سر ظفر اللہ خان: جنرل اسمبلی کے صدر، عالمی عدالت انصاف کے سربراہ واحد پاکستانی جنھیں ان کے عقائد کی وجہ سے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا


اقوام متحدہ میں سیکریٹری جنرل کے عہدے کے بعد اہم ترین عہدہ جنرل اسمبلی کے صدر کا عہدہ ہے۔ پاکستان گذشتہ 74 برس سے اقوام متحدہ کا رکن ہے مگر جنرل اسمبلی کا یہ عہدہ صدارت صرف ایک مرتبہ پاکستان کے حصے میں آیا ہے اور سر ظفر اللہ خان نے ستمبر 1962 سے ستمبر 1963 تک اس عہدے پر خدمات سرانجام دی ہیں۔

سنہ 1961 میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدارت پر تیونس کے مونجے سلیم منتخب ہوئے تو اسی وقت سے یہ بات گردش میں تھی کہ آئندہ سال یہ منصب ایشیا کے کسی سفارتکار کو ملنا چاہیے۔

چوہدری ظفر اللہ خان نے پروفیسر ولکاکس اور پروفیسر ایمبری کو دیے گئے انٹرویو میں جو ’سر ظفر اللہ خان کی یادداشتیں‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا بتایا کہ ’مجھے اس تجویز پر تحفظات تھے اور میرا مؤقف یہ تھا کہ افریقن صدر کے فوراً بعد کسی ایشیائی کا یہ منصب سنبھالنا مناسب نہیں۔ میرا خیال تھا کہ افریقی اور ایشیائی ممالک کی تعداد میں اضافہ ہونے سے یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ یہ ممالک اقوام متحدہ کے اندر معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا شروع کر دیں گے۔ میں سمجھتا تھا کہ اگر ہمیں (یعنی افرو ایشیائی ممالک کو) ہر تیسرے برس صدارت ملتی رہے تو بہت ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’میری تجویز تھی کہ اس سال اقوام متحدہ میں ارجنٹائن کے مندوب رامادو کو میدان میں اترنے دینا چاہیے اور اب کی بار صدارت لاطینی امریکا کو دے دینی چاہیے مگر اسی دوران ارجنٹائن میں سیاسی انقلاب آ گیا اور رامادو مستعفی ہو کر اپنے وطن واپس چلے گئے۔‘

’اسی اثنا میں بعض ایشیائی ممالک نے اپنے امیدواروں کے نام کا ذکر کرنا شروع کیا اور اقوام متحدہ میں سیلون (موجودہ سری لنکا) کے مندوب پروفیسر ملالا سیکرا نے اپنے لیے لابنگ شروع کر دی۔ افرو ایشیائی گروپ کے چیئرمین اُردن کے مندوب رفاعی تھے۔ انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا میں اس عہدے کے لیے اپنی خدمات پیش کر سکتا ہوں؟‘

’میں نے کہا کہ اگرچہ ارجنٹائن کے رامادو اپنے وطن واپس جا چکے ہیں مگر میں اب بھی اس عہدے کے لیے لاطینی امریکا کے کسی ملک کے امیدوار کو زیادہ مناسب سمجھتا ہوں مگر رفاعی مصر رہے کہ ان کی اور ان کے احباب کی نظر میں اس عہدے کے لیے میں مناسب ترین آدمی ہوں۔‘

سر ظفر اللہ خان نے رفاعی کو ٹالنے کے لیے کہا کہ ’میں اس سلسلے میں اپنے ملک سے مشورہ کروں گا اگر مجھے میرے ملک نے اجازت دی تو پھر میں آپ کی اس تجویز پر غور کر سکوں گا۔ میں نے حکومت پاکستان سے مشورہ طلب کیا، جواب آیا کہ اگر حالات سازگار ہیں تو اپنے نام کا اعلان کر دیں، میں نے حکومت کے ارشاد کی تعمیل کی۔ اب میدان میں دو امیدوار تھے۔ ملالا سیکرا اور میں۔‘

اٹھارہ ستمبر 1962ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سترہواں سالانہ اجلاس شروع ہوا تو پہلا مرحلہ جنرل اسمبلی کی صدارت کا انتخاب تھا۔

اس عہدے کے لیے اقوام متحدہ میں سر ظفر اللہ خان اور سیلون (موجودہ سری لنکا) کے مستقل مندوب پروفیسر ملالا سیکرا کے درمیان مقابلہ ہوا۔ ایک سو تین ممالک کے نمائندوں نے اس انتخاب ووٹ ڈالا جس میں سر ظفر اللہ خان نے 72 اور پروفیسر ملالا سیکرا نے 27 ووٹ حاصل کیے، جبکہ چار ووٹ امیدوار کا نام لکھنے کے بجائے اس کے ملک کا نام لکھنے کی وجہ سے ضائع ہو گئے (یہ چاروں ووٹ بھی سر ظفر اللہ خان کو دیے گئے تھے مگر ان کے نام کے بجائے پاکستان لکھا تھا)۔

یوں اس عہدے پر سرظفر اللہ خان منتخب قرار دے دیے گئے۔ سر ظفر اللہ خان اس منصب پر فائز ہونے والے پہلے اور تادم تحریر واحد پاکستانی ہیں۔

سر ظفر اللہ خان کے عہد صدارت میں جنرل اسمبلی کے سترہویں سالانہ اجلاس میں اقوام متحدہ کی رکنیت میں چھ اراکین کا اضافہ ہوا۔ ان اراکین میں سب سے اہم ملک الجزائر تھا۔ اس اجلاس کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ اس اجلاس سے پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی خطاب کیا۔

اقوام متحدہ سے سر ظفر اللہ خان کی وابستگی

اقوام متحدہ میں پاکستان کا جو پہلا وفد بھیجا گیا اس کے سربراہ بھی سرظفر اللہ خان ہی تھے۔ وفد کے دیگر ارکان میں مرزا ابوالحسن اصفہانی، پیرزادہ عبدالستار، میر لائق علی اور بیگم سلمیٰ تصدق حسین شامل تھے۔

پاکستان 30 ستمبر 1947 کو اقوام متحدہ کا رکن بنا تھا، اسی دن شمالی یمن بھی اقوام متحدہ میں شامل ہوا۔ پاکستان اس ادارے کی رکنیت حاصل کرنے والا دنیا کا 56 واں ملک تھا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کو رکن بنانے کی تجویز اقوام متحدہ میں انگلستان کے مندوب مسٹر ہیکٹر میک نیل نے پیش کی تھی جس کی تائید میں انڈیا، مصر، امریکا، ایران، عراق، ترکی، لبنان اور برازیل کے نمائندوں نے تقاریر کیں۔

اس کے بعد رائے شماری ہوئی جس میں اجلاس میں موجود 54 ممالک میں سے 53 ممالک نے اس تجویز کو منظور کر لیا۔ افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔ رکنیت ملنے کے بعد سر ظفر اللہ خان نے جوابی تقریر کی اور کہا ’میں اپنی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان ہر امکانی قوت کے ساتھ اس امر کی کوشش کرے گا کہ قوموں کے درمیان بہتر تعلقات پیدا ہوں، نیز دنیا میں پائیدار امن و امان قائم رکھنے کے لیے وہ اپنی انتہائی کوششیں صرف کرے گا۔‘

سر ظفر اللہ خان اپنی خود نوشت ’تحدیث نعمت‘ میں لکھتے ہیں کہ ’پاکستان جس اجلاس میں اقوام متحدہ کا رکن بنا اس میں جو مسئلہ زیر بحث تھا وہ فلسطین کا مسئلہ تھا اور اقوام متحدہ کے فلسطین کمیشن نے فلسطین کی تقسیم کی سفارش کی تھی۔ جب پاکستان کی طرف سے میں نے اس مسئلے پر تقریر کا آغاز کیا تو عرب نمائندگان کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ میری تقریر کا رخ کس طرف ہو گا۔ پاکستان ایک دو دن قبل ہی اقوام متحدہ کا رکن منتخب ہوا تھا۔ عرب ممالک کے مندوبین ہمیں خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے اور ہماری طرف سے بالکل بے نیاز تھے۔‘

ظفر اللہ

پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان (دائیں) 1953 میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پر لندن میں رکے

سر ظفر اللہ خان نے مزید لکھا کہ ’جب میں نے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کا تجزیہ شروع کیا تو اس کے ہر حصے کی ناانصافی کی وضاحت شروع کی تو عرب نمائندگان نے میری تقریر کو توجہ سے سُننا شروع کیا۔ تقریر کے اختتام پر ان کے چہرے خوشی اور طمانیت سے چمک رہے تھے، اس کے بعد اس معاملے میں عرب مؤقف کا دفاع زیادہ تر پاکستان کا فرض قرار دے دیا گیا۔‘

سر ظفر اللہ خان کی اس تقریر کی تعریف مخالف کیمپ کے نمائندوں نے بھی کی، جن میں نیوزی لینڈ کے سر کارل بیرنڈسن سرفہرست تھے، تاہم امریکی دباﺅ کے باعث فلسطین کی تقسیم کی تجویز اکثریت رائے سے منظور کر لی گئی۔

اجلاس کے خاتمے کے بعد سر ظفر اللہ خان پاکستان واپس لوٹ آئے۔

قیام پاکستان سے قبل سر ظفر اللہ خان ریاست بھوپال کے نواب سر حمید اللہ خان کے مشیر تھے۔ انھوں نے واپس بھوپال جانا چاہا مگر وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے انھیں مطلع کیا کہ بانی پاکستان محمد علی جناح ان کی خدمات پاکستان کے لیے حاصل کرنا اور انھیں وزیر خارجہ کے منصب پر فائز کرنا چاہتے ہیں چنانچہ 27 دسمبر 1947 کو انھوں نے اس منصب کا حلف اٹھا لیا۔ وہ 30 جون 1954 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

جنوری 1948 میں انڈیا نے مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں پیش کر دیا، جہاں 15 جنوری 1948 کو اس مسئلے پر بحث کا آغاز ہوا۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے حکومت پاکستان نے جو وفد نامزد کیا وہ حسب ذیل افراد پر مشتمل تھا: سر ظفر اللہ خان (نمائندہ)، ابوالحسن اصفہانی (متبادل نمائندہ) ،مسٹر وسیم ایڈووکیٹ جنرل پاکستان (مشیر)، مسٹر افتخار حسین ڈپٹی سیکریٹری وزارت خارجہ اور کرنل مجید ملک (رکن)۔

سرظفراﷲ خان اپنی خودنوشت ’تحدیث نعمت‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’ہندوستانی وفد کے سربراہ سرگوپالا سوامی آئینگر تھے جو برسوں ریاست کشمیر کے وزیراعظم رہ چکے تھے اور ان دنوں انڈیا کی مرکزی حکومت میں وزیر تھے، اُن کے معاون سرگرجا شنکر باجپائی اور مسٹر ایم ایل سیتلواڈ تھے۔ ان دنوں سلامتی کونسل کے اراکین ارجنٹائن، بیلجیئم، چین، کینیڈا، کولمبیا، فرانس، شام، روس، برطانیہ، ریاست ہائے متحدہ امریکا اور یوگوسلاویہ تھے، ان میں سے چین، فرانس، روس برطانیہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکا تو مستقل اراکین تھے اور باقی چھ میعادی اراکین۔‘

ہندوستان کی طرف سے سرگوپالا سوامی آئینگر نے 15 جنوری کو سہ پہر کے اجلاس میں تقریر کی: خلاصہ اس کا یہ تھا مہاراجہ کشمیر نے ریاست جموں و کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ برضا و رغبت کیا ہے، اِس کے خلاف پاکستان کے اکسانے پر اور اس کی مدد کے ساتھ قبائلیوں نے ریاست پرحملہ کر کے بہت فساد اور خون خرابہ کیا، قبائلیوں کی روک تھام کے لیے ہندوستان کو اپنی فوج بھیجنی پڑی جو جنگ کا رنگ اختیار کر گئی ہے۔ ان کی تقریر کے بعد اجلاس دو دن کے لیے ملتوی ہو گیا۔

’دوسرے اجلاس میں، میں نے جوابی تقریر میں کہا کہ ہندوستان کے نمائندے نے اپنی تقریر میں عمداً اس قضیے کی پیچیدگیوں کو پس پردہ رہنے دیا ہے اور صرف پاکستان کے خلاف الزامی پہلو پر زور دیا ہے۔ ہماری طرف سے اس اہم اور پیچیدہ قضیے کے پس پردہ حالات کو ظاہر کرنا اور ہندوستان کو مجرم کی حیثیت میں دکھانا ضروری ہے اس لیے لازماً بہت سے امور کی وضاحت ناگزیر ہے جن کا بیان ہندوستان کی طرف سے اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ ان کے خلاف جاتے ہیں۔‘

’ان تمام واقعات کا مختصر بیان بھی وقت چاہتا تھا اور سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں تقریر کے لیے صرف سوا دو گھنٹے میسر آتے تھے اس لیے تقریر تین اجلاسوں میں مکمل ہوئی۔‘

’چند سال بعد کولمبیا کے نمائندے نے ایک دفعہ مجھ سے کہا کشمیر کے معاملے میں ہندوستانی نمائندے کی پہلی تقریر سننے کے بعد سلامتی کونسل کے اراکین کی کثرت کا یہ تاثر تھا کہ پاکستان نے آزادی حاصل کرتے ہی فساد کا راستہ اختیار کر لیا ہے اور دنیا کے امن کے لیے ایک خطرے کی صورت پیدا کر دی ہے، لیکن جب جواب میں تمہاری طرف سے اصل حقیقت کے رُخ سے پردہ ہٹایا گیا تو ہم سب نے سمجھ لیا کہ ہندوستان مکاری اور عیاری سے کام لے رہا ہے اور کشمیر کی رعایا پر ظلم ہو رہا ہے اور ہمارا یہ تاثر بعد میں کسی وقت بھی زائل نہیں ہوا۔‘

20 جنوری 1948 کو اقوام متحدہ نے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کشمیر کمیشن کے قیام کی قرارداد منظور کر لی۔ یہ قرارداد بیلجیئم نے پیش کی تھی۔ اس کمیشن کا پورا نام یونائیٹڈ نیشنز کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان (UNCIP) تھا لیکن عرف عام میں یہ ’کشمیر کمیشن‘ کے نام سے ہی مشہور ہوا۔

کمیشن کے ارکان کی تعداد پانچ تھی۔ طے پایا کہ اس کمیشن میں دو ارکان سلامتی کونسل نامزد کرے اور وہ دونوں ارکان ایک تیسرا رکن نامزد کریں۔ ان کے علاوہ ایک رکن پاکستان اور ایک انڈیا نامزد کرے۔ سلامتی کونسل نے بیلجیئم اور کولمبیا کو نامزد کیا اور دونوں نے امریکا کو نامزد کیا۔ پاکستان نے ارجنٹائن کو اور بھارت نے چیکوسلواکیہ کو نامزد کیا۔

سر ظفراﷲ خان نے ’تحدیث نعمت‘ میں لکھا ہے کہ ’کمیشن کے سپرد جو کام کیا گیا تھا وہ نہایت ہی اہم اور بہت ذمہ داری کا تھا لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ متعلقہ حکومتوں نے اس کام کی اہمیت کو مناسب وقعت نہ دی اور اپنے نمائندوں کے انتخاب میں نہایت سہل انگاری سے کام لیا۔‘

’کمیشن کے اراکین بلاشبہ شرفا تھے لیکن سیاسی سوجھ بوجھ، ہمت اور حوصلے کے لحاظ سے اس درجہ تک نہیں پہنچے تھے جو ان کے فرائض کی کماحقہ ادائیگی کے لیے ضروری تھا۔ ان میں سے صرف ایک رکن ان خوبیوں کے مناسب حد تک حامل ثابت ہوئے جو ان کے فرائض کی کامیاب ادائی کے لیے لازم تھیں، وہ چیکوسلواکیہ کے نمائندے ڈاکٹر جوزف کوربیل تھے جنھوں نے کمیشن سے علیحدگی کے بعد کمیشن کی سرگرمیوں کے متعلق ایک کتابDanger in Kashmir شائع کی۔‘

’بیلجیئم کے پہلے نمائندے ایک عمررسیدہ نواب تھے جنھیں صرف کھانے پینے اور سونے سے سروکار تھا اگر کسی وقت کمیشن کے کام کی طرف توجہ فرماتے تو یہ دیکھنے کے لیے کہ کمیشن کا کوئی اقدام پنڈت جواہر لال نہرو کی طبع نازک پر گراں تو نہیں ہو گا۔‘

’ریاست ہائے متحدہ امریکا کے نمائندے کچھ توجہ فرماتے تھے لیکن ان کی شرافت ان کی ہمت پر غالب تھی۔ کولمبیا کے نمائندے ڈاکٹر کوربیل سے دوسرے درجے پر تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کا کچھ ثبوت دیا لیکن ان کے لیے بڑی مشکل تھی کہ ان کی انگریزی زبان کی واقفیت بہت محدود تھی۔ ڈاکٹر کوربیل 1949 کے شروع میں کمیشن سے علیحدہ ہو گئے ان کی علیحدگی کے بعد کمیشن نیم مردہ ہو گیا اور تھوڑے عرصے بعد اس نے دم توڑ دیا۔‘

سنہ 1953 میں جب احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی ملک گیر تحریک چلی تو اس تحریک کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ سر ظفر اللہ خان کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا جائے اور احمدیوں سے تمام کلیدی عہدے چھین لیے جائیں۔

سر ظفر اللہ خان پر الزام تھا کہ انھوں نے باﺅنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کا مؤقف درست طریقے سے پیش نہیں کیا جس کی وجہ سے گورداس پور کا علاقہ ہندوستان میں شامل ہو گیا، مگر اس تحریک کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی کی صدارت میں جو کمیشن قائم کیا گیا اس میں جسٹس محمد منیر نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔

نومبر 1953 میں عالمی عدالت انصاف کے ایک جج سر بی این راﺅ، جن کا تعلق انڈیا سے تھا، وفات پا گئے۔ ان کی جگہ پوری کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے مختلف ممالک سے کہا کہ وہ موزوں امیدواروں کے نام اقوام متحدہ کو بھیج دیں۔

پاکستان نے اس سلسلے میں سر ظفر اللہ خان کو اور انڈیا نے مسٹر جسٹس پال کو اپنا نمائندہ نامزد کیا۔ سات اکتوبر 1954 کو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں پولنگ ہوئی۔ نتیجہ سر ظفر اللہ خان کے حق میں نکلا۔

سلامتی کونسل میں ان کے حق میں پانچ کے مقابلے میں چھ ووٹ اور جنرل اسمبلی میں 29 کے مقابلے میں 33 ووٹ آئے اور یوں وہ عالمی عدالت کے جج منتخب ہو گئے۔ سرظفر اللہ خان اس سے قبل 30 جون 1954 کو پاکستان کی وزارت خارجہ سے مستعفی ہو چکے تھے اور عالمی عدالت میں اپنے انتخاب کے وقت اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

سنہ 1958 میں وہ اس عالمی عدالت کے نائب صدر منتخب ہوئے، سنہ 1961 میں جب وہ اس عہدے سے سبکدوش ہوئے تو انھیں ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقبل مندوب مقرر کر دیا گیا جہاں 18 ستمبر 1962 کو وہ جنرل اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے۔

ظفر اللہ

اقوام متحدہ کے 1953 میں ہونے والے سیشن کے دوران سر ظفر اللہ امریکی فرسٹ لیڈی مس روزویلٹ سے گفتگو کرتے ہوئے

سر ظفر اللہ خان اس عہدے پر ستمبر 1963 تک فائز رہے۔ اس کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر عالمی عدالت کے جج منتخب ہوئے بعد ازاں وہ 1970 سے 1973 تک اس عدالت کی صدارت پر بھی فائز رہے۔ ان کی سبکدوشی کے بعد پاکستان کے اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں ایک شاندار تہنیتی پیغام ارسال کیا جو 18 مارچ 1973 کو پاکستان بھر کے اخبارات میں شائع ہوا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’جنرل اسمبلی کے صدر اور بین الاقوامی عدالت انصاف کے جج کی حیثیت میں آپ نے پوری انسانیت کی ہی خدمت نہیں کی بلکہ پاکستان کے وقار کو بھی بلند و بالا کیا۔ آپ کو مختلف حیثیتوں میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ میں جو تکریم ملی ہے اس پر ہم سب کو فخر ہے۔‘

سر ظفر اللہ خان چھ فروری 1893 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ وائسرائے ہند کی مجلس عاملہ کے رکن رہے تھے۔ وہ واحد پاکستانی شخصیت ہیں جو نہ صرف جنرل اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے بلکہ عالمی عدالت انصاف کے سربراہ بھی رہے۔

سر ظفر اللہ خان کی وفات یکم ستمبر 1985 کو لاہور میں ہوا اور وہ ربوہ ضلع جھنگ میں آسودہ خاک ہوئے۔

ان کی وفات کی خبر ملتے ہی اقوام متحدہ کا سیکریٹریٹ بند کر دیا گیا اور تین ستمبر 1985 کو اقوام متحدہ کا پرچم سرنگوں رہا۔ ان کی وفات پر نہ صرف صدر مملکت جنرل ضیا الحق اور وزیراعظم محمد خان جونیجو نے بلکہ عالم اسلام کے کئی سربراہان مملکت، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل جے ویر پیریز دی کوئیار اور عالمی عدالت انصاف کے صدر نجندر سنگھ نے بھی تعزیتی پیغامات ارسال کیے۔

سر ظفر اللہ خان کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں ان کی خود نوشت سوانح عمری ’تحدیث نعمت‘ کا نام سرفہرست ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments