جام کی سوزوکی


جام صاحب اپنی ماضی بعید کے قصے اکثر سنایا کرتے ہیں جو ان کے نزدیک کل کی بات ہے۔ ان سے ایک مشہور الزماں قصہ ان کی سوزوکی کے بارے میں ہے جو ان کو ان کے والد محترم کی جانب سے میٹرک میں اعلیٰ نمبروں یعنی سیکنڈ ڈویژن حاصل کرنے کے بعد تحفہ کے طور پر دیا گیا تاکہ وہ کالج میں شان کے ساتھ داخلہ لے سکیں بشرطیکہ ان کو کسی کالج نے داخلہ دے دیا تو ، قصہ مختصر یہ کہ ایک دن آپ گھر تشریف لائے تو سامنے ایک پرانی مشین جس کے دو پہیہ تھے نظر آئی، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ صدیوں پرانی مشین ایک سوزوکی کی موٹرسائیکل ہے جو سوزوکی ففٹی کہلاتی ہے۔

بغور معائنہ کرنے کے بعد جام صاحب کو اندازہ ہوا، یہ ان کا تحفہ ہے جو والد گرامی ان کے قیاس میں کسی کباڑی کی دکان سے لوہے کے دام خرید لائے تھے۔ والد صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے سوزوکی کی خوبیوں کی ایک لمبی لسٹ نکال لی اور ان کو سنانا شروع کی۔ جام صاحب فرماتے ہیں کہ ہم نے ٹوکنے کی بارہا کوشش کی مگر سب بے سود، ان کو چابی دیتے ہوئے والد صاحب کہنے لگے جاؤ عیش کرو، جام صاحب قیاس کرتے ہیں کہ سوزوکی کی قیمت ان کے اس بائیسکل سے کم محسوس ہوئی جو اب غائب تھی بقول والد محترم انہوں نے بائیسکل فروخت کردی تھی کیونکہ سوزوکی کے ہوتے ہوئے ان کو اب اس کی کیا ضرورت تھی۔

انہوں نے طوعاً کرہا ان کی دلیل پر سر تسلیم خم کیا اور سوزوکی کو اپنا مان لیا ایک مرتبہ تو خیال آیا کہ جیسے نمبر ویسا انعام۔ جام صاحب نے فوراً سوزوکی کی سواری کرنے کا پروگرام بنایا۔ اسٹارٹ کرنے کی کافی کوشش کی مگر نتیجہ صفر، کیکیں مار مار کر جام صاحب کی زبان منہ سے باہر نکل آئی پر سوزوکی اسٹارٹ ہونے سے صاف مکر گئی۔ جام صاحب سوزوکی کو لے کر موٹر مکینک کے پاس تشریف لے گئے۔ جام صاحب کو دیکھتے ہی شبیر مکینک نے ان کو خوش آمدید کہا اور چہرے پر لکھا تھا، بیٹا اب تو چکر لگتے رہیں گے فکر کی کوئی بات نہیں، ہم کو مستقل مریض سوزوکی کی صورت میں مل گیا۔

بہرحال شبیر نے سوزوکی اسٹارٹ کردی۔ اب ذرا جام صاحب نے سوزوکی آگے بڑھائی تو سوزوکی جھٹکے سے بند ہو گئی۔ اس بار انجن چل رہا تھا پر سوزوکی آگے بڑھنے سے انکاری تھی۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ سوزوکی کا چین اتر کر پچھلی گراری میں اڑ چکی تھی، جام صاحب نے بڑی محنت اور ہمت کے ساتھ چین چڑھائی۔ چین تو چڑھ گئی پر ہاتھ سارے کالے ہو کے تھے۔ اب یہ روز کا معمول بن گیا ایک دن ایک ساتھی طالب علم نے آپ سے استفسار کیا کہ آپ فوٹو سٹیٹ کی دکان پر کام کرتے ہیں، انہوں نے جب انکار کیا تو وہ بولے پھر آپ کے ہاتھ کالے کیوں رہتے ہیں؟

اس کا جواب جام صاحب کے پاس نہ تھا۔ ایک دن جام صاحب اپنے دوست کو لے کر سیر پر نکلنے لگے سوزوکی اسٹارٹ کی گیئر لگایا جب کلچ چھوڑا تو سوزوکی پچھلے ویل پر کھڑی ہو چکی تھی اور ایک ویل پر چلی جا رہی تھی۔ جام اور دوست صاحب نیچے سڑک پر تھے اور سوزوکی سامنے درخت میں جا لگی، لوگ یہ تماشا سوزوکی اور جام صاحب کی حالت زار پر قہقہے لگا رہے تھے، جام صاحب سوزوکی کے کلچ کو یاد کر رہے تھے جو کل ہی انہوں نے شبیر مستری سے ٹھیک کرایا تھا۔

ایک دن ان کی ففٹی دوست کے گھر کھڑی تھی تو دوست کی والدہ تشریف لائیں، بڑے غصہ میں انہوں نے حکم صادر فرمایا یہ اپنا کباڑ سڑک پر کھڑا کیا کرو جب بھی تم آتے ہو تمہاری موٹر سائیکل تحفے میں موبل آئل کے دھبے دے جاتی ہے۔ یہ داغ لاکھ دھونے سے بھی نہیں جاتے۔ ہمارے نئے فرش کا اس نے بیڑا غرق کر دیا ہے۔ انہوں نے سوزوکی نکالی اور گھر کی راہ لی اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ انہوں نے کتنی مرتبہ شبیر مستری سے انجن آئل کی لیکیج ختم کروائی تھی مگر سوزوکی میں اتنے سوراخ تھے کہ ہر دن نئے سوراخ سے آئل لیک ہو جاتا تھا۔ ایک طرف انجن آئل جلدی ختم ہو جاتا تھا اور عزت مفت میں ہوجاتی تھی۔

ایک دن جام صاحب نے اپنے ہمسائے سے شرط لگائی کہ ان کی ففٹی، اس کے 125 سے ریس جیت سکتی ہے۔ ریس کا ٹائم مقرر ہوا، ریس شروع ہوئی اور جام صاحب ریس جیت گئے لیکن سوزوکی کا انجن سیز کرا بیٹھے، اب جب اس کی مرمت کے لیے شبیر مستری کے پاس تشریف لائے تو اس نے جو بل بنا دیا وہ موٹرسائیکل کی قیمت سے تین گنا زیادہ تھا۔ والد صاحب کے گوش گزار کیا تو انہوں نے فرمایا بیٹا تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ سوزوکی کے مزے لے سکو کل سے کالج بس پر جانا، وہ دن اور آج کا دن سوزوکی ایک درخت کے نیچے کھڑی پتے کھا رہی ہے۔ کباڑی نے بھی اس کو لینے سے انکار کر دیا ہے کہ اس کا لوہا گل چکا ہے ہمارے کس کام کا یہ ناقص لوہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments