مالکان کا کچھ نہیں بگڑتا


ایک اور سانحہ ایک اور حادثہ۔ کچھ اور جانوں کا ضیاع، کچھ اور گھروں کے چراغ گل، کچھ اور گھروں میں ویرانی، کچھ اور گھروں میں فاقہ مستی، کچھ اور قبروں کا اضافہ۔

ویسے تو سر زمین پاکستان جسے کہنے والے مملکت خداداد بھی کہتے ہیں۔ اس میں سانحوں اور حادثوں کی کہانی اتنی طویل اور پرانی ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہاں سے شروع کریں کہاں ختم کریں، کسے بھول جائیں اور کسے یاد رکھیں۔

اس مملکت کی پیدائش پر انسانی قتل و غارت گری کی جو کہانی لکھی گئی وہ سانحہ انسانی تاریخ میں جنگوں کے علاوہ سب سے بڑا انسانی سانحہ ہے جو نقل مکانی کا سبب بنا۔

پھر بانی مملکت کا اس فانی دنیا سے اتنی جلدی منہ موڑ لینا بھی کسی سانحہ سے کم تو نہیں تھا اور ابھی اس سانحہ کی مٹی گیلی ہی تھی کہ ایک اور سانحہ لیاقت علی خان کے قتل کی شکل میں سامنے آیا۔ اور پھر تو جیسے سانحوں اور حادثوں نے اس مملکت خداداد کا گھر ہی دیکھ لیا۔ حادثہ پہ حادثہ، سانحہ پہ سانحہ کبھی فوجی حکمرانوں کی شکل میں تو کبھی مملکت کے دو لخت ہونے کی صورت میں، کبھی سیلاب، کبھی بھوک، کبھی جنگ، کبھی ننگ، کبھی زبان، کبھی مذہب، کبھی فرقہ تو کبھی کچھ، کبھی کچھ۔

ان پے در پے حادثات اور سانحوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب کوئی بات بڑی بات نہیں لگتی اور کوئی سانحہ یا حادثہ۔ سانحہ نہیں لگتا۔

من حیث القوم ہم اتنے بے حس، بے درد ہوچکے ہیں کہ منٹوں یا گھنٹوں میں سینکڑوں کے مرنے کی خبر کو سن کے بھی ایسے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جیسے نیو کراچی میں صبح سے بجلی نہ ہو، ڈالر بیس پیسے بڑھ گیا ہو، کرکٹ کی ٹیم اچھا نہ کھیلی ہو وغیرہ وغیرہ۔

گزشتہ دو ڈھائی ہفتوں کے دوران صرف کراچی کے صنعتی علاقوں میں آگ لگنے کا کل دوسرا حادثہ ہوا ہے۔ اس میں اٹھارہ سال کا ایک جوان موقع پر دم توڑ گیا ہے اور تین 80 فیصد زخموں کے ساتھ داخل ہسپتال ہیں۔ جبکہ ڈھائی ہفتے قبل ہونے والے حادثے میں تو سولہ جیتے جاگتے بدن، خواب دیکھتی آنکھیں، سوچتے دماغ اور دھڑکتے دل وہیں جل کر کوئلہ بن گئے کہ ان تک رسائی ممکن نہ تھی۔

اس حادثے یا سانحہ کے موقع پر سول سوسائٹی اور مزدوروں کارکنوں کے لئے کام کرنے والی بہت ساری تنظیموں نے شور و غوغا کی مہم تو چلائی۔ احتجاجی جلسے جلوس بھی کیے لیکن اب پتہ نہیں کسی کو یاد ہے کہ نہیں ایک خاندان کے پانچ کماؤ پوتوں کے جنازوں کا اٹھنا اور ان کے پیچھے زندہ درگور رہ جانے والوں کا جینا جن کے گھروں میں پچھلے کئی ماہ سے ان کے سپوت اجرت بھی نہ لا پائے تھے۔ وہ فاقہ پہن کے سوتے تھے اور فاقے کی باس کے ساتھ جاگتے تھے۔ کسی کو خبر ہے کہ ان گھروں میں اب کیا سوتا ہے؟ اور کیا جاگتا ہے؟

کتنی عجیب بات ہے کہ ان فیکٹریوں ملوں کے مالکان حادثے کے وقت ملتے نہیں جب ملتے ہیں تو پولیس اور عدالتوں کی ملی بھگت کے عوض پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔

ہمارے سامنے نو سال قبل ہونے والا علی انٹر پرائیز نامی بلدیہ فیکٹری کا وہ سانحہ بھی ہے۔ ہم بحیثیت فرد، افراد اور قوم ان تمام تڑپتی ماؤں، بلکتی بہنوں اور دکھ کی شدت سے کانپتے باپوں بھائیوں کو بھول چکے ہیں جو جائے حادثہ پر انہونی امید کی ڈور تھامے گھنٹوں کھڑے رہے تھے۔

فیکٹریوں میں آئے دن ہونے والے چھوٹے بڑے حادثات کا سن کے پڑھ کے مجھے اکثر ستر کی دہائی کے آخری سالوں میں ہونے والا ایسا ہی ایک حادثہ یا سانحہ ہر بار ضرور یاد آتا ہے۔ اسے یاد کرتے ہوئے میں ہمیشہ سوچتی ہوں ”کچھ نہیں بدلا بندہ مزدور کی اوقات آج بھی اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں چالیس سال پہلے تھی“ ۔

صحافت اور سماج کے لئے کام کرنے والوں میں سے کس کس کو یاد ہے ”نیو کراچی کے آباد گھروں کے درمیان گھروں کو فیکٹری میں منتقل کر کے چاس منڈوزا نامی ایک فارما سوٹیکل کمپنی دواؤں کا کاروبار چلا رہی تھی“ ۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ رہائشی علاقوں میں فیکٹریوں کا چلنا کوئی نئی بات نہیں کہ شہری علاقوں کی دیکھ بھال پر مامور اداروں کی ملی بھگت اور سر پرستی میں یہ کاروبار بہت پرانا ہے۔

چاس منڈوزا نامی اس کمپنی کے ایک حصے میں ایک شام جب ورکرز گھروں کو واپسی کی تیاری میں مصروف تھے کہ ایک کیمیکل کی بوتل گر گئی اور کیمیکل بہتا ہوا اس فیکٹری نما گھر کے باورچی خانے کی طرف جانے لگا جہاں کچھ ورکرز چائے بنا رہے تھے۔ آگ اور کیمیکل ایک دوسرے سے بڑھ کے ملے دھماکہ ہوا اور آگ پھیل گئی موقع پر موجود تمام ورکرز اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ حسب معمول موقع پر آگ بجھانے کا کوئی معمولی سا بھی آلہ نہ تھا۔ اہل محلہ نے فائر بریگیڈ کو بلایا اور انھوں نے ہی تمام زخمیوں کو عباسی شہید ہسپتال پہنچایا۔ حتی کہ فیکٹری مالکان کو اطلاع دینے کا فریضہ بھی ادا کیا۔

کیمیکل کے جلے زخمیوں کو ہسپتال کے آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا اور کیونکہ رہائشی علاقے میں یہ کاروبار غیر قانونی تھا سو مالکان نے اپنی نیک نامی کی پاسداری کے لئے ہسپتال کے عملہ اور علاقے کی پولیس کو جیب میں ڈالنے کے بعد ہسپتال کے داخلی دروازوں اور اوپر جانے والے راستوں پر اپنے لے پالک غنڈوں کو تعینات کر دیا حتی کہ زخمیوں کے لواحقین کو بھی اوپر جانے اور ملنے کی اجازت نہ تھی۔

اس شہر کراچی میں رہنے والوں کو تین دن تک کانوں کان خبر نہ تھی کہ کیا سانحہ گزر چکا ہے۔

میں اس وقت ہفت روزہ معیار میں کام کرتی تھی اور بدھ کی شام ہماری آخری کاپیاں جاتی تھیں۔ اسی صبح ہمارے ایڈیٹر شام صاحب کو ان کے ایک دیرینہ دوست نے جو کہ ایک بہت بڑے اخبار کے کرائم رپورٹر تھے یہ خبر بریک کرتے ہوئے کہا میں یہ خبر نہیں دے سکتا میرے سب سے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔

شام صاحب اپنے کمرے سے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے ہمارے ہال میں داخل ہوئے اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ”آج آپ کا امتحان ہے جا کے دیکھیں کیا ہو رہا ہے؟ خطرہ محسوس ہو تو خاموشی سے چلی آئیے گا“ ۔

بمع فوٹو گرافر

رکشہ کھڑ کھڑاتے ہم ہسپتال پہنچے۔ اور داخلی گیٹ پر کھڑے ایک بدمعاش نما آدمی سے نمٹنے کے بعد آدھا گھنٹہ او پی ڈی کی بینچوں پر ادھر سے ادھر بیٹھ کے گزارا کہ داخلی گیٹ پر او پی ڈی میں جانے کا کہا تھا۔ حالات کو سونگھتے ہوئے فوٹو گرافر کو اپنے سے دور رہنے کی ہدایت کی پھر ہسپتال کے مختلف حصوں میں گھومتی گھماتی اس زینے تک پہنچ گئی جو آئی سی یو کو جاتا تھا اور جس پے پولیس تعینات تھی۔

وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے بہت عام سے لہجے میں پوچھا اوپر کیوں نہیں جانے دے رہے؟ قبل اس کے کوئی جواب آتا ڈیوٹی پر موجود بندہ پولیس نے دھاڑتے ہوئے کہا ”یہاں سے ہٹ جائیں“ ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس کی دھاڑ کے جواب میں کیسے روتے ہوئے مرد و زن کونوں میں سمٹ گئے تھے۔ مجھے اپنی جگہ کھڑا دیکھ کے اسی بندے نے یہ کہتے ہوئے رخ موڑ لیا تھا کہ بی بی آپ بھی جاؤ آپ کیوں کھڑی ہو؟ اور میرے یہ پوچھنے پر کہ زینہ کیوں بند ہے؟ وہ مجھے گھورتا ہوا چند قدم اور اوپر کی جانب چلا گیا تھا۔

میں گو مگو کی کیفیت میں کھڑی ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کیا کروں کہ ایک دم شور اٹھا ڈاکٹر صاحب راؤنڈ پے آرہے ہیں۔

میں نے پلٹ کر دیکھا ہسپتال کا عملہ، بمع دو پولیس افسران اور چند غنڈہ نما افراد پر مشتمل پندرہ بیس لوگوں کا ہجوم زینے کی طرف بڑھ رہا تھا۔

میں نے بھی قدم بڑھائے اور ہجوم کے ساتھ آئی سی یو میں داخل ہو گئی۔ دواؤں اور زخموں کی بو نے چند لمحے کو دماغ چکرا دیا لیکن فوراً ہی جالیوں میں ڈھکے بر ہنہ بدنوں نے حوصلہ دیا۔ میں نے آگے بڑھتے ہوئے لمحوں میں لڑکوں لڑکیوں کی تخصیص کرتے ہوئے ڈاکٹر کی گفتگو سے کچھ اخذ کرنے کوشش کی اور باہر کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے اپنے عقب میں آ نے والی اس آواز کو سنا یہ کون تھی؟ اور کیسے اندر آئی؟

میں نے بھاگتے قدموں سے زینہ اترا اور او پی ڈی کے رش میں خود کو گھماتی ہوئی باہر نکل گئی۔

قصہ مختصر باہر نکلی رکشا پکڑی اور آفس پہنچی تو جان میں جان آئی۔ اسٹوری فائل کی جو اگلی صبح آنے والے شمارے میں چھپی اور شہر میں ہنگامہ مچ گیا۔ صفائی در صفائی، الزام در الزام، دھمکیاں در دھمکیاں ایک لمبا سلسلہ چلا، زخمیوں کے رشتے داروں نے دفتر آ کے کس انداز میں اظہار تشکر کیا ناقابل بیان ہے۔ اس وقت کے وزیر صحت کٹپر صاحب نے دلچسپی لیتے ہوئے کمیٹی بنائی، تحقیقات ہوئی، کیس بنا، مقدمہ چلا، ہفت روزہ کے تمام شمارے عدالت میں پیش ہوئے، مقدمہ کا فیصلہ تمام ملازمین کے علاج اور خاص طور پر پلاسٹک سر جری کے حق میں ہوا۔ مالکان کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بھی پابند کیا گیا۔ شاید وہ وقت اچھا تھا کہ عدالت نے مظلوموں کا ساتھ دیا۔ لیکن تب بھی مالکان کا اس سے زیادہ کچھ نہیں بگڑا تھا کہ انھیں علاج معالجہ کے اخراجات برداشت کرنے پڑے تھے

اس جرم کی پاداش میں وہ نہ تو گرفتار ہوئے، نہ جرمانہ ہوا، نہ ہی کسی نے ان سے پوچھا کہ رہائشی علاقے میں فیکٹری کس کی اجازت سے چلا رہے تھے؟ یہ بات نہ تو مالکان سے پوچھی گئی نہ ہی ان کے اس جرم کے دیگر شرکاء سے۔

اس ضمن میں اس بات کا تذکرہ بھی خالی از دلچسپی نہیں کہ ایک شام چاس منڈوزا نامی کمپنی کے مالک اس اشتہاری کمپنی کے مالک کے ساتھ جو ان کے کاروبار کی مشہوری کا کام کرتی تھی ہمارے ہفت روزہ کے دفتر تشریف لائے بمع ایک عدد لفافے اور اس پیغام کے ساتھ کہ ”لے دے کے اس معاملے کو دبا دیا جائے“ ۔

برسوں پرانے اس قصے کو اس کی جزئیات کے ساتھ دہرانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس ”آگ اور جانوں کے کھیل میں مالکان کا کبھی کچھ نہیں بگڑتا“ ۔ قانون کے ہاتھ نہ صرف چھوٹے پڑ جاتے ہیں وہ اندھا بھی ہوجاتا ہے۔ اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق وہ صرف ان کی سنتا ہے جو اسے دانہ ڈالتے رہتے ہیں۔

اس نوعیت کے رونما ہونے والے حادثات میں کبھی کسی عدالت نے، کمیٹی نے ان اداروں کے سر برا ہوں اور ملازمین کو بلا کر یہ نہیں پوچھا کہ یہ فیکٹریاں کس کی اجازت سے رہائشی علاقوں میں بنیں؟ ان کو بجلی پانی گیس کس نے دیا؟ سول ڈیفنس کا ادارہ کیا کرتا ہے؟ سال میں کتنی دفعہ فیکٹریوں کا معائنہ کیا جاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ

ہوتا یہ ہے کہ سول سوسائٹی چند دن چند ہفتے شور کرتی ہے اور پھر کسی نئے ٹنٹنے میں پھنس جاتی ہے۔ سول سوسائٹی اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتی۔

بلدیہ کی علی انٹر پرائیز کے مالکان لندن میں گھوم رہے ہیں۔ مہران فیکٹری کے مالکان بعد از ضمانت روپوش ہو گئے ہیں۔

چاس منڈوزا کے مالک دانشور بن گئے ہیں۔ ایک مقامی اخبار میں ان کے کالم چھپتے ہیں۔ وہ سب جن کو لکھنے پڑھنے سے دلچسپی ہے خوب جانتے ہیں کہ ایسے دانشوروں کے کالم کون لکھتا ہے۔ یہی نہیں انھوں نے تعلیم کے شعبے میں بھی دخل اندازی کی ہوئی ہے۔ کیوں کہ لوگوں کی یادداشت کو دیمک کھا گئی ہے سو وہ بھول جاتے ہیں کہ کس کے دامن پر کتنے دھبے ہیں۔

جیسے اس دو ہفتے کے دوران لوگ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ مہران فیکٹری کے حادثے نے مزدوروں پر مشتمل ایک خاندان کے پانچ جیتے جاگتے وجود کھائے ہیں۔ اور ان گھروں میں کئی ماہ سے اجرت کی رقم نہیں جا رہی تھی۔

مالکان پھر بھی گھوم رہے ہیں کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments