ہِسٹری آف پنڈ دادن خان



تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو پنڈ دادن خان نہ صرف ضلع جہلم بلکہ پنجاب کی ایک بڑی اہم تحصیل ہے۔ یہ دریائے جہلم کے کنارے پر واقع ہے اور اس کا فاصلہ ایم ٹو یعنی لاہور اسلام آباد موٹروے سے تقریباً 20 کلو میٹر ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پنڈ دادن خان کی وجہ تسمیہ ایک صوفی بزرگ ”دادن خان“ جن کا تعلق راجپوت سے تھا۔ وہ یہاں پر آباد ہوئے اور ان کی وجہ سے پنڈ دادن خان کہا جاتا ہے۔

کشتی سازی میں یہ علاقہ بہت مشہور تھا کہ یہاں کی بنائی ہوئی کشتی بہت شاندار سمجھی جاتی تھی۔ یہ انڈسٹری اس لیے رو بہ زوال ہوئی کہ 1960 میں سندھ طاس معاہدہ، اس نے سارا سسٹم ہی تباہ کر کے رکھ دیا۔ منگلا ڈیم بننے کی وجہ سے دریائے جہلم کا پانی پیچھے رک جاتا ہے۔ چنانچہ وہ جو ایک پانی میں طوفان کی کیفیت رہا کرتی تھی وہ ختم ہو گئی اور کشتی سازی کی صنعت آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئی۔

یہاں ایک اور چیز بڑی مشہور تھی۔ یہاں کی مصنوعات میں ”گھوڑے کو مارنے والی چابک“ بہت شاندار بنتی تھی۔ پھر یہاں پہ نمک سے بننے والی مصنوعات بہت مشہور ہیں۔ کوئی لیمپ بن گیا۔ کوئی ڈیکوریشن پیس بن گئے۔

اس علاقے میں ایک قلعہ ہے۔ جو میں سمجھتا ہوں پاکستان میں سب سے زیادہ گمبھیر قلعہ ہے جس کا نام ہے نندنا۔ پنڈ دادن خان سے چند کلومیٹر پہلے ایک رستہ کوہستان نمک کے پہاڑوں کے اندر ایک مشہور قصبہ ”باغانوالہ“ تک جاتا ہے جس کے پیچھے پہاڑی کے اوپر ”نندنا قلعہ“ کے کھنڈرات کی باقیات ہیں۔ 1114ء میں محمود غزنوی نے جب اس پر حملہ کر کے فتح کر لیا تو ابو ریحان البیرونی نے اس قلعہ میں قیام کے دوران سائنسی تجربات کے لیے رصد گاہ بنائی اور زمین کا قطر ناپا اور یہیں بیٹھ کر اپنی مشہور زمانہ کتاب ”کتاب الہند“ لکھی۔ یہ وہی البیرونی ہے جس کو ہندوستان کے لوگوں نے ”ودیا ساگر“ یعنی علم کا سمندر کا لقب دیا۔

غزنوی کے بعد نندنا قلعہ تیرہویں صدی میں قمر الدین کرمانی حاکم کے قبضے میں آ گیا اس کے بعد جلال الدین خوارزم کے ایک جرنیل نے اپنے قبضے میں لے لیا پھر چنگیز خان کے ایک افسر ترتی مغل نے یہ قلعہ فتح کر لیا۔ بعد میں اس قلعہ کو التتمش نے فتح کیا۔ مغل بادشاہ بابر نے بھی اس قلعہ کو فتح کیا۔ اکبر بادشاہ نے یہاں ایک باغ لگایا تھا موجودہ گاؤں باغانوالہ اسی باغ کے نام سے ہے جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔

یہاں پر ایک جگہ ”ہرن پور“ بھی ہے۔ مشہور ہے کہ شہنشاہ جہانگیر جو غالباً کائنات کا سب سے فارغ شہنشاہ تھا، یہ شکار کی غرض سے یہاں آیا ہوا تھا۔ ایک ہرن اس کو جل دے کے نکل گیا۔ بادشاہ تو پھر بادشاہ ہوتا ہے۔ یہ تو اپنی بے عزتی سمجھ لیتا ہے۔ یہ پاگلوں کی طرح اس کے پیچھے جاتا رہا۔ لیکن وہ اس کے ہاتھ نہیں آیا۔ چنانچہ اس علاقے کا جو سربراہ تھا۔ جس کا نام ”دیوان راجہ سلمان خان“ تھا۔ اس نے پھر اس ہرن کا شکار کیا اور بادشاہ کے قدموں میں لا کے پھینک دیا۔ بادشاہ کی ایگو اتنے میں ہی مساج ہو گئی کہ چلو اس گستاخ کو تم نے موت کے گھاٹ تو اتارا۔ چنانچہ اس دن سے اس علاقے کا نام ”ہرن پور“ رکھ دیا گیا۔

یہاں کی سب سے بڑی پر کشش ”کھیوڑہ سالٹ مائن“ ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا بڑا نمک کا ذخیرہ ہے۔ پنڈ دادن خان کے شمال میں، ضلع جہلم، پنجاب ریجن، پاکستان کا ایک انتظامی سب ڈویژن کان نمک کی حد میں ہے۔ کان گلابی کھیوڑا نمک کی پیداوار کے لیے مشہور ہے، جسے اکثر ہمالیائی نمک کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے، اور یہ سیاحوں کی ایک بڑی توجہ کا مرکز ہے، جس میں سالانہ 250، 000 زائرین آتے ہیں۔ اس کی تاریخ 320 قبل مسیح میں سکندر کی فوجوں کی دریافت کی ہے، لیکن اس نے مغل دور میں تجارت شروع کی۔

زمینی سطح پر اہم سرنگ برطانوی راج کے دوران 1872 میں کان کنی کے انجینئر ڈاکٹر ایچ وارتھ نے تیار کی تھی۔ آزادی کے بعد ، بی ایم آر نے 1956ء میں قبضہ کر لیا اور پھر پی آئی ڈی سی نے 1965 تک کانوں کی ملکیت حاصل کی۔ 1965 میں پاک بھارت جنگ کے بعد ، ڈبلیو پی آئی ڈی سی نے نمک کی کانوں کا انتظام سنبھال لیا اور 1974 میں پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PMDC) نے اس کان کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ کان اب بھی ملک میں نمک کا سب سے بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے، جو سالانہ 350، 000 ٹن سے زیادہ نمک پیدا کرتی ہے تقریباً 99٪ خالص ہالائٹ کان میں نمک کے ذخائر کا تخمینہ 82 ملین ٹن سے 600 ملین ٹن تک ہے۔

یہاں کے مشاہیر میں نوابزادہ غضنفر علی خان ہیں جو کہ 1946ء میں کابینہ میں منسٹر تھے۔ اور محمد رمضان چوٹانا۔ انہیں برٹش گورنمنٹ نے گولڈ میڈل سے نوازا تھا۔ کیونکہ as a technician ان کی سروس outstanding تھی۔ پھر جسٹس خواجہ امتیاز احمد جو کہ 2014۔ 15 میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments