کھانوں کی لذت کہاں گئی؟


سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئیں تو دروازہ کھولتے ساتھ لونگ روم میں داخل ہوتے ہیں جس میں بائیں ہاتھ بالکل سامنے والے کشادہ صوفے پر وہ بیٹھی ہیں۔ عمر لگ بھگ ساٹھ کا ہندسہ پار کر چکی ہے۔ اردو بولنے والی، پان کی دلدادہ اور کتاب بینی کا شغل پالنے والی گھریلو خاتون ہیں جن کے لئے پورے گھر میں سب سے پسندیدہ گوشہ یہ ہے اور آپ ان کو کبھی دونوں ٹانگیں صوفے پر رکھے ہوئے، کبھی ایک ٹانگ نیچے لٹکتی ہوئی اور دوسری صوفے کے بازو پہ ٹکی ہوئی اور بعض اوقات دونوں زمین پر ٹکائے ہوئے دن کے مختلف اوقات میں دیکھ سکتے ہیں۔

کاموں کی نوعیت بدلتی رہتی ہے : صبح دم اخبار کا مطالعہ، بسا اوقات ناشتہ کرتے، سودا سلف خرید کر بازار سے واپسی پر کٹورے میں پانی پیتے ہوئے، سبزی بناتے، چھالیہ کھاتے، اور شام میں موبائل پر کھانا پکانے والے وی لوگ سے لطف اندوز ہوتے۔ دیسی لیکن لذیذ پکانے والی اور چٹنیاں، سلاد، رائتے کے ساتھ کھانا کھلانے والی ہیں۔ آج کے دور میں زندہ رہ کر بھی سل بٹے پر پسائیاں کرتی ہیں۔ نہاری، پلاؤ، بریانی، حلیم، اسٹیو اور بہت کچھ ان کے کچن کی باندیاں ہیں۔

میری ان کی دوستی کوئی گیارہ سال پرانی ہے جو رسمی و پرتکلف سے غیر رسمی اور اب بہت گھریلو ہو چکی ہے۔ جس میں اپنائیت کا احساس اور بے تکلفی کا عنصر احترام کے تقاضوں کے ساتھ ہے۔ جس میں گفتگو دل سے ہوتی ہے اور دل کی ہوتی ہے۔ موضوعات میں تصنع اور دکھاوے کے پردے نہیں۔ اور ہماری بیٹھکیں گزرے وقت کی یادوں کے چراغوں سے بھی روشن ہوتی ہیں اور نئے دور کی نعمتوں اور مسئلوں کی گفتگو سے بہرہ ور بھی۔

آج جب ان کے پاس بیٹھی، تو وہ کوئی کھانا پکانے کی ویڈیو یوٹیوب پر دیکھ رہی تھیں۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگیں کہ بس یوں ہی وقت گزاری ہو رہی ہے۔ پھر موبائل ایک طرف رکھ کر کہتی ہیں :

وہ: کھانا پکانے کے طریقے کافی بدل گئے ہیں۔
میں : آپ کو ایسا کیوں لگا؟
وہ: بڑی آسانیاں آ گئی ہیں۔ ٹیکنالوجی نے سہولتیں فراہم کر دی ہیں۔
میں : تو آپ کو اچھا نہیں لگتا؟

وہ: نہ نہ، ایسی بات نہیں۔ مجھے برا کیوں لگے گا۔ بلکہ بہتر ہے کہ وقت بچ جاتا ہے۔ سارا سارا دن کچن کی ذمہ داریوں سے اب کی ملازمت پیشہ عورت کو نجات مل گئی ہے۔ تیار مصالحوں کے ڈبے، فروزن کھانے اور مشینوں نے کوئی پریشانی نہیں رہنے دی۔ جو چاہو، جب چاہو، پکاؤ۔

میں : یہ تو زبردست ہو گیا۔

وہ: ہاں! ٹھیک کہتی ہو تم۔ لیکن اس چکر میں کھانوں کے ذائقے اڑ گئے۔ اب سب کچھ فٹا فٹ بن تو رہا ہے لیکن دستر خوانوں کی رونق اور اشتہا ویسی نہیں رہی جب ہم سل بٹے پر گھنٹوں ہاتھ تھکاتے تھے۔ تب کی چٹنی بھی انگلیاں چاٹنے پر مجبور کرتی تھی۔

میں : آپ کو اس کی وجہ کیا لگتی ہے؟
وہ: یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان مشینوں نے ساری لذت چرا لی ہے۔

میں : آنٹی! لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا۔ کھانوں میں خوشبو، لقموں میں برکت اور سادہ روٹی میں بھی دل تک اترنے والی مٹھاس کا کامیاب گر صرف ٹولز کا فرق نہیں۔

وہ: اچھا! تو پھر تمہیں کیا لگتا ہے؟

میں : میرا یقین ہے کہ ہانڈیوں کا ذائقہ محبتوں اور نیتوں کا محتاج ہے۔ کہتے ہیں ناں۔ جتنا گڑ ڈالو گے اتنا میٹھا ہو گا۔ اسی طرح جتنا پیار، اخلاص اور توجہ ہم پکانے کے عمل میں ڈالیں گے اتنا اثر ذائقوں میں محسوس ہو گا۔ آنٹی ہر ان پٹ کا آؤٹ پٹ ہوتا ہے۔ جب کسی کے لئے پکانا مصیبت اور خود پر ظلم لگے، اگر کھلانا دل پر بھاری ہو، جب اوکھے اور بوجھل ہو کر چمچ چلائیں، تو کھانے والے کے منہ میں زہر ہی اترے گا۔ کھانے کی میز جتنی مرضی وسیع ہو، جیسی چاہے بھری ہو۔ ہماری محبتیں اور نیتیں ہر دہن و دل تک وحی کی طرح وارد ہوتی ہیں۔

وہ: بات تو سچ ہے۔ تو پھر نتیجہ کیا ہوا؟

میں : بات کھانوں میں لذت کی ہو یا اعمال کے اجر کی۔ اس کے لئے دلوں کے قبلے اور انسیت کے تڑکے ہر بار لگانے ہوں گے۔ نمائش اور تعریفوں سے پرے، خلوص کے بیج بونے پڑیں گے۔ میں سے ہم کا دشوار سفر طے کرنا ہو گا۔ جب جب ہم یہ کریں گے تب ہماری سبزی بھی گوشت کا سواد دے گی اور ہماری کرنیاں بھی قبولیت کا درجہ حاصل کریں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments