کہ قلم ملا تو بکا ہوا


تعصب کی گرد جب دماغ کے اجلے شیشے پر پڑ جائے تو حقیقت دھندلانے لگتی ہے اور اگر ناصح بھی متعصب ہو جائیں تو پھر سوچ و بچار کی ہموار سرزمین پر جھاڑیاں جہل کی جا بجا نمودار ہو جاتی ہیں جن پر سعدان کے کانٹے سجے ہوتے ہیں اور ان کانٹوں بھری جھاڑیوں کو ہٹانے والوں کے پور زخمی جب کہ ہمت جواب دینے لگتی ہے۔ ایسے موقع، جب کہ حوصلہ کئی وجوہ سے متزلزل ہونے لگے، پر بے طرح حالی یاد آتے ہیں۔

شمس العلماء خواجہ الطاف حسین حالی مسدس کے دیباچے میں راقم طراز ہیں کہ مسدس لکھنے سے قبل مانند ہر بشر کے میرے ذہن میں بھی دو خیالات تھے کہ اوروں کے کرنے سے کیا ہوا جو میرے کرنے سے ہو گا اور دوسرا یہ کہ مجھے کچھ کرنا چاہیے، حالی لکھتے ہیں کہ پہلے خیال کے نتیجے میں تو کچھ نہ ہوا جب کہ دوسرے خیال کے نتیجے میں بڑے بڑے عجائبات کا ظہور ہوا۔ یہی معاملہ کچھ خاشع کو بھی درپیش ہے۔ ایک طرف ایاز امیر کی نصیحت ہے کہ ہمارے کچھ کرنے سے کیا ہوا جو کسی اور کے کرنے سے ہو گا اور دوسری طرف حالی ہیں جن کی مسدس غفلت کے ایوانوں میں ایک زلزلہ تھی۔ بعد میں یہی جملہ کمال مہارت سے علامہ اقبال کی شاعری سے جوڑ دیا گیا کہ بر صغیر کے مسلمانوں کو علامہ کی شاعری نے بیدار کیا۔ مؤرخ شاید ہمارے حق میں گواہی دے وگرنہ متعصبوں کی خاصیت تو صرف کیچڑ اچھالنا ہے۔

اب اپنا معاملہ کچھ یوں ٹھہرا کہ لوگوں کی یاوہ گوئی سے بھی دلیل نکالنا فرض خیال کرتے ہیں، یہ گر مولانا وحید الدین خاں صاحب کی تحاریر سے سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تو مان لیا گیا کہ مسلمانان برصغیر غفلت و جہل کی دلدل میں پڑے ہوئے تھے۔ اوریا مقبول جان کہتے ہیں کہ انگریز کے یہاں وارد ہونے سے پہلے ستانوے فیصد مسلمان تعلیم یافتہ تھے۔ معلوم نہیں تعلیم سے مراد کیا ہے مگر آج کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی شاید ستانوے فیصد لوگ پڑھے لکھے نہ ہوں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ستانوے فیصد تعلیم یافتاوں پر دوسرے خطے سے آنے والے جاہلوں نے کیسے قبضہ کر لیا۔ کیا آپ کو خبر ہے کہ ہمارے گاؤں میں ایک بندے نے پہلی مرتبہ 1970 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ یہی معاملہ آس پاس کے دیہاتوں کا بھی تھا، شاید پورے برصغیر میں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ جو قوم اتنی زیادہ تعلیم یافتہ تھی وہ سو سال سے بھی کم عرصے میں جاہلین کا ٹولہ کیسے بن گئی۔ اتنی بلند تعلیمی شرح کے باوجود بھی ابن سینا، فارابی، رازی اور خیام جیسے لوگ کیوں نہ پیدا ہو سکے۔ تعصب کی آڑ میں قلم کو غلط بیانی (غلط بیانی کو جھوٹ سمجھنے والے ہوشیار تصور نہ کیے جائیں گے ) کی اجازت دینا شاید غیر اخلاقی نہ ہو اس لیے اوریا صاحب ایسے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ اپنے نظریات کی آڑ میں دوسروں کی تضحیک کا سبق ہر کوئی لے چکا ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود سے لے کر دائیں بازو کے کسی مجاہد تک، ہر کوئی اس چاہ میں ہے مخالف کو ہر قیمت پر روند دیا جائے۔

اچھا خاصا معقول آدمی بھی ایسی صریح غلطی کا مرتکب ہوتا ہے کہ انگلیاں دانتوں تلے دابنی پڑتی ہیں۔ ہود بھائی کا بیان اچھا خاصا متعصبانہ ہے۔ دائیں بازو والے جب جینز پہننے والی لڑکیوں کو بے حیا کہتے ہیں تو یہی اختلاف ہوتا ہے کہ ایسے کسی پر فقرے اچھالنا منافی اخلاقیات کے ہے۔ یہی بات ہود بھائی سے بھی اختلاف کی ہے کہ حجاب یا برقع پہننے والیوں پر تبصرہ کچھ زیب آپ کو نہیں دیتا۔ پہلے کون سا کسی نے اپنے بیان کو واپس لیا ہے جو ہود بھائی لیتے۔ یہ ڈگڈگی ایسے ہی بجتی رہے گی۔

تو پھر سوال یہ ہے کہ تم کیوں ماتھا پھوڑ رہے ہو؟ دریا کو سو کوس دور سے دیکھ کر نثر نگار کی طرح پائنچے کیوں نہیں چڑھا لیتے؟ دل کے کسی کونے میں نہاں ایک ادنیٰ سی خواہش یہی ہے کہ اس معاشرے میں رواداری آ جائے۔ دائیں بازو والے جینز پہننے والیوں کو بے حیا نہ سمجھیں اور قبیل پرویز ہود بھائی کی حجاب پہننے والیوں کو دقیانوس۔

پس تحریر: چلیں ہود بھائی نے جو بیان دیا سو دیا لیکن محترمہ کرن ناز نے کیا مبارک فعل سر انجام دیا۔ گورنمنٹ کالج کے زمانے میں ایک سبق یہ بھی سیکھا تھا کہ کچھ لوگ میڈیا میں شہرت کے لیے Publicity Stunt کریں گے، عام لوگ تو داد کے ڈونگرے برسائیں گے مگر تم پہچان لینا اور پھر ہم نے پہچان لیا۔ وہ پوچھنا یہ بھی تھا کہ کیا محترمہ کرن ہمیشہ کے لیے اب حجاب اوڑھا کریں گی؟ اور سوال تو یہ بھی ہے کہ ٹی وی پر آ کر حجاب پہننے کی ضرورت کیا تھی؟ گھر سے پہن کر آ جاتیں اور کہتیں کہ آج کے بعد میرے چہرے کو کالی چادر ڈھانپ لے گی اور نامحرم تو کیا چشم فلک بھی دیدار سے محروم رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments