کورین ثقافتی تہوار چوسک


چوسک کوریا کے تہواروں میں سے ایک اہم ترین تہوار ہے۔ چوسک کورین زبان کا لفظ ہے جسے آپ اردو میں ”شکریہ ادا کرنے کا دن“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس تہوار کو منانے کے لیے تاریخی طور پر تین وجوہات زیادہ معتبر خیال کی جاتی ہیں۔ پہلی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ 57 قبل مسیح میں سلطنت شلا کے تیسرے بادشاہ کے دور حکومت میں کپڑے بننے کا ایک مقابلہ ہوا کرتا تھا جسے ”گابے“ کہا جاتا تھا جو ایک ماہ تک جاری رہتا اور آخری دن ہارنے والی ٹیم جیتنے والی ٹیم کو شاندار اور پرتکلف کھانا کھلاتی۔ دوسری طرف بہت سارے تاریخ دان و محقق اس بات پہ متفق ہیں کہ چوسک بنیادی طور پر کٹائی کے موسم سے متعلقہ تہوار ہے۔ ایک تیسری وجہ اپنے آبا و اجداد یعنی گزری ہوئی پیڑیوں کا شکریہ ادا کرنے اور انہیں تحسین پیش کرنے کا تہوار بھی سمجھا جاتا ہے۔

قارئین کرام مندرجہ بالا وجوہات میں سے کوئی بھی وجہ ہو اب چوسک کورین کلچر کا ایک اہم ترین بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سب سے اہم ترین تہوار بن چکا ہے۔ کوریا کے ماضی کے حالات، جغرافیے اور آب و ہوا کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چوسک کا تہوار شاید کٹائی کے موسم سے متعلقہ تہوار ہی ہے۔ کوریا کے طبعی خد و خال اور سخت آب و ہوا کے پیش نظر چاول کی ایک ہی فصل کاشت کی جاتی ہے اور ملک کوریا کی وہی بنیادی فصل ہے۔

چاول کی فصل کی کٹائی اور چوسک کا تہوار اکٹھے آتے ہیں اور خصوصی طور پر چوسک کی ان لمبی چھٹیوں میں جو تین سے پانچ دن تک پہ محیط ہوتی ہیں چوسک کا بنیادی و خاص دن اس تاریخ میں آتا ہے جب چودہویں کا چاند پوری طرح دمک رہا ہوتا ہے۔ جو فصل کی کٹائی اور کسان کے باہمی تعلق کی گواہی بھی پیش کرتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اگر اس قیاس کو بھی ملا لیا جائے کہ یہ دن گزری پیڑیوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے منایا جاتا ہے جن کی کاوشوں اور دعاؤں کی وجہ سے فصل کی کٹائی وقت پہ ہوئی اور وافر مقدار میں گھروں میں لائی گی (مقامی عقیدے کے مطابق) تو چوسک تہوار کا تعلق یقینی طور پر فصل کی کٹائی سے ہی ملتا ہے۔

کوریا میں چوسک کا تہوار بہت جوش جذبے سے منایا جاتا ہے۔ خصوصاً چوسک کے دن لوگ اپنے اپنے آبائی گھروں میں جاتے ہیں۔ کم و بیش سب لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ یہ دن اپنے والدین اور دادا دادی کے گھر ان کے ساتھ گزاریں۔ پورا خاندان بڑے بزرگ کے گھر اکٹھے ہوتا ہے۔ صبح سویرے گھر کے بڑے کمرے یا کھلی بیٹھک میں دیوار کے ساتھ ایک میز رکھی جاتی ہے اور اس پہ گزری ہوئی پیڑیوں کے شکریہ کے لیے مختلف کھانے سجائے جاتے ہیں جن میں خصوصی طور پر اسی موسم میں ہوئی کٹائی کے چاول پکائے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ چاولوں کے آٹے سے بنے کیک، تازہ اور پکا ہوا گوشت، پکی ہوئی مچھلی، پھل و سبزیاں، پانی اور چاولوں سے کشید کی گئی شراب رکھتے ہیں۔ ٹیبل سجانے کے بعد خاندان کے تمام افراد اپنے گزرے بزرگوں کو عزت و تکریم دینے کے لیے اس ٹیبل کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ اس رسم کو ”چھارے“ کہا جاتا ہے۔ میز کے اوپر مختلف کھانے رکھنے کا بھی ایک طریقہ کار ہے۔ مثال کے طور پر چاول میز کے دائیں ہاتھ یا بائیں، اسی طرح گوشت پھل اور مشروبات رکھنے کی بھی مخصوص جگہیں ہوتی ہیں۔ اور ان اشیا کو ان مخصوص جگہوں پر رکھنے کے پیچھے کوئی وجہ ہوتی ہے۔ کورین لوگ اپنی عام زندگی میں بھی کھانے کی میز بہت سلیقے سے سجاتے ہیں اور چاولوں کی پیالی ہمیشہ شوربے /سالن کے بائیں ہاتھ رکھی جاتی ہے۔

کورین لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جسمانی موت کے بعد ایک اور زندگی ہے اور ہمارے وہ بزرگ جو یہ دنیا چھوڑ چکے ہیں وہ ہمیں دیکھتے ہیں اور ہمارے لیے دعائیں کرتے ہیں لہذا ہمیں بھی ”چھارے“ کا انتظام کر کے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ کھانوں سے بھری ٹیبل کے سامنے مردوں عورتوں اور بچوں کے سجدہ کرنے کا بھی پورا ایک طریقہ کار ہے کہ پہلے کون اور کس طریقے سے چھارے کرے گا۔ اس رسم سے فارغ ہو کر لوگ گھروں میں ہی پرتکلف کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ چوسک کے کھانوں میں روایتی طور پر سب سے زیادہ اہمیت ”سونگپھئیون“ کو دی جاتی ہے۔ یہ چاولوں کے آٹے سے بنائے ہوئی چھوٹے چھوٹے کیک نما ٹکڑے ہوتے ہیں جن کی شکل آدھے چاند جیسی ہوتی ہے۔ ان کے اندر چینی اور سفید/کالے تل ملا کر ڈالی جاتی ہے۔

یہ آدھے چاند جیسے سونگپھئیون تیار کرنے کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی کنواری لڑکی چودہویں کے چاند کی رات میں آدھے چاند جیسی شکل کے سونگپھئیون بنائے گی تو اسے بہت اچھا اور محبت کرنے والا شوہر ملے گا اور یہی کام اگر کوئی حاملہ عورت کرے گی تو اس کے ہاں خوبصورت بیٹی پیدا ہو گی۔ خیر ہر قوم و خطے کے لوگوں کے اپنے اپنے خیالات ہوتے ہیں قطع نظر ان تمام باتوں کے یہ رنگ برنگے سونگپھئیون بہت مزے کے ہوتے ہیں۔

ہم انہیں پھیکے رس گلے سمجھ کر لطف اٹھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بے شمار پکوان تیار کیے جاتے ہیں جن میں سبزیوں سے تیار کئیے جبچھے، چھن اور گوشت کی ڈشز شامل ہیں۔ کھانوں سے فراغت کے بعد لوگ اپنے اپنے بزرگوں کی قبروں پہ جاتے ہیں وہاں اگی گھاس کاٹ کر قبر کو صاف ستھرا کیا جاتا ہے اور ایک مرتبہ پھر قبر کو تعظیمی سجدہ کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص چوسک پہ اپنے آبائی گاؤں گیا ہے اور اس نے اپنے بزرگوں کی قبر پہ اگی گھاس نہیں کاٹی تو اسے بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔

جس طرح ہم لوگ عید کے تہواروں پہ ایک دوسرے کے ہاں جاتے ہیں اسی طرح کورین بھی عزیز و اقارب کو اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں۔ آنے والے مہمان اپنے ساتھ حیثیت کے مطابق تحفہ لے کر آتے ہیں۔ یہ تحائف زیادہ تر پھل ہوتے ہیں جو سلیقے سے ڈبوں میں بند ہوتے ہیں اور ان ڈبوں کو رنگ دار سلک کے رومالوں میں باندھا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گوشت اور دوسرے تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں کورین سوسائٹی میں یہ تحائف بھی اب ایک بوجھ بنتا جا رہا ہے۔ اب تحفہ خریدتے وقت خریدار اپنی حیثیت نہیں بلکہ جسے دینا ہے اس کی حیثیت کے مطابق خریدتا ہے اس کے لیے بعض اوقات لوگوں کو قرض بھی لینا پڑتا ہے۔ اس عمل میں نچلے درمیانے درجے کے لوگ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جن کے زیادہ تر تعلقات درمیانے درجے کے لوگوں سے ہوتے ہیں۔

سال رواں میں چوسک کا تہوار 20 سے 22 ستمبر کے درمیان ہے اور چوسک کا دن 21 ستمبر ہے۔ خوش قسمتی سے 18 اور 19 تاریخ کے ویک اینڈ کی وجہ سے اس مرتبہ چوسک کی چھٹیاں طویل ہو گئی ہیں اور لوگ لمبی چھٹیوں پہ نکلنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ چوسک کا تہوار جہاں لوگوں کو چھٹیاں مہیا کرنے اور اپنے پیاروں کو ملنے کا ایک سبب بنتا ہے وہاں پہ ہی اس تہوار پہ خرید و فروخت کی وجہ سے معاشی سرگرمی بھی عروج پہ ہوتی ہے جو چھوٹے چھوٹے کاروبار کے لیے بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔

اس تہوار پہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج نیشنل ہاؤیز اور موٹرویز پر ٹریفک کو رواں رکھنا ہوتا ہے جس کے لیے ٹریفک پولیس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم مکمل جانفشانی سے دن رات کام کرتا ہے، کیونکہ سئیول اور گرد و نواح جنوبی کوریا کی تقریباً آدھی آبادی اپنے اندر سموئے ہوا ہے لہذا جب لوگ اپنے اپنے آبائی شہروں و قصبوں کو جاتے اور واپس آتے ہیں تو ٹریفک کے مسائل ضرور بنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments