بے حسی شرط ہے جینے کے لیے تو


ہم کو احساس کی بیماری ہے۔ آج کل ہماری سیاست میں حساسیت بہت زیادہ نظر آ رہی ہے۔ ہماری قومی سیاست تو ایک عرصہ سے بیمار اور کمزور ہے۔ پاکستان میں سیاست ایک طرف بہت ہی مقبول کھیل تماشا ہے اور اس میں کام کرنے والے اشرافیہ کہلاتے ہیں اور خوب کماتے بھی ہیں۔ کسی بھی سیاسی پنڈت کا بیان سن کر آپ کی ہمدردی اپنے آپ سے بڑھ جائے گی۔ آپ کو جلد ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ بھاشن دینے والا سیاسی کھلاڑی کھیل میں بھی جوڑ توڑ کے ساتھ چمتکار دکھانا چاہتا ہے۔ آپ کے سامنے سب کچھ آج کل یہی ہو رہا ہے۔ عمران خان نے سیاست میں پاؤں کیا رکھا ہے سب کو اپنی اپنی فکر لگ گئی ہے اور سارے شاطر سیاست دان اس کو بدلنے پر لگ گئے ہیں۔ مگر وہ سب اندر سے ایک نہیں ہیں۔ یہ ان سب کی خوش قسمتی ہے کہ ملک میں انصاف نہیں ہے اور نہ انصاف ہو سکتا ہے۔ اگر قانون اور قانون بنانے والے عقلمند ہوتے تو عمران خان کے ساتھ جنگ کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔

ہماری سیاست کا نظریہ ہے کہ اس نظریہ پر عمل صرف اور صرف سیاسی اشرافیہ ہی نہیں اعلیٰ ملکی نوکر شاہی بھی کرتی ہے۔ وہ نظریہ کیا ہے۔ ”دکھاؤ کچھ اور بتاؤ کچھ اور پھر اس کے بعد چپ“ اس وقت پانی پت کی طرح کی سیاسی جنگ عمران خان کے لیے ان کے پرانے مہربان لوگ لڑتے نظر آرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دو بڑے اہم کھلاڑی ایک عجیب رشتہ کے ساتھ پارٹی کو بھی چلا رہے ہیں۔ حضرت اعلیٰ سابق صدر پاکستان اور بے نظیر شہید کے بچوں کے باپ پیپلز پارٹی کے روحانی پیشوا ہیں۔ زیادہ عمر کی وجہ سے انہوں نے اپنا تخت تو نہیں فقط تختہ اپنے فرزند ارجمند بلاول زرداری کو دے رکھا ہے کہ اس تختہ کی مدد سے سیاسی سمندر میں پیراکی کے مزے لو اور موصوف کو اندازہ ہے کہ تختہ ہی عمل سے تخت بن جاتا ہے۔ ان میں اگر کمی ہے تو عمل اور ہنر کی ہے۔ آج کل کی پارٹی کی سیاست میں عمل کے بغیر بھی آپ کی نامزدگی ہو سکتی ہے اور اس کے لیے بلاول زرداری اپنے ہنر کا بیانیہ جاری کرتے رہتے ہیں۔

عمران خان کی مخالف سیاسی اشرافیہ اس وقت آپس کی رنجش میں مبتلا نظر آ رہی ہے، ایک طرف سابق وزیراعظم پاکستان خاقان عباسی ہیں جن کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بھرپور اعتماد سے نوازا تھا اور دعوے کے برخلاف پنجاب کے سابق صوبے دار کو نظرانداز کر کے وزیراعظم پاکستان بنوایا تھا۔ اس کی وجہ بڑی معقول تھی۔ خاقان عباسی نے ماضی میں نواز شریف کے بچوں کا بہت ہی خیال رکھا اور بہت ہی خاص طریقہ سے تکریم بھی کی۔ ان کی اس خاص ادا کی وجہ سے مریم صفدر بھی متاثر تھیں اور ان کی خصوصی مشاورت کے کارن خاقان عباسی کو وزیراعظم کا عہدہ ملا تھا۔ دوسری طرف سابق صوبے دار پنجاب تھے، جناب شہباز شریف جو عسکری انتظامیہ سے بے لوث محبت کی وجہ سے میاں نواز شریف سے اپنی حیثیت منواتے رہتے تھے۔ ایسے میں امریکہ اور برطانیہ کے سفارتی حلقوں نے عسکری انتظامیہ سے پوچھ کر خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانے کے لیے پاس کیا تھا، ورنہ چوہدری نثار کا فارمولا کامیاب ہو جاتا۔

اس وقت ایک دفعہ پھر ہماری سیاست میں چوہدری نثار بڑی خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں یہ میچ عمران الیون اور پاکستان بچاؤ سیاست الیون کے درمیان ہو رہا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں تین ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ عمران خان الیون سرکار کی ٹیم ہے اور کھلاڑی سب ایک ہی کلب کے ہیں، دوسری طرف نئے نام کے ساتھ پی ڈی ایم ہے جس کے اہم کھلاڑی کپتان مولانا فضل الرحمان ہیں اور وائس کپتان کے لئے دو نام نظر آتے ہیں، خاقان عباسی اور مریم صفدر، مگر اہم کھلاڑیوں میں سابق صوبے دار پنجاب شہباز شریف اور حمزہ شہباز نمایاں ہیں۔ مگر وہ آج کل پریکٹس میں بھی نظر نہیں آرہے۔ ہمارے ہاں اتنے سیاسی کرکٹ کلب ہیں اور کھلاڑی بھی بہت ہیں اور کچھ نامور کھلاڑی جیسے چوہدری نثار ہیں وہ اس وقت کسی کلب کے ساتھ نہیں، مگر اب لگ رہا ہے کہ وہ جلد ہی میچ کھلاڑی کے طور پر کھیلتے نظر آسکتے ہیں۔

اس سیاسی کرکٹ ٹورنامنٹ کی تیسری اہم ٹیم پیپلز پارٹی کی ہے اور اب تک ان کی پریکٹس بھی بری نہیں ہے۔ ان کے ہاں نمایاں کھلاڑی بلاول زرداری ہے اور کھیلنے میں برا نہیں ہے، مگر تجربہ کم ہے آج کل وہ میاں شریف کلب کے کھلاڑی سابق صوبے دار بہادر سے ٹپس لیتے نظر آ رہے ہیں۔ سابق صوبے دار المعروف خادم اعلیٰ بھی شیر کی خالہ کی طرح ان کو ٹپس دیتی نظر آتے ہیں۔ یہ سارے سیاسی کلب اس وقت عسکری انتظامیہ کے ساتھ مربوط ہیں اور چاہتے ہیں سیاسی کرکٹ کلب کے ٹورنامنٹ عوام کو بہترین کھیل اور سیاست کے جوہر دکھا سکیں۔ خطہ کی صورت حال ایسی ہے کہ امریکہ اور برطانیہ بھی ہماری سیاسی کرکٹ سے مستفید ہو رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کے حالات میں ہماری کرکٹ کی پریکٹس پرامن رہے اور عمران خان کرکٹ پر تبصرہ کے لیے دستیاب ہو سکے اور عمران خان اس پر ابھی تیار نہیں ہے۔

پاکستان کی سیاسی کرکٹ کی دھوم بھارت اور ایران میں محسوس ہو رہی ہے۔ اگرچہ ان کے ہاں کی سیاسی کرکٹ اس وقت خراب انتظامیہ کی وجہ سے ٹورنامنٹس بھی نہیں کروا رہی ہے۔ پھر علاقائی صورت حال میں افغانستان میں بظاہر امریکی پسپائی نے بھی ان کو پریشان کر رکھا ہے اور امریکی دوستی اب بھارت کے لیے بھی امتحان ہے۔ مگر ہمارے بہت مہربان دوست امریکہ افغانستان سے نقصان کروا کر نہیں نکلا بلکہ اس کا کوئی خاص نقصان بھی نہیں ہوا اور اندر کی خبر ہے کہ قطر میں طالبان کے ساتھ سودے بازی کر کے اس نے افغانستان ان کے حوالے کیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ سودے بازی میں اصول کے قانون کو اہمیت دی جائے گی، مگر امریکہ پاکستان سے عمران خان کی وجہ سے ناراض سا لگتا ہے۔ عمران خان جس طرح امریکہ کے سلوک پر تبصرہ کرتا ہے وہ امریکہ کو پسند نہیں ہے مگر جلد ہی وہ عمران خان سے رابطہ کرنے والا ہے، اپنے مفاد میں۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے حالیہ دنوں میں امریکی مشہور چینل کو ایک انٹرویو دیا ہے اور عمران خان کا لہجہ کافی سخت اور غیر سیاسی سا لگا۔ عمران خان کو اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ کم وقت میں تبدیلی کے لیے عوام کو تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا اور اچھی ٹیم بھی نہیں بنا سکا، ہماری سیاسی گراؤنڈ کی انتظامیہ اور عسکری قیادت پاکستان میں جمہوریت کی تربیت سے پریشان ہیں۔ خیر یہ وقت عمران خان کا ہے اور اس کو کچھ روحانی دانش ور بھرپور مدد بھی دے رہے ہیں مگر عمران خان صرف عوام کے لیے لڑنا چاہتا ہے اور کرپشن کا خاتمہ، انصاف کا یقین دلانا چاہتا ہے، مگر وہ اکیلا ہے۔ ہماری قومی سیاست اور جمہوریت نے پاکستان کا مستقبل مشکوک بنا رکھا ہے، چین اس خطہ کی سیاست میں اہم کھلاڑی ہے اور اچھا کھیل بھی رہا ہے۔ وہ اب عمران خان سے مایوس نہیں ہے، نئے نظام کی نسبت میں چین عمران خان کو ٹپس بھی دے رہا ہے۔ ایسے میں صرف اور صرف احساس ہی ایسا رویہ ہے جو پاکستان اور عمران خان کو کامیاب کروا سکتا ہے اور کیا یہ بھی بیماری ہے، مگر اس کا علاج بھی احساس ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments