افغانستان میں طالبان: کیا دھڑے بندی اور قبائلی تفریق طالبان حکومت کو کمزور بنا رہی ہے؟


حقانی جنگجو
کابل میں سب سے پہلے حقانی جنگجو داخل ہوئے اور اب بھی زیادہ تر سکیورٹی ان ہی کے ہاتھ میں ہے
15 اگست کو افغان دارالحکومت کابل پر طالبان کا قبضہ ان کی طویل جدوجہد میں ایک سنگ میل ہو سکتا ہے مگر شراکت اقتدار کے معاملے میں ان کی صفوں میں بڑھتی ہوئی قبائلی تفریق، دھڑے بندی اور ملک پر منڈلاتے معاشی بحران کا مطلب ہے کہ ان کا ’ہنی مون‘ ختم ہو چکا ہے۔

مرکزی دھارے کی طالبان لیڈر شپ کے لیے، جو جنوب (قندھار) میں ہے، سب سے بڑا چیلنج حقانی نیٹ ورک ہے جو اب زیادہ دلیر ہو چکا ہے اور جس کے روابط غیر ملکی جنگجوؤں سے ہیں۔ اس کے علاوہ مشرقی افغانستان کے نصف سے زیادہ حصے پر اس کا کنٹرول ہے۔

طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کی مستقل غیر حاضری نے بھی طالبان کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے، جس سے ان کی صفوں میں ان کے زندہ ہونے کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے اور ممکنہ لڑائی کا خطرہ ہے۔

ان مسائل کے مجموعے نے طالبان کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی حکومت کے بارے میں اندرونی اور بین الاقوامی خدشات پر اندرونی اتحاد و اتفاق کو ترجیح دیں جو کہ پرانی قیادت پر مبنی ہے اور جس میں سے ملک کی غیر پختون آبادی کو باہر رکھا گیا ہے۔

جنوبی- مشرقی تقسیم

جنگ میں ہاتھ آنے والے مالِ غنیمت پر موجودہ طالبان اختلاف سے ہٹ کر، تاریخی قبائلی شکوے شکایتیں بھی غیر محسوس انداز میں زیر سطح سر ابھار رہی ہیں جس کے نتیجے میں مشرق اور جنوب کے پختونوں کے درمیان مسابقت پیدا ہو رہی ہے۔

نسلی پشتون ملک کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہے جو دو بڑی شاخوں میں تقسیم ہے، درانی اور غلزئی۔ درانی اگرچہ عددی اعتبار سے کم ہیں مگر 1747 سے زیادہ تر اقتدار میں رہے ہیں، جبکہ غلزئی زیادہ تر خانہ بدوش رہے ہیں۔

حقانی لیڈر غلزئی ہیں اور ان کا نیٹ ورک طالبان کا حصہ ہے مگر عملی کارروائی اور مالیاتی لحاظ سے انھیں خاصی خودمختاری حاصل ہے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی جنگجوؤں اور شمالی افغانستان کے غیر پشتون طالبان سے ان کے قریبی روابط ہیں اور یہ سخت گیر گروہ مبینہ طور پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے بھی قریب سمجھا جاتا ہے۔ نظریاتی طور پر یہ القاعدہ اور دولت اسلامیہ خراساں کے بھی قریب ہے۔

طالبان قیادت

سابق صدر اشرف غنی سمیت سنہ 1978 سے 1992 میں رہنے والے تین دیگر صدور کا تعلق بھی غلزئی شاخ سے تھا۔ بعض افغانوں کا خیال ہے کہ اشرف غنی نے کابل پر حقانیوں کے قبضے میں مدد کی ہے۔

قیادت پر جنوب کا غلبہ

طالبان لیڈر شپ کونسل میں اہم عہدے جنوبی پختونوں کے پاس رہے ہیں جبکہ سنہ 2015 میں طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کی وفات کے اعلان کے بعد سے سراج الدین حقانی طالبان امیر کے تین نائبوں میں سے ایک رہے ہیں۔

ملا عمر کی وفات سے جنوبی طالبان رہنماؤں کے مابین قیادت کے سلسلے میں زبردست کشمکش پیدا ہو گئی تھی مگر ملا عمر کے جانشین ملا منصور نے سراج الدین حقانی کا بطور ایک نائب تقرر کر کے اپنی حیثیت مضبوط بنا لی تھی۔

حقانیوں کا تعلق مشرقی افغانستان کے پکتیا خطے سے ہے۔

ملا عبد الغنی برادر

Sefa Karacan/Anadolu Agency via Getty Images
ملا عبد الغنی برادر

طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ، وزیراعظم ملا محمد حسن، نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر اور سابق صدر حامد کرزئی درانی ہیں۔ ہیبت اللہ کے پیشرو ملا منصور بھی پختونوں کی اسی شاخ سے تھے۔

اگرچہ طالبان کے بانی ملا عمر کا تعلق غلزئی شاخ سے تھا مگر وہ جنوبی پشتونوں سے اپنی وابستگی ظاہر کرتے تھے۔ ان کے بیٹے ملا یعقوب اس وقت وزیر دفاع ہیں اور وہ بھی جنوبی قیادت کے زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں۔

طالبان حکومت میں ان تمام اہم اور با اثر رہنماؤں کی شمولیت کے باوجود جنوب کے دو اہم طالبان ملٹری کمانڈر ملا قیوم ذاکر اور ملا ابراہیم صدر موجودہ کابینہ سے باہر ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ قیاس آرائی کر رہے ہیں کہ ان کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان حکومت کے ڈپٹی وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر منظر نامے سے غائب کیوں ہیں؟

افغانستان کا مستقبل: کیا چین طالبان حکومت کو عالمی تنہائی سے بچا پائے گا؟

طالبان کی عبوری حکومت کی تقریب حلف برداری کیوں نہ ہو سکی؟

حقانی طاقت کا مظاہرہ

کابل پر قبضے کے کچھ ہی عرصے بعد سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں کہ صدارتی محل کے اندر حقانی رہنماؤں اور ملا برادر کے درمیان حکومت سازی کے معاملے پر ہاتھا پائی کی نوبت آ گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق ملا برادر وسیع البنیاد حکومت کے خواہاں اور دہائیوں تک پر امن رہنے والی وادی پنجشیر پر بڑے حلموں کے مخالف تھے۔

ملا برادر کو، جو امریکیوں اور افغان رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کر رہے تھے، توقع تھی کہ وہ طالبان حکومت کے بھی قائد ہوں گے مگر لگتا ہے کہ موجود قطار میں انھیں پیچھے کر دیا گیا ہے۔

کئی اطلاعات ایسی ملی ہیں کہ وہ کابل چھوڑ کر کسی نامعلوم مقام پر چلے گئے ہیں۔ پندرہ ستمبر کو وہ ایک بری کوالٹی کی ویڈیو میں ایک کاغذ پڑھتے ہوئے نظر آئے تھے جس میں انھوں نے طالبان کی صفوں میں کسی اختلاف اور اپنی بیماری کی تردید کی تھی مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ہیں کہاں پر۔

بعض دوسری اطلاعات کے مطابق 3 ستمبر کو وادی پنجشیر پر فتح حاصل کرنے کی خوشی میں دیر تلک کابل میں فائرنگ کی گئی تھی، جو دراصل جنوبی طالبان کو دکھانے کے لیے حقانی نیٹ ورک کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ تھا۔ اس واقعہ میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔

سپریم لیڈر کی غیر حاضری قیاس آرائی کا باعث

طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ کی مسلسل غیر حاضری نے بھی نہ صرف افغان عوام بلکہ طالبان کی صفوں میں بھی متعدد سوالوں کو جنم دیا ہے۔ ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ وہ کورونا کے باعث ہلاک ہو گئے ہیں یا چند سال قبل پاکستان میں ایک دھماکے میں مارے گئے ہیں۔

ملک میں طالبان کی دھڑے بندی اور عوام میں غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر، اگر وہ زندہ ہیں تو ان کے لیے عوام کی نظروں سے دور رہنا ایک احمقانہ عمل ہو گا۔

افغانستان کے نجی ٹی وی چینل طلوع ٹی وی نے گذشتہ ماہ کے اواخر میں کہا تھا کہ ان خبروں کے باوجود کے وہ شہر میں پہنچ چکے ہیں اور جلد ہی عوام کے سامنے آئیں گے، قندھار میں عوام اور حکام ہیبت اللہ کی مسلسل غیر حاضری کے باعث پریشانی اور اضطراب کا شکار ہیں۔ طلوع ٹی وی کے رپورٹر نے بھی ان قیاس آرائیوں کی جانب اشارہ دیا تھا کہ شاید وہ زندہ نہیں ہیں۔

ملا ہیبت اللہ کی جگہ لینے کی لڑائی ممکنہ طور پر اس لڑائی سے کہیں زیادہ بری ہو گی جو ملا عمر کی موت کے بعد کی گئی تھی۔

طالبان کا ہنی مون حتم ہو گیا

ملک میں جاری معاشی بحران، غیر ملکی امداد کی بندش، مغربی ممالک کی جانب سے قطع تعلقی اور ملک سے پیسہ باہر جانے کے ساتھ ساتھ اندرونی تقسیم کے ساتھ طالبان کو خارجی و داخلی سطح پر قبولیت سمیت متعدد سنجیدہ اور اہم مسائل کا سامنا ہے۔

کابل

سات ستمبر کو اپنے حکومت کے اعلان کے بعد سے طالبان نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی یہ قائم مقام حکومت کب تک رہے گی، کیا اسے اسلامی امارات افغانستان کہا جائے گا، طالبان کے رہبر اعلیٰ اور ان کی فیصلہ ساز شوریٰ اور ان کی علما کونسل مستقبل میں کیا کردار ادا کرے گی اور یہ حریف شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کے خراسان گروہ سے کیسے نمٹیں گے؟

اگر محض چند مسائل کا ذکر کریں تو داعش ممکنہ طور پر ملک میں غیر پشتون افراد کے مداوں، فنڈز کی کمی اور طالبان کی فضائی قوت کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

افغان امور کے ماہر مائیکل سیمپل، جنھوں نے بہت برس افغانستان میں کام کیا ہے، نے بی بی سی فارسی ٹی وی سے حال ہی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ دیگر مسائل کے ساتھ طالبان کی اندرونی لڑائی اور اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کی کوشش نے افغان عوام کی نظر میں پہلے سے ان کی کم قدر میں اضافہ کیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ اب طالبان کا ’ہنی مون‘ ختم ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments