بچوں کو کتاب تھمائیں


شوق اگر جنون بن جائے تو اچھے بھلے انسان کو یا تو بنا جاتا ہے یا پھر ڈبو دیتا ہے، اور اگر شوق بچپن سے ہی جنون بن جائے تو انسان کے بننے یا بگڑنے کا عمل بچپن سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اگر شوق اچھا اور تعمیری ہو تو انسان بچپن سے ہی بہترین انداز میں فکری طور پر پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے، لیکن اگر بد قسمتی سے انسان کسی منفی لت کا شکار ہو جائے تو تباہی اور بربادی کی بنیاد بچپن سے ہی پڑ جاتی ہے پھر اس عمارت کی بنیاد میں لگی ٹیڑھی اینٹ کو سیدھا کرنے کی ہر کوشش بے سود رہتی ہے۔

تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جن افراد میں بچپن سے کتاب دوستی کا رجحان پیدا ہو گیا، انہوں نے سن شعور میں قدم رکھنے کے بعد اپنی عملی زندگی میں کامیابی اور کامرانی کے جھنڈے گاڑے۔ معروف انگریزی شاعر سیموئل ٹیلر کولرج کو بچپن سے مطالعے کا شوق تھا، باپ پادری تھا اور کتابوں کے سخت خلاف تھا، لیکن کولرج کو باپ کے مذہبی خیالات اور اصول و قواعد کا قیدی بن کر رہنا پسند نہیں تھا، وہ کتابیں اٹھا کر مطالعہ کے لیے گھر سے باہر چلا جاتا تھا۔

ایک بار ایسا ہوا کہ کتاب پڑھتے شام ہو گئی باپ کی مار کا خوف اس پہ کپکپی بن کر طاری ہو گیا اور وہ گھر کے قریب باغ میں جاکر بیٹھ گیا اور سخت سرد رات وہیں کاٹ دی، رات کو برف باری ہوتی رہی اور وہ ساری رات کتاب بغل میں دبا کر بیٹھا رہا سخت سردی کی وجہ سے جوڑوں کا لا علاج مرض اس کے ساتھ چمٹ گیا۔ لیکن اس کتاب دوستی کی وجہ سے، سولہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے کولرج میں بہت سی ادبی اور فکری تبدیلیاں رونما ہو چکی تھی، ورڈذ ورتھ سے ملاقات نے کولر کے اندر موجود علم کے سمندر میں تلاطم برپا کر دیا تھا، پھر تو اس نے دل کھول شاعری کی اور انگریزی ادب کو نادر علمی تحفے عطا کیے۔

اسی طرح جب تمام سکول کے لڑکے کھیلتے تو شیلے کتابوں میں غرق ہوجاتا تھا، کھیلنے والے لڑکے اس کو پاگل اور جنونی کہہ کر چھیڑتے لیکن وہ دنیا و مافیہا سے بے پرواہ ہو کر مطالعہ میں کھویا رہتا، وہ اپنی عادات و افکار اور باتوں سے اسکول والوں کو پاگل لگتا تھا مگر وہ رفتہ رفتہ غنایت اور مٹھاس کا استعارہ بنتا جا رہا تھا، وہ ساری عمر فطرت کی رعنائیوں میں کھویا رہا اور آنے والے قلمکاروں کے لیے ایک مثال بن کر ابھرا کہ بہت سے لکھاریوں نے اس کی انگلی پکڑ کر اپنی ادبی سفر کا آغاز کیا۔

مشہور انگریزی شاعر جان کیٹس نے کمزور مالی حالات کی وجہ سے بچپن میں ہی ایک ہسپتال میں نوکری کر لی تھی، وہ سارا دن نوکری کرتا اور رات کو سرجری روم میں بیٹھ کر مطالعہ کرتا، اسے شدید خوف لاحق ہو گیا تھا کہ اس کی نوکری اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو چاٹ نہ کھائے، عین عالم شباب یعنی 25 سال کی عمر میں موت اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے گی مگر جانے سے پہلے وہ انگریزی ادب کو اپنی شاعری سے مالامال کر گیا۔

ان تمام نامور ہستیوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ انہیں بچپن سے ہی مطالعہ اور کتاب دوستی کا گہرا شوق پیدا ہو گیا تھا، اسی شوق نے ان کی زندگی کی پختہ راہیں متعین کر دی تھیں، انھیں بہت جلد اس میدان کا ادراک ہو گیا تھا جس میدان میں کام کر کے انھیں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے تھے۔ یہ بصیرت انہوں نے مطالعے کے ذریعے کتابوں سے حاصل کی تھی۔

آج ہمارے نوجوان اگر مقصدیت سے دور ہیں تو اس کی بڑی وجہ کتاب سے بعد ہے۔ بچوں میں بچپن سے کتابوں کو چسکا پیدا نہیں ہوتا تو پھر عمر کے کسی اور حصے میں کتابوں کی طرف راغب ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں ایک اہم امر یہ ہے کہ بچے خاص قسم کے لٹریچر کی طرف ہی مائل ہوتے ہیں، جن میں ان کی دلچسپی کا سامان موجود ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ان کی ذہن سازی کے مقصد کو پورا کرنا بھی بہت ضروری امر ہے، اس لحاظ سے بچوں کا ادب تخلیق کرنا خاصا مشکل کام ہے اور عہد حاضر میں یہ مشکل کام کرنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔

خواجہ مظہر نواز صدیقی بھی ان نمایاں لکھاریوں میں سے ایک ہیں جو بڑے بامقصد انداز میں بچوں کا ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے مختصر کہانیوں پر مبنی کتاب ”پہلا قدم“ کے نام سے تصنیف کی ہے۔ اس کتاب میں آٹھ سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے بچوں کے لئے کہانیاں موجود ہیں۔ ہر کہانی ایک سبق لیے ہوئے ہے اور یہ کہانیاں خواجہ صاحب کے وسیع تجربے کی عکاس ہیں ان کہانیوں میں بچوں کے ساتھ بڑوں کے سیکھنے کے لئے بھی بہت سا سامان موجود ہے۔

وہ والدین جو اپنے بچوں میں علم کی پیاس پیدا کرنا چاہتے ہیں اور انھیں علم و دانش کا شاہ سوار دیکھنا چاہتے ہیں، انھیں اپنے بچوں کے لیے یہ کتاب ضرور خریدنا چاہیے۔ بچوں کو دیگر قیمتی تحائف دینے کی بجائے کتاب کا تحفہ دینے کے کلچر کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، اس طرح معاشرے میں علمی اور فکری بلندی کے ساتھ انکسار اور برداشت جیسے رویے بھی جنم لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments