افغانستان میں طالبان: 21 سال سے لاپتہ والد کی تلاش، ’جب تک زندہ ہوں انھیں تلاش کرتا رہوں گا‘


کابل پل چرخی جیل
طالبان کے آنے کے بعد افغانستان کی دیگر جیلوں کی طرح پُل چرخی جیل سے بھی تمام قیدی کو رہا کروا دیا گیا تھا
’جیل توڑ دی گئی ہے، سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں، آپ کیوں نہیں جا رہے ہو؟‘

یہ سوال تین ہفتے پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک شخص پُل چرخی جیل میں موجود ایک ذہنی معذور طالب قیدی سے پوچھ رہا تھا۔

قیدی جواب دیتا ہے ’چلے جائیں گے، میرے ساتھی کہتے ہیں کہ جمعہ کے بعد جائیں گے۔‘

لیکن جس وقت یہ قیدی سوال پوچھنے والے کو یہ جواب دیتا ہے تو بظاہر وہ اس بات سے لاعلم نظر آتا ہے کہ اس وقت پُل چرخی جیل میں وہ تنہا قیدی تھا کیونکہ باقی قیدیوں کو رہا کیا جا چکا تھا۔

ذہنی طور پر معذور اس قیدی کی وائرل وڈیو پُل چرخی جیل سے سینکڑوں کلومیٹر دور کوئٹہ کے قریب ایک افغان پناہ گزین کیمپ میں بیٹھے ایک نوجوان نے دیکھی تو اس کے اور اس کے خاندان کے لیے امید کی ایک کرن روشن ہو گئی۔

اس نوجوان نے یہ ویڈیو اپنی والدہ کو دکھاتے ہوئے پوچھا ’کہیں یہ میرے ابو تو نہیں ہیں؟‘

در اصل افغان پناہ گزین کیمپ کے اس 25 سالہ نوجوان قاسم (فرضی نام) کے والد گذشتہ 21 سال سے لاپتہ ہیں۔

کابل پل چرخی جیل

کابل پل چرخی جیل

کوئٹہ سے طالبان کے ہمراہ افغانستان کا سفر

سنہ 2001 میں جب امریکہ نے طالبان کے خلاف افغانستان میں جنگ کا اعلان کیا تو قاسم کے والد کوئٹہ کے سریاب روڈ پر ایک دینی مدرسے کے طالب علم تھے۔ مدرسے کے کئی دیگر طلبہ کے ساتھ قاسم کے والد بھی ’جہاد‘ میں حصہ لینے کے لیے افغانستان چلے گئے۔

کئی ماہ بعد مدرسے کے دیگر طالب علم تو واپس آ گئے لیکن قاسم کے والد کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ اب کہاں ہیں۔ اُن کے ایک ساتھی نے صرف اتنا بتایا کہ جب کابل طالبان کے کنٹرول سے نکل رہا تھا تب اُس کی قاسم کے والد سے وائرلیس کے ذریعے آخری بات چیت ہوئی تھی اور انھیں بتایا گیا تھا کہ ’یہاں سے نکل جاؤ۔۔۔ ہمارے سارے ساتھی نکل چکے ہیں۔‘

قاسم کے والد نے جواب دیا تھا کہ ’میرے لیے جانے کے سارے راستے بند ہیں، بس دعاؤں میں یاد رکھنا۔‘

گذشتہ 21 برسوں کے دوران قاسم کے خاندان کو مختلف ذرائع سے چھ مرتبہ ایسی خوشخبریاں ملی ہیں جن میں انھیں بتایا گیا کہ اُن کے لاپتہ والد کا پتہ چل گیا ہے۔

کسی نے کہا وہ افغانستان کے فلاں شہر میں دکھائی دیے، فلاں گاؤں کے فلاں آدمی نے بتایا کہ وہ وہاں ہیں۔۔۔ غرض ایسی کئی خبریں اُن تک پہنچیں لیکن ان کے والد گھر نہیں لوٹے۔ ہر اطلاع کی تحقیقات کے بعد پتہ چلتا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔

والد کی واحد نشانی

اب جب قاسم کے پاس پُل چرخی جیل کی یہ ویڈیو آ گئی تھی تو انھیں یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید یہی ان کے والد ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنے والد کی صرف ایک تصویر ہی دیکھ رکھی ہے۔ جب اُن کے والد سنہ 2001 میں افغانستان جا رہے تھے تو اُس وقت قاسم کی عمر لگ بھگ چار سال تھی اور اب انھیں اپنے والد کی شکل و صورت یاد نہیں ہے۔

اُن کے گھر میں اگر کسی کو اُن کے والد کی کوئی نشانی یاد ہے بھی تو وہ قاسم کی والدہ ہیں، جو گذشتہ 21 سال سے اپنے شوہر کی زندہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔

قاسم کو یہ فکر بھی تھی کہ اگر انھوں نے اپنی والدہ کو یہ قصہ سُنایا اور بعد میں یہ بھی ماضی کی طرح غلط ثابت ہوا تو خدشہ تھا کہ ان کی بیمار والدہ کی طبعیت مزید بگڑ جائے گی۔

تاہم کئی رشتہ داروں کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد قاسم نے اپنی ضعیف والدہ کو یہ ویڈیو دکھا دی۔

لیکن اس ویڈیو میں نظر آنے والا شخص بوڑھا تھا اور اُس کے چہرے پر دائیں آنکھ کے پاس ایک زخم کا نشان تھا جو ان کے والد کے چہرے پر موجود زحم سے مماثلت رکھتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پل چرخی کے طالبان قیدی کیا سوچ رہے ہیں؟

’طالبان پہلے ساتھ والے گھر میں داخل ہوئے پھر رات کو ہمارا دروازہ بھی کھکھٹایا‘

’شاید میں اپنے والد کی طرح اپنے بچوں کو یہ نہ کہہ سکوں کہ ہم پھر افغانستان جائیں گے‘

اگرچہ ویڈیو میں نظر آنے والے قیدی طالب کی آواز اور بات چیت کا انداز قاسم کے والد کی طرح نہیں تھا مگر چہرے کی بناوٹ، لمبی داڑھی، ہاتھ اور پاؤں قاسم کے والد سے ہو بہو ملتے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ قاسم اور اُن والدہ کو یقین ہو چلا تھا کہ یہی اُن کے والد ہیں۔

آواز اور بات چیت کا انداز مختلف ہونے کے بارے میں انھوں نے خود سے یہ فیصلہ کیا کہ ’اکیس سال کی قید انسان کو اتنا بدل سکتی ہے۔‘

کئی دن کے صلاح مشوروں کے بعد قاسم نے کوئٹہ سے کابل جانے کا فیصلہ کیا۔

روانگی سے قبل انھوں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ ’میرے والد کی کوئی اور نشانی بھی بتا دیں۔‘ جس پر انھوں نے بتایا کے ان کے شوہر کے دائیں بازو کے نیچے ایک زخم کا نشان تھا۔

کابل پل چرخی جیل

جیل کی کھڑکیوں سے جھانکتے قیدی

اکیس برس اکیس صدیوں کے برابر

قاسم کی والدہ نے بی بی سی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بتایا ’شوہر کے بغیر اکیس سال میرے لیے اکیس صدیوں کے برابر ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے دونوں بیٹوں کو والد کے بغیر پالا ہے اور اُن کے چھوٹے بیٹے کی عمر صرف دو سال تھی جب اُن کے والد لاپتہ ہوئے۔

اگر ذہنی طور پر معذور طالبان قیدی ان کے شوہر ہوئے تو اس سوال پر قاسم کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتیں کہ وہ اب اس ذہنی معذور خاوند کے ساتھ کیسی زندگی گزاریں گی لیکن ’صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ کم از کم میرے خاوند کی قبر تو معلوم ہو جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے شوہر انھیں پہچان نہیں پائیں گے اور نہ ہی اپنے بیٹوں کو، لیکن پھر بھی وہ پر اُمید تھیں کہ ’ہو سکتا ہے کہ مجھے اور بیٹوں کو دیکھ کر اُن کی ذہنی کیفیت ٹھیک ہو جائے اور وہ ہم سے بات کر سکیں۔‘

طالبان

والد کی تلاش میں افغانستان کا سفر

قاسم نے فیصلہ کیا کہ وہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کی مشہور جیل پُل چرخی جائیں گے اور شاید 21 سال بعد انھیں ان کے والد مل جائیں۔

سفری اخراجات کا بندوبست کر کے قاسم اپنے ایک دوست کے ہمراہ کوئٹہ سے چمن اور چمن سے قندھار پہنچے۔ اگرچہ ان کی منزل کابل تھی لیکن قندھار پہنچنے پر ہی بعض طالبان نے قاسم کو بتایا کہ وہ ذہنی معذور شخص اب پل چرخی جیل میں نہیں ہیں اور ایسی اطلاعات ہیں کہ انھیں کوئی شحص پہلے ہی وہاں سے لے گیا تھا۔

پل چرخی میں طالبان اہلکاروں سے بات کرنے کے بعد قاسم اُس قیدی کو لے جانے والے لوگوں کا رابطہ نمبر اور گھر کا پتہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ قاسم کی اگلی منزل قندھار سے ایک دوسرے صوبے کا شہر تھا جہاں پل چرخی جیل کے اس قیدی طالب کو لے جایا گیا تھا۔

ایک دن کا مزید سفر کرنے کے بعد جب وہ رات کو اس پتے پر پہنچے تو قاسم کا کہنا تھا کہ وہ فرط جذبات سے آبدیدہ ہو رہے تھے۔ انھیں یہ یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ چند گھڑیوں بعد وہ اس قیدی سے ملاقات کریں گے، جو ان کے بقول ’شاید میرا باپ ہو۔‘

قاسم کا کہنا تھا ’جب پہلی مرتبہ میری نظر اُس قیدی پر پڑی، مجھے رونا آیا۔‘

’میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے والد کی قربت محسوس کی اور میں نے پہلی مرتبہ ایک انسان کو ’والد‘ کی نظر سے دیکھا۔‘

لیکن قاسم کے جذبات میزبانوں کے ابتدائی کلمات نے ہی منجمد کر دیے۔

گھر والوں نے چائے اور پانی سے بھی پہلے بتایا کہ ’ہمارے یہ بھائی کئی سال سے لاپتہ تھے اور پہلے بھی ذہنی طور پر بیمار تھے لیکن اب قید کی وجہ سے اس کی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔‘

ویڈیو میں دیکھے گئے اس بوڑھے قیدی کے گھر والے انھیں پا کر خوش تھے اور قاسم اپنی حصہ میں آئی اس ساتویں تلاش کی مایوسی کو خود پر حاوی ہونے سے روک رہے تھے۔

اگرچہ قاسم واپس کوئٹہ لوٹ آئے ہیں اور اس شخص کی پہچان اپنے والد کے طور پر نہ ہونے کے اطلاع بھی انھوں نے اپنے والدہ کو فون پر ہی دے دی تھی۔ لیکن انھوں نے والد کے ملنے کی امید کو ترک نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ہر اطلاع پر والد کی تلاش کے لیے جانے پر تیار ہیں ’جب تک ان کی لاش یا قبر کی مصدقہ اطلاع نہیں مل جاتی ہمیں سکون نہیں ملے گا۔ جب تک میں زندہ ہوں انھیں تلاش کرتا رہوں گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments