مولوی سلمان سے سوشلسٹ ریحان تک


ڈلاس ائرپورٹ بہت بڑا ہے۔ اس کے کئی کون کورس ہیں، ہر کون کورس پر کئی گیٹ اور ہر گیٹ پر جہازوں کی بھرمار، مسافروں کی بھیڑ بھاڑ۔ ایک کون کورس سے دوسرے کون کورس پر جانا ہے تو اس میں بھی اتنا وقت لگتا ہے جس میں کراچی ائرپورٹ کے کئی چکر لگ سکتے ہیں۔ ائرپورٹ بذات خود ایک الگ دنیا ہے۔ ایک کون کورس سے دوسرے کون کورس پر جانے کے لیے ٹرین سروس ہے جو متواتر چلتی رہتی ہے۔ میں دوپہر ایک بجے وہاں پہنچی تھی۔ میری بہن عظمیٰ کو مجھے ائرپورٹ سے لینا تھا۔

عظمیٰ مجھ سے تین سال چھوٹی تھی۔ ہم دونوں ساتھ ہی ساتھ پلے تھے۔ بڑی چلبلی طبیعت کی مالک تھی وہ۔ ساتھ ہی ساتھ حد سے زیادہ خیال کرنے والی۔ جب تنگ کرتی تھی تو اتنا تنگ کرتی تھی کہ مجھے رونا آ جاتا تھا اور جب مان کرتی تھی تو ایسا لگتا تھا کہ اس سے زیادہ Caring کوئی ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اس کے بارے میں جب بھی سوچو بے اختیار ہنسی آجاتی تھی۔

جہاز سے اترنے کے بعد امیگریشن کی لائن میں کھڑے کھڑے اس کے بارے میں سوچتے ہوئے مجھے بھی اس پر بے اختیار سا پیار آ گیا تھا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے، چار سال پہلے وہ میرے پاس آئی تھی بھاگتی ہوئی، ”ارے باجی، وہ تو بالکل مولانا ہیں!“ ان دنوں میرے رشتے کی بات چیت چل رہی تھی۔ سلمان سے ہی پھر میری شادی ہوئی تھی۔ سلمان انگلینڈ میں ڈاکٹر تھے اور ان کی امی جب رشتہ لے کر آئی تھیں تو سلمان کا خط ابو کو دے کر گئی تھیں۔

سادہ سا خط تھا جس میں سلمان نے لکھا تھا کہ وہ پورے روزے رکھ رہے ہیں، تراویح پڑھنا بہت مشکل ہے لیکن وقت نکال کر جمعہ کی نماز ضرور پڑھتے ہیں۔ اسی خط پر ابو اور امی کا دل آ گیا تھا۔ ان کی تو ہمیشہ سے یہی خواہش تھی کہ میری شادی کسی ایسے آدمی سے ہو جو مذہبی ہو، پابند صوم و صلوٰۃ ہو، نام کا نہیں کام بھی مسلمان ہو۔ میں خود اسلامی جمعیت کی رکن تھی، یونیورسٹی میں شفیع نقی، اللہ والا اور حسین حقانی کے لیے نعرے مار مار کر ہم لوگوں کا گلا بیٹھ جایا کر ات تھا۔

سرخ ربن باندھے ہوئے این ایس ایف اور پروگریسیو فرنٹ کے لڑکے تو مجھے شیطان ہی لگتے تھے، گاڑیوں اور اسکوٹروں میں آنے جانے والے غریبوں کے حامی سوشلسٹ لڑکوں لڑکیوں سے میری کبھی بھی نہیں بنی تھی۔ عظمیٰ نے کہا تھا باجی وہ تو آپ کو برقعہ پہنا دیں گے۔ لندن شہر میں بھی دو قدم پیچھے ہی چلنا ہو گا ان سے۔ میں دل ہی دل میں بے اختیار سی ہنس دی تھی۔ ارے مجھے کب شوق تھا ساتھ چلنے کا، ساتھ بیٹھنے کا۔ میں نے تو خود بھی ہمیشہ یہی خواہش کی تھی کہ جس سے بھی شادی ہو، میں اس کو مجازی خدا سمجھوں اور وہ مجھے عزت دے، پیار دے، میں اس کے بچوں کی ماں بنوں اور بچوں کو اچھا مسلمان بناؤں، باغیرت، ایماندار اور پاکستانی۔

اس دن کے بعد سے ہی سلمان نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا، دونوں گھروں میں شادی کی تیاری شروع ہو گئی تھی۔ پھر مجھے یونیورسٹی میں ہی کسی نے بتایا تھا کہ سلمان ڈاؤ میڈیکل کالج میں جمعیت کے کارکن ہوتے تھے، بڑی تسلی کی سانس لی تھی میں نے۔ دو ہم خیال لوگوں کا مل جانا کتنا اچھا ہوتا ہے۔ ہمارے گھر میں بڑا اسلامی ماحول تھا۔ ابو جماعت اسلامی میں نہیں تھے بلکہ ایک طرح سے مولانا مودودی کے تو خلاف ہی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جماعت اسلامی والے وہابی ہیں مگر مجھے جمعیت میں رہ کر بڑا سکون ملا تھا، میں اپنے خیالوں میں شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی تھی۔ گھر میں سب سے بڑی تھی، سب میرا خیال کرتے تھے۔ اور عزت بھی کرتے تھے۔ میں شکرانے کی نماز پڑھتی تھی اور شکر کرتی تھی کہ خدا نے مجھے کسی این ایس ایف والے کے پلے نہیں باندھا تھا۔

ابھی میری شادی کی تیاری ہو ہی رہی تھی کہ ابو کے پرانے دوست امجد انکل ایک روز ریحان کی شادی کا پیغام عظمیٰ کے لیے لے کر آ گئے۔ ریحان امجد انکل کے بڑے بھائی کا بیٹا تھا۔ امریکا سے آیا ہوا تھا۔ وہاں وہ ڈاکٹر تھا۔ اسے بائیس دنوں کی چھٹی ملی تھی جس میں جلدی جلدی لڑکی کی تلاش کی جا رہی تھی۔ امی اور ابو مجھے بھی اپنے ساتھ امجد انکل کے گھر لے گئے تھے جہاں ریحان اپنی ماں اور باپ کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ ریحان خوبصورت آدمی تھا، لانبا قد، گھنے بال جو بار بار پیشانی کو ڈھانپ لیتے تھے اور گہری سیاہ آنکھیں۔

وہ اردو بہت دھیمے دھیمے بولتا تھا۔ پانچ سال کے بعد پاکستان واپس آیا تھا۔ لگتا تھا جیسے اردو بھول گیا ہو۔ میں نے تو اسے پہلی ہی نظر میں عظمیٰ کے لیے پسند کر لیا تھا۔ کھانے کے بعد باتوں باتوں میں اس نے بتایا تھا کہ وہ ڈاؤ میڈیکل کالج کا ہی پڑھا ہوا ہے اور این ایس ایف کے لیے کام کرتا تھا، مگر ساتھ ہی کہنے لگا تھا وہ بچوں والی بات تھی، یہ سوشلزم مساوات وغیرہ سب ڈھکوسلہ ہے۔ کالج میں تو سب لوگ سب کچھ کرتے ہیں، عملی زندگی میں اس کا کیا کام۔

وہ امریکا میں بہت خوش تھا۔ میرے ابو کو اس نے بتایا تھا کہ ٹیکساس کے جس شہر میں وہ رہتا ہے وہاں ایک مسجد کی تعمیر کے لیے اس نے بہت کام کیا ہے، جہاں یہ وہ لوگ اسلامک سینٹر بنا رہے ہیں۔ میں نے دل ہی دل میں این ایس ایف کے ساتھ اس کا ماضی معاف کر دیا تھا۔ وہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں بہت بات کر رہا تھا۔ مجھے یاد ہے اس نے کہا تھا کہ عورتوں کا سماج میں حصہ ہونا چاہیے۔ اس نے کہا تھا کہ اسلام سے اسے صرف یہی شکایت ہے کہ عورتوں کو صحیح مقام نہیں دیتا ہے۔

میں نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی تھی اسے بتایا تھا کہ اسلام ہی واحد مذہب ہے جس میں عورتوں کا کوئی مقام ہے۔ اس نے توجہ سے میری بات سنی، اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس موضوع پر مزید پڑھنا چاہتا ہے۔ میں اس سے متاثر ہو کر آئی تھی۔ راستے میں ہی ہم لوگوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ عظمیٰ کی شادی ریحان سے ہونی چاہیے۔

سب کچھ بہت تیزی کے ساتھ ہوا تھا۔ سلمان کے گھر والوں سے بات کی گئی تھی پھر ہم دونوں کی شادی ایک دن، ایک ساتھ ہونی تھی۔ عظمیٰ تو شادی کے تیسرے دن ہی ریحان کے ساتھ امریکا چلی گئی تھی اور دو ہفتے کے بعد میں بھی سلمان کے ساتھ انگلینڈ پہنچ گئی تھی۔

تین سال کا عرصہ پلک جھپکتے گزر گیا تھا۔ اس عرصے میں عظمیٰ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی نہ وہ پاکستان واپس گئی تھی اور نہ میں واپس جا سکی تھی۔ فون پر اس سے بات ہوتی تھی۔ اور آج ائرپورٹ سے اسے اور ریحان کو مجھے لینا تھا۔ نہ جانے کیوں ان لوگوں کو دیر ہو گئی تھی۔ میں نے اپنا سامان وصول کر لیا تھا اور اب چاروں طرف نظر دوڑا رہی تھی مگر ان لوگوں کا دور دور تک کچھ پتہ نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ لوگ ٹریفک میں پھنس گئے ہوں گے۔ ڈلاس بہت بڑا اور مصروف شہر ہے۔ وقت بھی ایسا تھا کہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہوں گے۔ میں ٹرالی دھکیلتی ہوئی نیچے بنے ہوئے ریسٹورنٹ میں پہنچی تھی جہاں سے آنے والے دروازے پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔ میں نے کافی کا ایک مگ لیا اور صوفے نما ایک کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔

کافی کے مگ سے اٹھنے والے دھوئیں میں میرے پچھلے تین سال تحلیل ہونے لگے۔ اگر سچ کہوں تو تین سال کا عرصہ جیسے جہنم میں گزرا تھا۔ ہر عمل پر قدغن اور ہر چیز پر تنقید۔ بظاہر خوش و خرم نظر آنے والی میں، اندر سے ایسی گھائل تھی کہ دل کرتا تھا کہ ہر وقت روتی رہوں۔ زندگی اپنا حسن کھو بیٹھی تھی۔ لندن آتے ہی مجھے پہلا صدمہ تو اس وقت ہوا تھا جب ہسپتال کے اس فلیٹ میں جہاں سلمان رہتے تھے، ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے سلمان کے دوست آئے تھے تو اس دن سب ہی لوگ شراب پی رہے تھے۔

مجھے یقین نہیں آیا تھا کہ سلمان بھی پیتے ہوں گے۔ میرے خوابوں کا محل ایک دھماکے کے ساتھ دھڑام سے زمین پر گر کر ریزہ ریزہ ہو گیا تھا۔ مجھے بہت جلد احساس ہو گیا تھا کہ مجھ سے دھوکا کیا گیا ہے۔ سلمان صرف نام کے مسلمان تھے۔ وہ خط تو ایک ماں کو دھوکہ دینے کے لیے لکھا گیا تھا، جھوٹ کا پلندا۔ وہ یہاں پر ویسے ہی رہ رہے تھے جیسے دوسرے بے ایمان لوگ رہتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ مجھے سب کچھ پتہ لگ گیا تھا۔ لوگوں سے تھوڑی تھوڑی دوستی بڑھتی گئی تھی اور واقعات کا پتہ چلنے لگا تھا۔

کاغذ پر نقشہ بنتا جا رہا تھا۔ ان کی بے شمار گرل فرینڈز تھیں۔ جہاں جہاں وہ گئے تھے وہاں پر ان کی رنگین زندگی کی داستانیں تھیں۔ انگلینڈ میں فرینڈ کوئی بھی ہو سکتا ہے مگر گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ آپ کی دوستی، دوستی سے بھی آگے ہے۔ یہ ساتھ رہتے ہیں شوہر اور بیوی کی طرح۔ یہ میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا۔ میں تو اسلامی جمعیت کی ایک سیدھی سادھی کارکن تھی جس کے خواب میں ایک شوہر تھا، شرابی، زانی اور جھوٹا انسان نہیں۔

ایک محبت کرنے والا انسان تھا، دھوکے باز ڈاکٹر نہیں۔ میں بالکل بے بس ہو کر رہ گئی تھی۔ بہت دل چاہا کہ کراچی فون کر کے واپس چلی جاؤں، خون دل سے خط میں لکھ کر سب کچھ امی ابو کو بتا دوں مگر صرف یہ سوچ کر رہ گئی کہ کیا گزرے گی ان دونوں پر۔ پہلے ہی وہ قرضوں میں دبے ہوئے تھے اور امی تو مستقل بیمار تھیں۔ میری بربادی کی داستان دونوں کو لے ڈوبے گی۔

میں نے سلمان سے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ پہلے تو انہوں نے بات تک سننے سے انکار کر دیا تھا۔ ”میری اماں جان بننے کی کوشش مت کرو۔ جس طرح سے میں تمہیں رکھوں گا رہنا پڑے گا۔ میں اپنے آپ کو نہیں بدل سکتا ہوں۔ مجھے پریشان مت کرو۔ میرے امتحان ہو رہے ہیں۔“ میں پاکستان سے بھی خراب قسم کی گھریلو بیوی بن کر رہ گئی تھی جو دن بھر گھر کے کام کرتی تھی، ٹیلی ویژن دیکھتی تھی، اخبارات پڑھتی تھی اور رات کو شوہر کا عذاب سہتی تھی۔ کیا تھی میری زندگی اور کیا سوچا تھا میں نے۔ امی ابو کو فون کر کے اور خط لکھ کر میں صرف یہی کہتی تھی کہ ”خوش ہوں امی“ اور دعا کرتی رہتی تھی کہ میں حاملہ نہ ہو جاؤں۔ مجھے کچھ پتہ نہیں تھا زندگی کس جگہ رکے گی۔ اگر حرام نہ ہوتا تو نہ جانے کتنی دفعہ خودکشی کرچکی ہوتی۔

پھر ایک دن سلمان کا امتحان پاس ہو گیا تھا۔ بڑے خوش تھے وہ، اس دن بہت دیر تک مجھ سے باتیں کرتے رہے تھے۔ کہا تھا کہ ان کی طرف سے زیادتی ہوئی ہے مگر وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ زندگی میں دوسری دفعہ ان پر پیار آیا تھا۔ ایک وہ دن تھا جب میں دلہن بن کر ان کے برابر بیٹھی تھی اور ایک یہ دن جب ان کے منہ سے پہلی دفعہ نکلا تھا کہ وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے دھیرے سے کسی نے کہا تھا ”نہیں رضیہ، یہ اچھا آدمی ہے کس سے بھول نہیں ہوتی ہے؟ اس سے بھی بھول ہوئی ہے۔ وقت نے اسے بدل دیا تھا۔ یہ پھر بدل جائے گا۔“ میں ان کے گلے لگ کر روتی رہی تھی، سسکتی رہی تھی۔ انہوں نے محبت کی قسمیں کھائی تھیں اور میں نے سوچا تھا کہ اوپر والے نے میری سن لی ہے۔

میں نے سوچا عظمیٰ کو فون کرنا چاہیے۔ نہ جانے کیا ہو گیا ہے کہاں رہ گئے ہیں یہ لوگ۔ مجھے آئے ہوئے دو گھنٹے سے زائد ہوچکے تھے۔ ریسٹورنٹ سے ہی میں نے فون کیا تھا مگر فون کی گھنٹی بجتی رہی، کوئی اٹھاتا نہیں تھا۔ میں نے کافی کا ایک اور مگ لیا تھا اور آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی تھی۔ خدا کرے سب کچھ ٹھیک ہو، عظمیٰ ٹھیک ہو، ریحان ٹھیک ہو۔ عظمیٰ سے فون پر بات ہوتی رہتی تھی۔ وہ صدا کی چلبلی تھی کبھی اپنے بارے میں بات نہیں کرتی تھی۔

اسے فکر تھی کہ میں حاملہ کیوں نہیں ہو رہی ہوں۔ وہ سلمان کو مولوی سلمان کہتی تھی اور میں بھی ہنس کرا پنے دل پر پتھر باندھ کر اپنے لہجے میں اعتماد بھر کر جھوٹ بول دیتی تھی۔ سلمان مولوی کے علاوہ سب کچھ تھے۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ ایسا کیوں ہوا تھا۔ پاکستان کے سلمان میں یہاں کے سلمان میں فرق کیوں پر گیا تھا۔ وہ کیا بات تھی انگلینڈ میں جو انسان کو دوہرا بنا دیتی ہے۔ اپنے ماں باپ بیوی کے لیے الگ اور دوسرے لوگوں کے لیے الگ۔

انگلینڈ میں تو لوگ ایسے نہیں تھے۔ میں عظمیٰ کا انتظار کرتی رہی اور اپنی زندگی کے ورق ورق کو پلٹتی رہی۔ اس وقت رات کے تمام وعدوں اور قسموں کے باوجود سلمان نہیں بدلے تھے۔ ایک وقت آ گیا تھا کہ مجھے فیصلہ کرنا پڑ گیا تھا۔ امتحان پاس ہونے کے بعد سلمان کو ایک اچھی نوکری مل گئی تھی۔ ایک رات ان کی رات کی ڈیوٹی تھی۔ کم ازکم وہ مجھ سے یہی کہہ کر گئے تھے کہ رات دو بجے پاکستان سے فون آیا تھا کہ ان کی امی کی طبیعت خراب ہے۔

میں تمام ہسپتال فون کرتی رہی، انہیں تلاش کرتی رہی مگر وہ نہ ڈیوٹی پر تھے اور نہ ہی ہسپتال میں۔ ہر وسوسہ، ہر شبہ میرے دل میں بیٹھ گیا۔ دوپہر وہ ہسپتال سے آئے تھے ناراض اور بپھرے ہوئے۔ ”کیوں فون کیا تھا مجھے؟ سب کو پریشان کر کے رکھ دیا۔“ اس دن انہوں نے مجھے مارا بھی تھا۔ میرے اندر کی عورت نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ شریف آدمی کی زبان نہیں ہے، یہ شریف انسان کا شیوہ نہیں ہے، یہ انسان کا شیوہ نہیں ہے۔ ان کے کسی دوست کی بیوی نے مجھے ایک دفعہ کہا تھا کہ ان کے بہت ساری عورتوں سے تعلقات ہیں۔

میں ہنس دی تھی مگر اس دن میرے دل نے کہا تھا نہیں رضیہ تمہیں کچھ کرنا ہو گا، یہ دوہرا آدمی ہے، اس کے دو چہرے ہیں۔ وہ عید کی نمازیں بھی پڑھتے تھے، رمضان کے روزے بھی رکھتے تھے حلال ذبیحہ گوشت کے علاوہ کچھ کھاتے بھی نہیں تھے مگر ساتھ ساتھ شراب بھی پیتے تھے، اپنی بیوی کو مارتے تھے، دوسری عورتوں سے تعلقات بھی رکھتے تھے، کیا زندگی تھی کیا خواب تھے۔ کیا حقیقت تھی کیا تمنا!

میں نے پھر زندہ رہنا شروع کیا تھا۔ میں پڑھی لکھی تھی۔ میں نے ایم ایس سی پاس کیا تھا۔ میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی تھی، اپنا کام کر سکتی تھی۔ میں زندگی مار کھا کھا کر نہیں گزاروں گی۔ میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ سلمان نے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ شاید ان کا خیال ہو کہ میں اگر مصروف ہو جاؤں تو بہت زیادہ سوال جواب نہیں ہوں گے۔ میرے سمیسٹر شروع ہونے میں دو ماہ باقی تھے۔ میں نے سوچا کہ عظمیٰ سے مل کر آؤں گی تو پھر پڑھائی شروع کروں گی۔

سلمان فوراً ہی راضی ہو گئے تھے کہ میں اپنی بہن سے مل آؤں۔ انہیں کچھ ہفتے مکمل آزادی کے مل جائیں گے، مکمل عیاشی کے۔ یہ بوجھ بھی میں اپنے سینے پر لے کر چلی تھی۔ اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا کہ اندر کا یہ کرب کیسا ہوتا ہے کہ آپ کا شوہر آپ کا سب کچھ، کسی اور کے ساتھ، کسی اور کی بانہوں میں، کسی دوسرے کی کمپنی میں ہے، مگر اس کرب کو بھی میں نے قدرت کا ایک امتحان سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔ سلمان کی محبت نفرت میں نہیں بدلی تھی۔

میں سوچتی تھی ایک دن وہ واپس آئیں گے میں انہیں صحیح کردوں گی، انہیں اپنا لوں گی۔ میں سوچ ہی رہی تھی کہ دوبارہ فون کروں۔ سامنے سے عظمیٰ آتی نظر آئی۔ میں تو اسے پہچان ہی نہیں سکی تھی۔ تین سال کے عرصے نے اسے کتنا بدل دیا تھا۔ جسم و قامت تو وہی تھا مگر چہرے کی تازگی نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔ وہ باجی کہہ کر مجھ سے لپٹ گئی تھی، چمٹ گئی تھی۔ نہ آنسو میرے رکے تھے اور نہ آنسو اس کے رکے تھے۔ میرے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی تھی اور کسی نے مجھ سے کہا تھا ”رضیہ یہ تیری بہن عظمیٰ نہیں ہے اس کی لاش ہے، چلتی پھرتی گھومتی سسکتی۔

اس کے چہرے پر پڑے ہوئے نشانات، سوجی ہوئی آنکھیں، آنکھوں کے گرد نیلے حلقے، ان کی کہانی سننے کی ضرورت نہیں تھی۔ مجھے سمجھ میں آ گیا تھا وہ مجھے ڈلاس آنے سے کیوں منع کر رہی تھی۔ وہ بھی جھوٹی تھی میری طرح سے۔ میں اپنی سکھی زندگی کے جھوٹے افسانے بنتی رہی، سناتی رہی اور وہ بھی اپنی سکھی زندگی کے جھوٹے افسانے سناتی رہی تھی۔ سب کچھ چھپاتی رہی تھی میری طرح سے۔ اپنے عذاب کے سمندر میں اکیلے ہی غوطے کھاتی رہی ہلکان ہوتی رہی۔ کیسی تھی ہماری قسمت۔ قسمت ارے قسمت۔

ریحان کہاں ہے، میں نے پوچھا تھا۔ وہ اب کچھ چھپا نہیں سکی تھی۔ ”باجی اسی وجہ سے مجھے دیر ہو گئی۔ انہوں نے کہا تھا وہ آ جائیں گے۔ میں انتظار کر کر کے خود چل نکلی تھی۔ وہ تو ہمیشہ ہی دیر کر دیتے ہیں۔ مجھے انتظار کرنا نہیں چاہیے تھا۔ چلیے چھوڑیے گھر چلیے پھر باتیں ہوں گی۔“

ریحان کا بڑا سا گھر تھا ہر آسائشوں کے ساتھ۔ بڑا سا لان، سوئمنگ پول اور نہ جانے کیا کیا۔

ریحان رات گئے آئے تھے۔ بڑی سرد سی ملاقات تھی ہماری۔ کھانے کے بعد مجھے نیند آ گئی تھی۔ مگر عجیب سی نیند تھی۔

صبح میں سوچتے ہوئے اٹھی تھی۔ رات عظمیٰ میرے خوابوں میں سسکتی رہی تھی۔ اس نے مجھے بتا دیا تھا کہ عورتوں کی آزادی، سماجی انصاف، ترقی پسند، سوشلسٹ اور امریکا کی آزاد دنیا میں رہنے والا ریحان، سلمان سے مختلف نہیں تھا۔ وہ خاموش رہی تھی۔ خاموش بھی صرف اس امید کے ساتھ کہ ایک دن سب کچھ بدل جائے گا مگر کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ دوسروں کا علاج کرنے والا ڈاکٹر گھر میں بیمار کا ذمہ دار تھا۔ عورتوں کے حقوق کے علمبردار نے بیوی کو باندی بنا کر رکھا تھا۔ وہی کہانی تھی، وہی قصہ، وہی افسانے، وہی باتیں۔

سارا دن ہم لوگ باتیں کرتے رہے تھے، کراچی یاد کرتے رہے تھے۔ یونیورسٹی کے قصے، گھر کی باتیں، ہماری شادی اور نا جانے کیا کیا۔ ہم دونوں بہنوں کے ساتھ ایسا ہو گا ہم نے تو سوچا بھی نہیں تھا۔ ”باجی یہ تیرے مولانا بھی ایسے نکلیں گے۔“ ”لگتا تو نہیں تھا“ میں ہنس دی تھی۔ ”میرے سوشلسٹ بھی ایسے نکلیں گے، تو نے سوچا تھا؟“

دوسرے دن ہم دونوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ان دو مردوں کے ساتھ نہیں رہنا ہے۔ پاکستان کے قانون کیسے بھی ہوں، سماج کے بندھن جو کچھ بھی کہیں اور رشتہ داروں کے الفاظ کچھ بھی ہوں۔ یہاں کا قانون تو تحفظ دیتا ہے ہم عورتوں کو، بیویوں کو۔ ہم کو کچھ کرنا ہو گا، قیدیوں کی طرح نہیں رہنا ہو گا۔ مرمر کر نہیں جینا ہو گا۔ اپنے لیے اور اپنی جیسی بہت ساری بہنوں کے لیے، جو خوابوں کی اسیر ہیں اور وقت سے بہت دور۔

ہم دونوں بہنیں بہت دنوں بعد گلے لگ کر بہت زور سے، بہت دیر تک پھوٹ پھوٹ کر روتے ر ہے، کھل کھلا کھل کھلا کر ہنستے ر ہے۔ جیسے اپنے عذاب کے سمندر میں اکیلے بہتے ہوئے ہم بہت دور تک نکل آئی ہوں۔ کتنی دور تک، یہ مجھے پتہ تھا نہ میری بہن کو۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments