جنوبی پنجاب کے کاشتکار اچانک سُرخ مرچ کی فصل کے دشمن کیوں بن گئے؟


مرچ
جنوبی پنجاب میں ضلع راجن پور کے رہائشی اظہر رفیق نے رواں برس 45 ایکٹر رقبے پر مرچ کی فصل کاشت کی تھی۔

گذشتہ دنوں انھوں نے 45 ایکٹر میں سے 12 ایکٹر رقبے پر لگی مرچ کی فصل کو اپنے ہاتھوں سے روٹر چلا کر تباہ کر دیا۔ اپنے ہاتھوں سے لگائی فصل کو اپنے ہی ہاتھوں ضائع کرنے پر اظہر رفیق بہت زیادہ افسردہ تو ہیں مگر اُن کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

انھوں نے رواں برس مئی، جون کے مہینے کھیت سے سبز مرچ اُتار کر اسے بازار میں فروخت کیا تھا مگر جب اسی فصل پر زیادہ قیمت میں فروخت ہونے والی سُرخ مرچ کے پکنے اور خشک ہونے کا وقت آیا تو انھیں اپنی فصل کو تباہ کرنا پڑا۔

یاد رہے کہ مرچ کی فصل پورے سال چلتی اور پیداوار دیتی ہے۔ مئی اور جون کے مہینوں میں سبز مرچ اُترنے کے بعد اگست میں سُرخ مرچ لگتی ہے اور پھر ایک ماہ کے وقفے کے بعد یعنی اکتوبر میں دوبارہ سے مرچ کی فصل پر پھول لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔

مگر اپنے ہاتھوں اپنی فصل تباہ کرنے والے اظہر رفیق اکیلے نہیں ہیں۔

جنوبی پنجاب کے ضلع لودھراں کے رہائشی شاہد چاچڑ نے بھی اپنی مرچ کی فصل کے ساتھ یہی کچھ کیا ہے۔ شاہد چاچڑ ٹھیکے پر حاصل کی گئی زرعی زمین پر کاشتکاری کرتے ہیں۔

رواں برس انھوں نے 30 ایکٹر رقبے پر مرچ کی فصل کاشت کی ہوئی تھی۔ تاہم مرچ کے زیر کاشت رقبے کے ایک کافی بڑے حصے پر چاچڑ نے روٹر چلا کر فصل کو تلف کیا اور اس پر مکئی کی کاشت شروع کر دی۔

شاہد چاچڑ کے مطابق فی ایکٹر رقبے پر مرچ کی کاشت پر خرچہ ڈیڑھ لاکھ روپے آیا تھا۔

جنوبی پنجاب میں ہی ضلع مظفرگڑھ کے علاقے سلطان کوٹ کے رہائشی محمد جلال اور جام پور کے علاقے کوٹ مغلاں کے یوسف شیخ اور جنوبی پنجاب کے بہت سے کاشتکاروں کی کہانی بھی ایسے ہی ہے یعنی انھیں اپنی مرچ کی فصل کو اپنے ہاتھوں ضائع کرنا پڑا۔

جنوبی پنجاب میں مرچ کی کاشت کرنے والا یہ طبقہ اس فصل کی پیداواری لاگت کی وجہ سے پریشان ہے تو دوسری جانب انھوں نے مرچ کے کم نرخ اور مرچ کی فصل پر فنگس کے حملے کو فصل تلف کرنے کی وجہ قرار دیا ہے۔

مرچ

اظہر رفیق نے 12 ایکٹر رقبے پر لگی مرچ کی فصل کو اپنے ہاتھوں سے روٹر چلا کر تباہ کر دیا

جنوبی پنجاب اور مرچ کی فصل

پاکستان میں مرچوں کی پیداوار کے حوالے سے صوبہ سندھ کا علاقہ کنری سب سے زیادہ مشہور ہے۔ ملک میں مرچوں کی سب سے بڑی منڈی بھی کنری میں ہی لگتی ہے۔ اگرچہ اس میں میرپور خاص، بدین، عمر کوٹ وغیرہ کے علاقوں میں کاشت کی جانے والی مرچ کی فصل بھی آتی ہے تاہم پورے ملک میں کنری کا نام مرچ کے حوالے سے مشہور ہے۔

جنوبی پنجاب میں مرچ کی کاشت کی کہانی کچھ زیادہ پرانی بات نہیں۔

زرعی یونیورسٹی ملتان میں تعینات زراعت کے شعبے کے ماہر اور ڈین آف فیکلٹی ڈاکٹر شفقت سعید بتاتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں مرچ کی کاشت کا زیادہ رجحان نہیں تھا تاہم جب کپاس کی فصل پر منافع کم اور اس کی کاشت کم تر ہوتی گئی تو اس خطے میں کاشتکار طبقہ کپاس کے مقابلے میں دوسری فصلوں کی طرح مرچ کی کاشت کی طرح بھی راغب ہوا کیونکہ مرچ کی کاشت کی صورت میں انھیں اچھا نفع حاصل ہو رہا تھا۔

ملتان میں مقیم اور زرعی شعبے پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی سانول شیخ کہتے ہیں کہ مرچ ایک نقد آور فصل ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں کنری کی مرچ اپنے تیکھے پن کی وجہ سے زیادہ مشہور ہے اس کے بعد جام پور، راجن پور کی مرچ ہے جس کا تیکھا پن کنری سے ذرا کم ہے، اس لیے کنری کے مقابلے میں اس کا نرخ بھی کم ہے۔

سانول شیخ نے بتایا کہ گذشتہ برس مرچ کے نرخ بہت اوپر چلے گئے تھے اور کنری کی مرچ 32 ہزار روپے فی من پر فروخت ہوئی۔

مرچ

گذشتہ برس مرچ کے نرخ بہت اوپر چلے گئے تھے اور کنری کی مرچ 32 ہزار روپے فی من پر فروخت ہوئی

جام پور کے رہائشی کاشت کار اظہر رفیق نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ گذشتہ برس اچھی نسل کی مرچ 32000 سے بھی زائد نرخ پر فروخت ہوئی۔

گذشتہ برس مرچ کے زیادہ نرخوں پر فروخت ہونے کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے کاشتکار طبقے کو منافع ہوا تو رواں برس انھوں نے زیادہ رقبے پر فصل کاشت کی۔

مرچ کی زیادہ کاشت اور اس کے نتائج

کاشتکار شاہد چاچڑ نے بتایا کہ انھوں نے شروع میں مرچ کی کاشت دو، تین ایکٹر رقبے پر کی مگر پھر ہر سال وہ کاشت کا رقبہ بڑھاتے چلے گئے اور گذشتہ برس ہونے والے منافع کے بعد رواں برس انھوں نے 30 ایکٹر رقبے پر مرچ کاشت کی۔

کاشتکار اظہر رفیق کہتے ہیں کہ کاشتکاروں کی جانب سے مرچ کی کاشت کا رقبہ بڑھانے کا عمل جنوبی پنجاب کے متعدد اضلاع میں ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

کپاس کی سفیدی پر مرچوں کی سرخی حاوی

پاکستان میں باسمتی چاول ’کرنل باسمتی‘ کیسے بنا؟

وبا کے دور میں امید کی کرن بننے والی پاکستانی خاتون کاشتکار کی کہانی

’میں اب گنے کی فصل کاشت کرتا ہوں، لیکن دل آج بھی کپاس کی فصل اگانے کو کرتا ہے`

تاہم جب فصل زیادہ کاشت ہوئی تو اس کا اثر نرخ پر منفی انداز میں پڑا۔ اظہر رفیق نے بتایا کہ گذشتہ برس مرچ 30 ہزار روپے فی من سے زیادہ نرخ پر فروخت ہوتی رہی تاہم رواں برس یہ دس ہزار سے بھی کم رہی۔

سانول شیخ بتاتے ہیں کہ کاشتکار کے پاس فصل کو محفوظ رکھنے کے لیے جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی وسائل۔ ’قیمت کے تعین میں سارا ہاتھ سرمایہ دار کا ہے، ان کی جب مرضی ہوتی ہے تو فصل اٹھا لیتے ہیں۔ اس سال بھی زیادہ فصل کی اطلاعات کی وجہ سے سرمایہ کاروں نے پہلے فصل نہیں اٹھائی اور قیمت گرنے کا انتظار کیا اور پھر ایسا ہی ہوا۔‘

اظہر رفیق نے بتایا کنری کی مرچ جو گذشتہ برس 32000 روپے فی من کے حساب سے فروخت ہوئی تھی رواں برس اس کی قیمت فقط 7200 روپے فی من کے لگ بھگ ہے جبکہ جام پور کی مرچ کی قیمت 6800 روپے فی من تو اسی طرح لودھراں کی مرچ 5500 روپے فی من تک بک رہی ہے۔

مرچ

انھوں نے کہا کہ ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیاں انھی مرچوں سے بنی مصنوعات کو ساٹھ ہزار روپے فی من کے حساب سے فروخت کر رہی ہیں اور اسی مرچ سے بننے والے مقامی مصالحے 35 سے 40 ہزار روپے فی من میں بک رہے ہیں لیکن مڈل مین سارا منافع کما رہا ہیں اور کاشتکار کو اُس کی محنت کا صلہ صرف پانچ سے چھ ہزار روپے فی من کی صورت میں مل رہا ہے۔

کاشتکاروں نے مرچ کی فصل تلف کیوں کی؟

جنوبی پنجاب میں مرچ کی کاشت کرنے والے افراد نے اپنی فصل کیوں تلف کیا اس کی وجوہات میں فصل کی کم قیمت کے علاوہ مرچ کی فصل پر حملہ آور ہونے والا فنگس نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ کاشتکاروں کے مطابق ناقص بیج بھی ایک وجہ ٹھہرا جو فنگس کے حملے کے نتیجے میں فصل کو بچانے میں ناکام رہا۔

کاشت کار اظہر رفیق نے بتایا کہ مرچ کی فصل کی کاشت فروری مارچ کے مہینے میں ہوتی ہے۔ مئی کے مہینے میں اس پر مرچ کا پھول لگنا شروع ہو جاتا ہے اور جون کے مہینے میں سبز مرچ کی صورت میں اس کی فصل تیار ہوتی ہے کہ اسے اتار کر بیچا جائے۔ تاہم سبز مرچ کی قیمت کم ہوتی ہے اس لیے کاشت کار سبز مرچ کو خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں جو اگست کے مہینےمیں خشک ہو کر سرخ مرچ بن جاتی ہے۔

تاہم اس بار ایسا نہیں ہوا۔ بارشیں کم ہونے کی وجہ سے اس پر فنگس کا حملہ ہو گیا جس کی وجہ سے مرچ کے پودے سکڑنا اور ان پر لگی ہوئی مرچیں سوکھنا شروع ہو گئیں۔

اظہر نے بتایا بارش کے پانی میں قدرتی طور پر نائٹروجن ہوتا ہے جو فصل کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ دوسری جانب جب بارش نہیں ہوئی تو لوگوں نے اس فصل کو ایک خاص حد سے زیادہ پانی دینا شروع کر دیا جس سے اس کی جڑیں گلنا شروع ہوگئیں اور اس کا نتیجہ بھی فنگس کے حملے کی صورت میں برآمد ہوا۔

مرچ

اکھاڑے گئے مرچ کے پودے

اظہر نے بتایا کہ جب مرچ سکڑنا شروع ہو گئی اور یہ بھی پتہ ہے کہ مرچ کے نرخ بھی اس برس اچھے نہیں ہیں تو کاشتکاروں نے بہتر سمجھا کہ فصل کو تلف کر کے کوئی اور فصل لگائی جائے جیسے کہ بہت سارے کاشت کاروں نے مکئی کی فصل لگا لی۔

انھوں نے کہا پیداواری لاگت بھی کھاد اور جراثیم کش ادویات کے مہنگا ہونے کی وجہ سے بڑھ گئی ہے اور مرچ پر فنگس کے حملے کے بعد اس کے دام بھی اچھے ملنے کی توقع نہیں اس لیے کاشتکاروں نے فصل کو تلف کرنا شروع کر دیا۔

ڈاکٹر شفقت سعید نے اس بات کی تصدیق کی جنوبی پنجاب میں مرچ کی فصل پر فنگس حملہ آور ہوا ہے۔ انھوں نے کہ اس کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلی بتاتے ہوئے کہا رواں برس بارشیں کم ہوئی ہیں اور اس کا منفی اثر مرچ کی فصل پر پڑا۔

انھوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ کچھ علاقوں میں پانی بہت زیادہ دے گیا اور یہ بھی اس فصل کے لیے نقصان دہ ہے۔

انہوں نے کہا سرخ مرچ زیادہ پیسے دیتی ہے لیکن سبز سے سرخ مرچ بننے کے دوران فنگس کے حملے نے فصل کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا مرچ چھ مہینے کی فصل ہوتی ہے اور کاشت کاروں نے اس پر کمایا بھی تاہم یہ بات صحیح ہے کہ اس سال نرخ کم ہیں تو انھوں نے سوچا کہ فنگس بھی فصل پر حملہ آور ہو چکا ہے اور اس کے نرخ بھی کم ہیں تو فصل کو تلف کر کے کوئی دوسری فصل لگا دی جائے۔

ڈاکٹر شفقت سعید نے کہا اگر کاشتکار اپنی فصل تلف نہ کرتے اور مرچ ذخیرہ کر لیتے تو شاید آنے والے دنوں میں انھیں زیادہ ریٹ کی صورت میں منافع ہوتا مگر بیشتر کاشتکاروں کے پاس فصل ذخیرہ کرنے کے وسائل نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments