میر تقی میر: ’لکھنئو والوں نے مرنے کے بعد بھی میر کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا‘


دلی ویران ہو چکی تھی۔ نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی، سکھ، جاٹ اور مراٹھا حملہ آوروں نے ایک کے بعد ایک شہر پر حملے کیے تھے۔ شہر کے رئیس اور اشرافیہ اپنا وقار کھو چکے تھے اور شہریوں نے یہاں سے نقل مکانی شروع کر دی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب اُردو تو اپنے عروج پر تھی مگر لیکن دلی ویران تھی۔ اور اسی دوران ’خدا سخن‘ کے نام سے مشہور میر تقی میر کو بھی ایک نئے شاہی سرپرست کی تلاش تھی۔

اسی تلاش میں سرگرداں میر تقی میر نے سنہ 1782 میں لکھنؤ کا رُخ کیا جہاں نواب آصف الدولہ کے دور میں ثقافت اور روایت کی ابھی بھی قدر تھی۔

میر جب لکھنؤ کے لیے نکلے تو اُن کے ہمراہ ایک اور شخص بھی موجود تھا۔ سفر طویل تھا۔ کچھ وقت کے بعد سفر کی بوریت کو دور کرنے کی غرض سے ہمسفر نے میر سے بات کرنے کی کوشش کی تو جواباً میر نے اُن سے اپنا منھ پھیر لیا۔

کچھ دیر بعد پھر اس شخص نے بات کرنے کی کوشش کی تو میر نے جواب دیا کہ ’صاحب قبلہ، آپ نے کرایہ دیا ہے، بیشک آپ گاڑی میں بیٹھیے، مگر باتوں سے کیا تعلق۔‘

اس شخص نے کہا کہ ’حضرت کیا مضائقہ ہے، راہ کا شغل ہے، باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔‘

میر بگڑ گئے اور کہا ’خیر آپ کا شغل ہے، میری زبان خراب ہوتی ہے۔‘

یہ رویہ ان کے کلام کی سادگی کے برعکس ہے۔ جس دن میر لکھنؤ پہنچے اُسی دن ایک ناگوار واقعہ پیش آیا۔

ابھی وہ لکھنؤ پہنچے ہی تھے کہ معلوم ہوا کہ شام کو شہر میں مشاعرہ ہے۔ اُسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں شامل ہو گئے۔ مغل زمانے کے شاعر اور مصنف محمد حسین آزاد اپنی کتاب ’آب حیات‘ میں اُن کا حلیہ کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں: ’ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، ایک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹری دار تہہ کیا ہوا، ناگ پھنی کی انی دار جوتی، جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار۔۔۔ غرض جب داخل محفل ہوئے تو انھیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔‘

میر صاحب مایوس ہو کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ جب شمع اُن کی طرف آئی تو پھر سے سب کی نظر اُن پر پڑی اور حاضرین نے ان سے اُن کا وطن پوچھا۔

حسن آزاد کے مطابق انھوں نے ان اشعار میں جواب دیا:

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنوں

ہم کو غیر جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے جہاں منتخب ہی جہاں روزگار کے

اس کو فلک نے لوٹ کر ویراں کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے

حالانکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میر نے یہ اشعار کہے تھے، لیکن کئی نقاد اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔

علی سردار جعفری نے میر کی سوانح عمری ’حالات میر‘ میں لکھا ہے کہ ’یہ ایک افسانہ ہے، یہ اشعار بھی میر کے نہیں۔۔۔ ممکن ہے آزاد نے جو حلیہ میر صاحب کا لکھا ہے وہ صحیح ہو۔‘

آزاد لکھتے ہیں کہ ’عظمت اور اعزاز جوہر کمال کے خادم ہیں۔ اگرچہ انھوں نے لکھنؤ میں بھی میر صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا مگر انھوں نے بد دماغی اور نازک مزاجی کو جو کہ ان کے ذاتی مصاحب تھے اپنے دم کے ساتھ ہی رکھا۔‘

اس لحاظ سے انھوں نے کسی کے ساتھ بھی امتیازی سلوک نہیں کیا بلکہ نواب ہو یا خادم، سبھی کے ساتھ ایک نظر سے پیش آئے۔ ایک روز نواب آصف الدولہ نے خود میر سے غزل کی فرمائش کی۔ دو یا تین دن بعد جب میر پھر سے نواب کے دربار میں تشریف لائے تو نواب نے دریافت کیا کہ ’میر صاحب، ہماری غزل لائے ہیں۔‘

میر صاحب کے تیور بدل گئے اور فوراً جواب دیا کہ ’جناب عالی، مضمون غلام کے جیب میں تو بھرے نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی آج غزل حاضر کر دے۔‘

نواب صاحب کو بھی شاید میر کے مزاج کے بارے میں معلوم تھا۔ انھوں نے جواب دیا ’خیر میر صاحب جب طبیعت حاضر ہو گی کہ دیجیے گا۔‘

ان کی بدمزاجی کے قصے دلی سے ہی عام تھے۔

میر، اکبر آباد (جو کہ اب آگرہ کے نام سے مشہور ہے) میں ایک عزت دار صوفی خاندان میں تقریباً سنہ 1723 میں پیدا ہوئے۔ اس گھرنے کا تعلق حجاز سے تھا۔ ان کے والد سُنی تھے اور والدہ شیعہ تھیں۔

ان کے والد ان کی نوجوانی میں وفات پا گئے اور کچھ ہی عرصے کے بعد میر دلی چلے آئے جہاں وہ اپنے سوتیلے ماموں سراج الدین علی خان آرزو کے ساتھ رہے اور ان سے تعلیم حاصل کی۔

اپنے سوانح عمری میں وہ آرزو کے ساتھ گزارے وقت کو کافی مشکل بتاتے ہیں لیکن وہاں گزارے ہوئے لمحات کو شوق سے یاد کرتے ہیں۔ دلی میں حالات خراب ہونے کے بعد انھوں نے کچھ سال جاٹ راجاؤں کے درمیان بھرت پور، دیگ اور کمہیر میں بھی گزارے اور دلی کے بارے میں لکھا کہ ’جہاں میں اپنے دوستوں کو اکٹھا کرتا تھا اور شاعری کرتا تھا۔ جہاں میں نے ایک پیار بھری زندگی گزاری اور کئی رات آنسو بہائے۔۔۔ جہاں مجھے پتلی اور لمبی خوبصورتیوں سے پیار ہوا اور میں نے ان کی تعریفیں کی لیکن اب کوئی ایک بھی واقف چہرہ نظر نہیں آیا جس کے ساتھ میں چند خوشگوار لمحات گزار سکوں اور نہ ہی کوئی بات کرنے کے لائق ملتا ہے۔‘

تاہم ان کی آواز نرم تھی اور وہ کم اور دھیمے لہجے میں باتیں کرتے تھے۔

میر قمرالدین منت دلی کے ایک شاعر تھے، ایک بار اصلاح کے لیے میر کے پاس ایک اردو غزل لے کر آئے۔ میر نے ان سے ان کا وطن دریافت کیا۔ منت نے بتایا کہ وہ پانی پت سے ہیں (جو کہ دہلی سے کچھ ہی دوری پر ہے)۔ میر نے جواب دیا کہ ’اردوئے معلیٰ خاص دلی کی زبان ہے، آپ اس میں تکلیف نہ کیجیے، اپنی فارسی وارسی کہہ لیا کیجیے۔‘

کیا میر نے اپنی تعریف میں جعلسازی کی تھی؟

وہ بلاشبہ اُردو ادب کے پہلے عظیم شاعروں میں سے ہیں لیکن انھوں نے فارسی میں بھی اشعار اور نثر لکھے ہیں۔ مصنف نیئر مسعود کے مطابق ان کے فارسی اشعار کی تعداد تقریباً 2750 ہے۔

لیکن مداحوں کی نظر میں اُردو کے مقابلے میں ان کی فارسی شاعری اتنی مقبول نہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ نقاد سی ایم نعیم کے مطابق ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی فارسی شاعری اُردو کے مقابلے میں کمزور تھی اور دوسری یہ کہ ان کے جیسے عظیم شاعروں کے کلام، مثلاً ان سے پہلے داد اور ان کے بعد مرزا غالب، کے مقابلے میں ان کی فارسی شاعری کا معیار کمتر تھا۔

لیکن غالباً میر کے خیالات خود کے لیے مختلف تھے۔

جب وہ اکبر آباد سے دلی آئے تھے، تو اپنے سوتیلے ماموں، شاعر اور سکالر سراج الدین خان آرزو کے ساتھ قیام پذیر تھے۔ آرزو نے فارسی شاعروں کا ’مجموع النفائس‘ نام سے ایک تذکرہ تیار کیا تھا لیکن اس میں میر کا نام موجود نہیں تھا۔ حالانکہ اس تذکرے کے ایک موجود کاپی میں میر کے فارسی کلام کی کافی تعریف لکھی ہوئی ہے لیکن نقادوں کا ماننا ہے کہ وہ غالباً میر نے خود لکھا۔

اس میں لکھا ہے کہ ’شروعات میں میر نے اردو میں ریختہ کے کلام میں غیر معمولی فضیلت کا اظہار کیا جو کہ فارسی شاعری پر مبنی تھی اور اس کی وجہ سے وہ ہر جگہ مشہور ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے ایک خاص طریقے سے فارسی میں شاعری شروع کر دی اور فن کے شوقین اور ماہرین کے پسندیدہ ہو گئے۔‘

نقاد اسے آرزو کی تصنیف کے بجائے خود میر کے ذریعے کی گئی جعل سازی کہتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ آرزو نے یہ تذکرہ سنہ 1750 میں لکھا تھا۔ نعیم کے مطابق اس تذکرے کی صرف دس کاپیاں بچی ہیں اور ان میں سے صرف ایک میں میر کا ذکر ہے جو کہ 1765 میں راجا ناگر مل کے لیے کمہیر میں تیار کی گئی تھی جن کی پناہی میں میر کچھ عرصے کے لیے قیام پذیر تھے۔

امتیاز علی خان عرشی عحد علی یکتہ کی کتاب ’دستور الفصاحہ‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ نوٹ اصل متن سے ایک مختلف پیپر پر لکھا ہوا ہے اور وہ آخر میں نہیں بلکہ بیچ کتاب میں ہے اور اس میں لکھنے کا انداز بھی اصل متن سے مختلف ہے بلکہ یہ نئی تحریر ان صفحات پر لکھے نئے نوٹس کے لکھنے کے طریقے سے ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے شخص نے لکھا ہے جو اس کی اشاعت سے پہلے غلطیاں ٹھیک کر رہا ہو۔

جب میر کو چاند میں ایک خوبصورت انسانی شکل دکھی اور وہ مجنوں بن گئے

میر نے ’ذکر میر‘ نامی ایک تزک لکھا جسے اردو شاعری روایت کی پہلی آپ بیتی مانا جاتا ہے، لیکن میر اس کتاب میں مخصوص نہیں ہیں اور اس میں کئی اہم جانکاریاں غلط ہیں یا مشکوک ہیں یا غائب ہیں۔ مثلا انھوں نے اس میں اپنی والدہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اپنے سوتیلے ماموں آرزو کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ان سے بدسلوکی کرتے تھے تاہم اپنے شروعات کی تحریر میں انھوں نے ’آرزو کو دہلی میں ریختہ کے سارے مشہور شعرا کا استاد‘ بتایا تھا۔

’اگر میں اس کی دشمنی کو تفصیل سے بیان کروں تو مجھے ایک علیحدہ کتاب لکھنی پڑے گی۔ میرا پہلے سے ہی اذیت ناک ذہن مزید اذیت میں مبتلا ہو گیا، میرا پہلے سے ہی الجھا ہوا دل مزید تنگ ہو گیا۔ ایک خوفناک تنہائی نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور میں پاگل ہو گیا۔‘

میر کے آبائی خاندان میں کئی مردوں کو جذباتی اور ذہنی عدم توازن کی شکایت تھی۔ حالانکہ یہ مثبت نہیں ہے کہ میر خود بھی ان عوارض سے متاثر تھے یا یہ ایک شاعرانہ طرز عمل تھا۔ لیکن پاگل پن یا جنون اُن کی زندگی اور تحریر دونوں میں ایک اہم حصہ تھے۔ انھوں نے اس کے بارے میں تفصیل سے ’ذکر میر‘ اور مثنوی خواب و خیال میں لکھا ہے۔

خواب و خیال میں وہ لکھتے ہیں کہ اکبرآباد میں انھیں سکون نہیں تھا لیکن دہلی میں بھی کافی مشکلات پیش آئیں۔ ’میں خاموشی سے یہ بوجھ اٹھاتا رہا لیکن اس سے میں پاگل ہو گیا۔ کبھی میں کسی سوچ میں مبتلا رہتا تو کبھی میں لوگوں سے دور بھاگتا۔ کئی بار میرے منھ میں جھاگ آ گئی اور میں نے لوگوں پر پتھر پھینکے۔‘

میر کے حوالے سے اکثر راویتوں میں یہ ملتا ہے کہ وہ چاند میں کسی کو دیکھتے تھے اور کچھ لوگوں کا قیاس ہے کہ وہ ان کی محبوبہ تھیں۔ ’خواب و خیال‘ میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ اُن کی دیوانگی اس حد تک پہنچ گئی کہ اگر وہ چاند کی طرف دیکھتے تو وہ خوفزدہ اور بے ہوش ہو جاتے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’بلآخر میں نے چاند میں ایک خوبصورت انسانی شکل دیکھنا شروع کر دی اور میں اس کا مجنو بن گیا۔‘ وہ لکھتے ہیں کہ وہ کہیں بھی دیکھتے لیکن یہ ان کی نظر سے نہیں دور ہوتا تھا۔ ’بعض اوقات یہ مجھ سے بات کرتا، بعض دفعہ یہ خاموشی سے شوخی دکھاتا۔‘

ان کے مطابق کئی بار یہ ان کے قریب سوتا لیکن جب وہ اسے چھونے کی کوشش کرتے تو وہ غائب ہو جاتا۔

وہ لکھتے ہیں کہ وہ پیلے اور کمزور پڑ گئے۔ کوئی ان کے علاج کے لیے تعویذ لے کر آتا تو کوئی جادوگر بلاتا، تو کوئی معالج لاتا۔ لیکن حالات پھر بھی نہیں بدلے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’پھر انھوں نے مجھے ایک چھوٹے کمرے میں بند کرنا شروع کر دیا اور میرے کھانے پینے کی مقدار کم کر دی۔ ایک دوپہر جب میں اس تاریک کمرے کے باہر بیٹھا تھا تو انھوں نے مجھے پکڑ لیا اور میرا حجامہ کرایا۔‘

وہ بے ہوش ہو گئے اور جب اگلی صبح ہوش میں آئے تو انھیں دوبارہ حجامہ کرایا گیا۔

‘علاج’ کے بعد انھیں وہ خوبصورت شکل جسے وہ چاند میں دیکھتے تھے نسبتاً کم نظر آنے لگی۔ لیکن جب نظر آتی تو انھیں ڈانٹتی اور ان پر بے وفائی کے الزام لگاتی۔

میر عام زبان کے شاعر تھے

غالب سے نقاد شمس الرحمان فاروقی میر کے مداح رہے ہیں، بلکہ فاروقی نے تو ’زبان کی مختلف اقسام، زندگی کے تجربے اور مزاج کی آفاقیت‘ میں میر کا درجہ غالب سے بلند رکھا ہے۔

میر خود اپنے ہم عصر کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ’دلی میں صرف ڈھائی شاعر ہیں۔ ایک میں، ایک سودا اور آدھا میر درد۔‘ میر نے درد کو آدھا شاعر اس لیے کہا تھا کیوں کہ وہ صرف غزل کے شاعر تھے اور 18 ویں صدی میں اُردو شاعر مثنوی، قصیدہ، رباعیات کے علاوہ اور بھی مختلف قسمیں لکھتے تھے۔

مؤرخ رعنا صفوی کہتی ہیں کہ میر کے کلام میں سادگی تھی۔ ’وہ عام لوگوں کی زبان میں شاعری کرتے تھے۔ اس میں کتنی تہیں ڈھونڈنی ہیں وہ آپ پر منحصر ہے۔ لیکن اگر آپ تہیں نہ بھی ڈھونڈیں تو آپ کو ان کی بات سمجھ آ جائے گی۔‘

میر کی قبر کا کیا ہوا

لکھنؤ میں میر کی قبر اور قبرستان اب صرف تاریخ کا حصہ رہ گئے ہیں۔ مؤرخ اور مداحوں نے ان کی قبر تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریزوں کے زمانے میں اس پر ریل کی پٹری بچھا دی گئی تھی۔ صفوی، جن کی پرورش 1960 کی دہائی میں لکھنؤ میں ہوئی، بتاتی ہیں کہ ان کا گھر انھی ریل کی پٹریوں کے سامنے تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پٹری کے کنارے وہاں ایک دروازہ ہوا کرتا تھا، جسے بڑے بزرگ کہتے تھے کہ وہاں میر کی قبر ہوا کرتی تھی۔‘

آج وہاں سے کچھ قدم دور میر کے نام سے ’نشان میر‘ نامی ایک علامتی ڈھانچہ ہے اور اس کا بھی حال بُرا ہے۔ لکھنؤ میں مقیم داستان گو ہمانشو باجپائی بتاتے ہیں کہ میر کے قبر کی ممکنہ جگہ سے وہ اکثر گزرتے ہیں اور اب وہاں ’صرف گندگی ہے، بلکہ اس پر بھی لوگوں کا غیر اجازت قبضہ ہے۔‘

دستیاب تاریخی ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ اکھاڑہ بھیم نامی مقام پر میر کا قبرستان تھا لیکن باجپائی بتاتے ہیں کہ وہ علاقہ اب اکھاڑہ بھیم کے نام سے جانا بھی نہیں جاتا ہے۔

باجپائی بتاتے ہیں کہ ’آصف الدولہ کے زمانے تک میر کو لکھنؤ بہت پسند تھا اور انھوں نے نواب کی تعریف میں بہت کچھ لکھا ہے لیکن آصف الدولہ کا زمانہ جاتے ہی میر لکھنؤ کو کوسنے لگے تھے۔ لکھنؤ انھیں سخت ناپسند تھا۔ اور یہ ان کے کلام میں ظاہر تھا۔‘

وہ قبر غائب ہونے کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’لکھنؤ والوں نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ بلکہ مرنے کے بعد بھی ان کے ساتھ صحیح سلوک نہیں کیا۔‘

باجپائی کہتے ہیں کہ اگر میر اپنی قبر غائب ہونے کی خبر سنتے تو شاید اپنے تلخ انداز میں وہ اپنا ایک شعر دہراتے:

آباد اجڑا لکھنؤ چغدوں سے اب ہوا

مشکل ہے اس خرابے میں آدم کی بودو باش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments