محمد نصیر زندہ جدید رباعی کا کوزہ گر


شاعری وصف پیمبری ہے، اپنی ذات کا وجدان پائے بغیر قافیہ کاری تو کی جا سکتی ہے، مگر بلند پایہ مضمون، یا شعری جمالیات سے بھر پور کوئی مصرع نہیں کہا جا سکتا۔ کوئی تخلیق کار اپنی ذات کا ہی سراغ پا لے تو اسے کامیابی کی دلیل کہا جائے گا مگر محمد نصیر زندہ، جنھوں نے اپنے شعری مجموعہ کا نام ”میرا دوسرا وجود“ رکھا ہے، نے اپنی ذات کا وجدان پا لیا ہے، انھوں نے بڑی مہارت سے اپنے اندر کے شاعر کو پورے قدو قامت کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے۔

ان کا تخلص اس پر معتبر دلیل بھی ہے۔ یہ ان کا پانچواں شعری مجموعہ ہے۔ اس سے ان کی مہارت اور استادانہ چابکدستی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کتاب کا نام ہی اس بات کی دلیل ہے کہ محمد نصیر زندہ اپنی ذات کا گیان حاصل کر کے ذات سے آگے کا سفر شروع کر چکے ہیں۔ شعر کہنا کوئی مکینیکل عمل نہیں۔ شعر کہنا سیکھا نہیں جا سکتا بلکہ انسان کو جب شعر کہنے کی خداداد صلاحیت کا ادراک ہو جائے تو محنت و ریاضت سے اس وصف کو نکھارا ضرور جا سکتا ہے۔ شاعری کسبی عمل نہیں بلکہ الہامی کیفیت کے دوران کشید کردہ در معانی کی موزوں ترتیب ہی شعر کو شاعری کے کسی قابل ذکر درجے تک رسائی دینے کا حوالہ و ذریعہ ہوتی ہے۔ شاعر کو تلمیذ یزدان بھی کہا جاتا ہے۔

محمد نصیر زندہ کی رباعیات میں فقیر انہجلال بھی ہے او شاعرانہ ر جمال بھی۔ وہ اپنی رباعی میں بلند مضامین، نئے خیالات کو تیکھے اور تیز دھار استعاراتی و تشبیہاتی سامان سے سجانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اپنے فکری وجدان سے آشنا اس بندہ ء خدا نے فارسی، عربی اور اردو اساتذہ کے کلاسیکی کلام کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور پھر اپنی ریاضت کو فن کے چرخے پر کاتنا شروع کر دیا۔ ”میرا دوسرا وجود“ سے ما قبل محمد نصیر زندہ رباعی پر ”نقش تحیر، عرش سخن، نقد آرزو، اور ہل من ناصر ینصرنا“ لکھ کر صاحبان علم و ہنر سے سند کلام لے چکے ہیں۔ اس کتاب میں زندہ کی غزلیں بھی شامل ہیں، جو انھوں نے پیر صاحب آف گولڑہ شریف سید شمس گیلانی کے کہنے پر کہی ہیں۔ محمد نصیر زندہ رباعی کا وہ جادوئی شاعر ہے جس کا فکری پرندہ روح الامین کا ہم سفر رہتا ہے۔ ان کی ایک رباعی دیکھیے،

گرد اڑ کے مری دیدہ اختر میں پڑی
سخت ابتری افلاک کے لشکر میں پڑی
پوشاک سمندر کی پہن لی میں نے
پھونک ایسی حباب کاسہ سر میں پڑی

اردو رباعی میں ایسا انوکھا اور جاندار مضمون کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ یہی نہیں بلکہ زندہ نے کربلا کو جس زاویۂ فکر سے دیکھا اور عالم انسانیت کو کربلائی ضرورت کا احساس دلایا اس کی تعریف نہ کرنا ظلم کے مترادف ہے۔ کربلائی استعارے اور کربلا کے حوالے سے زندہ کی رباعیات کا اسلوب منفرد اور اثر پذیر ہے۔ اس سے قبل ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ رباعی ہے کیا؟ اور رباعی مقبول و نا مقبول صنف کے حوالے سے ناقدین ادب کے حجرہ میں کتنی جگہ پاتی ہے۔

رباعی ربع سے ہے جس کے معنی چار کے ہیں۔ رباعی اور قطعہ ہر دو کو چار مصرعوں پر مشتمل مختصر نظم کہہ سکتے ہیں مگر دونوں کی ساخت اور عروضی پابندیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ رباعی کے مخصوص چوبیس اوزان ہیں جو سب کے سب بحر ہزج سے ہیں۔ رباعی کے 24 اوزان کا استخراج روایتی طور پر بحر ہزج سے کیا گیا ہے ۔ ان میں سے 12 شجرہ اخرب اور 12 شجرہ اخرم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں شجروں میں بحر ہزج کے رکن اصلی کے کل 10 فروع استعمال ہوتے ہیں۔

مفعول سے شروع ہونے والے اوزان شجرہ اخرب کے ہیں جبکہ مفعولن سے شروع ہونے والے اوزان شجرہ اخرم سے ہیں۔ رباعی کا مقبول ترین وزن ”لا حولا و لا قو الا بالا اللہ ہے۔ ان ہی چوبیس اوزان میں سے رباعی کے چار مصرعے موزوں کیے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات روا ہے مختلف اوزان میں رباعی کہی جا سکتی ہے۔

اس کی مثال مرزا دبیر کی یہ رباعی ہے۔
آدم نے شرف خیر بشر سے پایا
رشتہ ایماں کا اس گھر سے پایا
دو میم محمد سے جہاں روشن ہے
مضموں یہ دل شمس و قمر نے پایا

میرا مقصود رباعی کے اوزان پر بحث کرنا نہیں۔ البتہ یہ ضرور کہنا ہے کہ عروضی اعتبار سے رباعی مشکل صنف سخن ہے، جس کے باعث اردو اساتذہ اس سے گریزاں رہے ہیں۔ غالب جیسے استاد نے رباعی کے تیسرے مصرع میں ٹھوکر کھائی، ۔ علامہ اقبال کی جن دو بیتیوں کو رباعیات کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے وہ اپنی ساخت اور مضامین کے اعتبار سے رباعیات نہیں بلکہ دو بیتیاں ہیں۔

رباعیات میں فنی و عروضی مہارت ہی کافی نہیں بلکہ خیال آفرینی اور سلاست و روانی کو برقرار رکھنا ہی اصل شاعری ہے۔ اگر رباعی شعری جمال سے آراستہ نہیں بلکہ صرف عروضی سانچے میں ڈھال کر تیار کی گئی ہے تو الفاظ اپنے اوپر ہونے والے جبر کا اظہار کرتے نظر آئیں گے۔ لہٰذا اسے یوں نہ سمجھا جائے کہ چوبیس اوزان کو یاد کر لینے سے رباعی کہنا آجاتی ہے۔ ایسا بالکل نہیں۔ شعری جمال اور زور بیاں کے بغیر عروضی سانچے میں ڈھلے ہوئے چار مصرعے طبع لطیف پر گراں گزریں گے اور ذہین قاری کی بصارت پر بوجھ بنیں گے۔

رباعی اپنی ساخت میں چوبیس پچیس لفظوں کی آئینہ کاری ہے جس میں شاعر نے مہارت سے اپنے خیالات کا عکس دکھانا ہوتا ہے۔ یہ عکس اگر بلند و آسماں نشیں مضامین کا پیرہن نہ پہن سکے تو اس مشق سخن کو قافیہ کاری کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ رباعی فارسی شعرا کی ایجاد ہے اور انھوں نے ہی اس میں ایسے ایسے مضامین تراشے کہ دنیا کے ادب عالیہ میں اپنا مقام بنایا۔ عمر خیام کی یہ رباعی مثال کے طور پر پیش ہے۔

در دہر کسے بہ گل عذارے نہ رسید
تا بر دلش از زمانہ خارے نہ رسید
در شانہ نگر کہ تا بہ صد شاخ نہ شد
دستش بہ سرے زلف نگارے نہ رسید

غزل، نظم، مثنوی اور مرثیہ میں تو اردو شعرا نے آسمان کا قد ناپا ہے، لیکن یہی شعرا جب رباعی کا فیتہ اٹھا کر میدان سخن میں آتے ہیں تو ہمیں وہ چاشنی، وہ لوچ اور لہک نظر نہیں آتی جو فارسی شعرا کے ہاں پائی جاتی ہے۔ بلکہ دیکھا جائے تو ہمیں یہی لگتا ہے کہ اساتذہ صرف اور صرف اپنی مہارت کے اظہار کے لیے گاہے گاہے رباعی کہہ لیا کرتے تھے۔

مثلاً غالب نے بہادر شاہ ظفر کی جانب سے بھیجی گئی دال پر ایک رباعی کہہ دی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے اساتذہ کے نزدیک رباعی کی کیا حیثیت تھی۔ حالانکہ غالب اور دیگر اساتذہ اردو کو رباعی پر بھی اتنی محنت کرنی چاہیے تھی جتنی انھوں نے غزل پر کی۔

بھیجی ہے جو مجھ کو شاہ جم جاہ نے دال
ہے لطف و عنایات شہنشاہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال، بے بحث و جدال
ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال

اب ہم زندہ کی رباعیات میں خیال آفرینی دیکھتے ہیں۔ زندہ اپنے اشعار میں دار، آئینہ، شمس و قمر کو جب استعارہ کے طور پر لیتے ہیں تو حیرت افروز مضامین کو خیال و ہنر کا پیرہن عطا کرتے ہیں، کردار کی عظمت اور سچ بات کے لیے دار پر جھول جانے کو انسانی وقار کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ رباعی دیکھیے

سر عظمت کردار سے ہوتا ہے بلند
سر جرات انکار سے ہوتا ہے بلند
سر طرہ و دستار کا محتاج نہیں
سردار کا سر، دار سے ہوتا ہے بلند

اردو رباعی کا مجموعی میلان پند و نصائح، حکمت اور وحد الوجودی مضامین ہی رہے ہیں۔ محمد نصیر زندہ بھی ان ہی مضامین کو نئے زاویے اور نئے پہلوؤں سے نہ صرف آشکار کر رہے ہیں بلکہ نئے مضامین بھی پیدا کیے۔ جو ان کی کامرانی کی بڑی دلیل ہے۔

رباعی کا یہ کوزہ گر اپنے خیالات کو جب فن اور مضامین کے چاک پر گھماتا ہے تو ایک تازہ کار رباعی ہم سب سے داد و تحسین کی مستحق نظر آتی ہے۔ لیکن صد حیف کہ جدید رباعی کا کوزہ گر عہد کور چشماں میں آئینہ کاری اور آئینہ فروشی کر رہا ہے۔ محمد نصیر زندہ کی چند رباعیات دیکھیے

کیا حسن بے مثال پہنا ہوا ہے
گلشن نے مرا جمال پہنا ہوا ہے
اس کی خوشبو سے میری سوچ اگتی ہے
یہ گل نے میرا خیال پہنا ہوا ہے
۔ ۔
خورشید سوار اسم کے پار اترا
افلاک شکن طلسم کے پار اترا
طاؤس کے پیرہن تھے آواز کے رنگ
میں ایک دن اپنے جسم کے پار اترا
۔ ۔
چہرے وہ کئی تنگ پہن لیتا ہے
آئینہ کبھی سنگ پہن لیتا ہے
میں اس سے باہر جو نکلنا چاہوں
وہ شوخ مرا رنگ پہن لیتا ہے

محمد نصیر زندہ رباعی کے پہلے مصرع میں قاری کو حیرت میں ڈالتے ہیں، دوسرے مصرعے میں اپنے خیال کو ارتقا دیتے ہیں، تیسرے مصرعے میں خیال کا اظہاریہ عشوہ گری دکھاتا ہے اور چوتھے مصرع میں ڈرامائی نتیجہ دیتے ہیں۔ ایسا جو قاری کو مزید حیرت و سرخوشی میں ڈال دیتا ہے۔ یہی خوبی ان کو رباعی نگاری میں ممتاز کرتی ہے۔ کربلا، امام حسین علیہ السلام اور حضرت علی علیہ السلام کے مناقب کے حوالے سے زندہ نے جو رباعیات کہی ہیں وہ ادب میں نئے در وا کرتی ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کی منقبت میں کہی گئی یہ دو رباعیات دیکھیے

قفل راز و نیاز کھل جائے گا
مے خانہ عرش ناز کھل جائے گا
جرعہ نہ پلا خم علی کا ساقی
بندے پہ خدا کا راز کھل جائے گا
۔ ۔
مرنے پہ مری برات رکھ دی اس نے
تشنہ نگہ حیات رکھ دی اس نے
میں نے کہا اسرار علی مجھ کو بتا
سر پر مرے کائنات رکھ دی اس نے

سر مستی میں کہی ہوئی یہ رباعیات قاری کے دل و دماغ پر کسی دوسرے فکری و معنوی جہان کا در وا کرتی ہیں۔ اردو ادب میں کربلا کا استعارہ ہر شاعر نے اپنے اپنے ذوق اور رنگ سے استعمال کیا ہے۔ کربلا کے حوالے سے میر انیس اور مرزا دبیر نے شاید ہی کوئی مضمون ایسا ہو جسے شکار نہ کیا ہو۔ اس کے باوجود اردو شاعری میں ایسے کئی شعر مل جاتے ہیں جو کربلا کے کسی نئے زاویے اور پہلو کو روشن کر رہے ہوتے ہیں۔ جوش کی رباعی نے بہت شہر حاصل کی، بالخصوص آخرے دو مصرعے زبان زد عام ہیں،

کیا صرف مسلماں کے پیارے ہیں حسین
چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

اب میں آپ کو کربلا، امام حسین علیہ السلام اور آپ کے جانثاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے محمد نصیر زندہ نے جو رباعیات کہی ہیں ان کی جھلک دکھاتا ہوں۔ بلاشبہ یہ رباعیات رثائی ادب کا جاندار حوالہ ثابت ہوں گی

تجدید کہن فنا کی مٹی میں ہے
تعمیر نو قضا کی مٹی میں ہے
وا ہوں گے نہاں خانہ تخلیق کے در
آدم ابھی کربلا کی مٹی میں ہے

آدم ابھی کربلا کی مٹی میں ہے، یہ زاویہ ء فکر بالکل نیا، اور اچھوتا ہے مگر ایمان و حیرت افروز بھی ہے۔ ایسا خیال بغیر عطا کے ممکن نہیں۔

زندہ پر شہر علم در کی ایسی ایسی عطا ہے کہ اس پر وہ جتنا بھی شکر کریں کم ہی کم ہے۔ حضرت اصغر علیہ السلام، لشکر امام حسین علیہ السلام کے سب سے کم سن سپاہی ہیں، آپ کی شہادت کو ایسا خراج شاید ہی اردو ادب میں ملے، اس رباعی کی تعریف سے الفاظ قاصر ہیں

قلزم اذن گہر فشانی مانگے
موج دریا تاب روانی مانگے
مقتل میں رقص آرزو جاری ہے
موت اصغر بے شیر سے پانی مانگے
: موت اصغر بے شیر سے پانی مانگے ”، یہ فتح و نصرت کا ایسا فخر آفریں ناز ہے جس کا جواب نہیں۔

جن خیالات اور مضامین کو محمد نصیر زندہ قلم بند کر رہے ہیں اس کے لیے ریاضت ہی نہیں وسیع مطالعہ اور خلعت فقری پہننا بھی ضروری ہے کیونکہ رباعی کا مزاج اور پیمانہ ہی ایسا ہے کہ اس میں صوفیانہ اور آفاقی مضامین ہی سماتے ہیں۔ اردو ادب میں بہت کم رباعیات ایسی ہیں جو عشقیہ یا غزل کے مضامین دامن گیر کیے ہوئے ہوں اور اپنا شعری جمال بھی سنبھال پائی ہوں۔ زندہ کی یہ رباعی دیکھیے، جس میں محاورے کے استعمال نے فنی چابکدستی کے ساتھ ساتھ شاعر کی مشاہداتی قوت کا بھی رنگ دکھایا ہے۔

چوٹی میں موتیا سجایا اس نے
اونچی ایڑی سے قد بڑھایا اس نے
اک حشر سر بزم اٹھانے کے لیے
زور ایڑی چوٹی کا لگایا اس نے

خیال کا ارتقا دیکھیے، اس رباعی میں اور پھر اس کا ڈرامائی نتیجہ۔ چوٹی بھی بنائی، اس پہ موتیا بھی سجایا، اور پھر سرو قامت نظر آنے کے لیے مزید سامان یہ کیا کہ اونچی ایڑی والا جوتا بھی پہن لیا۔ حشر سامانی نے قیامت جگانے کے لیے جو اہتمام کیا اس کو چوتھے مصرعے میں شاعر نے جس خوبصورتی سے وا کیا ہے، یہ شعری مقام طویل ریاضت اور شعری جمالیات سے گہری شناسائی کا متقاضی ہے۔

جدید رباعی کا کوزہ گر اپنے فن کے چاک پر بلند مضامین و خیال کے رباعیانہ ظروف اٹھائے صدائیں دے رہا ہے، لیکن خریدار کم ہیں۔ اس خوش نصیب شاعر کی کم نصیبی یہ ہے کہ جب یہ اپنی جنس ہنر بازار لایا تو خریدار کی دلچسپی اعلیٰ مضامین و خیال کے بجائے انتہائی سطحی ادبی گرد و غبار تک رہ گئی ہے۔ اس ادبی دھند اور غبار میں ادبی خریدار کی آنکھ غبار کے اس پار نہیں دیکھ پا رہی ہے۔ اسے ہر طرف صرف ادبی گرد، ہی نظر آتی ہے اور گرد کو ہی خریدار اپنے ذوق کا سائبان سمجھنے لگا ہے۔ مجھے مگر یقین ہے کہ یہ گرد بہت جلد بیٹھ جائے گی۔ اس ادبی گرد کے اس پار جدید رباعی کا کوزہ گر اپنے بلند قامت، خوش پوش و خوش خیال مضامین کے رباعیانہ ظروف لیے فاتحانہ مسکراہٹ سے ورد کر رہا ہو گا۔

میزان پر اک ایک گہر تولا ہے
ہر بول قلم کی نوک پر بولا ہے
میں نے در گنجینہ ء اسرار سخن
اسمائے علی کے زور سے کھولا ہے
والسلام مع الاکرام۔

نوٹ: یہ مضمون محمد نصیر زندہ، جو کہ اردو رباعی کا ایک مستند نام ہے، ان کی نئی شائع ہونے والی کتاب ”۔ میرا دوسرا وجود۔“ کے لیے لکھا گیا ہے۔ محمد نصیر زندہ پاکستان ہی نہیں بلکہ بر صغیر میں رباعی کے چند گنے چنے اساتذہ میں سے ایک ہیں، جن کے فن اور قادر الکلامی پر اساتذہ ء سخن انھیں سند کلام دے چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments