لندن کا عجائب خانۂ ہجرت آخری قسط


مائگریشن میوزیم میں جدید مواصلاتی سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمروں میں تصاویر، فلموں، صوتی اثرات اور اینی میشن سے موضوعات کی مناسبت سے ماحول بنا کر معلومات پیش کی گئی ہیں۔ ایک کمرے سے دوسرے میں جاتے جائیں اور حیران ہوتے جائیں۔ نمایاں تھیمز میں فٹ بال اور نسل پرستی، اسلاموفوبیا، بریکسٹ، اور سفید فام برطانویوں کا برطانیہ سے ہجرت کرنے کا رجحان جیسے معاملات شامل ہیں۔

تاریخ میں تین انوکھے کام کرنے والے سرجن سیک دین محمد

سیک (شیخ! ) دین محمد کا ذکر یہاں ان شخصیات کے ساتھ کیا گیا ہے جنہوں نے ہجرت کر کے خطۂ افرنگ میں مستقل سکونت اختیار کی اور جن کا طب کے ارتقاء میں اہم کردار بھی رہا۔

دین محمد 1759 ء میں پٹنہ کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں ملازم تھے جو کسی معرکہ میں مارے گئے۔ ان کے یتیم بیٹے کو کمپنی ہی کے ایک آئرش فوجی بیکر نے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ دین محمد بڑے ہو کر کمپنی کی فوج میں بحیثیت سرجن بھرتی ہو گئے۔ جب بیکر ریٹائر ہوا تو وہ دین محمد کو اپنے ساتھ آئرلینڈ لے آیا جہاں انہیں اسکول جانے اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے کا موقع مل گیا انہوں نے ایک آئرش خاتون سے شادی کی اور پھر یہ جوڑا لندن منتقل ہو گیا جہاں دین محمد نے تین نئے کام کر کے تاریخ رقم کی۔

ان کا پہلا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنا سفرنامہ تحریر کیا جو کسی ہندوستانی کی پہلی انگریزی تصنیف ہے۔ انہوں نے ہندوستانی کافی ہاؤس کے نام سے یورپ میں پہلا انڈین ریسٹورنٹ قائم کیا اور ایک بالکل نئی اختراع کرتے ہوئے ترک حمام کی طرز پر ایسے مساج پارلر بنائے جہاں علاج کی غرض سے مختلف خوشبودار صابنوں اور تیل سے مریضوں کے سر کی چمپی کی جاتی تھی۔ انہوں نے ہی چمپی کے ہندوستانی لفظ کو انگریزی میں شیمپو کا نام دیا۔

دین محمد کو اپنے وقت کے دو برطانوی بادشاہوں کے شاہی چمپی سرجن ہونے کا انوکھا شرف بھی حاصل رہا۔ شیخ دین محمد اتنی اہم شخصیت ہیں کہ ان کا ذکر خیر برطانیہ کے کئی عجائب خانوں کی زینت ہے۔ ان کے حالات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دین محمد دراصل خاندانی طور پر حجام تھے۔ یاد رہے کہ ایک طویل عرصے تک جراحت حجاموں ہی کا پیشہ تھا۔ جنہیں پاک و ہند میں خلیفہ بھی کہا جاتا ہے۔

ہماری قوم کا دل این ایچ ایس

برطانیہ اپنے مفت نظام صحت پر بہت فخر کرتا ہے۔ پچھلے سال سے جاری کورونا وبا کے باعث یہاں مرنے والے ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ میں غیر سفید فام افراد کی شرح غیر معمولی طور پر زیادہ رہی۔ اس پس منظر میں ہماری قوم کا دل این ایچ ایس کے نام سے کئی پریزینٹیشن نمائش پر موجود تھیں جن میں باہر سے آ کر اس ملک کا نظام صحت چلانے والوں کو بہت سراہا گیا ہے۔

یہاں ڈاؤ میڈیکل کالج سے 1968 ء میں فارغ التحصیل ہونے والے ڈاکٹر نیر نقوی (آرڈر آف دی ہرٹش ایمپائر) کا پیغام پڑھا:

”ہماری ساری تعلیم انگریزی میں تھی۔ ہمارے میڈیکل کالج کا معیار برطانیہ سے کم نہ تھا۔ ہمارے تمام اساتذہ برطانیہ سے پوسٹ گریجویشن کر کے واپس آئے تھے۔ اگر آپ کے پاس ایم آر سی پی اور ایف آر سی ایس کی سند ہو تو عزت و وقار میں بیش بہا اضافہ ہوجاتا تھا۔ چنانچہ ہم سب ہی برطانیہ آنا چاہتے تھے“

ڈاکٹر نیر نقوی کے ڈاو میڈیکل کالج کا شناختی کارڈ بھی نمائش پر رکھا گیا ہے۔

برطانوی سلطنت اور جدید طبی ادارے

اپنے عروج پر برطانوی ایمپائر دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت رہی اس دوران اس حکومت نے اپنی نوآبادیات میں کئی اسپتال اور میڈیکل کالجز بھی قائم کیے جن کی تاریخ اور تصاویر اس میوزیم میں سجائی ہوئی ہیں۔

کلکتہ میڈیکل کالج اور اسپتال جسے برطانوی راج کے دنوں میں سنہ 1835 میں قائم کیا گیا۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور جو 1860 ء میں قائم کیا گیا۔

لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج برائے خواتین دیلی۔ یہ کالج 1916 ء میں قائم ہوا اور تقسیم ہند سے قبل اس سے فارغ التحصیل ہونے والی طالبات کو ڈگری کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے دی جاتی تھی۔

ایک گوشۂ عافیت جہاں سانس لیا جا سکے

کسی عجائب گھرمیں ایسے کمرے ہونا جن میں مہاجرین اپنی سابقہ زندگی کی یادیں تازہ کرسکیں خود ایک عجوبے سے کم نہیں۔ یہاں ایک الماری میں مختلف لباس ٹنگے ہیں جن میں ہر جوڑا ایک الگ ہی داستان سناتا ہے۔ ہمیں سب سے زیادہ مزہ وہ باورچی خانہ دیکھ کر آیا جہاں افغانی چاول، عربی سلاد، پاکستانی اچار، جمیکن بامی بریڈ اور اسی طرح کی مزے دار اشیائے خورد و نوش سجائی گئی ہیں جن کی مہک اور ذائقے کی قدر صرف وہ مہاجر ہی کر سکتے ہیں جنہیں ان سوغاتوں میں وطن کی مٹی کی خوشبو آتی ہے۔

یہاں خواب دیکھنے پر پابندی نہیں

یہ بھی اس میوزیم کا ایک کمرہ ہے جس میں کئی نمایاں داستانیں سجائی گئی ہیں ان میں سے ایک ہم نے پڑھی جو بشری ناصر کے متعلق ہے۔ بشری کو برطانیہ کی تاریخ میں کسی سیکنڈری اسکول کی پہلی مسلمان ہیڈ ٹیچر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پاکستانی نژاد بشری نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں ہمیشہ شلوار قمیض زیب تن کر کے اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھی انہیں ان کی تعلیمی خدمات پر شاہی خطاب سی بی ای سے نوازا گیا۔

برطانیہ چھوڑ کر جانے والوں کے ٹھکانے

جہاں ایک طرف دنیا بھر سے مہاجر کھنچ کھنچ کر برطانیہ میں سکونت اختیار کر رہے ہیں وہیں خود برطانیہ میں پیدا ہونے والے افراد بھی ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کر کے دوسرے ممالک میں بستے جا رہے ہیں اس وقت آبادی میں تناسب کے حساب سے سفید فام برطانویوں کی بڑی آبادیاں مندرجہ ذیل ممالک میں موجود ہیں :

برطانیہ 81 فیصد
نیوزی لینڈ 59 فیصد
آسٹریلیا 45 فیصد
کینیڈا 30 فیصد
امریکہ 12 فیصد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments