رئیس امروہوی: سادات امروہہ کے چشم و چراغ جن کے قتل نے کراچی کو ہلا کر رکھ دیا


’قاتل بڑے اطمینان سے گھر میں داخل ہوا، اس سے بھی زیادہ اطمینان سے اس نے اپنا کام محض ایک ہی گولی سے مکمل کیا اور اسی آسانی سے واپس بھی چلا گیا۔۔۔‘

رئیس امروہوی کے قتل کی داستان سُناتے ہوئے سابق پولیس افسر بہت افسردہ خاطر نظر آ رہے تھے۔

اس سابق پولیس افسر سے میری ملاقات سنہ 2011 میں ہوئی تھی، وہ 1980 کی دہائی میں کراچی پولیس میں تعینات رہے تھے اور کسی نہ کسی طرح رئیس امروہوی قتل کی تفتیش کے معاملات سے جڑے رہے۔

دانشور، شاعر اور صحافی رئیس امروہوی آج سے ٹھیک 33 برس قبل یعنی 22 ستمبر سنہ 1988 کو کراچی کے متمول علاقے گارڈن ایسٹ میں واقع اپنے ہی گھر میں قتل کر دیے گئے تھے۔

اس قتل نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

اُس زمانے میں گارڈن ایسٹ میں رئیس امروہوی کی وسیع و عریض رہائش گاہ کے مرکزی دروازے اس لیے کھلے رہتے تھے کہ دن بھر ملنے والے افراد کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔

اُن کے گھر میں مرکزی دروازے کے فوراً بعد ایک بڑا سا آنگن تھا جس کے بعد پہلے اُن کا دفتر تھا اور پھر اہل خانہ کے رہائشی کمرے وغیرہ تھے۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ گھر میں موجود اہلِ خانہ ملاقاتیوں کی وجہ سے یا لکھنے پڑھنے میں کسی تعطل کے پیشِ نظر گھر میں ہی واقع رئیس امروہوی کے دفتر میں جانے سے گریز کرتے تھے اور اُن کی ضروریات یا کھانے اور چائے وغیرہ کے وقت ہی کوئی اس جانب آیا کرتا تھا۔

گھر بڑا ہونے کی وجہ سے آواز بھی اندر تک سُنائی نہیں دیتی تھی۔

پولیس افسر نے بتایا تھا کہ ’شاید قاتلوں نے مکمل طور پر یہ معلومات حاصل کر کے ہی قتل کی منصوبہ بندی کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے معلومات اور ماحول کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور واردات بڑے اطمینان اور تسلّی سے انجام دی۔‘

12 ستمبر سنہ 1914 کو ہندوستان کے شہر امروہہ میں پیدا ہونے والے رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا۔

امروہہ برصغیر ہی نہیں دنیا بھر میں علم و فن اور حکمت و دانش کے لیے مشہور تھا مگر جو علم و حکمت اس شہر میں آباد رئیس امروہوی کے گھرانے کے حصے میں آئی وہ بے نظیر ہے۔

رئیس امروہوی کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا ہوں یا بھائی سید محمد تقی (ممتاز صحافی و دانشور اور روزنامہ ’جنگ‘ کے مدیر)، دوسرے بھائی شہرت یافتہ شاعر جون ایلیا ہوں یا اُن کے کزن اور معروف انڈین فلمساز کمال امروہوی، اس خانوادے کے جس فرد نے جب اور جس شعبے کا رُخ کیا اپنی کامیابی، صلاحیت اور عبور کے جھنڈے گاڑ دیے۔

خود رئیس امروہوی مشہور تو روزنامہ ’جنگ‘ میں شائع ہونے والے اپنے قطعات کی وجہ سے تھے مگر دراصل وہ محقق، فلسفی، دانشور اور روحانی علوم کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔

دنیا بھر میں اُن کے عقیدت مند آج بھی اُن سے اپنے تعلق کو اعزاز سمجھتے ہیں۔

رئیس امروہوی کی شہرت کو چار چاند تب لگے جب سنہ 1948 میں اُن کی تخلیق کردہ نظم ’اُردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ سنہ 1972 میں پاکستان کے صوبہ سندھ کی اسمبلی میں لسانی بل کے پیش کیے جانے کے موقع پر روزنامہ جنگ میں دوبارہ شائع کی گئی، اور ملک بھر میں مشہور ہو گئی۔

وہ ما بعد طبیعات، فلسفے، روحانیت اور مراقبے جیسے علوم و فنون کے جید عالم تھے اور اِن موضوعات پر کئی کتابوں کے خالق بھی رہے۔

ان کی تصنیفات میں الف، مثنوی لالہ زار، پسِ غبار، حکایت، بحضرتِ یزداں، ملبوسِ بہار، آثار، نسیم السحر، ضمیرِ خامہ، مابعدالنفسیات، نفسیات و مابعد النفسیات، عجائبِ نفس، لے سانس بھی آہستہ، جنسیات، عالمِ برزخ، حاضراتِ ارواح، ہپناٹزم، توجہات، جنات، عالمِ ارواح، المیہ مشرقی پاکستان، اچھے مرزا اور انا من الحسین جیسی تخلیقات مشہور ہیں۔ لاتعداد نوحے، قصائد و مثنویاں و قطعات ان کے علاوہ ہیں۔

ابتدائی عمر سے ہی رئیس امروہوی اپنے گھرانے کے سب سے نازک اور لاڈلے فرد سمجھے گئے۔ رئیس امروہوی کی صاحبزادی فرزانہ رئیس کے مطابق انھیں پیدائش کے بعد سگے تایا نفیس حسن (جو ان کے سگے خالو بھی تھے) نے گود لے لیا تھا کیونکہ تایا کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

وہاں نازک مزاج رئیس امروہوی کی پرورش اور بھی چاؤ اور ناز و نعم کے ساتھ کی گئی اور سات آٹھ برس کی عمر تک تو انھوں نے کبھی کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ انھیں دودھ ہی پلایا جاتا رہا اور بقول فرزانہ رئیس کے جب انھوں نے پہلی بار کھانا کھایا تو کئی افراد کو بلا کر منّت کا کھانا کھلوایا گیا کہ آج رئیس امروہوی نے پہلی دفعہ کھانا کھایا ہے۔

وہ سنہ 1936 میں صحافت سے وابستہ ہوئے اور امروہہ سے شائع ہونے والے اخبار ’قرطاس‘ اور ’مخبر عالم‘ کی ادارت کی۔

19 اکتوبر 1947 کو تقسیم ہند کے بعد رئیس امروہوی اپنے گھرانے سمیت نقل مکانی کر کے پاکستان کے شہر کراچی پہنچے اور یہاں گارڈن ایسٹ کے علاقے میں رہائش اختیار کی۔

رئیس امروہوی کی زندگی اور اندوہناک قتل کی یہ کہانی لکھنے میں اُن کے کئی اہلخانہ و اراکین خاندان، دوستوں اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کئی ذمہ دار افسران و اہلکاروں نے میری مدد کی۔

اہلخانہ کے مطابق قتل کے دن جمعرات کا روز تھا اور لگ بھگ شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب رئیس امروہوی گھر ہی میں قائم اپنے دفتر میں مصروف تھے۔

جون ایلیا

رئیس امروہوی جون ایلیا کے بڑے بھائی تھے

لبنیٰ جرار نقوی رئیس امروہوی کی نواسی ہیں اور انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ سے طویل عرصے تک منسلک رہنے کے بعد ان دنوں فری لانس جرنلزم کر رہی ہیں۔

رئیس امروہوی کے قتل کے وقت لبنیٰ خود بھی اُسی گھر میں رہتی تھیں اور اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’گھر کافی بڑا تھا، ہم لوگ باہر برآمدے کے قریب بیٹھے تھے۔ دروازے بھی بند نہیں ہوتے تھے۔ کوئی چوکیدار بھی نہیں ہوتا تھا گھر کھلا رہتا تھا کوئی بھی آ جا سکتا تھا۔‘

’میں اپنے بھائی حسن کے ساتھ بیٹھی تھی کہ ایک دم سے لگا جیسے کوئی ہلکا سا دھماکہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی گھر میں واقع نیم کے درخت پر بیٹھے پرندے اُڑ گئے۔ ہم لوگ باہر بھاگے لیکن جب وہاں کوئی نہیں نظر آیا تو ہم واپس آ کر پھر بیٹھ گئے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’تھوڑی دیر بعد ہماری والدہ (شاہانہ نقوی) آئیں۔ پھر کچھ لوگ آئے، جنھوں نے بابا (رئیس امروہوی) کو اٹھایا ہوا تھا، وہ بابا کو لے گئے جو خون میں لت پت تھے۔ بس پھر تو شور مچ گیا اس وقت تک بھی کسی کو شبہ نہیں تھا کہ بابا کو کسی نے قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ پھر جب ہمارے خاندان کے لوگ ہسپتال پہنچے تو وہاں ذرا دیر بعد اُن کا انتقال ہو گیا۔‘

لبنیٰ کے مطابق ’اُدھر ہم لوگ جو گھر پر تھے ان میں سے میں، میرے بھائی اور میرے کزن سبطین (جو اب میرے شوہر ہیں) جب بابا کے دفتر کے اندر گئے کہ دیکھا کہ وہاں لوہے کی کوئی چیز پڑی تھی جو بعد میں گولی کا خول ثابت ہوئی، وہ ہم نے ہی اٹھائی تھی۔‘

رئیس امروہوی کی صاحبزادی شاہانہ نقوی کا کہنا ہے کہ اس روز وہ اپنی والدہ کو کسی مجلس میں پہنچانے گئی تھیں۔

’جب ہم امّی کو پہنچا کر واپس گھر پہنچے تو میں نے دیکھا کہ ہماری چچی (سیّد محمد تقی کی اہلیہ) بھاگتی ہوئی آ رہی ہیں اور انھوں نے بتایا کہ بھائی (ہم اپنے والد رئیس امروہوی کو بھائی کہتے تھے) کو پنکھے سے چوٹ لگ گئی ہے۔‘

’جب ہم وہاں پہنچے تو ہمارے چچا اور دفتر میں کام کرنے والے صاحب انھیں اٹھا چکے تھے۔ انھیں گاڑی میں ڈالا جا رہا تھا، ہر طرف خون ہی خون تھا۔ بڑے چچا (سیّد محمد تقی) ننگے پیر تھے۔ انھیں ہسپتال لے جایا گیا، مگر ایک گھنٹے میں ہی وہ ختم ہو گئے۔‘

شاہانہ نقوی کے مطابق ’قتل کے ہی دن میں نے انھیں فون کیا اور کہا کہ بھائی آپ کے دو دن سے بہت اداس قطعے شائع ہو رہے ہیں، آپ ٹھیک تو ہیں نہ؟ تو انھوں نے کہا کہ ہاں میں ٹھیک ہوں، بی بی تم شام کو آ رہی ہو ناں؟ میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے کل آؤں گی، تو انھوں نے کہا کہ نہیں تم شام کو تو آؤ گی ہی۔۔۔ شاید انھیں احساس تھا کہ یہ اُن کا آخری دن ہے۔‘

وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’وہ صفر کا مہینہ تھا اس کے باوجود میں گنگنانے لگی ’جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی‘ اور نہ جانے کیوں خود میں بھی خود بخود بے تحاشہ رونے لگی جس پر میرے شریک حیات متعجب بھی ہوئے کہ کیوں اداس ہو رہی ہو؟‘

’اتنی دیر میں فون آیا کہ بھائی (رئیس امروہوی) گر گئے ہیں اور اُن کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ مجھے گولی لگنے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔‘

’پھر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر بھر میں پھیل گئی اور فون آنا شروع ہو گئے اور کال کرنے والے تمام لوگ یہی پوچھ رہے تھے کہ رئیس صاحب کی کیا حالت ہے؟ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے۔‘

’تھوڑی ہی دیر میں امّی مجلس سے واپس گھر آ گئیں اور وہ بھی بہت گھبرا گئیں۔ میری بہن شاہانہ تسبیح پڑھ رہی تھیں (رئیس امروہوی کی) خیریت کے لیے کہ تسبیح گری اور ٹوٹ گئی۔ تم کو تو پتہ ہے ہم کتنے وہمی ہوتے ہیں؟ ابھی تسبیح ٹوٹی ہی تھی کہ میرا چچا زاد بھائی گھر میں داخل ہوا اور بتایا کہ وہ (رئیس امروہوی) دم توڑ گئے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’کچھ ہی دن پہلے وہ مجھے بتا رہے تھے کہ وہ جشن رئیس امروہوی کے سلسلے میں دبئی جانے والے ہیں تو میرا بیٹا بابی (ذوالفقار نقوی) کہنے لگا میں ساتھ چلوں گا تو کہنے لگے کہ شاید مجھے موقع ہی نہیں ملے گا۔‘

فرزانہ رئیس کہتی ہیں کہ ’اُس زمانے میں 32 افراد کی ایک ’ہٹ لسٹ‘ بھی مشہور ہوئی تھی جو (میرے خیال میں) فرضی ہی تھی ورنہ باقی 31 افراد کون تھے اور اُن کا قتل کیوں نہیں ہوا پھر؟‘

رئیس امروہوی کے خاندان کے وہ تمام افراد جن سے اس سلسلے میں بات ہوئی، سب نے دعویٰ کیا کہ رئیس امروہوی کے قتل سے ذرا پہلے دائیں بازو کے قریب سمجھے جانے والے ایک ہفت روزہ میں کئی بار یہ شائع ہوا کہ رئیس امروہوی (پاکستان کو) ’شیعہ سٹیٹ‘ بنانا چاہتے ہیں اور ’واجب القتل‘ ہیں۔ اس ہفت روزہ میں اُن کے تصویر پر پھانسی کا پھندہ اور دائرہ بنا کر یہ سب شائع کیا جاتا تھا۔

فرزانہ رئیس کا مؤقف ہے کہ انھوں نے خود اس ہفت روزہ کے کم از کم تین شماروں میں اس قسم کا مواد پڑھا تھا جبکہ خاندان کے دیگر افراد بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے ایک بااثر ادارے سے منسلک ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اب (اس قتل کو) بہت زمانہ ہو گیا ہے، میں بھی زیادہ نہیں بتا پاؤں گا مگر اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ اس قتل کے بعد تفتیش کاروں نے تین افراد گرفتار کیے جن میں فیصل ٹیپو، جمیل معاویہ اور ایک اور شخص شامل تھا۔ اس وقت کے اعلیٰ پولیس افسران ان مبینہ قاتلوں کو لے کر رئیس امروہوی کے اہلِ خانہ کے پاس بھی گئے تھے۔‘

لبنیٰ جرار نقوی نے بتایا کہ ’جب قاتل ہمارے گھر لائے گئے تو انھوں نے بتایا کہ انھیں رئیس امروہوی کی بعض تحریریں پسند نہیں آئیں تو مشتعل ہوکر انھوں نے قتل کا فیصلہ کیا۔‘

اس سلسلے میں ایک جامعہ کا فتویٰ بھی تھا اور وہ مبینہ قاتل اس فتوے سے بھی متاثر تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کھجی گراؤنڈ: کھیل کا وہ میدان جہاں کبھی موت مقبول ترین کھیل تھی

اے پی ایم ایس او: ’داخلوں سے محروم طلبا‘ کراچی کے کنگ میکر کیسے بنے؟

بشریٰ زیدی کی موت: خون کی وہ سرخی جس نے کراچی کا مستقبل سیاہ کر دیا

لبنیٰ جرار نے دعویٰ کیا کہ ’قاتل نے ہمارے سامنے بتایا کہ ہمیں کہا گیا تھا کہ یہ (رئیس امروہوی) نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ قاتل نے بتایا کہ پہلے انھوں نے ریکی کی اور قتل کے دن وہ خود اندر آیا تو رئیس امروہوی بیٹھے ہوئے کچھ لکھ رہے تھے۔‘

لبنیٰ کے دعوے کے مطابق ’اِس (مبینہ قاتل) نے (اہلخانہ کو) بتایا کہ رئیس امروہوی کی آنکھوں کو دیکھ کر میں ایک لمحے کے لیے تو خود رُک گیا، میں خود دہشت زدہ ہو گیا جب رئیس امروہوی نے مجھے دیکھا اور کہا کہ ’آؤ‘ تو میں نے گھبرا کر انھیں گولی مار دی۔‘

رئیس امروہوی کی صاحبزادی شاہانہ نقوی نے بتایا کہ ’جب قاتل لائے گئے تو ہماری امّی نے کہا کہ میں سیدانی ہوں اور میرے شوہر شہید ہیں، میں ان (قاتلوں) کو معاف کرتی ہوں۔ اس طرح وہ گرفتار تو ہو گئے مگر ہم تو بس عورتیں ہی ہیں، بھائی بھی نہیں رہے تو ہمارا تو میکہ ہی ڈھ گیا۔‘

فرزانہ رئیس کے مطابق یہ تو کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کہ انھیں گولی مار کر قتل کر دیا جائے گا مگر حکومت نے اُن کی زندگی کو لاحق خطرے کے پیش نظر انھیں بتایا تھا کہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے تو آپ ایسا کریں کہ ایک محافظ رکھ لیں بندوق لے کر۔

فرزانہ کے مطابق ’مگر انھوں نے کہا کہ ’میاں میں تو چڑیا بھی مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔‘

فرزانہ رئیس نے بھی قانون نافذ کرنے والے بااثر ادارے کے افسر کی اس بات کی تصدیق کہ تین افراد گرفتار کیے گئے اور جب انھوں نے پولیس تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف جرم کر لیا تو انھیں خاندان سے ملوایا گیا تھا۔

’اس گروپ کو ہمارے گھر لایا گیا تھا۔۔۔ ہم لوگ برقع اوڑھے کھڑے تھے اور واقعتاً کانپ رہے تھے۔۔۔‘

فرزانہ رئیس کا کہنا ہے کہ رئیس امروہوی کو ’کشتی نوح‘ کے بارے میں ایک آرٹیکل لکھنے پر دھمکیاں بھی آئی تھیں اور کہا گیا تھا کہ ’اس قسم کا پرچار بند کرو۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارا کوئی بھائی نہیں تھا اور یہ بالکل اندھا کیس تھا۔ اس لیے ہم اس کی پیروی نہیں کر سکے۔ جمیل معاویہ کی ضمانت ایک دینی سیاسی جماعت نے کروائی تھی۔ ہماری امّی شروع میں شک کرتی تھیں کہ رئیس کو کراچی کی ایک سیاسی جماعت نے قتل کیا ہے، مگر جب مبینہ قاتل ہمارے سامنے لائے گئے تو انھوں نے قتل کا اعتراف کیا۔‘

رئیس امروہوی کے نواسے ذوالفقار نقوی (بابی) کا دعویٰ ہے کہ رئیس امروہوی کا قتل فرقہ وارانہ تشدد کا شاخسانہ تھا۔

اس واقعے سے محض دو ہی دن قبل گارڈن ہی کے علاقے میں سینٹ لارنس نامی چرچ کے پادری کا بھی قتل ہوا تھا اور اس وقت بھی پولیس حکام کا شبہ تھا کہ پادری کا قتل بھی فرقہ وارانہ نوعیت کا تھا۔

ذوالفقار نقوی نے بھی وہی الزامات دہرائے جو فرزانہ رئیس نے عائد کیے تھے۔

ذوالفقار نقوی کے مطابق قتل کے وقت جب گولی چلی تو کوئی شخص بھاگتا ہوا آیا کہ رئیس صاحب اپنی رائٹنگ ٹیبل کے نیچے پڑے ہیں خون میں لت پت، بعد میں پولیس نے اُسی کو اس شبے میں گرفتار بھی کر لیا تھا کہ شاید وہ قتل میں ملوث ہو مگر بعد میں اسے رہا کر دیا گیا۔

’جب گھر والے پہنچے تو رئیس امروہوی نے کہا پنکھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی پر ابتدا میں یہ خبر چلی کہ وہ پنکھا لگنے سے چل بسے۔ حالانکہ بعد میں ہسپتال میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ شاید وہ پنکھا کھولنے کو کہہ رہے ہوں گے کیونکہ جب کسی کے سر یا دماغ میں چوٹ لگ جائے تو اُسے شدید گرمی کا احساس ہوتا ہے۔‘

ہسپتال پہنچانے پر جب ڈاکٹرز نے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے تو انھوں نے رئیس امروہوی نہیں بتایا بلکہ سید محمد مہدی بتایا۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب میڈیکو لیگل ایگزامینیشن میں پتہ چلا کہ یہ زخم جو ان کے سر پر ہے وہ تو پنکھے کا ہو ہی نہیں سکتا بلکہ یہ تو گولی کا زخم ہے، تو پولیس کیس بن گیا، لیاقت نیشنل ہسپتال میں ان کے آپریشن کی تیاری ہو رہی تھی کہ ان کی وفات ہو گئی۔

وہ بتاتے ہیں کہ اُدھر گھر پر اُن کی تدفین کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور جون ایلیا کا خیال تھا کہ نماز جنازہ نشتر پارک میں پڑھائی جائے کیونکہ بہت لوگ آئیں گے جن میں تمام مسالک اور فرقہ کے لوگ ہوں گے اور تعداد بھی بڑی ہو گی۔

مگر سید محمد تقی سمیت بعض اہلِ خانہ نماز جنازہ امام ِ شاہ کربلا ٹرسٹ رضویہ سوسائٹی میں کروانے کے حق میں تھے۔

متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے عبدالرازق خان اس وقت کراچی کے ڈپٹی مئیر تھے اور انھوں نے پیشکش کی کہ مزار قائد کے احاطے میں تدفین کی جا سکتی ہے مگر خاندان کے افراد کے اصرار پر سخی حسن کا انتخاب ہوا۔

ذوالفقار نقوی کے مطابق ’جنازے میں دس سے پندرہ ہزار افراد نے شرکت کی۔ آگے آگے ٹریفک پولیس راستے بند کرتی جا رہی تھی تاکہ جلوسِ جنازہ منزل پر پہنچ سکے۔‘

ذوالفقار نقوی کے مطابق دوسرے ہی دن کراچی شہر میں احتجاجی مظاہرے بھی شروع ہو گئے تھے۔

ذوالفقار نقوی نے یہ بھی دعویٰ کیا ایک دفعہ وہ وہیں تھے جب رئیس امروہوی کو دھمکی آمیز فون آیا کہ کشتئی نوح کے بارے میں پروپگینڈا بند کرو جس پر رئیس امروہوی یہی کہے جا رہے تھے کہ ’جی آپ اپنی گوہر افشانی جاری رکھیے، میں سُن رہا ہوں۔‘

ذوالفقار نقوی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ جب تک یہ قاتل پکڑے نہیں جا رہے تھے تب تک اس قتل کے حوالے سے طرح طرح کے نام لیے جا رہے تھے، غرض جتنی منھ اتنی باتیں۔

انھوں نے کہا کہ پھر بے نظیر بھٹّو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سیاسی قوتوں پر بھی اس قتل کا الزام عائد کرنے کا آغاز ہوا۔

’میرے والد کے پاس وزیر اعلیٰ کا فون آیا کہ ہمیں شک ہے کہ اس قتل میں ایک سیاسی جماعت ملوث ہے جس پر ہمارے گھر والوں نے کہا کہ ہمیں تو نہیں معلوم کہ کس نے قتل کیا ہے۔ آپ کے پاس حکومت ہے یہ تو آپ کا کام ہے کہ پتہ لگائیں کہ کس نے قتل کیا ہے۔ مگر حکومتی اصرار تھا کہ خاندان یہ الزام عائد کرے تاکہ تفتیش کا رخ اس طرف موڑا جا سکے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ کافی عرصہ بعد پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر اور اس وقت کے معاون خصوصی وزیر اعلیٰ سندھ تاج حیدر سے ہمارے خاندان کی کہیں ملاقات ہوئی اور جب اس حوالے سے بات شروع ہوئی تو تاج حیدر نے سختی سے سیاسی جماعت کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی۔

رابطہ کرنے پر پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے رئیس امروہوی کے خاندان کی جانب سے بعض الزامات کی تصدیق و تائید کی۔

تاج حیدر کا کہنا تھا کہ ’یہ خاندان تو ہمارے خاندان کا قریبی دوست رہا ہے۔ ہمارے تمام بھائیوں سے ہمیشہ رابطے رہے۔ رئیس امروہوی کے قتل کی تفتیش جاری تھی کہ ایک روز علی الصبح ساڑھے سات بجے وزیر اعلیٰ سندھ عبداللّہ شاہ کا فون آیا کہ میرے پاس پہنچ جائیے۔‘

’جب میں پہنچا تو وزیرِ اعلیٰ نے بتایا کہ جو آدمی شبے میں حراست میں ہے اس کے پاس سے آپ کے گھر کا نقشہ بھی برآمد ہوا ہے اور وہی لوگ جو رئیس امروہوی کو قتل کرنا چاہتے تھے وہی آپ کے والد پروفیسر کرار حسین صاحب کو بھی قتل کرنا چاہتے تھے۔ اور واقعی جب میں نے دیکھا تو نقشہ تو گلشن اقبال میں واقع ہمارے ہی گھر کا تھا۔‘

تاج حیدر نے انکشاف کیا کہ ’بابا (پروفیسر کرار حسین) لائبریری میں رہتے تھے، جو مبینہ ملزم پکڑا گیا تھا جمیل معاویہ اس نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ ہماری لائبریری میں اندر آ گیا تھا اور ڈیڑھ گھنٹے تک ہماری لائبریری میں بھی بیٹھ کر انتظار کرتا رہا کہ بابا آئیں تو انھیں بھی قتل کر دے، وہ تو اتفاق سے بابا اس دن وہاں تھے ہی نہیں۔ پھر وہ میرے کمرے میں بھی آیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’تو ہمیں یقین ہوا کہ یہ فرقہ وارانہ تشدد کا شاخسانہ تھا کہ رئیس صاحب کو بھی قتل کر دیا گیا تھا اور بابا کو بھی قتل کرنا چاہتا تھا۔‘

تاج حیدر نے دعویٰ کیا کہ ’پھر جب آئی جی سندھ افضل شگری ملزمان کو رئیس صاحب کے خاندان کے پاس لے کر گئے کہ یہ ملزم ہیں تو رئیس صاحب کی اہلیہ نے کہا کہ ہم کوئی کارروائی نہیں چاہتے۔ رئیس امروہوی کی بیوہ نے کہا کہ وہ (رئیس امروہوی) تو چلے گئے میں بچوں کے ساتھ ہوں اور اب بچوں کو بچانا چاہتی ہوں، کسی جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتی ہوں۔‘

مزید پڑھیے

’جون ہونا کوئی مذاق نہیں‘

وہ کراچی جہاں سبیل کا شربت صرف میٹھا ہوتا تھا، شیعہ یا سنّی نہیں

’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘، فیض احمد فیض نے یہ نظم کس کے لیے لکھی تھی

تاہم سابق آئی جی (انسپکٹر جنرل) سندھ پولیس افضل شگری تاج حیدر اور رئیس امروہوی کے اہلخانہ کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہیں۔

افضل شگری نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اوّل تو اب اتنا عرصہ ہو گیا ہے کہ انھیں یاد نہیں کہ اُس وقت وہ سندھ میں تعینات تھے بھی یا نہیں۔

سابق آئی جی سندھ افضل شگری نے کہا کہ یہ بات ہی عجیب لگتی ہے کہ کوئی پولیس افسر زیر تفتیش ملزمان کو لے کر کسی مقتول کے اہلخانہ سے ملوانے جائے۔

رئیس امروہوی کے نواسے ذوالفقار نقوی کے مطابق ملزمان بعد ازاں عدم ثبوت کی بنیاد پر بری ہوئے اور مقدمہ ختم کر دیا گیا۔

رئیس امروہوی کی نواسی لبنیٰ جرار نقوی نے بتایا کہ ’تین دن تک ہمارے گھر میں پورا شہر جمع ہوتا رہا، ایسا لگ رہا تھا جیسے سارے شہر کا کوئی اپنا قتل ہو گیا ہو۔‘

فرزانہ رئیس کہتی ہیں کہ ’بس اُن (رئیس امروہوی) کے بعد یوں لگتا ہے کہ آسمان نہیں رہا سر پر۔ ہم بہت کلوز (دوستانہ انداز میں) نہیں تھے، ہمارے اور ان کے درمیان ہمیشہ ایک حجاب تھا۔ ہم کوئی دقیانوسی خاندان نہیں تھے، وہ پورے شہر کے بابا تھے، صرف ہمارے بابا نہیں تھے۔ مگر اپنی اجتماعی سماجی زندگی میں گوں ناگوں مصروفیات کی وجہ سے اہل خانہ کے ساتھ کم وقت گزار پاتے تھے۔‘

فرزانہ کہتی ہیں کہ ’وہ بہت نرم خُو تھے۔ ہماری والدہ امروہہ کی سب سے خوبصورت عورت مشہور تھیں مگر انھیں بھی ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ جو توجہ ان کی جتنی حسین عورت کو رئیس امروہوی جیسے شوہر سے ملنی چاہیے تھی وہ انھیں نہیں مل سکی۔‘

وہ کہتی ہیں ’مگر بھائی اپنے قتل سے پہلے کئی بار مسلسل ذومعنی گفتگو کر چکے تھے اور شاید جانتے تھے کہ اُن کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔۔۔‘

فرزانہ رئیس کے مطابق اپنے قتل کے دن رئیس امروہوی نے جو آخری قطعہ لکھا اس کا آخری مصرع تھا ’اندھوں کا شہر ہے، یہ اندھیروں کا شہر ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments