ملا کی بندوق اور شیخ رشید کے سیکورٹی انتظامات


پاکستانی حکومت نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی اچانک واپسی کے بعد انگلینڈ کی طرف سے مردوں اور خواتین کی کرکٹ ٹیمیں اگلے ماہ پاکستان نہ بھیجنے کے اعلان کے بعد جز بز دکھائی دیتی ہے۔ بدقسمتی سے اس واقعات کو درست تناظر میں دیکھنے، حالات کو سمجھنے اور مستقبل کے لئے کوئی بہتر لائحہ عمل اختیار کرنے کی بجائے، سیکورٹی سے متعلق اس معاملہ کو وزیر اعظم عمران خان کی ’خود مختارانہ ‘ خارجہ پالیسی اور دشمنوں کی سازشوں سے جوڑ کر ایک افسوسناک قومی ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے فیصلوں کو عمران خان کے جون میں دیے گئے ایک انٹرویو کے ساتھ منسلک کرنے کی ناروا کوشش کی ہے۔اس انٹرویو میں افغانستان میں دہشت گردی کنٹرول کے لئے پاکستان میں امریکی اڈوں کے بارے میں ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے ’قطعی نہیں‘ کا دو ٹوک اور سخت مؤقف اختیار کیا تھا۔ امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے اور کابل پر طالبان کے قبضہ تک’ امریکہ کو اڈے نہیں دیں گے ‘کے معاملہ کو بڑی شدت سے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم کا بیان بھی اسی تناظر میں سامنے آیا تھااور اسے پاکستان کی خود مختاری اور عمران خان کی حوصلہ مندی کے طور پر پیش کیا گیا۔ تاہم بعد میں کسی بھی سطح سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی اور نہ ہی حکومت نے کبھی اس بارے میں واضح پالیسی بیان جاری کیا کہ امریکہ نے کب اور کس حوالے سے پاکستان سے اڈے دینے کی درخواست کی تھی جو وزیر اعظم نے مسترد کردی تھی؟

بعد از وقت اس معاملہ کی تفصیلات کی روشنی میں مکمل تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ امریکہ نے کسی بھی سطح پر پاکستان کو اڈے فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ یا کابینہ نے کسی اجلاس میں اس امریکی درخواست پر غور کرتے ہوئے اسے مسترد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بلکہ اس تصویر سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستانی حکومتی ترجمانوں نے خود ہی ایک قیاس قائم کیا کہ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ پاکستان سے فوجی اڈوں کی درخواست کرے گا اور اس قیاس کو خود ہی مسترد کرتے ہوئے اپنی خود مختاری کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا۔ تحریک انصاف کی حکومت بیان بازی اور نعروں کے جس وفور پر عوام میں اپنی ساکھ قائم رکھنے کی حکمت عملی پر عمل کرتی ہے، اس کی روشنی میں یہ ایک خود ساختہ تصویر تھی جس کا بنیادی خاکہ بھی عمران خان کے ساتھیوں ہی نے تیار کیا اور اس میں رنگ بھرنے کا کام بھی پورے جوش و خروش سے خود ہی انجام دیا ۔ اب فواد چوہدری نے اس ناکام سیاسی شعبدہ بازی کو کرکٹ اور نیوزی لینڈ ٹیم کی اچانک واپسی کے معاملہ سے جوڑ کر نیا سیاسی اسٹنٹ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاید عمران خان اور ان کے ساتھی یہی سمجھتے ہوں کہ اس طرز عمل سے پاکستان کی ساکھ بہتر ہوگی یا اسے کوئی سفارتی فائدہ پہنچے گا لیکن درحقیقت یہ کارگزاری معاشی شعبہ میں حکومت کی ناقص کارکردگی اور روزمرہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے لوگوں کو غیر ضروری مباحث میں الجھانے کی کوشش کے سوا کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

 پہلے امریکہ کو اڈے نہ دینے کے قیاس پر قومی سیاسی ماحول کو گرمایا گیا لیکن اس بنیادی سوال کا جواب نہیں دیا گیا کہ 2001 میں پرویز مشرف حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا حلیف بنتے ہوئے امریکی فورسز کو پاکستان کی بری اور فضائی سہولتیں فراہم کرنے کے جو معاہدے کئے تھے، کیا انہیں بھی ختم کردیا گیا ہے؟ یادش بخیر دفتر خارجہ کے ترجمان نے امریکی اڈوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ہی یہ معلومات فراہم کی تھیں کہ پاکستان اڈے دینے پر تو غور نہیں کررہا لیکن بری و فضائی گزرگاہوں کے استعمال کے معاہدے بہر حال موجود ہیں جنہیں بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ خود مختاری کے ترجمان فواد چوہدری سمیت شیخ رشید، شاہ محمود قریشی یا معید یوسف میں سے کسی نے اس ساری بحث میں حصہ ڈالتے ہوئے کبھی دفتر خارجہ کے ترجمان کے جواب کی تفصیل بتانے اور اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کیوں کہ ایسی مشقت کی صورت میں حکومت کی ہوم گراؤنڈ پر کی جانے والی سیاسی حکمت عملی کو زک پہنچنے کا اندیشہ تھا۔

عمران خان کی حکومت نے اگر طے کرلیا ہے کہ نعرے بازی ہی وہ واحد معجون ہے جس کے زور پر وہ آئندہ انتخاب لڑنا اور جیتنا چاہتے ہیں تو بڑے شوق سے اس پالیسی پر عمل جاری رکھا جائے لیکن ایسی ہر حرکت دراصل عوام کو یہ یقین دلانے کا سبب بنتی ہے کہ تحریک انصاف عوامی مسائل سے ناواقف ہے ۔ جو حکومت عوام کے مسائل کا ادراک کرنے پر ہی تیار نہ ہو ، وہ انہیں حل کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی کیوں کر تیار کرسکتی ہے۔ لیکن جمع خاطر رکھی جائے ، پاکستانی عوام کے بارے میں جو بھی رائے قائم کی جائے لیکن وہ تمام تر گمراہ کن پروپیگنڈا کے باوجود اپنا برا بھلا پرکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اگر کوئی حکومت حقیقی عوامی مسائل سے لاتعلقی ظاہر کرے گی تو محض نعروں اور ’عمران خان ڈٹ گیا‘ جیسے دعوؤں سے انہیں انتخابات میں ووٹ دینے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے مفاہمت پسند صدر شہباز شریف کو بھی یہ اعلان کرنا پڑا ہے کہ آئندہ انتخابات میں دھاندلی نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کسی جھرلو کو قبول کیا جائے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ شفاف انتخابات کی صورت میں نواز لیگ ہی میدا ن مارے گی۔ شہباز شریف کا یہ دعویٰ پنجاب کے کنٹونمنٹ انتخابات کے تناظر میں درست ہے جن میں حکمران تحریک انصاف کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انتخابات سے محض دو برس پہلے کوئی سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے حکومت کے ترجمان مسلسل یا تو کسی سیاسی طوفان کی تلاش میں رہتے ہیں یا بڑی کاوش سے اسے پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اقتدار کے پہلے دو اڑھائی برس تک کرپشن کا نعرہ زور شور سے استعمال کیا گیا جب یہ نعرہ زنی پانی بلونے کے مترادف ثابت ہوئی تو اب نئے نعرے اور ’مسائل‘ تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حیرت ہے کہ وزیر اعظم کی سربراہی میں مسائل کا شکار پاکستان جیسے ملک کی کابینہ یہ طے کرتی ہے کہ اس سازش کا سراغ لگایا جائے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کیوں اچانک پاکستان سے واپس گئی اور اب انگلینڈ کرکٹ کے اعلان کے بعد اس فیصلہ کو بھی اسی سازش کا پرتو قرار دیا جا رہا ہے۔ کرکٹ کنٹرول بورڈ کے نئے چئیرمین رمیز راجہ سے لے کر شیخ رشید اور فواد چوہدری تک ایک ہی زبان میں گفتگو کررہے ہیں۔ حالانکہ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے کہ اگر ایک انٹیلی جنس اتحاد کی اطلاعات کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم اچانک اپنا دورہ منسوخ کر دیتی ہے تو کیا یہ نوشتہ دیوار نہیں تھا کہ انگلینڈ کی ٹیم بھی پاکستان نہیں آئے گی۔ اس صورت میں الزام تراشی کرنے اور سازشوں کا سراغ لگانے کی بجائے کیا کرکٹ کنٹرول بورڈ کو انگلینڈ بورڈ کے ساتھ مل کر کوئی متبادل انتظام کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے تھی۔

اسی گرمجوشی میں ملک کے وزیر داخلہ نیوزی لینڈ کے بارے میں ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے پاکستان کے خارجہ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں لیکن بیان بازی کرتے ہوئے کسی وزیر کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ غیر ذمہ داری سے بات کرنے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید کو یہ کہنے میں کوئی حجاب نہیں ہے کہ ’نیوزی لینڈ کے پاس تو اتنی فوج ہی نہیں ہے جتنے فوجی ہم نے ان کی ٹیم کی حفاظت پر لگا دیے تھے‘ ۔ سوچا جائے تو نیوزی لینڈ کا عام شہری یہ بیان پڑھنے کے بعد اپنے بورڈ کے فیصلہ کو اور بھی درست سمجھنے لگے گا کیوں کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسے ملک کی بات ہو رہی ہے جہاں کوئی شہری مسلح پہرے کے علاوہ ہوٹل سے باہر قدم نہیں نکال سکتا تھا۔

وزیروں کے جوشیلے بیانات ہی کے دوران اسلام آباد کے ملا عبدالعزیز نے ایک بار پھر جامعہ حفصہ پر طالبان کے پرچم لہرائے اور جب شہریوں کی پریشانی کے باعث اسلام آباد انتظامیہ نے یہ پرچم اتارنے کی درخواست کی تو ملا عبدالعزیز کی سربراہی میں طالب علموں اور ان کے ساتھیوں نے پولیس افسروں کو للکارا اور دھمکیاں دیں۔ اس موقع پر ملا عبدالعزیز ایک بندوق کے ساتھ رونما ہوئے اور خود کو اسلام کے مسلح جاں باز کے طور پر پیش کیا۔ بعد میں انتظامیہ کی منت سماجت پر طالبان کے پرچم جامعہ حفصہ سےا تار لئے گئے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ اس لاقانونیت پر ملا عبدالعزیز اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بغاوت اور سرکاری ملازمین کو دھمکیاں دینے کے الزام میں مقدمہ قائم کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی میڈیا کو فراہم کردی گئی کہ اس ایف آئی آر پر مستعدی سے کارروائی نہیں ہو گی۔

وزیر داخلہ جس پریس ٹاک میں نیوزی لینڈ ٹیم کی ’بزدلی‘ کا تمسخر اڑا رہے تھے ، اسی میں یہ اعتراف بھی کررہے تھے کہ اسلام آباد کی پانچ سو مساجد و مدرسوں میں صرف ایک میں مسئلہ ہوتا ہے لیکن اسے بھی خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا ہے۔ کیا شیخ رشید کو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ جس شہر میں ایک مسجد کا مولوی غیر قانونی اسلحہ لے کر ضلعی پولیس کو دھمکاتا ہو اور بدستور آزاد گھوم رہا ہو، اس شہر میں کوئی غیر ملکی ٹیم کس طرح خود کو محفوظ محسوس کرے؟ اور وہاں کی حکومت کس منہ سے فول پروف سیکورٹی کی باتیں کر سکتی ہے؟

قومی وقار کی جنگ ضرور لڑنی چاہئے اور ملک کو ضرور خود مختاری کے ساتھ اپنے مفادات کی روشنی میں پالیسیاں بنانی چاہئیں لیکن یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ کوئی قومی پالیسی جھوٹ اور قیاس کی بنیاد پر استوار نہیں ہو سکتی۔ اور نہ ہی اس طرح کے نعروں سے قوم و ملک کا وقار بلند ہوتا ہے جس کی ایک مثال عمران خان کے وفادار اور کشمیر کمیٹی کے چئیرمین شہریار آفریدی نے حال ہی میں قائم کی ہے۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کے لئے جانے کے بعد انہوں نے نیویارک میں امریکیوں کی غربت اور بے حیائی کا سراغ لگا یا اور ایک ویڈیو پیغام میں یہ کہتے ہوئے اہل وطن کو آگاہ کیا کہ وہ خدا کا شکر کریں کہ عمر ان خان نے ان کے لئے احساس پروگرام شروع کر دیا ہے۔

خوشامد و چاپلوسی سے لبریز اور نرگسیت کے طرزعمل کا آئینہ دار یہ رویہ اگر عمران خان کو ملکی عظمت کا پیغام لگتا ہے تو انہیں جان لینا چاہئے کہ عوامی اطمینان اور وزیر اعظم کی مقبولیت کا راگ الاپنے والے یہی ہونہار ساتھی خلوت میں انہیں باور کرواتے ہیں کہ پوری دنیا عمران خان کی جرات و بہادری کے گیت گا رہی ہے۔ عمران خان کو حقیقت حال جاننے کی اپنی سی کوشش کرکے بھی دیکھ لینا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments