ڈاکٹر بننے کے سپنے


جب ہم سکول میں گئے تو آنکھوں میں صرف ایک خواب تھا اور وہ یہ کہ جلد ہی جماعتوں پر جماعتیں پاس کر کے ڈاکٹر بنیں گے اور ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔

اس خواب اور اس کی تعبیر کے درمیان وہ ہزاروں دلچسپ کہانیاں آن کھڑی ہوئیں جو دن رات دماغ میں اودھم مچاتی تھیں۔ اس شور و غوغے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایف ایس سی میں میڈیکل کا میرٹ نہ آنے کا باقاعدہ جشن منایا اور کہانیوں کے دیس کا رخ کیا جہاں سے واپسی کا تادم تحریر نہ کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی تمنا۔

بات یہ ہے کہ یہ دنیا بہت ہی نیاری ہے لیکن کہانیاں نہ پیٹ بھرتی ہیں اور نہ ہی کسی کے زخم سی سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ یہ خواب نگر میرا تھا، بہت سے لوگوں کے خواب اور تعبیر کے درمیان کہانیاں حائل نہیں ہوتیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ڈاکٹر بننے کی سچی تڑپ اور تمنا ہوتی ہے۔

یہ بچے ڈاکٹر کیوں بننا چاہتے ہیں یہ تو وہی بتا سکتے ہیں مگر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ اگر خواب اور تعبیر کے درمیان کوئی بھانجی مار جائے تو اس سے بڑا مورکھ اور کوئی نہیں ہوتا۔

ہر برس ہزاروں طلبا، ایم ڈی کیٹ کے پھندے میں پھنس کر اپنے خوابوں سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ ایف ایس سی یا اے لیولز کرنے کے بعد اکیڈمیز اور استادوں کو لاکھوں روپے کھلا کر ایم ڈی کیٹ دیا جاتا ہے اور یہ امتحان کیوں لیا جاتا ہے میری ناقص عقل میں یہ بات آج تک نہیں آئی۔

ایم ڈی کیٹ ایک ایسی بلا ہے کہ اس کا سامنا ہونے پر ہر برس ہزاروں طالب علم روتے پیٹتے سروں میں خاک ڈالتے سڑکوں پر احتجاج کرتے اور آخرش مایوس ہو کے اپنے خوابوں سے دستبردار ہو کر زندگی کی گرد میں کھو جاتے ہیں اور یہ عفریت مزید تازہ خون چوسنے کو اگلے برس اور توانا ہو کر پھر سے سامنے آجاتی ہے۔

ہمارے ہاں طالبعلموں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ اساتذہ کا بس نہیں چلتا کہ تدریس کے عمل کو عذاب میں بدل ڈالیں۔ کتنے ہی کمزور دل افراد شروع میں ہی تائب ہو جاتے ہیں۔

آفرین ہے ان ماں باپ اور بچوں پر جو اس گورکھ دھندے میں بھی اپنے خوابوں کو سلامت رکھتے ہیں اور ہمارے نظام تعلیم کے لگائے ہوئے پھندوں سے بچ نکلنے کی بھی پوری کوشش کرتے ہیں۔

پچھلے ڈیڑھ دو برس سے تعلیم اور صحت کے درمیان جو آنکھ مچولی چل رہی ہے اس میں فوقیت صحت ہی کو ملنی چاہیے۔ میرٹ سسٹم کو کورونا حالات میں دیکھنا چاہیے اور پہلے ہی سے پریشان طلبا کو ایم ڈی کیٹ کے نئے تجربات کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔

سوشل میڈیا پر واویلا کرتے ان بچوں کو دیکھ کے مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے۔ خواب بہت مقدس شے ہوتے ہیں اور ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے بچے ابھی خواب دیکھتے ہیں۔

ایک اور خوش نصیبی، ہمارے وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب ہیں۔ شاید اور کسی وزیر تعلیم کو پاکستانی بچوں کی طرف سے اتنی محبت نہیں ملی ہو گی۔ اسی محبت کے مان میں وہ احتجاج بھی کرتے ہیں، چلاتے بھی ہیں اور اپنے خوابوں کے ٹوٹنے پر خاموش بھی نہیں بیٹھتے۔

ہمارے ملک کو آج ڈاکٹروں کی جتنی ضرورت ہے شاید اتنی کبھی نہ تھی۔ بہت سے طالب علم میڈیکل کا میرٹ آنے کے باوجود صرف اس وجہ سے یہ شعبہ نہیں اپنا سکتے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالج کی فیس ان کی بساط سے باہر ہوتی ہے۔

شفقت محمود صاحب اور دیگر ارباب حل و عقد ذرا اس مسئلے پر مزید توجہ دیں تو پاکستان ہر سال بہت سے ڈاکٹر تیار کر سکتا ہے اور موجودہ حکومت سے زیادہ کون جانتا ہے کہ یہ ڈاکٹر صرف پاکستان ہی میں نہیں، دساور میں بھی پاکستان کے لیے زرمبادلہ اور عزت کا بہت بڑا وسیلہ ہیں۔

خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں اور بچے، بچے ہی ہوتے ہیں۔ نہ خوابوں کا کوئی مول ہو سکتا ہے اور نہ ہی بچے آپ کو اس سے زیادہ کچھ دے سکتے ہیں کہ اس مہربانی کے نتیجے میں اللہ کرے آپ کا خربوزہ کبھی پھیکا نہ نکلے لیکن فی زمانہ یہ دعا کمانا بھی بڑی بات ہے۔ درست فیصلے کیجیے اور دعائیں لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments