اللہ کو جان دینی ہے


ایک وڈیو کلپ نظر سے گزری جس میں پی ٹی آئی کے ایک وزیر نیو یارک شہر میں گھوم رہے ہیں اور کچھ پارک اور بینچ پہ سوئے اور آرام کرتے لوگوں کی وڈیو بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ میں کتنی غربت ہے اور پاکستانی لوگوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مدینہ کی ریاست میں پاکستانی عوام کتنی خوش ہے۔ وڈیو کو دیکھ کر بے ساختہ میر تقی میر یاد آ گئے۔

ان نے کھینچا ہے میرے ہاتھ سے داماں اپنا
کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا

چلیں میر تو نہیں رہے لیکن ہم اپنا گریباں چاک کر لیتے ہیں۔ مجھے تو اس وڈیو میں کہیں امریکی غربت نظر نہیں آئی۔ جس معاشرے میں انسان بستے ہیں وہاں امیر، غریب، اچھے، برے ہر طرح کے لوگ زندگی گزارتے ہیں۔ ایک بینچ پر سوئی ہوئی لڑکی یہ واضح پیغام دے رہی ہے کہ امریکہ کتنا محفوظ ملک ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک عورت اپنے بچوں کے ساتھ اپنی گاڑی میں موٹروے پر رات کو نہیں نکل سکتی۔ وہ مینار پاکستان بھی نہیں جا سکتی۔ وہ دن کے وقت رکشے میں بھی نہیں بیٹھ سکتی۔ وہ اکیلے قرآن پڑھنے بھی نہیں جا سکتی۔

یہ وہی وزیر محترم ہیں جنہوں نے اللہ کو جان دینے کی بشارت دیتے ہوئے ہمیں یقیں دہانی کرائی تھی کہ سانحہ ساہیوال میں ملوث پولیس والوں کو نشان عبرت بناتے ہوئے سزا دی جائے گی۔ والدین اور تیرہ سالہ بچی کو پولیس والوں نے کس بیدردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ لیکن سب پولیس والے بے گناہ قرار پائے۔ وزیر اعظم ارمان خان نے لواحقین کو اسلام آباد بلا کر تعزیت کی۔ واہ۔

یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

اس وڈیو میں مجھے امریکہ کی صاف سڑکیں، روشنیاں، خوبصورت بسیں، سکون، جان، مال اور عزت کا تحفظ نظر آیا۔ لیکن ہم لوگوں کو ان سب چیزوں کا کیا پتا۔ ہم تو صرف غلیظ سیاست، منافقت، جھوٹ، مکر، فریب کے علمبردار ہیں۔ اور ہاں ڈالرز لینے کا وقت آئے گا تو ہم کس ملک کے آگے کشکول پھیلاتے ہیں؟

سعادت حسن منٹو ایک دوستوں کی محفل میں شریک تھے۔ وہاں پر ایک شاعر نے کہا کہ بھئی میرے مرنے کے بعد میری قبر پر یہ شعر لکھ دینا۔ ایک اور شاعر نے کہا میرے کتبہ پر یہ والا شعر لکھوا دینا۔ وہاں پر ایک سیاستدان بھی موجود تھے۔ سیاستدان دوست نے کہا کہ بھئی میرے لیے بھی کچھ سوچو۔ منٹو نے برجستہ جواب دیا ”ارے آپ کے لیے کیا سوچنا۔ آپ کا تو تیار ہے۔ سیاستدان نے پوچھا کیا ہے۔ منٹو نے جواب دیا“ یہاں پر تھوکنا اور پیشاب کرنا سخت منع ہے ”۔

میرے خیال میں منٹو کی یہ بات صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ من حیث القوم ہم سب پر صادق آتی ہے۔ کیا ہم اپنے کتبہ پر یہ لکھوانا پسند کریں گے کہ ”یہاں پر تھوکنا اور پیشاب کرنا سخت منع ہے“ ۔

فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments