو دنیا کے مختلف ممالک میں کمائی کر کے پاکستان بھیجتے ہیں۔ جو کہ ملکی معیشت میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ کرونا کے ان سخت دنوں میں سمندر پار پاکستانیوں نے گزشتہ دس مہینوں سے تسلسل کے ساتھ دو ارب ڈالر ماہانہ اپنے وطن کی طرف ارسال کیے ہیں۔ مارچ کے مہینے میں تو دو ارب کا ہندسہ بھی عبور کیا گیا۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ان کا قانونی حق ہے۔

ان کو حق دے کر ان کے اعتماد کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن افسوس اپوزیشن جماعتیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اس بل کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر ملک میں انتخابی اصلاحات کے ذریعے سے انتخابات میں شفافیت کے عمل کو لایا جائے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ پارٹیوں کے اندر جمہوریت اور شفافیت کو فروغ دے۔ انتخابات غیر جانبدار کمیشن کی نگرانی میں ہو۔ چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام وقت کی ضرورت ہے کیونکہ آج دنیا میں وہی اقوام کامیاب و کامران ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام ہو۔ اداروں کے اندر ریفارمز وقت کی ضرورت ہے۔ لہذا پاکستانی قوم کا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر انتخابی اصلاحات کے عمل کو اسمبلی سے منظور کریں تاکہ ملک میں غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments