افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا


طالبان رہنما خواتین کے بارے میں پالیسیوں میں اعتدال، انسانی حقوق کا احترام کرنے اور حکومت کے لیے کام کرنے والوں کو عام معافی دینے کے بارے میں عوامی بیانات دے رہے ہیں۔ طالبان اپنی حکومت قائم کر چکے اور امریکی اور نیٹو فوج کا 2014 ء سے انخلا ء کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ جو طالبان بمقابلہ  امریکا کی رٹ لگائے ہوئے ہیں انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر طالبان ایک بار پھر برسر اقتدار آ گئے ہیں تو اس میں امریکا کی مکمل مرضی شامل ہے۔

انٹونیو نیو بلنکن اور ان کی ٹیم کا ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی ڈلی ہوئی داغ بیل پر فاسٹ ٹریک ڈپلومیسی کرنا اس بات کا ثبوت ہے کے بائیڈن کی پالیسی امریکا کو غیر ضروری جنگوں سے نکالنا ہے۔ کیونکہ طالبان کے سخت گیر جنگجو اعتدال پسند نہیں ہونا چاہتے۔ بھارت کے لئے طالبان کا برسر اقتدار آنا اچنبھے کی بات اس لیے بھی ہے کہ پہلے راء افغانستان کے حالات کی سنگینی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کیمپس قائم کیے ہوئے تھی لیکن انہیں اب کٹر ذہنیت طالبان کا سامنا ہوا اور راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔

افغانستان میں حکومت سنبھالنے والوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کے گروہ نے صرف بین الاقوامی برادری کے خلاف ایک بہت بڑی فتح حاصل کی، جو ان کے نظریے کی طاقت کو ثابت کرتی ہے۔ وہ اس سب تنظیمی مغالطوں کو طے کرنا چاہتے ہیں اور بنیاد پرست اصولوں کے مطابق حکومت کرنا چاہتے ہیں، کسی بھی سیاسی تحریک کی طرح، طالبان بھی طویل عرصے سے مختلف گروہوں پر مشتمل ہے لیکن فوجی سربراہ محمد یعقوب اور فقیہ عبدالحکیم، جو قطر میں گروپ کی مذاکراتی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں، کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک عملی راستے کی حمایت کرتے ہیں۔

عبدالغنی برادر جیسے سینئر رہنما، جو تنظیم کے سیاسی امور کی نگرانی کرتے ہیں اور گزشتہ ہفتے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس سے ملے تھے، کو مختلف حلقوں کے درمیان توازن قائم کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس کے کلیدی کردار کی دنیا گواہ ہے، تاہم بھارت کی چیخیں آسمان تک بلند ہوتی دکھائی دے رہی ہیں پنج شیر کے حوالے سے اس کی سسکیاں دم توڑ گئیں کیونکہ طالبان کی نڈر قیادت پورے افغانستان پر اب اپنا کنٹرول سنبھال چکی ہے۔

امریکی فوجیوں کی واپسی بھی براستہ پاکستان ہونے پر بھارت کو مرچیں لگیں اور وہ حسب روایت جعلی خبروں کا ہذیان بکنے لگا۔ افغانستان میں آگے کیا ہوتا ہے اس پر انحصار کرتا ہے کہ طالبان تحریک کے اندر اکثریت کس کی ہے۔ لیڈر اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر اکثریت کے خلاف نہیں جا سکتے۔ امریکہ کی نیندیں اڑا دینے والے حقانی نیٹ ورک کا سرا ایک دینی مدرسے سے جا ملتا ہے، جو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نام سے وجود رکھتا ہے اس مدرسے کے تمام طلبہ بشمول جلال الدین حقانی جنہوں نے افغانستان میں سوویت یونین کی شکست میں اہم کردار ادا کیا وہ خود کو اس مدرسے کے حوالے سے حقانی لکھتے ہیں۔

جلال الدین حقانی افغان صوبے پکتیا کے ضلع زادران میں 1939 میں پیدا ہوئے تھے۔ حقانیوں پر لکھی گئی مشہور کتاب ”فانٹین ہیڈ آف جہاد“  کے مطابق جلال الدین حقانی کا تعلق زدران قبیلے کی سلطان خیل شاخ سے ہے۔ ان کے بھائی خلیل اور بیٹا سراج الدین حقانی موجودہ افغان حکومت میں اہم ذمہ داریوں پر فائز ہیں۔ سراج الدین حقانی افغانستان کے وزیر داخلہ ہونے کے ساتھ ساتھ طالبان سے منسلک حقانی نیٹ ورک کے موجودہ سربراہ بھی ہیں۔

ان کو افغانستان میں پاکستان کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں حکومت سنبھالنے والوں میں لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ، ڈپٹی وزیر اعظم ملاء عبدالغنی برادر، وزیراعظم ملاء حسن اخوند، وزیر خارجہ مولوی عامر خان متقی، وزیر دفاع ملاء محمد یعقوب مجاہد و دیگر شامل ہیں۔ پورے افغانستان میں مختلف نسلیں اور کثیر الجہتی شناختیں موجود ہیں۔ افغانستان ایک کثیر نسلی اور زیادہ تر قبائلی معاشرہ ہے۔ ملک کی آبادی متعدد نسلی لسانی گروہوں پر مشتمل ہے : پشتون، تاجک، ہزارہ، ازبک، ایماق، ترکمان، بلوچ، پشائی، نورستانی، عرب، براہوی، قزلباش، پامیری، کرغیز، سادات اور دیگر۔

پشتون، بشمول کوچی، ملک کا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے، جس میں 42 فیصد افغان ہیں۔ تاجک 27 فیصد اور ہزارہ ( 9 فیصد) ، ازبک ( 9 فیصد) ، ایماق ( 4 فیصد) ، ترکمان ( 3 فیصد) دوسرے نمبر پر ہیں، یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ افغانستان کے کئی حصوں میں مزاحمت دیکھنے میں آئی جس کو بروقت کنٹرول کر لیا گیا۔ طالبان میں بنیادی طور پر پشتون مولوی شامل ہیں، جو حکمرانی میں ناتجربہ کار ہیں۔ جب یہ گروپ 1996 میں برسر اقتدار آیا تو انہوں نے اسلامی قانون کی سخت تشریحات کے ساتھ حکومت کی۔

عسکری حکومت کی قیادت بنیادی طور پر پشتون علماء پر مشتمل ہے۔ وہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے مثبت ہیں۔ طالبان نے سب کے لیے عام معافی کا وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ پرامن ماحول بنانے کے لیے جان و مال کی حفاظت کریں گے۔ سخت گیر اور کٹر ایک نفرت پیدا کریں گے جو ان کی حکومت کو ناکام بنا سکتی ہے۔ ملا ہدایت اللہ بدری کو وزیر خزانہ بنایا گیا ہے اور ان کے لئے یہ ذمہ داریاں سنبھالنا کچھ مشکل ہو سکتا ہے، تاہم ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق کابینہ میں اضافہ ہو گا اور دوسرے حصوں سے بھی وزارتیں دی جائیں گی۔

تاہم معتبر ذرائع یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ طالبان کی حکومت کا قیام امریکہ نے ہی کیا ہے اور اب وہ بجائے کسی دوسرے کو استعمال کرنے کے طالبان کو براہ راست ہدایات دیا کرے گا۔ اس خطے میں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اٹھا سکے گا اور امریکی ذرائع بھی جس طرح اب امن کے دعوے دار ہیں اور ڈرون حملے کر کے معافی مانگتے ہیں یہ طالبان کی دہشت نہیں بلکہ امریکا کی ان کو یہاں پر کمانڈ کرنے کی تھپکی ہے۔ اب تمام ممالک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے اپنی شرائط رکھ رہے ہیں اس ضمن میں طالبان حکومت کی پالیسیز کا ایک بڑا اثر ہو گا۔ تاہم یہ خوش آئند ہے کہ طالبان کا گروہ داعش کا شدید مخالف ہے، عمومی طور پر تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وار آن ٹیرر اختتام پذیر ہو گئی لیکن محتاط اندازے کے مطابق یہ اختتام ایک نئی شطرنج کا شاخسانہ ہے۔ امید یہ ہی رکھتا ہوں کہ طالبان کسی کج فہمی کا شکار نہ ہوں اور بہتر تدبیر کریں، دشمن نے جو اتنے سال کی مزاحمت کے بعد ان کی شرائط مانتے ہوئے ان کو اقتدار دیا ہے وہ دوبارہ اس کا مہرہ نہ بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments