جب ریما نے محفل میلاد لوٹ لی


’ریما یہ میرے سوٹ تو دیکھو، میلاد کے لئے سلوائے ہیں۔ کم از کم تین چار جگہ تو جانا ہی ہے۔ ‘ پچیس سالہ ہاجرہ نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا۔

’ہاں بہت اچھے ہیں۔ ‘ ریما نے انجانے میں اپنے پہنے ہوئے آسمانی رنگ کے سوٹ کو دوپٹے سے چھپاتے ہوئے کہا۔

’پتا ہے ریما کتنے میں آئے ہیں۔ یہ تین تو پانچ پانچ ہزار کے ہیں۔ ایک سات کا ہے۔ اور یہ دیکھو کتنا خوبصورت، کام دیکھو کہ نظریں ہٹتی ہی نہیں۔ بھلا بتاؤ کتنے کا ہو گا۔‘ ہاجرہ کی آواز اونچی ہوتی جا رہی تھی۔

’مجھے کیا پتا میں تو بازار جاتی ہی نہیں۔ یہ دس ہزار کا ہو گا۔‘ ریما کی آواز آہستہ لیکن خود اعتمادی سے بھر پور تھی۔

’بدھو کہیں کی، تمہیں اندازہ نہیں کہ اس طرح کا سوٹ بازار میں بارہ ہزار سے زیادہ کا ملتا ہے۔ لیکن کسی کو نہیں بتانا کہ میں نے یہ بھی دس کا لیا ہے۔ اسٹور کا منیجر تو مجھ پہ خاص مہربان ہے۔ میں اس سے کبھی قیمت کم نہیں کرواتی خود ہی دوڑا دوڑا آتا ہے اور رعایت کر دیتا ہے۔ ‘

’واہ بھئی تم لوگوں کی کیا باتیں ہیں! ‘ ریما نے ہلکی سی جمائی لیتے ہوئے کہا۔

’اچھا تم بتاؤ کہ تم نے کچھ کپڑے خریدے ہیں میلاد کے لئے، بہت اچھے اچھے ڈیزائن آئے ہیں بازار میں۔ ‘ ہاجرہ نے اپنے بائیں طرف کی لٹ کو نمایاں کرتے ہوئے کہا۔

’ہاجرہ،‘ پھر ریما رک گئی۔ ’میں نے تو کچھ بھی نہیں سلایا یا خریدا۔‘
’تو تم میلادوں میں شرکت نہیں کرو گی!‘ ہاجرہ نے گھورتے ہوئے کہا۔
ریما نے برجستہ کہا۔ ’نہیں میرے پاس ایسے کپڑے کہاں جو میلاد شریف میں جاؤں۔ ‘

’بھلا یہ کیا بات ہوئی تم شفیق سے کیوں نہیں کہتی کہ کوئی ڈھنگ کا کاروبار کرے تا کہ تم بھی کہیں آنے جانے کے قابل ہو سکو۔‘

’کاروبار سیٹ کرنے میں وقت لگتا ہے۔ شفیق بڑی محنت کر رہا ہے اس کو چلانے کے لئے۔ اس لئے اکثر صبح جلدی نکل جاتا ہے۔ اچھا یہ بتاؤ ہاجرہ کہ میلاد میں جانے کے لئے مہنگے یا نئے کپڑے پہننا ضروری ہیں۔ ‘ ریما نے ہاجرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بات کہی۔

’بھئی اب تم کیسی باتیں کرنے لگ گئی ہو زندگی سے بیزار۔‘
’نہیں نہیں میں تو ایسے ہی پوچھ رہی۔ ‘
ہاجرہ نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا۔ ’تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں شاپنگ کروا دوں گی۔‘
ریما نے ٹھٹھک کر کہا۔ ’میں تو شفیق کے ساتھ جاؤں گی میں اسی کے پسند کے کپڑے پہنتی ہوئی نا۔‘

’تم پر تو شفیق نے جادو کر دیا ہے۔ ہاجرہ نے ریما کے کپڑوں کو گھورتے ہوئے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ‘ آج کل تو مردوں کو زن مرید بنایا جاتا ہے اور تم ہو کہ شفیق کو دیوتا کی طرح پوجتی ہو۔ ’

’ہاجرہ بس میں اپنے شفیق کو تنگ نہیں کرنا چاہتی، جتنے پیسے وہ دیتا ہے اسی میں خوشی خوشی گزارہ کر لیتی ہوں۔ ‘

ہاجرہ کے لہجے میں تیزی آ گئی تھی۔ ’ارے پگلی عورت! تمہارا نام شفیق ہونا چاہیے تھا، شفیق کے گن گانے کے بجائے کچھ اپنی حالت بدلو اور کچھ گھر کی حالت۔‘

ریما جواب میں صرف مسکرا دی اور باہر خلا میں گھورنے لگ گئی۔ ’تم بہت بدل گئی ہو ہاجرہ۔ ریما نے قمیض سیدھی کی۔‘ کالج میں تم روٹی کپڑا مکان کے نعرے لگاتی نہیں تھکتی تھی۔ اب تم، تم بس کچھ اور ہی چیز ہو! ’

’ارے چھوڑو، وہ تو جذباتی دور تھا۔ اور تم کتنا فیشن کرتی تھی اور اب دیکھو تمہیں کچھ اپنی پرواہ ہی نہیں۔ ‘

ریما کچھ سوچ کر بولی۔ ’لیکن میں زندگی سے بہت مطمئن ہوں۔ اچھا تم بتاؤ کہ تمہاری ساس کی طبیعت اب کیسی ہے؟‘

۔ ۔
’کیسی رہی ملاقات اپنی پرانی سہیلی سے۔ ‘ شفیق نے ریما سے چائے لیتے ہوئے کہا۔
’اچھی رہی مگر اب وہ۔‘ ریما الفاظ ڈھونڈ رہی تھی۔
’مگر کیا؟ ‘ شفیق نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
’اب ہاجرہ زیادہ تر کپڑوں وغیرہ کی باتیں کرتی ہے۔ ‘
’فارغ عورتوں کا یہی تو محبوب مشغلہ ہے۔ ‘ شفیق مسکرا رہا تھا۔
’لیکن شفیق میں تو ایسا نہیں کرتی۔ میلاد کی محفلوں میں جانے کے لئے اس نے بہت سارے سوٹ خریدے ہیں۔ ‘
’ہوں، لیکن میری بیوی تو بہت سمجھ دار ہے۔ ‘

ریما کا چہرہ خوشی سے کھل گیا۔ ’ہاجرہ مجھ سے بھی شاپنگ کے لئے چلنے پہ پوچھ رہی تھی۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ شفیق جتنے پیسے مجھے دیتا ہے میں اسی میں اخراجات پورے کر لیتی ہوں اور کبھی اسے تنگ نہیں کرنا چاہتی۔ ‘

’تو کیا کہا تمہاری سہیلی نے؟‘ شفیق اب ذرا سنجیدہ ہو گیا تھا۔

’بس اوٹ پٹانگ بولے جا رہی تھی۔ اب میں سوچ رہی ہوں کہ میلاد میں نہ جاؤں کیوں کہ میرے پاس ان جیسے لوگوں کی طرح کے زیورات اور کپڑے نہیں ہیں اور نہ ہی میں ان کی طرح بال بناتی ہوں یا میک اپ کرتی ہوں۔ ‘

’یہ تو نہ جانے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ جو بھی تمہارے پاس اچھے والے کپڑے ہیں پہن لینا۔‘ شفیق آہستہ سے بولا۔ ’تمہیں پتا ہے کہ میں دیانتداری سے کام کرتا ہوں اس لئے میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ‘

ریما کے چھوٹے سے ماتھے پہ بل آ گئے لیکن وہ خاموش رہی زبان سے۔

شفیق چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولا۔ ’بھئی مجھے تو اپنی بیوی پہ فخر ہے کہ وہ ان چیزوں سے بالاتر ہے۔ ‘

’کب تک مجھے ایسی باتوں سے۔ ؟‘
شفیق نے آنکھیں چندھیا کر دیکھا۔ بولو بولو رک کیوں گئی تم؟ ’
ریما شفیق کی عقابی نظر کی تاب نہ لا سکی اور فرش کو گھورنے لگ گئی۔
’دل کی بات کہہ دو ۔‘ شفیق نے قریب آ کر پیار بھرے لہجے میں کہا۔

’میں کب تک ایسے ہی تنگی کی زندگی گزارتی رہوں گی۔ تمہارے کاروبار میں کب جان آئے گی! میں بھی تو ایک عورت ہی ہوں اوروں کی طرح۔ اتنی محنت کے باوجود کام آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ کبھی تم بھی اس بارے میں کچھ سوچتے ہو یا ہمیشہ روکھی سوکھی کھاتے رہو گے؟‘

شفیق پر یہ حملہ اس کی کی توقع کے عین خلاف تھا۔ ’اگر میں نے کوئی تیر نہیں مارا تو تم بھی تو پڑھ لکھ کر گھر میں بیٹھی ہو تمہاری سہیلیاں کتنا کتنا کما رہی ہیں! تمہیں سونے اور ڈرامے دیکھنے کے علاوہ اور کیا کام ہے؟‘

اب ریما کی آواز بہت اونچی ہو گئی۔ ’میں نے تم سے کتنی بار کہا مجھے کاروبار میں شامل کر لو تاکہ میں تمہارا ہاتھ بٹا سکوں اور تم مارکیٹنگ کی طرف زیادہ توجہ دو ۔ یہ تمہاری اپنی انا ہے، میری قابلیت سے گھبراتے ہو تم۔‘

’مجھ پر جھوٹا الزام نہیں لگاؤ، تم کاروبار سنبھالنا چاہتی ہوں کل سے آؤ فیکٹری میں صبح دس بجے۔ ‘
’ٹھیک ہے ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ ‘ ریما کی آواز میں اعتماد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

شفیق کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ وہ چھوٹے کمرے میں چلا گیا اور اس کے پیچھے دروازہ زور سے بند ہونے کی آواز آئی۔

ریما موتیا اور گلاب کے پودوں سے سجے ہوئے خوبصورت مہکتے دالان سے گزر کر کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے آداب کے انداز سے سب کو سلام کیا، میزبان کو گلے لگایا اور اس سے کچھ رسمی باتیں کرنے کے بعد کرسی پر بیٹھ گئی۔ کچھ عورتیں ابھی تک ریما کو گھور رہی تھیں۔ ہاجرہ اس کشادہ کمرے کے دوسری طرف سے ریما کی طرف لپکی اور ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گئی۔ ’ریما تم نے تو آج کمال ہی کر دیا! اتنا اچھا سوٹ اور یہ کشمیری شال، کیا بالوں کا اسٹائل، اور یہ کتنا سندر ہلکا ہلکا میک اپ، اور یہ دو نگوں والا ازبکستانی لاکٹ، یہ تو کمال کی شے ہے۔ ‘

’او ہو تم تو میرے پیچھے ہی پڑ گئی اگر کبھی میں نے بھی تھوڑا بہت فیشن کر لیا۔ تم اپنی طرف تو دیکھو، ہمیشہ کی طرح نفیس اور فیشن ایبل۔‘

ہاجرہ نے سنی ان سنی کر دی۔ ’ریما کی بچی، بھئی تم تو چھپی رستم نکلی۔ بس یہ میلاد سمجھ لو تم نے لوٹ لیا!‘

ریما مسکرا دی، ایک معنی خیز مسکراہٹ۔ پھر وہ اپنے ہونٹ ہاجرہ کے کان کے بالکل پاس لے گئی۔ ’ہاجرہ، مجھے نہیں پتا کہ یہ میلاد کی محفل میں نے لوٹ لی یا نہیں لیکن شفیق نے ضرور اس میلاد شریف میں میری شرکت کے لئے کسی کو لوٹا ہے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments