انسانی مدافعتی نظام کی نیرنگیاں


انسان کا دفاعی نظام اللہ تعالی کی طرف سے اسے ودیعت کردہ ایک انتہائی اہم صلاحیت ہے جو اسے بیماری پیدا کرنے والے جراثیم اور ان سے خارج شدہ مضر صحت عناصر کے خلاف مزاحمت کی طاقت مہیا کرتا ہے۔ امیونولوجی کا مضمون پڑھاتے ہوئے مجھے ہمیشہ اپنے ذہین طلباء سے اس سوال کی ہی امید رہتی ہے کہ کیسے انسانی دفاعی نظام ان خارجی عناصر یا اینٹی جنز Antigens کے خلاف بھی متحرک ہو جاتا ہے جن سے اس کا پہلے کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا ہوتا۔ آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ انسانی دفاعی نظام کے سپاہی ایک ان دیکھے اور انجانے دشمن کو بھی پہچان سکتے ہیں۔

امیونولوجی کا علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کے جسم میں موجود مدافعتی خلیے مخصوص اور غیر مخصوص دونوں طرح کے خارجی عناصر کے خلاف قوت مدافعت کو متحرک کرتے ہیں۔ غیر مخصوص قوت مزاحمت Innate immunity مدافعتی نظام کی پہلی فصیل سمجھی جاتی ہے جس کے اہم اجزا میں ہماری جلد، پسینہ خارج کرنے والے غدود، چکنائی کی تہہ بنانے والے غدود، ناک، کان، گلے اور آنکھ میں پیدا شدہ رطوبتیں، معدے میں تیزاب کی موجودگی اور جسم سے خطرناک مادوں یعنی پیشاب اور بول و براز کا مسلسل اخراج شامل ہیں۔

غیر مخصوص قوت مزاحمت جراثیم اور اس کے خطرناک مادوں کے خلاف نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی مدافعتی نظام کو بھی متحرک کرتی ہے۔ غیر مخصوص قوت مزاحمت کے اہم اندرونی اجزاء میں ہمارے خون میں موجود سفید خلیے مثلاً phagocytes، dendritic cells اور خون میں حل پذیر پروٹین یعنی کمپلیمنٹ شامل ہیں۔ یہ غیر مخصوص قوت مزاحمت مدافعتی نظام کی پہلی فصیل کا کام کرتی ہے اور پیدائش سے موت تک جسم میں موجود رہتی ہے۔ یہ ہر طرح کے بیرونی خطرات کے خلاف یکساں طور پر متحرک ہوتی ہے تاہم کسی مخصوص خارجی عنصر کو یاد رکھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی خارجی عناصر کے خلاف غیر مخصوص قوت مدافعت ہمیشہ نئے سرے سے متحرک ہو گی۔

اس کے برعکس مخصوص قوت مزاحمت Specific immunity مدافعتی نظام کا ایک حیرت انگیز عنصر ہے جو اپنی وسعت اور ہمہ گیری کی وجہ سے انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ مخصوص قوت مزاحمت کسی مخصوص خارجی عنصر کے خلاف پہلی مرتبہ اگرچہ آہستہ آہستہ متحرک ہوتی ہے تاہم یہ اس کو یاد رکھتے ہوئے ہر اگلے ٹکراؤ پر زیادہ شدت، خصوصیت اور جلد متحرک ہو کر اس کا سدباب کرتی ہے۔ ایک مخصوص اینٹیجن کو یاد رکھنے اور صرف اسی کے خلاف متحرک ہونے کی اسی صلاحیت کی وجہ سے سائنسدان مخصوص بیماریوں کے خلاف پراثر ویکسین بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔

غیر مخصوص مزاحمتی نظام کی طرح مخصوص مزاحمتی نظام بھی بنیادی طور پر کچھ خلیات اور حل پذیر لحمیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ غیر مخصوص مزاحمت ہی دفاعی نظام کے اگلے قدم کے طور پر مخصوص مزاحمتی نظام کو متحرک کرتی ہے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں نظام ایک تال میل سے کام کرتے ہیں۔ اس نظام میں دو انتہائی اہم خلیات شامل ہوتے ہیں جن کو ہم ٹی اور بی خلیات کہتے ہیں۔ ان خلیات پر دو انٹینا نما پروٹین موجود ہوتے ہیں جو ٹی خلیے میں ٹی سی آر TCR اور بی خلیے میں بی سی آر BCR کہلاتے ہیں۔ یہی دونوں ریسیپٹر Receptor پروٹین بنیادی طور پر اس نظام کی خصوصیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

جب بھی کوئی خارجی عنصر غیر مخصوص مزاحمتی نظام کے بیرونی محافظوں کو جل دے کر انسانی جسم کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کا سامنا غیر مخصوص یا Innate immunity کے خون میں گردش کرنے والے محافظوں یعنی phagocytes اور dendritic cells سے پڑتا ہے جو ان میں سے اکثر کو ہڑپ کر کے توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ تاہم ان خارجی عناصر کے کچھ مخصوص حصے ہڑپ کرنے والے خلیات کی بیرونی دیوار پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ یہ اظہار مخصوص مزاحمتی نظام یا Specific immunity کے اجزاء یعنی محافظ خلیات کو متوجہ کرتا ہے۔

اب مخصوص مزاحمتی نظام میں جس بھی ٹی یا بی خلیے پر اس ظاہر شدہ خارجی پروٹین کو پہچاننے والا ٹی سی آر یا بی سی آر موجود ہو تو وہ اس سے جڑ کر اپنے خلیے کو متحرک کر دیتا ہے۔ یہ تحرک ہی مخصوص مدافعتی نظام کے اگلے سٹیجز کو فعال کرتا ہے جس کی انتہائی صورت میں ٹی خلیے سے خطرناک سائیٹو کائن cytokines مادے اور بی خلیے سے اینٹی باڈیز پیدا ہوتی اور بیرونی خطرات کا سدباب کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

پچھلے مضمون میں ہم نے انسان کے مدافعتی نظام کا ایک اجمالی جائزہ لیا تھا۔ اب ہم اس سوال پر غور کریں گے کہ انسانی جسم میں ٹی اور بی خلیوں کی دیوار پر موجود receptor پروٹین ایسے خارجی عناصر کو بھی کیوں کر پہچان لیتے ہیں جن سے اس انسان کا کبھی ٹکراؤ ہی نہیں ہوا ہوتا۔ جیسا کہ حال ہی میں شائع شدہ ایک تحقیق میں ‏covid۔ 19 کا باعث بننے والے کرونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والے قاتل ٹی خلیوں کی موجودگی ایسے لوگوں میں بھی ثابت ہوئی ہے جن کے خون کے نمونے covid کی وبا کے شروع ہونے سے بھی پہلے لیے گئے تھے۔

اس سوال سے جڑے علم کا معروضی جائزہ لیا جائے تو انسانی مدافعتی نظام میں جراثیم یا ان کے کسی بھی خارجی پروٹین کو پہچاننے کی صلاحیت سے متعلق چشم کشا حقائق کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی جسم میں پیدا ہونے والے ہر پروٹین کی طرح TCR اور BCR بنانے والے لحمیات کا نقشہ بھی انسانی خلیوں کے جینیاتی مواد میں موجود ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک ہزار جینز ان receptors کے مختلف حصوں کو بنانے کے عمل میں حصہ لیتے ہیں۔

ایسے علیحدہ علیحدہ پروٹین بن کر ایک خاص ترتیب سے جڑتے اور پھر ان receptors کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ TCR اور BCR کے سب سے اوپر والے حصے میں وہ مخصوص پیٹرن موجود ہوتا ہے جو کسی مخصوص خارجی عنصر کو پہچان کر اس سے جڑتا اور اس کو انسانی مدافعتی نظام کے قاتل خلیوں کے قریب لا کر اس کے تباہی کے عمل کی بنیاد رکھتا ہے۔

جب اس امر کی تحقیق کی گئی کہ کیسے تقریبا صرف 1000 جینز کروڑوں خارجی عناصر کی پہچان کے لیے اتنے ہی مختلف خصوصیات کے حامل ٹی سی آر اور بی سی آر receptors بنا سکتے ہیں تو انسانی جسم میں جینیاتی تنوع پیدا کرنے کے ایک حیرت انگیز phenomenon کا پتہ چلا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر انسان کو ماں اور باپ دونوں کی طرف سے کسی بھی جین کی دو کاپیاں ملتی ہیں۔ مدافعتی نظام کے تنوع کی بنیاد سب سے پہلے اس امر پر ہوتی ہے کہ خلیہ ماں سے حاصل کردہ جین کو پروٹین بنانے کا موقع دے گا یا باپ سے۔

اس phenomenon کو Allelic exclusion کہتے ہیں۔ اگلے قدم پر جینیاتی ترتیب میں رد و بدل یا genetic rearrangement ہوتی ہے جس میں وہ ٹی یا بی خلیہ جس کی دیوار پر بننے والے مخصوص ٹی سی آر یا بی سی آر کو ظاہر ہونا ہوتا ہے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ایسے پروٹین کے مختلف حصوں کو بنانے والے جینز کی قطاروں میں سے کس کس مخصوص جین کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک ریڈنگ فریم بنانے کا موقع دے گا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک بی سی آر یا اینٹی باڈی پروٹین دو بھاری اور دو ہی ہلکی لڑیوں سے مل کر بنتا ہے۔ ہلکی لڑی علیحدہ جینز سے بنتی ہے جبکہ بھاری لڑی کے لئے علیحدہ جینز ہوتے ہیں۔ ہلکی لڑی دو طرح کی ہوتی ہے جبکہ بھاری لڑی پانچ طرح کی ہو سکتی ہیں۔

اب پہلے قدم پر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کون سی ہلکی لڑی کس بھاری لڑی سے مل کر بی سی آر بنائے گی۔ ہر لڑی میں مزید دو حصے ہوتے ہیں جن میں سے ایک مستقل اور دوسرا تغیر پذیر حصہ ہوتا ہے۔ مستقل حصے کو بنانے کے لیے دو سے پانچ کونسٹنٹ یا C جینز ہوتے ہیں جبکہ تغیر پذیر حصہ کے لئے تقریباً 50 ویری ایبل یا V جینز ہوتے ہیں۔ C اور V جینز سے اخذ شدہ پروٹینز کو ملانے کے لیے دس سے بیس جوائننگ یا J جینز بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ تغیر پذیر حصے کے تنوع کو مزید اجاگر کرنے کے لیے کافی سارے diversity یا D جینز بھی پائے جاتے ہیں۔

اب جنیاتی ترتیب کا رد و بدل اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ ہر گروہ میں سے ایک خاص جین ہی دوسرے گروہوں کے مخصوص جینز سے ایک خاص ترتیب سے مل کر ایک بلو پرنٹ بنائے جس پر ایک مخصوص ہیئت کے BCR کی ہلکی لڑی بنے گی جو اسی طرح کے ردو بدل کے بعد بنی ہوئی ایک بھاری لڑی سے ملے گی۔ اسی پر بس نہیں بلکہ رد و بدل کے اگلے قدم جس کو Junctional diversity کہتے ہیں میں ہر چنیدہ V، C، D یا J جینز میں مزید قطع و برید کر کے اس کو ایک بالکل مختلف بلیو پرنٹ کی صورت دینا بھی ممکن ہوتا ہے۔ یہ سارے اقدامات خلیہ کو اس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ کروڑوں مختلف خصوصیات والے BCR یا TCR بنا سکے جو اتنے ہی ممکنہ خارجی عناصر کو پہچان سکتے ہوں۔

یہ ساری بحث اس سوال کا جواب تو دے سکتی ہے کہ کیسے ایک دفاعی خلیہ کروڑوں ممکنہ خارجی عناصر کو شناخت کر سکتا ہے لیکن ایسے ہوتا کیوں کر ہے اس پر بحث ابھی جاری ہے۔ ایک ممکنہ توجیح یہ ہو سکتی ہے کہ انسانی دفاعی یادداشت میں زندگی کی کسی بھی سٹیج پر کسی بھی اینٹی جن کے خلاف کبھی بھی بنے ہوئے اینٹی باڈی یا اسے بنانے والے بی خلیات موجود ہوتے ہیں جو اپنے مخصوص اینٹی جن کے ساتھ ساتھ اس سے ملتے جلتے کسی اور اینٹی جن کو بھی کلی یا جزوی طور پر پہچان سکتے ہوں۔

یہ نظریہ نہ صرف کچھ مخصوص جراثیم یا انٹیجنز کے لئے ثابت کیا جا چکا ہے بلکہ انسانی دفاعی نظام کی کچھ بیماریاں بھی اسی اصول کے تحت وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ایک اور نظریہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نسل انسانی میں کسی بھی وقت جو جو جراثیم بیماریاں پھیلانے کا باعث بنے ان کے خلاف بننے والے خلیات یا اینٹی باڈیز کا بلو پرنٹ انسانی دفاعی یادداشت میں نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اگلی نسلوں کو جینیاتی طور پر منتقل بھی ہو رہا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments