ہماری ناکامیوں میں چھپے راز جن پر ذرا سے غور کرنے سے ہم کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں


کامیابی پر لوگ ناکامی کے مقابلے میں زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ہم کامیابیوں کا جشن مناتے ہیں اور اس کے پس پردہ عوامل کو بار بار پرکھتے ہیں تاکہ کامیابی کی وجوہات جان سکیں۔

مارکیٹ میں کامیاب لوگوں کی کہانیوں کو اکھٹا کر کے ’بہترین پریکٹسز‘ کے نام سے فروخت کیا جاتا ہے تاکہ لوگ ایسے افراد کی کہانیاں اور اُن عوامل کو جان سکیں جنھوں نے کامیابی کی منزل آسان بنائی۔ جبکہ سرِشام محفلوں میں بیٹھے کامیاب لوگ اپنے اُن ’کامیاب اقدامات‘ کی بابت لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں جنھیں اپنانے سے ان کے لیے کامیابی یقینی بنی۔

اس کے برعکس ناکامیوں کو مکمل طور پر عموماً ڈھکا چھپا رکھا جاتا ہے بلکہ اپنے مقاصد میں ناکام رہنے والے لوگ اپنی ناکامی کا تذکرہ کرنے سے شرمندہ سے رہتے ہیں۔

یونیورسٹی آف شکاگو کے بوتھ سکول آف بزنس کے ماہرین نفسیات ایلٹ فشباغ اور لورن ونکلر کا کہنا ہے کہ اکثر یہ غلطیاں ہی ہوتی ہیں جن میں چیزوں اور معاملات کو بہتر کرنے کے لیے اہم معلومات چھپی ہوتی ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ہم انھیں پرکھنے کے خواہاں ہوں۔

ان ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ ہم اکثر اپنی غلطیوں سے زیادہ سیکھتے نہیں ہیں کیونکہ ہم دوسروں کی اور اپنی ناکامیوں سے سیکھتے نہیں۔ اسی طرح ہم شواہد کو بھی نظر انداز کرتے ہیں جو اس بات کا اظہار ہوتے ہیں کہ ہمارا رشتہ کسی سے ٹھیک نہیں چل رہا یا پھر ہمارا باس ہماری کارکردگی سے ناخوش ہے۔

’ہم ناکامیوں پر توجہ نہیں دیتے اور کامیاب ہونے کے لیے سبق سیکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔‘

ناکامی دوسروں کو بتانے سے ہچکچانا

ماضی میں بھی تحقیق اس بات کی نشاندہی کر چکی ہے کہ حال یا مستقبل کی ناکامیوں سے آنکھیں چرانا کتنا غیر مفید ہوتا ہے۔

اور اس رویے کو یونیورسٹی آف سفیلڈ کے ماہرِ نفسیات تھامس ویب اور ان کے ساتھیوں نے ’اسٹریج افیکٹ‘ کا نام دیا تھا۔ چاہے ہم کوئی نئی ورزش کی روٹین دیکھ رہے ہوں، کسی کمپنی کی ویب سائٹ بنا رہے ہوں یا آنے والی کسی وبا کی تیاری کر رہے ہوں، انسانی فطرت یہ ہے کہ اگر ایک مرتبہ سفر شروع کر دیا ہے تو (علامتی طور پر) سر ریت میں ڈال لیں بجائے اس کے کہ ہم اپنی پیش رفت کا جائزہ لیں، ہم اپنے دانت چباتے ہیں اور بہتری کی امید پر چلتے رہتے ہیں۔

نیویارک یونیورسٹی کے ماہرِ نفسیات گیبریئل اوٹنجن کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہم یہ سوچنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں کہ اگر ہمارا ہدف حاصل نہ ہوا تو کیا ہو گا۔ مگر جب لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے آنے والی مشکلات کے بارے میں سوچیں تو ان کے کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اب ایلٹ فشباغ اور لورن ونکلر نے اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ہے جس میں انھوں نے ہماری اس ہچکچاہٹ پر توجہ دی ہے جو کہ ہمیں اپنی اور دوسروں کی غلطیوں کو پرکھنے سے روکتی ہے۔

اپنی حالیہ تحقیق میں انھوں نے درجنوں اساتذہ سے کہا کہ وہ وقت یاد کریں جب وہ کامیاب ہوئے اور وہ جب وہ ناکام ہوئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان دونوں کہانیوں میں سے کون سی وہ اپنے ساتھی اساتذہ کے ساتھ شیئر کرنا چاہیں گے تو 70 فیصد نے کہا کامیابی والی کہانی۔

یہی چیز ہوئی جب انھوں نے سینکڑوں آن لائن رضا کاروں سے کہا کہ وہ وہ وقت یاد کریں جب وہ کام میں متوجہ رہنے میں کامیاب رہے یا پھر وہ وقت جب ان کا دھیان بٹ گیا۔ ان میں سے اکثریت اپنی توجہ قائم رکھنے کے حوالے سے اپنی ناکامی شیئر نہیں کرنا چاہتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا آپ میں غیر معمولی ذہانت کے مالک افراد میں پائی جانے والی یہ 14 عادات ہیں؟

انڈیا کے امیر لوگ خیرات کم کیوں دیتے ہیں؟

اپنے ذہین بچوں کو کامیاب کیسے بنائیں؟

کروڑ پتی بننے کے تین آسان نسخے

یہاں تک کہ جب محققین نے ان سے کہا کہ اپنی مستقبل کی نسل کو پیغام دیں تب بھی لوگوں نے کامیابی کا پیغام دینے کو ترجیح دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ہچکچاہٹ صرف اس لیے نہیں کہ آپ دوسروں پر اپنا اچھا تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں۔

معلومات سے بھری ناکامیاں

ایلٹ فشباغ اور لورن ونکلر کا کہنا ہے کہ ایک اہم عنصر یہ ہے کہ ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہے کہ ناکامیاں کس قدر معلوماتی ہو سکتی ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے ایک تجربہ کیا۔

انھوں نے ایک ایسا روزمرہ کا کام تیار کیا جس میں کامیابی کے لیے غلطیاں نہ کرنا اہم تھا۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا اس تجربے میں شریک رضاکار ایک دوسرے سے اپنی غلطیوں کے بارے میں معلومات شیئر کرتے ہیں یا نہیں، چاہے وہ اپنی کامیابیوں کے بارے زیادہ معلومات شیئر کریں۔

اس کام کے لیے درجنوں آن لائن رضاکاروں نے تین میں سے دو ڈبے کھولے جس میں وہ پیسے جیت سکتے ہیں۔ ایک ڈبے میں 20 سینٹ تھے، دوسرے میں 80 سینٹ تھے، اور آخری والے میں انھیں اپنے پاس سے ایک سینٹ دینا پڑتا تھا۔ اس کے بعد ان کے پاس موقع ہوتا تھا کہ وہ گیم کے اگلے رضاکار کو بتائیں تاکہ اُن کی مدد ہو سکے۔ ان کو یہ بھی کہا گیا کہ اگلا کھلاڑی انھیں بھی بعد میں اپنی معلومات دے سکے گا۔

مگر محققین نے صورتحال ایسی بنائی تھی کہ ہر رضاکار یا تو 20 سینٹ والا ڈبہ کھولتا تھا یا پھر خالی والا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیشہ اس بات کا فائدہ ہو کہ رضاکار اپنی ناکامی کی معلومات شیئر کریں نہ کہ اپنی قدرے کامیابی کی۔

ناکامی شیئر کرنے سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ اگلا کھلاڑی خالی ڈبہ نہ کھولے مگر 20 سینٹ والی کامیابی شیئر کرنے سے پھر بھی امکان ہے کہ اگلا کھلاڑی خالی ڈبہ کھولے۔ تاہم پھر بھی محققین کا یہی نتیجہ نکالا کہ کم از کم ایک تہائی سے نصف لوگ اپنی کامیابی شیئر کرتے ہیں ناکامی نہیں حالانکہ ناکامی شیئر کرنے سے دوسرے کھلاڑی کا فائدہ ہو سکتا ہے۔

ہم ناکامی کی اہمیت نظرانداز کرتے ہیں۔ محققین نے اس حوالے سے بعد میں ایک کوئز سے مزید شواہد دریافت کیے۔ آن لائن رضاکاروں نے قدیم علامتوں کے مطلب کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ ہر سوال کے دو ممکنہ جواب تھے۔ ایک گروہ کو کہا گیا کہ انھیں ان کے اندازوں کے نتائج دینے کا وقت نہیں تھا جبکہ دوسرے گروہ سے کہا گیا کہ انھوں نے ہر سوال کا جواب غلط دیا۔

جب ان لوگوں سے پوچھا گیا کہ وہ اگلے کھلاڑیوں کو کس سیٹ میں مدد کرنا چاہیں گے تو 70 فیصد لوگوں نے اس سیٹ پر مدد کی پیشکش کی جس کے انھیں نتائج دیے نہیں گئے تھے حالانکہ دوسرے والی میں انھیں تمام سوالوں کے درست جواب اب معلوم ہو چکے تھے کیونکہ ہر سوال کے ممکنہ صرف دو جواب تھے۔

دونوں تجربوں میں لوگوں نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ ناکامی کس قدر مفید ہو سکتی ہے۔

زیادہ توجہ دینا

اس تمام نئی تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی ناکامیوں میں چھپے سبق سیکھ کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

فش بیک کہتی ہیں کہ ’ناکامی کی صورت میں خود سے پوچھیں میں نے کیا سیکھا ہے۔ میں مستقبل میں اس سبق کا فائدہ کیسے اٹھا سکتا ہوں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ناکامیوں سے سیکھنا مشکل اس لیے بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ آپ کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچاتی ہیں۔ ’اسی لیے نہ صرف ناکامیوں پر توجہ دینا ضروری ہے بلکہ زیادہ توجہ دینا ضروری ہے کیونکہ ان سے سیکھنا مشکل ہوتا ہے۔‘

اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا مشکل ضرور ہوتا ہے مگر اگر ہم میں سے زیادہ لوگ ایسا کرنے لگیں تو ان اسباق سے ہم سب کو زیادہ فائدہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments