قسمت کی ریکھائیں؟


قسمت جسے مقدر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس لفظ کو لوگ اکثر روز مرہ زندگی میں اپنی گفتگو کا حصہ بنا کر قسمت کا حال دریافت کرتے ہیں۔ اور اس بات کی قیاس آرائی کرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا خوش قسمت ہے اور فلاں بڑا بدقسمت ہے۔ یہ بات کہاں تک درست اور حقائق پر مبنی ہے؟ اسے زیر بحث بنا کر اس حقیقت کا کھوج لگاتے ہیں۔ ویسے آج کا انسان ہر لحاظ سے باشعور اور فہم و فراست کی رو سے لبریز ہے۔ وہ اپنی زندگی کا حال کیسے دریافت کرتا ہے اس کے داخلی اور خارجی پہلوؤں کا کس طرح مشاہدہ کرتا ہے؟

اس کے خودکار جواب اسے کس حد تک مطمئن کرتے ہیں۔ ان حقائق کو مکاشفائی حدود اربع میں جانتے ہیں حالاں کہ قصے، کہانیاں، تجربات اور مشاہدات اس بات کے پہلے ہی گواہ ہوتے ہیں، کہ قسمت کوئی ایسا کھلونا نہیں ہے جسے جب چاہو پھینک دو اور جب چاہو اٹھا لو۔ یہ ہمارا عقلی معیار تو ہو سکتا ہے لیکن روحانی نہیں۔ کیوں کہ ہماری عقل خدا کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور نہ ہم اپنی عقل سے ان سوالات کے جواب حاصل کر سکتے ہیں جنہیں قدرت نے اپنے دائرہ اختیار میں رکھا ہے۔

عموماً ہمارے ہاں ایسی اقدار و روایات رائج الوقت ہو ہیں، جن کی بدولت کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کی نفسیات کا ٹھہراؤ مقدر کی ریکھاؤں پر مرکوز ہو گیا ہے۔ نا جانے کیوں انہوں نے اپنے دل و دماغ کو ہاتھ کی ریکھاؤں پر ایسے مرکوز کیا جیسے یہ رزق کی ضامن ہوتی ہیں اور اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنی قسمت کا احوال دریافت کرنے کے لیے دوسروں کو اپنا ہاتھ دکھاتے ہیں۔ بے یقینی کی یہاں تک کیفیت ہوتی ہے کہ ہم پرندوں سے اپنی قسمت کی فال نکلواتے ہیں۔ کیا یہ سب حربے روحانی اور جسمانی طور پر جائز ہیں؟ کیا ان میں صحت و صداقت کے چشمے پائے جاتے ہیں؟

حالاں کے ہمارے ہاتھ تو محنت و عظمت اور کردار و اعمال کی اس تصویر پیش کرتے ہیں، یہاں پہلے مقدر کی بنیاد کھودی جاتی ہے اور پھر اس پر عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔

یہ ہاتھوں کی محنت و عظمت کا ہی حسن و جمال ہوتا ہے جو آپ کے ارادوں اور جذبات کو کامیابی سے ہمکنار کر دیتے ہیں۔

یہ قانون قدرت ہے اور تاریخ اس بات کی مستند گواہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی شخص سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر شخص محنت و عظمت کی بدولت اپنے مقدر کا ستارہ تلاش کرتا ہے۔ لیکن جو ہاتھ محنت کے عادی ہو جاتے ہیں، وہ اپنے لئے برکت کا دروازہ کھول لیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ہر وقت بیٹھ کر اپنے ہاتھ کی ریکھاؤں پر مقدر کا ستارہ ڈھونڈتے ہیں۔ وہ اکثر نفسانی امراض میں گر جاتے ہیں اور ہر وقت بیٹھے اپنے مقدر کو کوستے رہتے ہیں۔

وہ خود اپنی قسمت پر نوحہ کناں ہوتے ہیں۔ اور ہر وقت خدا سے گلے شکوے کرتے ہیں اور اپنی ذات پر ایسے طنزیہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہماری قسمت کھوٹی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا وہ اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہیں یا وہ اپنے خدا کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ کیا ایسے خیالات میں روشنی اور زندگی کی حرارت موجود ہے جو انہیں سیدھا راستہ دکھا سکے۔ شاید ایسا ممکن نہ ہو کیونکہ کوئی بھی بات اس وقت تک حقیقت کا لبادہ نہیں عورتیں جب تک اسے حقائق کے ترازو میں تولا نہ جائے۔

بلاشبہ حقائق انمٹ اور ناقابل فراموش ہوتے ہیں۔ ان کی حقیقت کسی بھی دور میں ختم نہیں ہوتی۔ اکثر ہم اس وہم و گمان میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہمارے مقدر کی ریکھائیں ہمارے ہاتھوں پر لکھی ہوتی ہیں۔ ان کی گردش ہمیں مقدر کی سمت دکھاتی ہے کہ تمہاری قسمت کی ریکھائیں مشرق سے طلوع ہوتی ہیں اور مغرب میں غروب ہوتی ہیں۔ سوچ کی ان پرچھائیوں میں کتنی صحت و صداقت ہے یہ تو وقت کا ریموٹ کنٹرول آلہ ہی بتا سکتا ہے کے ہماری قسمت کا حجم کتنا بڑا ہے؟

کیا یہ ہمارے فرسودہ خیالات کا بناوٹی دیا نہیں ہے جس کی مصنوعی روشنی سے ہم دھوکہ کھاتے ہیں اور ہم ان بلوں میں ہاتھ ڈالتے ہیں جہاں سانپ ہمیں ڈسنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ ایسے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں تاکہ ہم انسان پر حملہ کر کے اسے نقصان پہنچائیں۔ شاید یہ روشنی کا ہمارے اندر ایک بناوٹی دیا ہوتا ہے جہاں اس کی بناوٹی تصویر ریکھاؤں پر نظر آتی ہے، لیکن یہ بات حقیقت کے برعکس ہوتی ہے۔ یہ ایک الگ ایشو ہے کہ کوئی محلوں میں آنکھ کھولتا ہے اور کسی کو آنکھ کھولنے کے لیے جھونپڑی نصیب ہوتی ہے۔

اگر آپ اس بات کو دل جمی سے سوچیں اور اس پر غور و فکر کریں تو آپ کو خود ہی اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ کوئی دولت کے موتی نگل کر امیر نہیں ہوتا، بلکہ وہ محنت اور ایمان کا دامن تھام کر اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ اور پھر وقت اسے آہستہ آہستہ سرخرو کرنا شروع کر دیتا ہے۔

بلاشبہ ہماری زندگی حسرتوں کی محتاج ضرور ہوتی ہے۔ لیکن ان خواہشات کی تکمیل کے لیے محنت کی چابی ڈھونڈنا پڑتی ہے، تب کہیں جاکر مقدر کا تالا کھلتا ہے۔ آپ کے حالات چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو؟ اگر آپ کے ارادے مضبوط ہیں تو آپ طوفانوں اور آندھیوں میں سے بھی گزر کر اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔

لیکن دنیا میں ہمیشہ انہی ہاتھوں کو بوسہ دیا جاتا ہے، جنہوں نے کبھی کسی کا ناجائز گلا نہیں گھونٹا، ان کے ہاتھ خون سے پاک ہوں، نا ان ہاتھوں نے رشوت لی اور نہ کسی کو دی ہو۔ یہی ان ہاتھوں کی فنی و نفسیاتی چابکدستی ہے، جو پاکیزہ ہاتھوں کو بابرکت بنا دیتے ہیں اور گناہ آلودہ ہاتھوں کو بے برکت۔ ہم اپنی زندگی کو ناکام کیوں بناتے ہیں؟ شاید یہ سوال ہم سب کو سوچنے پر مجبور کر دے۔ کیونکہ جب تک ہم سوچتے نہیں ہم اس وقت تک کسی چیز کا کھوج نہیں لگا سکتے اور نا اپنی قسمت کا احوال دریافت کر سکتے ہیں۔ البتہ ایک بات جو ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیا ہمارے ہاتھ گناہ آلود تو نہیں ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ان میں نہ قسمت کی حرارت اور نہ کشش ثقل کی قوت۔ ذرا اس بات کو سوچے کیا انسان سانچے کے بغیر اینٹ بنا سکتا ہے؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔

البتہ جو چیز ہمیں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ وہ پاکیزگی اور محنت ہے جس کا پھل کبھی ضائع نہیں جاتا بلکہ وہ بارور ہو کر دگنا ہو جاتا ہے۔ آئیں ان فرسودہ اور بہروپیا خیالات کو محنت شاقہ سے غسل دیں۔ تاکہ ہم ہاتھ کی ریکھاؤں پر اپنی قسمت کا ستارہ نہ ڈھونڈیں بلکہ اپنے خدا پر کامل یقین رکھتے ہوئے محنت اور پاکیزگی کا دامن تھام کر آگے بڑھتے جائیں۔ یہی وہ حقیقت کا آئینہ ہے۔ جو ہمیں اصلی تصویر دکھاتا ہے۔ ہمیں آئینے میں وہی کچھ نظر آتا ہے جو حقیقت میں ہوتا ہے۔

اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ہاتھ کی ریکھاؤں پر قسمت کا ستارہ نہ دیکھیں بلکہ خدا کی قدرت پر انحصار کرتے ہوئے محنت اور پاکیزگی کو ترجیح دیں۔ کیونکہ جب تک ہم اپنے ہاتھوں کو پاکیزہ نہیں رکھتے اس وقت تک ہماری قسمت سبز رنگ کا اشارہ نہیں دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments